ماحولیات کا تحفظ  اور اخلاقی قدریں: عہد حاضر کے تناظر میں     

ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی

 اسلام دین فطرت ہے، جس نے انسانیت کو فطری ضروریات اور مقاصد میں بنیادی اصول کی راہنمائی کی ہے، انہی ضروریات زندگی میں سے ماحول بھی ہے، جس پر حیاتیاتی تنوع کی بقا کا انحصار ہے۔ فطری اور قدرتی وسائل میں بے جامد اخلت ماحولیاتی آلودگی کا سبب بنتا ہے۔ جس کی بنیادی وجوہات جہالت اور خوف خدا کا فقدان ہے۔ جہالت کی وجہ سے ماحول کے لئے نقصان دہ امور کی پہنچان نہیں ہوتی، یہ معلوم نہیں کہ ماحول کی خرابی سے کونسے نقصانات مرتب ہوتے ہیں، اس کی وجوہات کیا ہوسکتی ہیں اور اصلاح کیسے ہوگی۔خود غرضی اور دل میں خوف خدانہ ہونے کی وجہ سے فرد اپنے مفادات کو معاشرتی مفادات سے مقدم رکھتا ہے۔ حالت یہ ہوتی ہے کہ یہ جانتے ہوئے کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے اس سے حیاتیاتی تنوع اور ماحول کو نقصان پہنچ رہا ہے لیکن پھر بھی ذاتی مفادات کے حصول کی وجہ سے وہ ان کا موں میں مگن رہتا ہے۔ اگر دل میں خوفِ خدا ہوتا تو قطعاً ذاتی اغراض کے خاطر دوسروں کے نقصان کا باعث نہ بنتا۔بات دراصل یہ ہے کہ،بدقسمتی سے ماحول آلودگی Polution کو لوگوں نے ہوا کی آلودگی Air Pollution  پانی کی آلودگی  Water Pollution زمین کی آلودگی اور مٹی کی آلودگی اور پلیدگی تک محدود کر دیا ہے اخلاقی آلودگی Moral Pollution مذہبی آلودگی اقتصادی آلودگی، سیاسی آلودگی، تعلیمی آلودگی اور معاشرتی آلودگی Social Pollution  بہت کم لوگوں کی نظر ہے۔ خاص نظر یے کے تحت بعض حضرات نے صرف پہلے والے حصے کو اس میں شامل کیا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ ماحول (حالات) کی خرابی سے انسان دو طرح سے متاثر ہوتا ہے ایک ذہنی اور اخلاقی طور پر دوسرا جسمانی طور پر۔

 ذہنی و اخلاقی طور پر انسان ماحول سے منفی طور پر اسوقت متاثر ہوتا ہے جب اقتصادی حالات نا موافق اور ناہموار ہوں۔ گھر یلو حالات ٹھیک نہ ہوں۔ انسان کو بنیادی ضروریات مہیانہ ہوں۔ معاشرے کی اخلاقی حالت تباہ و برباد ہوا اور اروگرد ہر قسم کی غلاظت اور گندگی (ظاہری و مصنوعی) دیکھنے میں آتی ہوں۔ اس قسم کے ماحول میں انسان کے لیے جینا دوبھر ہو جاتا ہے۔ جسمانی اور ذہنی طور پر انسان اس ماحول سے بری طرح متاثر ہوتا ہے۔جہاں مناسب خوراک نہ ملتی ہو۔ مناسب لباس مہیا نہ ہو اور سر چھپانے کے لیے مناسب جگہ نہ ہو اور صفائی کا کوئی نظام و انتظام نہ ہو اور ہر کہیں غلاظت اور گندگی کے ڈھیر اور گندہ اور بد بودار پانی کے تالاب اور جھیل نظر آتے ہوں۔

  یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ہر قسم کے ماحول کو پاک و صاف رکھنے کی تاکید کی ہے۔ تاکہ انسان اس میں ذہنی اخلاقی اور جسمانی طور پر خوش و خرم نظر آئے اور یہ چند سالہ زندگی آرام و سکون کے ساتھ گزارے۔

 اسلام( جونام ہے فطری طور پر پورے قرآن کا اور عملی طور پر سیرت نبوی کا) نے انسان کے لیے پر سکون اور پرامن ماحول مہیا کرنے کا مکمل بندوبست کیا ہے۔مگر اسلام نے ماحول کی پاکیزگی کی ابتداء باطنی اور ذہنی صفائی سے کی ہے۔وہ پہلے  انسان کا دل اور ذہن ہر قسم کی آلائشوں سے پاک و صاف دیکھنا چاہتا ہے اور اس میں حکمت یہ ہے کہ انسان کا دل و ذہن خیالات وانکار کا مرکب ہے۔ اگر یہ اچھے اور نیک خیالات و افکار کا گہوارہ ہیں تو انسان سے پھر نیک اور اچھے کام سرزد ہوں گے۔جس کے نتیجے میں اسکو ذہنی اور قلبی سکون نصیب ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے انسانی ذہن و قلب کو اچھے اور نیک خیالات و افکار میں مصروف رکھنے کا مناسب بندوبست کیا ہے اور ایسا کرنے کے لئے ایمان اور عقیدہ لازمی قرار دیا ہے۔ جو آدمی ایمان اور عقیدہ صحیح رکھتا ہے اسکو مومن کہتے ہیں۔ اور مومن اصطلاح میں وہی شخص ہوتا ہے جو ایک اللہ پر صحیح معنوں میں ایمان و یقین رکھے۔ جسکا معنی یہ ہے کہ وہی ایک اللہ پوری کائنات کا خالق مالک اور رازق ہے۔ موت و زندگی اس کے ہاتھ میں ہے۔ عزت و ذلت وہ دیتا ہے۔ مشکل کشاحاجت روا و قاضی الحاجات وہ ہی ہے۔

ماحول:

ماحول لغت میں حالت اور ہیئت کے معنی سے استعمال ہوتا جسے عربی میں بیئۃ کہا جاتا ہے۱؎۔ ماحول کے ایک معنی یوں بتائے جاتے ہیں : جو فرد اور جماعت کے ار گرد اور اس پر اثر انداز ہو جیسے کہتے ہیں قدرتی ماحول، اجتماعی ماحول اور سیاسی ماحول۲؎۔

اصطلاح میں ماحول تعبیر ہے ان سب سے جو ارو گرد ہے۳؎۔ ڈاکٹر سعید اللہ قاضی لکھتے ہیں :’’ ماحولیاتی آلودگی کا  تعلق صرف ہوا، پانی، زمین اور مٹی کے ساتھ خاص نہیں بلکہ اس میں اخلاقی، ثقافتی، تعلیمی، سیاسی، معاشرتی اور معاشی امور بھی داخل ہیں ‘‘۴؎۔ الغرض جن اشیاء سے ہمارا واسطہ پڑتا ہے اور ہماری زندگی اور بقاء کے لئے ضروری ہیں، جیسے رہائش کھانے، پینے، سانس لینے، علاج معالجہ اور کاردبار کے متعلقات، اسی طرح وہ اشیاء  جن پر آپس میں رابطہ اور تعلقات کا انحصار ہو ان تمام کی مجموعی حیثیت کو ماحول کہا جاتا ہے۔

 ماحول میں توازن ہو تا انسانی زندگی صحتمند اور پر سکون رہے گی اور اگر ماحول میں بگاڑ ہو تو پھر زندگی کو خطرات کا سامنا ہوگا۔ زندگی کے تمام دیگر شعبہ جات کی طرف اسلام ہمیں ماحولیات سے متعلق بھی سنہرے اصول فراہم کرتا ہے جن پر گامزن ہو کر مسلمان دین و دنیا دونوں جہانوں کی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔

   اسی وجہ سے بنیادی طور پر اللہ تعالیٰ نے ماحول کومتوازن بنایا ہے جس میں خالق کی اعلیٰ کاریگری عیاں ہے۔ اسلام کی تعلیمات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قدرتی ماحول کو ایک خاص انداز پر پیدا کیا ہے، جب تک اس میں انسان کی طرف سے فساد اور خرابی کی مداخلت نہ ہو، تو یہ اسی طرح متوازن رہے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے زندگی کا ہر عنصر مخصوص اوصاف اور موزونیت کے ساتھ پیدا کیا ہے، جو کہ ماحول کے توازن کا ذمہ دار ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

 ــ’’اور ہم نے زمین پھیلایا اور اس میں بھاری بھاری پہاڑ ڈالڈیئے اور اس میں ہر قسم کی چیز ایک معین مقدار سے اگائی‘‘ (سورہ الحجر آیت ۱۹)

   اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین سے ہر چیز توازن کے ساتھ پیدا کی ہے، نباتات اتنی پیدا کی ہیں، جس سے ایک طرف حیاتیاتی انواع کی غذا اور ضروریات کی تکمیل ہوتی رہتی ہے تو دوسری طرف نباتات کی انواع واقسام اتنی مقدار سے پیدا کیں ہیں، جس سے ماحول کاتوازن بر قرار رہتا ہے۔ یہ کہنا مناسب  ہوگا کہ ماحولیاتی توازن کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ارد گرد جتنے طبعی عناصر ہیں ان کو اسی طبعی حالت پر چھوڑاجائے، اور اسے ہر قسم کی جوہری اور غیر طبعی تلویث سے بچایاجائے۔ لیکن اگر انسان نے ان قدرتی عناصر کا بے دریغ استعمال جاری رکھا، تو پھر ان کا توازن بر قرار نہیں رہے گا اور نتیجہ یہ ہوگا کہ معمول کے مطابق یہ حیاتیاتی تنوع کی ضروریات پوری طرح ادانہ کرسکے گے۔

ماحولیاتی بحران کے حقیقی اسباب

 اس  سے یقینا اختلاف ممکن نہیں کہ ماحولیاتی بحران سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی  کے نتیجہ میں وجود میں آیا ہے۔ غیر سائنسی دو ر کے  ہزاروں سالوں کی کائناتی تباہی سے سائنسی دور کی ایک گھنٹہ کی تباہی زیادہ ہے۔ اس کا ہر گزیہ مطلب نہیں کہ سائنس بذات  خود مجرم ہے بلکہ یہ تو خدائی عطیہ ہے جس نے کائنات کی قوتوں کی تسخیر اور ان  سے استفادہ کو ہمارے لئے ممکن بنایا ہے۔ جدید سائنس کی نشوونما چونکہ مغرب میں الحادودہریت کے زیر اثر ہوئی ہے اس لئے وہ ہر قسم کے نظام اقدار سے عاری ہے اس کا تمام ترہدف مادی ترقی ہے اس روحانی ارتقاء کو سرے سے نظر انداز کر رکھا ہے اور نتیجتاً انسان من حیث الکل ترقی سے محروم ہے۔ مادیت پرستی (Secular Materialism) کے زیر اثر تہذیب، خدا اور آخرت کے تصور سے بالکل نا آشنا ہے اور اس کی بنیادی خود غرضی، مفاد پرستی اور استحصال پر قائم ہے جس میں انسان کا منتہائے مقصودتن آسانی، تن پروری، لذت طلبی اور حیوانی جذبات کی تسکین اور نفسانی خواہشات کی تکمیل کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ جدید ذرائع ووسائل آج انسانی ترقی کے بجائے انسانی  بربادی میں استعمال ہونے لگے ہیں اور مادی ترقی کے عروج پر پہنچ کر بھی انسان روحانی قدروں کا خلاء محسوس کر رہا ہے جس کے تباہ کن نتائج آج ساری دنیا بھگت رہی۔

 جدید مادی تہذیب نے انسان کو خدا اور فطرت سے الگ کرکے نہ صرف اس کی روح کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے بلکہ اب اس کے سبب پیدا ہونے والے ماحولیاتی فساد کے باعث اس کا طبعی و جود بھی خطرے میں پڑچکا ہے، اس لئے دنیا بھر کے سائنسدان، مفکرین اور دانشور ماحولیاتی بحران کے اسباب و محرکات کی تلاش و تحقیق کے ساتھ ساتھ اس اجتماعی خطرہ سے نمٹنے کے لئے کوشاں ہیں۔ مسلم اور غیر مسلم اسکالرز ماحولیاتی بحران کو اخلاق و اقدار کا بحران قرار دے رہے ہیں جو دراصل انسانی زندگی میں روحانی خلاء کا نتیجہ ہے۔ مختلف مفکرین نے ماحولیاتی بحران کا تجزیہ کرتے ہوئے حرص و طمع، غربت وافلاس، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم، کثرت آبادی، لامحدود اقتصادی ترقی کا مطمع نظر، انڈسٹر، نیشنلز م، ملٹری ازم، کنزیومر زم اور مادیت پرستی وغیرہ اسباب کی نشاندہی کی ہے اور اس کے حل کیلئے اخلاقی و روحانی اقدار مثلاً انکساری (Humility)، شکر گزاری، انصاف، رحم اور زندہ مخلوقات سے محبت پر زور دیا ہے مگر یہ حقیقت نظر انداز کر دی کہ اخلاق واقدار کا اصل منبع مذہب ہے نہ کہ الحادولادینیت اور مذہب کے بغیران اقدار کا تصور ممکن نہیں۔ موجودہ صورتحال دراصل فرد اور معاشرے پر مذہب کی گرفت ڈھیلی پڑنے  کا نتیجہ ہے کیونکہ انسانی سیرت و کردار کی اصلاح اور اخلاقی بگاڑ کے سدباب کے لئے مذہب سے بڑھ کر موثر اور طاقتور محرک کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔ نیویارک اکیڈمی آف سائنس  کے صدراے، کریسی ماریس نے کہا ہے:

’’ادب و احترام، فیاضی، کردار کی بلندی، اخلاق، اعلیٰ خیالات اور وہ سب کچھ جنہیں خدائی صفات (Divine Attributes)کہا جاسکتا ہے وہ کبھی الحاد  سے پیدا نہیں ہوسکتیں جو کہ دراصل خود بنیی کی عجیب و غریب قسم ہے جس میں آدمی خود اپنے آپ کو خدا کے مقام پر بیٹھا لیتا ہے۔ عقیدے اور یقین کے بغیر تہذیب تباہ ہوجائے گی۔ نظم بے نظمی میں تبدیل ہوجائے گی، ضبط  نفس اور اپنے آپ  پر کنٹرول ختم ہوجائے گا اور برائی ہر طرف پھیل جائے گی۔ ضرورت ہے کہ ہم خدا پر اپنے یقین کو دوبارہ مضبوط کریں۔ ‘‘۵؎

خدا اور آخرت کا تصور ایک ذمہ دار اور متوازن شخصیت کی تشکیل اور صالح تمدن کے قیام کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ وحیدالدین خان کے الفاظ میں ’’حقیقت یہ ہے کہ وہ سب کچھ جو تمدن کی تعمیر کے لئے درکار ہے، اس کا واحد اور حقیقی جواب صرف مذہب کے پاس ہے۔ مذہب  ہمیں حقیقی، قانون ساز کی طرف رہنمائی کرتا ہے وہ قانون کی موزوں ترین اساس فراہم کرتا ہے، وہ زندگی کے ہر  معاملے میں صحیح ترین  بنیاد فراہم کرتا ہے جس کی روشنی میں ہم زندگی کا مکمل نقشہ  بنا سکیں۔ وہ قانون کے لئے وہ نفسیاتی  بنیاد فراہم کرتا ہے جس کی عدم موجودگی میں قانون عملاً بے کار ہو کر رہ جاتا ہے وہ سو سائٹی کے اندر موافق فضا پیدا کرتا ہے جو کسی قانون کے نفاذ کے لئے ضروری ہے اس  طرح مذہب ہمیں وہ سب کچھ دیتا ہے جس کی ہمیں اپنے تمدنی ی تعمیر کے لئے ضرورت ہے جبکہ لامذہبیت ان میں سے کچھ نہیں دے سکی اور نہ حقیقتاً دے سکتی ہے۶؎۔

 سیکولر نقطئہ نظر اخروی عقیدہ کو ماحولیاتی تباہی کا ذمہ دار قرار دیتا ہے حالانکہ اس کے برعکس اس مادی دنیا پر اعتقاد کا نظریہ آخرت پر اعتقاد کے مقابلے میں ماحولیاتی اعتبار سے زیادہ نقصان وہ ہے۔ سائنسی میٹریلزم اور کائناتی قنوطیت (Cosmic Pessimism)ماحولیاتی اخلاقیات سے مطابقت نہیں رکھتی۔John Haught کے الفاظ میں :

ـ”If every thing a destined for "absolute nothingness could we truly treasure it? and since materialism views the universe as ulitimately a final wreck and tragedy. "How can such a philosophy ever motivate us to care for the earth’s beautiful treasures? We doubt that it can”۷؎

 آخرت پراعتقاد ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم فطرت کو عزیز رکھیں کیونکہ فطرت بذات خوداپنے اندراس مستقبل کو لئے ہوئے ہے جس کے ہم خواہشمند ہیں لہذا فطرت کی تباہی دراصل اپنے آپ کو اور کائنات کو اپنے مستقبل سے کاٹ دینا ہے تما م موجودات کی اخروی تجدید کی امید موجودہ دور اور دنیا کی آخروی تکمیل کے درمیان تسلسل پیدا کرتی ہے۔ خوبصورت ماحول، فطرتی خواہشات کی تسکین، لطف دسرور اور امن وسکون کی خواہش فطری ہے مگر موجود دنیا اس تکمیل کے لئے ناکافی ہے۔ اس کیلئے مذہب جنت کا تصور پیش کرتا ہے جو ان ساری خواہشات کے پوری ہونے کی جگہ ہے۔

(وَلکم فیھا ماتشتھی انفسکم وَلکم فیھا ماتدَعون) سورہ حم سجدہ آیت

 اخروی عقیدہ ہم سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ زمین اور فطرتی دنیا کو جنت کی حیثیت سے نہ دیکھیں ہمیں اس سے کمال (Perfection) کی توقع نہیں بلکہ اس کے تکملہ (آخرت) سے امید رکھنی چاہئے۔ اس طرح ہم اس کی خامیوں کو بھی گورا کرسکتے ہیں۔ مذہبی عقیدہ کی رو سے صرف لامحدود دنیا ہی ہماری لامحدود خواہشات کی تسکین کا سامان بہم پہنچا سکتی ہے۔ درا صل کئی ایک ماحولیاتی مسائل انسان کی اس شدید خواہش  کا نتیجہ ہیں کہ وہ اپنے لئے ایک راضی بہشت تخلیق کرنا چاہتا ہے اور اس کیلئے فطرت کی نعمتوں اور قدرت کے عطا کر دہ قیمتی وسائل کو اندھا دھند استعمال کرنے لگتا ہے۔ جب کہ بہشت  کا حصول اس دنیا میں ممکن نہیں۔ البتہ مذہبی صحائف اور قرآن میں ذکر کردہ جنت کی تشبیہات و تمثیلات ایک بلند و پر شکوہ نصب العین (Utopia)مقرر کرتی ہیں تا کہ یہ دیناوی زندگی ہمیشہ ایک اعلیٰ ترین مقام کمال تک رسائی کی جدوجہد خداکی ہدایت کی روشنی میں کرتی رہے۔

یہ بات خالی ازدلچسپی نہ ہوگی کہ آخرت  کے تصور کا انسانی اخلاقیات کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ قیامت کے متعلق مذہب کا یہ اعتقاد ہے کہ اس دن ہر شخص کواپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا کیونکہ وہ روزِ جزاء ہے۔ یہ عقیدہ لوگوں میں ذمہ داری کا شعور پیدا کرتا ہے۔ Simon جو کہ ماحولیاتی تاریخی کا فاضل، ہے اخروی عقیدہ کی اہمیت کو نمایاں کرتے ہوئے لکھتا ہے :

"All human activities must be based on the idea that the earth is only a temporary home (even though man is a superior being) and that to find favour in the next word our action must be properly administered as a manifestation of faith. These include justice and piety plus the appropriate knowledge and understanding of environment problems”۸؎

اس بحث سے ہمیں اس نتیجہ تک پہنچنے میں مددملتی ہے کہ زمین کے ماحولیاتی نظام کو تباہ کرنے کی اجازت مذہب کے زیر اثر نہیں بلکہ مذہبی شعور کی کمی کا نتیجہ ہے۔ John Haught اسی نقطئہ نظر کی تائید کرتے ہوئے سیکولرازم کو اس کا اصل قصور وارٹھہراتا ہے جس نے کائنات سے خدا کو بے دخل کرکے Rationalism, Humanism اور Scientism کو موقع فراہم کیا کہ وہ اس خلاء کو پر کریں۔ انہی تصورات کے زیر اثر فطرت پر انسانی تسلط کا تصور پر وان  چڑھا۔ اس کے الفاظ درج ذیل ہیں :

It  is not religious influence but the lack of it that has allowed us to destory the earth’s eco systems. the banishment of God by Modern secularism has made it possible for rationalism, humanism and scientism to rush in and fill the void, and there all thrive on the assumption of our human supermacy over nature.”۹؎

اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کو پیدا کرنے کے بعد ایک دوسرے کے ساتھ تعاون پر منحصر کر دیا اور اسی طرح دنیا میں اعتدال و توازن برقرار ہے۔تمام مخلوقات جاندار اور بے جان ایک قیمتی اثاثہ ہیں جو اپنے مقصد وجود کو پورا کرنے میں مصروف ہے۔اگر انسان اس میزان اور توازن میں خلل ڈالے، ان قدرتی وسائل کا استحصال کرے، غلط استعمال کرے، یا  انھیں برباد کرے، انھیں آلودہ کرے، تو اس کے نتیجہ میں کائناتی توازن و عدل متاثر ہوگاجو کہ خود انسان کے حق میں بہتر نہیں۔ اس لیے ہم سب پر فرض ہوجاتا ہے کہ ہم ان قدرتی وسائل کے تحفظ و بقا کے لیے کوشش کریں، ورنہ ہمیں انتہائی بھیانک حالات کا سامنا کرنا ہوگا۔ فطرت سے جنگ میں شکست لازما انسان ہی کی ہوگی۔نتیجہ کے طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ زمانے میں زیادہ بگاڑ جدید ایجادات کے غلط استعمال نے کیا ہے جس کی بناء پر ماحولیاتی بحران برپا ہے اس سے نمٹ نے کے لئے مذہبی تعلیمات، اخلاقی، ذہنی، پاکیزگی کو فروغ دینے کی سخت ضرورت ہے اب ہم سطور ذیل میں دیکھیں گے کہ اسلام نے قدرتی  وسائل کے تحفظ اور اس کو شفاف رکھنے کے لئے کس قدر زور دیا ہے۔

قدرتی وسائل کا تحفظ:

پانی:

 اللہ نے پانی کو زندگی کی بنیاد بتایا ہے۔بلکہ تمام جان دار اپنے وجود کے لیے پانی پر انحصار کرتے ہیں۔ قرآن کی متعدد آیات اس نعمتِ خداوندی اور اس کی اہمیت کے بارے میں بحث کرتی ہیں۔ پانی کے بے شمار حیاتی پہلوؤں کے علاوہ اس کی سماجی اور مذہبی حیثیت بھی مسلمّ ہے۔ پانی طہارت کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ اور کوئی بھی بدنی عبادت جسم اورکپڑوں کی پاکی کے بغیرادا نہیں کی جاسکتی۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ :

’’اور ہم نے ہی آسمان سے صاف ستھرا پانی اتارا ہے‘‘۔ (سورہ فرقان آیت ۴۸)

دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے کہ :

’’اور تم پر آسمان سے پانی برسا دیا تاکہ تم کو اس سے پاک کر دے اور شیطانی نجاست کو تم سے دور کر دے‘‘۔ (سورہ انفال آیت، ۱۱)

  زمین پر موجود پانی کا صرف تین فیصد حصہ ہی قابل استعمال ہے باقی ۹۷ فیصد سمندر کی شکل میں نمکین ہے جو کہ عام طور پر قابل استعمال نہیں ہے،۔اللہ تعالیٰ نے اس تین فیصد قابل استعمال پاکی کی حفاظت کا بندوبست بھی کیا تا کہ عام مخلوقات اسے استعمال کر سکے:’’اور وہی تو ہے جس نے دو سمندروں کو ملا رکھا ہے جن میں سے ایک کا پانی لذیذ و شیریں ہے اور دوسرے کا کھارا اور کڑوا۔پھر ان کے درمیان ایک پردہ اور سخت روک کھڑی کردی ہے‘‘۔ (سورہ فرقان آیت، ۵۳)

اللہ تعالیٰ نے میٹھے پانی کا ذخیرہ ہمارے لیے محفوظ کر دیا، اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس کی حفاظت کریں، اسے آلودہ ہونے سے بچائیں اسی وجہ سے حدیثی ماخذ میں مذکور ہے۔نبی اکرم نے ٹھہرے پانی میں پیشاپ کرنے سے منع کیا ہے‘‘۔۱۰؎

نہ صرف پانی کے ذخیرہ کو محفوظ رکھیں بلکہ گھر میں موجود پانی سے بھرے برتن وغیرہ کے استعمال میں بھی احتیاط برتنی چاہیے اور انھیں آلودہ نہ ہونے دیں۔

 ابْو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:’’جب تم میں سے کوئی نیند سے بیدار ہو تو اپنا ہاتھ تین مرتبہ دھونے سے پہلے پانی کے برتن میں نہ ڈالے‘‘۱۱؎۔

ابْوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ :’’ نبی نے مشک کے منہ سے پانی پینے سے منع فرمایا ہے‘‘۱۲؎۔

  مندرجہ بالا حوالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام نے انفرادی اور اجتماعی طور پر پانی کی حفاظت کا کس طرح سے انتظام کیا ہے۔اسلام نہ صرف پانی کو محفوظ اورصاف رکھنے کی تعلیم دیتا ہے بلکہ اس کے بیجا استعمال، ضرورت سے زیادہ ضیاع سے بھی منع کرتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:’’اور کھاؤ پیو اور بیجا خرچ نہ کرو۔ اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘(سورہ اعراف آیت، ۳۱)۔

 عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ’’:

رسول اللہ سعدرضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے۔ وہ وضو کر رہے تھے آپنے فرمایا یہ کیا اسراف ہے! سعد نے عرض کیا وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے؟حالانکہ یہ ایک نیک کام میں خرچ کرنا ہے) فرمایا جی! اگرچہ تم جاری نہر پروضو کر رہے ہو‘‘۱۳؎۔

انسانی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے اسلام ہمیں تعلیم دے رہا ہے کہ پانی کی حفاظت کی جائے کیونکہ یہ ہم سب کی مشترکہ ضرورت ہے، اس پہ تمام مخلوقات کا حق ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے کہ :

’’اور ان کو آگاہ کردو کہ ان میں پانی کی باری مقرر کر دی گئی ہے۔ ہر (باری والے کو اپنی اپنی باری پر آنا چاہیے(سورہ قمر آیت، ۲۸)۔

اسی طرح نبی اکر م نے فرمایا: ’’تین چیزیں مسلمانوں میں مشترکہ ہیں، پانی، چراگاہ اور آگ‘‘۱۴؎۔

حضرت ابْو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا’’ضرورت سیزیادہ جو پانی ہو وہ اس لئے نہ روکا جائے کہ جو ضرورت سے زیادہ گھاس ہو وہ بھی رکی رہے‘‘۱۵؎۔

’’اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تین آدمیوں کی طرف نہ دیکھے گا، اور نہ انہیں پاک کرے گا، اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے، اول وہ شخص جس کے پاس ضرورت سے زائد پانی راستہ میں ہو اور اس کو مسافر کو نہ دے‘‘۱۶؎۔

  یعنی اسلامی تعلیمات کے مطابق ہر وہ عمل جو اس شے کے حیاتی اور سماجی کاموں میں رکاوٹ ڈالے، یا اسے ناقابلِ استعمال بنائے، مثلًا اس کو برباد کرے یا آلودہ کرے۔ ایسے تمام اعمال حیات (زندگی) کو تباہ کرنے والے تصور کیے جائیں گے۔ فقہ کا یہ مشہور قاعدہ ہے کہ ’’حرام کی طرف لے جانے والے ذرائع بھی حرام ہوتے ہیں ‘‘۱۷؎۔اسلامی تعلیمات کا مطالعہ یہ واضح کرتا ہے کہ کس طرح سے ایک قیمتی قدرتی وسیلے کو محفوظ اور لمبے وقت تک استعمال کیا جا سکتا ہے۔لہذا پانی کا تحفظ ہر فرد جماعت، معاشرہ، سماج اور سوسائٹی پر لازم ہے کیونکہ یہ ایک قدرتی نعمت ہے اور نعمت خدا وندی کی حفاظت سب کا بنیادی فرض ہے اسلام نے متعدد مقامات پر پانی کی اہمیت وافادیت اور ضرورت کی طرف اشارہ کیا ہے جس کو متذکرہ بالا سطور میں پیش کیا گیا اس کے بے شمار فوائد قرآن و حدیث میں واضح طور پر بیان کئے گئے ہیں اگر ہم ان تعلیمات پر عمل پیرا ہو جائیں تو ماحولیاتی بحران پر بہت حدتک کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

ہوا:

 زندگی کا دارومدار ہوا پر ہے۔ جس کے بغیر چند منٹ بھی زندہ نہیں رہا جا سکتا۔ اس کے علاوہ بھی دیگر ضروری کاموں کے لیے ہوا لازمی ہے۔ مثلًا نباتات میں بارآوری کا عمل، بارش، بادلوں کی مختلف حصوں میں منتقلی وغیرہ۔ قرآن اس طرح کے کئی اعمال کو خدائی عطیہ قرار دیتا ہے (سورہ بقرہ آیت ۱۶۴)۔

 ہوا ئی آلودگی اس وقت دنیا کے بڑے مسائل میں سے ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی  رپورٹ کے مطابق دنیا میں سالانہ ستر لاکھ لوگ اسی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ہوا چونکہ حیات کی بقا کا انتہائی اہم فریضہ انجام دیتی ہے، لہٰذا اس کی حفاظت آپ سے آپ لازم ہوجاتی ہے۔ یہ اسلامی قوانین کی اہم غرض ہے۔ اس طرح سے وہ تمام افعال جو ہوا کو آلودہ کریں اور آخر کار جان داروں پر اثر انداز ہوں، ممنوع قرار پاتے ہیں۔

جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

’’اپنی جانو کو ہلاکت میں مت ڈالو‘‘(سورہ نساء آیت، ۲۹)۔

اسلام میں درخت لگانے اور ان کی حفاظت پر خصوصی زور دیا گیا ہے۔یہ سبزہ ہی ہے  جس سے فضائی آلودگی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اس لئے کہ ہوا زندگی کے مختلف امور میں بڑی مفید ثابت ہوتی ہے ماہرین زراعت کا کہنا ہے کہ ہوا کے ذریعہ غلہ میوہ جات اور دیگر بنیادی ضروریات میں کام آنے والی اشیاء خورد نوش کے پکنے میں ہوا کا بڑا عمل دخل ہے اس لئے اس خدائی عطیہ قدر ضروری ہے اسلام نے اس نعمت عظمیٰ کی افادیت بتائی گئی ہے اسی طرح ہو اپر پوری سوسائٹی کی زندگی کے بقاء کا انحصار ہے

زمین:

زمین جان داروں کی بقا میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ قرآن میں کہا گیا کہ زمین جان داروں کے قیام کا ذریعہ ہے(سورہ یونس آیت، ۵۵)۔ انسان کی تخلیق بھی اولًا مٹیّ سے ہوئی (سورہ طہ آیت ۳۰)۔ زمین میں پائی جانے والی معدنیات، انسانوں، نباتات اور دیگر جان داروں کی زندگی کی بقا کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ اکثر جان دار بشمول انسان اپنی غذا زمین سے حاصل کرتے ہیں (سورہ مرسلت آیت، ۲۵۔۲۷)۔ علاوہ ازیں زمین پہاڑوں، دریاؤں اور سمندر کا مسکن ہے، جو تمام کے تمام جان داروں کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں (سورہ حجر آیت، ۱۹۔۲۰)۔ قرآن ہمیں بار بار زمین کی پیداوار اور اس سے حاصل ہونے والے پھلوں کو انسانوں کے لیے استفادے کی یاد، دلاتا ہے(سورہ فاطر آیت ۳۳۔۳۵)۔

 اگر ہم واقعتا اًللہ کے شکر گزار بننا چاہتے ہیں تو ہم پر لازم ہوگا کہ ہم زمین کی زرخیزی کو برقرار رکھیں اور اس کو ہر طرح کے نقصان سے بچائیں۔ ہمیں اپنی ضروریات، مثلًا مکان، زراعت، جنگلات اور کان کنی کے ایسے طریقے اپنانے چاہییں جونہ صرف حال بلکہ مستقبل میں بھی کسی نقصان کا باعث نہ بنیں۔ اس طرح کے مفید ترین وسیلے کو تباہ کرنا یا اسے خراب کرنا یقیناحًرام ہوگا۔کیونکہ زمین انسان کی بنیادی ضروریات میں کس حدتک کام آرہی ہے اس کا اندازہ ہم خود لگا سکتے ہیں۔

نباتات:

زمین پر انسانی زندگی کی بقا ء کے لیے نباتات کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ زمین کے ایک مخصوص حصہ پر جنگلات کا ہونا لازمی ہے۔درخت جہاں ہمارے لیے صاف و تازہ ہوا مہیا کرتے ہیں وہیں وہ پانی کی حفاظت کا ذریعہ بھی ہیں۔ درخت زمین کے کٹاؤ کو روکتے ہیں۔ بہت سارے نباتات کی طبیّ اہمیت بھی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ انسان انھیں اپنی معاشی و دیگر ضروریات کی تکمیل میں استعمال کرتا ہے۔

قرآن نباتات کی اہمیت و افادیت کا احساس دلاتے ہوئے ہمیں اس طرح دعوت غور و فکر دیتا ہے:’’پھر ذرا انسان اپنے آپ کو دیکھے۔ ہم نے ہی اوپر سے پانی برسایا، پھر زمین کو عجیب طرح سے پھاڑا، پھر اس کے اندر اگْائے غلیّ اور انگور اور ترکاریاں اور زیتون اور کھجور اور گھنے باغ اور طرح طرح کے پھل اور چارے تمھارے مویشیوں کے لیے سامان زندگی کے طور پر‘‘(سورہ عبس آیت ۲۴۔ ۳۲)۔

خلیفۃ الارض کی حیثیت سے نباتات کی حفاظت ہم پرلازم ہو جاتی ہے کیونکہ کرہ ارض پر زندگی کے لے نباتات کی پیداوار، تحفّظ اور بقا ایک امرِ ضروری ہے۔مسلمانوں کو اس بات کی تاکید کی گئی کہ وہ درختوں کے پھل ضرور کھائیں مگر اس کی شاخوں کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچائیں۔ اسلام تعلیم دیتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں، اس طرف راغب کرنے کے لیے نبی اکرم  ﷺنے صدقے کے ثواب کی بشارت سنائی ہے۔

انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ فرمایا کہ:

’’ مسلمان جو بھی میوہ دار درخت لگاتا ہے یا کھیتی کرتا ہے اور اس سے پرندے، آدمی اور وپائے کھاتے ہیں اس کا ثواب اس کو ملتا ہے‘‘۱۸؎

ماخذ حدیث میں انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: ’’جو مسلمان درخت لگائے یا کھیتی باڑی کرے پھر اس سے انسان پرندے یا جانور کھائیں تو  اسے صدقے کا ثواب ملتا ہے‘‘۱۹؎۔

  اللہ کے رسول محمد کی تعلیمات میں درختوں کو کاٹنے کی واضح ممانعت آئی ہے۔ یہاں تک کہ حالت جنگ میں بھی درخت کاٹنے سے منع کیا گیا ہے تاآنکہ وہ دشمن کے لیے فائدہ مند نہ ہو جائیں۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان فوجوں کو اس بات کی ہدایت تھی کہ وہ شہروں اور فصلوں کو برباد نہ کریں ۲۰؎۔

 درختوں کی اہمیت کا اندازہ اس حکم سے لگایا جا سکتا ہے کہ نبی اکرم نے پھل دار  درختوں کو پتھر مارنے سے بھی منع فرمایا ہے۔رافع بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :’’میں انصار کے کھجوروں کے درختوں پر پتھر مار رہا تھا کہ وہ مجھے پکڑ کر نبی اکرم  ﷺ کے پاس لائے آپ ؐنے فرمایا رافع کیوں ان کے کھجور کے درختوں کو پتھر مار رہے تھے میں عرض کیا بھوک کی وجہ سے آپ نے فرمایا پتھر نہ ماروجو گری ہوئی ہوں وہ کھالیا کرو۔ اللہ تعالیٰ تمہیں سیر کرے اور آسودہ کرے‘‘۲۱؎۔

  درختوں کے بلاوجہ کاٹنے پر سخت دعید سنائی بلکہ اسے کافروں کا عمل بتایا ہے۔ جیسا کہ ابو قتادہ بن ربیع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ:’’ رسول کریم کے سامنے سے ایک جنازہ نکلا۔ آپ نے فرمایا یہ جنازہ آ رام والا ہے یا آرام دینے والا ہے۔ صحابہ نے فرمایا اس کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا مسلمان بندہ جب فوت ہوتا ہے تو دنیا کی تکالیف اور صدمات سے وہ چھوٹ کر آرام حاصل کرتا ہے اور جس وقت کافر آدمی مرتا ہے تو اس سے انسان (و جنات) بستیاں اوردرخت اور جانور آرام حاصل کرتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ بندوں کو ستایا کرتا تھا اور وہ درختوں کو کاٹتا تھا اور ناحق جانوروں کو مارتا تھا”‘‘۲۲؎۔ایک دوسری روایت میں عبداللہ بن حبشی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ:’’جس نے بیری کا درخت(کیونکہ اس کے سائے میں مسافر اور جانور آرام کرتے ہیں ) کاٹا اس نے اپنا سر آگ میں ڈال دیا‘‘۲۳؎۔

انسانی ترقی کی وجہ سے جنگلات تیزی سے ختم ہو رہے ہیں یہ مسئلہ اب انتہائی تشویش ناک صورت اخیتار کر چکا ہے۔ پوری دنیا میں مختلف تنظیمیں جنگلات کے بڑھانے اور ان کی  حفاظت کے لیے کام کر رہی ہیں۔ یہ وہی کام ہے جس کی ابتداء اسلام نے چودہ سو سال پہلے کی تھی۔ مگر افسوس کہ آج کا انسان ترقی کے زعم میں اپنی ہی جان کا دشمن بن بیٹھا اور اسے احساس تک بھی نہ ہوا۔اب بھی وقت ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات کی طرف لوٹ آئیں اور اپنی دنیا و آخرت کو سنواریں۔

حیوانات:

 اسلام ہمیں جس ماحول کی حفاظت کا حکم دیتا ہے جانور اسْی ماحول کا اہم حصہ ہیں۔ حیوانات نہ صرف انسانوں بلکہ نباتات کے لیے بھی کئی طریقوں سے کار آمد ثابت ہوتے ہیں۔ ان سے زمین کی زرخیزی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ انسان حیوانات سے غذا، اون، چمڑا اور دودھ حاصل کرتا ہے۔ یہ دواؤں کے کام بھی آتے ہیں۔ علاوہ ازیں جان داروں سے انسان باربرداری کا کام بھی لیتا ہے۔اس کے علاوہ بھی کئی فوائد کی طرف قرآن اشارہ کرتا ہے کہ۔ جانوروں کی فلاح و بہبود کے لیے، اسلام نیقانون سازی کی ہے۔ ہر دور کے بارے میں عمومی اصول یہ ہے کہ’’تم اہل زمین پر رحم کرو تم پر رحم کیا جائے گا‘‘۲۴؎۔

ابنِ عمر رضی اللہ عنہ اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:’’ایک عورت کو ایک بلی کی وجہ سے عذاب ہوا کہ اس نے بلی کو پکڑ رکھا تھا، یہاں تک کہ وہ بھوک سے مرگئی یہ عورت نہ اسے کھانے کو خود کچھ دیتی اور نہ اسے چھوڑتی کہ حشرات الارض سے اپنی غذا حاصل کرلیتی‘‘۲۵؎۔

جانوروں کو اذیت دینا ان کے بچوں کو تفریح کی غرض سے پکڑنا اور لطف اندوزہونا اسلام اس قسم کی تفریح سے قطعا منع کرتا ہے۔

عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ:’’ہم رسول اللہ کے ساتھ سفر میں تھے آپ قضاء حاجت کے لئے تشریف لے گئے ہم نے ایک چڑیا دیکھی جس کے دو بچے تھے ہم نے اس کے بچوں کو پکڑ لیا تو چڑیا زمین پر گر کر پر بچھانے لگی اتنی دیر میں رسول ؐ  تشریف لے آئے آپ ؐ نے پوچھا اس کا بچہ پکڑ کر کس نے اس کو بے قرار کیا ہے، اتنے میں رسول اللہ نے چیونٹیوں کا ایک سوراخ دیکھا جس کو ہم نے جلادیا تھا آپ فرمایا کسی کے لئے یہ بات مناسب نہیں کہ وہ آگ سے تکلیف پہنچائے سوائے آگ کے پیداکرنے والے کے ‘‘۲۶؎۔

غرض کہ جانوروں کو کسی بھی قسم سے تکلیف پہنچانا منع ہے یہاں تک کہ انھیں برا بھلا بھی نہیں کہا جا سکتا، جیسا کہ درج ذیل روایت سے واضح ہوتاہے۔

رسول اللہ نے فرمایا: ’’مرغ کو برا مت کہو کیونکہ وہ نماز کیلئے جگاتا ہے‘‘۲۷؎۔

محدثین لکھتے ہیں کہ اس حکم کا اطلاق عام جانوروں پر بھی ہوتا ہے۔ لہذا عام جانوروں کو بھی برابھلا نہیں کہنا چاہیے۲۸؎۔ حتی کہ قربانی یعنی جانور کو اللہ کے نام پر ذبح کرنے کا بہت مقام اور اجر و ثواب ہے مگر قربانی کے وقت کے لیے بھی احکامات ہیں کہ چھری خوب تیز ہو،ایک جانور کے سامنے دوسرے جانور کو ذبح نہ کرو، حلقوم پورا کاٹو تا کہ آسانی سے جان نکل جائے کہ اس سے جانور کوتکلیف کم ہو تی ہے۲۹؎۔

شوقیہ طور پر جانوروں کا شکار کرنا، ان کا خون بہانا، انھیں تکلیف پہنچانا اسلام میں سخت منع ہے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:’’رسول اللہ نے اس شخص پر لعنت فرمائی ہے جو جاندارکو باندھ کر نشانہ بنائے‘‘۳۰؎۔

عبدالرحمن بن عثمان سے روایت ہے کہ :’’رسول اللہ سے مینڈک کو دوا میں ڈالنے کے متعلق دریافت کیا تو آپ ﷺ  نے اس مینڈک قتل کرنے سے منع کردیا‘‘۳۱؎۔

عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: ’’جو شخص چڑیا یا اس سے بڑے جانور کو ناحق قتل کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کے قتل کے متعلق باز پرس فرمائیں گے، عرض کیا گیا یا رسول اللہ اس کا حق کیا ہے؟ فرمایا اس کا حق یہ ہے کہ اسے ذبح کرے اور پھر کھالے لیکن ایسا نہ کرے کہ سر جدا کر کے پھینک دے‘‘۳۲۔؎

ان روایت کے تحت عام طور پر جو لوگ ائیر گن سے شوقیہ کوا، چڑیا وغیرہ کو نشانہ نباتے ہیں انھیں متنبہ ہونا چاہیے۔

ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:’’نبی نے چار جانورں کے قتل کر نے سے منع فرمایا چیونٹی، شہد کی مکھی، ہدہد، اور چڑیا ‘‘۳۳؎۔

مذکورہ تعلیمات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسلام نے جانوروں کو مار نے انہیں تکلیف پہنچانے بھوکا پیاسا باندھ کر رکھنے سے سخت منا فرمایا ہے مگر اس کے با وجود معاشرے کی صورت حال پر نگاہ ڈالتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ جانوروں کو اذیت دینے کے واقعات بڑی حد تک پائے جاتے ہیں جو نہ صرف تعلیمات اسلام کے مخالف عمل ہے بلکہ تحفظ ماحول کو بھی متاثر کرتا ہے اس لئے ماحول کو پراگندہ ہونے سے بچانے کے لئے اسلام کی ان روشن ہدایات کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانا چاہئے۔

آواز کی آلودگی:

   شہروں میں رہنے والی آبادی کے لیے آواز کی آلودگی بہت زیادہ پریشانی کا سبب بنتی ہے۔آواز کے شور کی وجہ سے نہ تو آرام کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی توجہ سے کوئی کام۔مریضوں کے لیے بلند آواز شدید تکلیف کا باعث بنتی ہے۔ اسلام بلند آواز کو سختی سے ناپسند کرتا ہے۔ قرآن اس کو گدھے کی آواز سے تشبیہہ دیتا ہے(سورہ لقمان آیت، ۱۹)۔ اسلام آواز کے معاملے میں بھی اعتدال کا نظریہ پسندکرتا ہے۔ آواز نہ بہت زیادہ بلند ہو اور نہ ہی اتنی دھیمی کہ سنائی نہ دے۔

ارشاد ربانی ہے:’’اور آپ اپنی نماز نہ زیادہ بلند آوازسے پڑھئے نہ بالکل پست آواز سے بلکہ ان کے درمیان اوسط درجہ کا لہجہ اختیار کیجئے‘‘ (سورہ بنی اسرائیل آیت، ۱۱۰)۔

دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ آواز کی خفت کو تقوی کی نشانی کے طور پر بتاتے ہیں :’’جو لوگ اللہ کے رسول کے حضور اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لئے جانچ لیا ہے۔ ان کے لئے بخشش اور اجر عظیم ہے‘‘(سورہ حجرات آیت، ۳)۔

جبکہ شور مچانا، سیٹیاں بجانا اسلام میں نا پسندید ہ عمل ہے، قرآن اسے کفار و مشرکین کی حرکات بتلاتا ہے:’’بیت اللہ میں ان لوگوں کی نماز بس یہی ہوتی کہ وہ سیٹیاں بجاتے اور تالیاں پیٹتے تھے‘‘(سورہ انفال آیت، ۳۵)

پیغمبرِ اسلام محمد نے آوازوں کو بلند کرنے سے منع فرمایا۔عمر رضی اللہ عنہ رات کے وقت نماز میں بلند آواز سے تلاوت کر رہے تھے، جب نبی اکرم نے سنا تو فرمایا کہ: ’’اے عمر تم اپنی آواز تھوڑی پست کرو‘‘۳۴؎۔

ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ :’’ ہم سفر کر رہے تھے تو ایک شخص نے بلند آواز میں پکار کر کہا لا الہ الا اللہ واللہ اکبر، رسول اللہ نے کہا (اپنی آواز دھیمی رکھو) تم کسی بہرے اور غائب کو نہیں پکار رہے ہو‘‘۔۳۵؎

اسلامی عبادات کا بغور جائزہ لیا جائے تو محسوس ہو گا کہ ان میں بھی اس کا خیال رکھا گیا ہے کہ آواز بہت زیادہ بلند نہ ہو، مثلًا نمازیں، دن کی نمازیں سّری ہوتی ہیں کیونکہ یہ ایسا وقت ہو تا ہے جب دیگر ذرائع سے شور پیدا ہو رہا ہوتا ہے۔ مغرب، عشاء اور فجر میں قرأت جہری ہوتی ہے کیونکہ اس وقت شور کم ہوتا ہے۔ اس میں بھی آواز معتدل رکھی جاتی ہے۔ اسی طرح سے دعا اور ذکر کا بھی معاملہ ہے۔

اسلام میں آواز کی آلودگی سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں لوگوں سے اچھی بات کہنے کا حکم دیا یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اچھی بات ہمیشہ نرمی اور شگفتگی سے کی جاتی ہے نبی ﷺ نے مساجد میں آوازیں بلند کرنے سے منع فرمایا۔ ۳۶؎  گالی گلوچ اور برے ناموں سے پکانے سے منع کیا گیا ہے۔ (سورہ لقمان آیت، ۶)

 ان تمام شواہد سے یہ صاف واضح ہو جاتا ہے کہ اسلام ماحول میں خاموشی اور سکون چاہتا ہے تا کہ ہر انسان اپنی مرضی سے زندگی گزار سکے، عبادات کر سکے، آرام کر سکے۔اسی طرح اللہ تعالیٰ نے جنت کے بارے میں ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ:’’جہاں کوئی بیہودہ بات نہیں سنیں گے‘‘(سورہ غاشیۃ آیت، ۱۱)

 دوسرے مقام پر فرمان عالی شان ہے کہ:’’ وہ بس (ایک دوسرے کو) سلام، ہی کہا کریں گے‘‘(سورہ واقعہ آیت، ۲۶)

معاشرتی ماحول اور آلودگی:

 جہاں تک معاشرتی ماحول کی آلودگی کا تعلق ہے۔ اسکے بارے میں اسلامی نقطہ نظر یہ ہے کہ انسان فطری طور پر مدنی الطبع واقع ہوا ہے وہ اپنی ضرورت زندگی تنہا پوری نہیں کر سکتا ان کی تکمیل میں وہ دوسروں کا محتاج ہے۔ انسان کا لفظ انس سے ماخوذ ہے اور اسکا معنی پیار اور محبت ہے۔ اس پیارو محبت  کی بنیاد پر ان کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔ قرآن پاک نے اس بارے میں تعاون للبقاء کا اصول اپنایا ہے۔ جس کے بغیر ترقی کرنا اور آگے بڑھنا مشکل ہے اسکے مقابلے میں دنیا کے اندر تنازع للبقاء کا اصول چلتا ہے۔ جو جنگل میں درندوں اور سمندر میں مچھلیوں کا قانون ہے۔ جہاں زور آور طاقتور کمزور اور ضعیف کو کھاجاتا ہے۔ اس میں جسکی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول کارفرما ہے۔ جبکہ اسلام میں اسکے  برعکس اصول کارفرما ہے۔ تعاون للبقاء کا ماحول استحسان، استصلاح اور استصحاب  یعنی احسان، اصلاح اور جوڑہیں جبکہ تنازع للبقاء کا ماحصل استبداداستحصال اور استیصال یعنی ظلم وزیادتی اور توڑ ہیں۔

  معاشرے کے اندر معاملات کو سلجھانے کے لیے قانون نافذ کرنے والوں کا ہونا بھی ضروری ہے۔قانون انسان کا بنا ہوا بھی ہوسکتا ہے اور الہامی بھی ہوسکتا ہے۔ انسان کا بنا ہوا قانون لوگوں کی خواہشات اور جذبات کا عکاس  ہوتا ہے اسلئے ناقص ہوتا ہے۔ جبکہ الہامی قانون اس کے برعکس لوگوں کی جائز ضروریات کا تو خیال رکھتا ہے مگر نا جائز خواہشات اور خذبات کی حوصلہ شکنی کرنا ہے اور یہ عین انسانی فطرت کے مطابق ہوتا ہے۔ اس میں اقتدار علیٰ اللہ کو حاصل ہوتا ہے اور جبکہ بالادست قانون قرآن وسنت ہوتا ہے۔ اس روئے زمین پر انسان اللہ کا خلیفہ ہے۔ جسکا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو مرضی اور قانون کے مطابق اپنی نفرادی اجتماعی زندگی گزارے گا اگر وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور حکم پس پست ڈالتا ہے  تو وہ اللہ کا خلیفہ نہیں رہتا پھر وہ خود مالک اور آقابننے کی کوشش کریگا اور حقیقت یہ ہے کہ وہ اللہ سے بغاوت کا مترادف ہوگا۔ اسطرح انسان سے یہ اعزاز چھن جائے گا۔

 الہامی قانون کے مقابلے میں انسانی قانون کوقبول کرکے انسان دراصل بغاوت کا جھنڈا بلند کرتا ہے۔ اور اپنے آپ کو کافر، فاسق اور ظالم جیسے القاب کا مستحق گردانتا ہے۔ اس نے سودی نظام معیثت جیسے استحصالی نظام پر عمل پیرا ہو کر اللہ اور اور اسکے رسولؐ کے خلاف جنگ کا اعلان کیا ہے۔ (بقرہ:۶۷۹) انسان کے اس طرز عمل نے دبیا کے ماحول کو انتہائی حد تک مسموم بنایا ہے اللہ اور رسولؐ کے خلاف جنگ میں شکست سے ہی دو چار ہوگا۔اللہ اور اس کے رسول کے خلاف یہ جنگ وہ نہیں جیت سکتا۔ اس سے وہ صرف اپنی رسوائی اور بلاکت کا سامان کرتا ہے۔ جب تک وہ اپنے آپ سے کافر، فاسق اور ظالم کے لیبل نہیں ہٹائے گا اور اللہ کے حکم کے سامنے غیر مشروط طور پر سر تسلیم خم نہیں کرے گا جسکی عملی شکل یہ ہوگی کہ زندگی کے تمام نظاموں کا محورومرکزوہ قرآن اور سنت کی تعلیمات کو بنائے اور سودی نظام معیثت کو ختم کرکے اسلام نظام معیثت لا گو کرے جس کا مطلب اللہ اور رسولؐ سے صلح ہوگا۔ اس وقت اسے سکون اور راحت نصیب ہوگا۔

 اسلامی اور الہامی قانون کے تحت مملکت اور حکومت کے سر براہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے اس لحاظ سے وہ عوام کا محافظ ہوگا۔ اسکی انتہائی کوشش ہوگی کہ اپنی رعایا کو اسلامی حدود میں رہتے ہوئے خوشحالی، متمول اور منظم رکھے ہر ایک کے ساتھ انصاف سے پیش آئے۔ تعلیم عام اور مفت کرے۔ ذمہ داری کے مناسب اہلیت تقوی اور قابلیت کی بنیاد پر دے۔ وہ ان لوگوں کا کفیل ہے جن کا کوئی کفیل نہ ہوا۔ ۳۷؎؍ وہ بیواؤں، یتیموں کا ماویٰ اور ملجاء۔ وہ ان لوگوں کاقرض چکائے جو اپنا قرض ادانہ کرسکتے ہوں۔ سرکاری عمال کو گھر، خادم، سواری اور شادی کا بندوبست اسکی ذمہ داری ہو۔ بیت المال کا پیسہ و ہ عوام کی فلاح و بہبود اور مفاد میں خرچ کرے اور اپنے لیے وظیفہ مقرر کرنے میں خلفائے راشدین کا طرز عمل اپنا ئے۔

 ان تمام سہولتوں کے بدلے عوام قانون کی پابندی کریں گے۔ اور اپنا فرض منصبی ایمانداری اور دیانتداری سے ادا کریں گے۔ سرکاری املاک کو امانت سمجھا جائے گا اور ہنگامی حالات میں حکومت کی دعوت پر ہر قسم کے تعاون کے لیے تیار ہوں گے۔ وہ حکومت کے ساتھ مل کر فحاشی، بے حیائی اور ظلم و استبداد کے خلاف جہاد کریں گے۔ اور قانون، انصاف، امن و امان، نیکی اور ایمانداری کو پروان چڑہانے میں حکومت کی مدد کریں گے۔ ہر شہری اپنے آپ کو ایک ذمہ دار فرد سمجھے گا اور اس سے ان افراد کے بارے میں پوچھ ہوگی جو اسکی سرکردگی میں کام کرتے ہیں۔ ہر شہری اور مسلمان دوسرے شہری اور مسلمان کے لیے ایک شیشہ ہوگا اور اپنے بھائی کی اصلاح خاموشی سے کرے گا۔ اور اسکو اصلاح کے ارادے سے اپنا عیب اتناہی بتائے  گا  جتنا اس میں  ہوگا۔ شیشے کا کام تعمیر نہ کہ تخریب ہوتا ہے مسلمان شہری کا کام بھی تعمیر نہ کہ تخریب ہوچاہے، یہ معاشرہ دوسرے معنوں میں خرابیوں، ظاہری اور باطنی خباثتوں، غلاظتوں اور گندگیوں سے پاک ہوگا۔ اس قسم کی فلاحی معاشرے میں اور اس قسم کے دوستانہ برادرانہ اور پرامن اور صاف ماحول میں لوگ اپنے کو جنت ارضی میں محسوس کریں گے اور یہ معاشرہ گویا کہ دنیا میں جنت کا سماں پیش کرے گا۔ جسکی طرف لوگ کھچ کھچ کر آئیں گے۔

 اقتصادی مسائل اکثر معاشرے کا ماحول خراب کرتے ہیں۔ اس کا حل اسلام نے منصفانہ طور پر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسلام محنت و مشقت پر زور دیتا ہے۔ اور محنت کی عظمت  کا قائل ہے۔ سب سے بہترین کمائی اپنے ہاتھ کی کمائی ہے۔ ۳۸؎

 انسان کوئی بھی پیشہ اختیار کر سکتا ہے۔ بشر طیکہ اسلام اسکی اجازت دیتا ہو اور حلال کا ہو۔ اسلام مانگنے اور دوسرے پر بوجھ بننے کے خلاف ہے۔ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ ۳۹؎ اسلام ذاتی ملکیت کا قائل ہے۔ مگر اسلام یہ بھی کہتا ہے کہ حلال و حرام میں تمیز روار کھی جائے۔ دولت کمانے میں جائز ذرائع  سے کام لیا جائے۔ کسی کی جائیداد نا جائز طریقے سے حاصل نہ کرے۔ حلال مال کے تحفظ کے لیے اسلام نے حدسرقہ کا قانون وضع کیا ہے۔ جس کی روشنی میں کوئی بھی کسی کی دولت پر قبضہ نہیں کرسکتا۔ زمیندار اور دھقانوں کا خاص خیال رکھا جائے ان کے ساتھ منصفانہ سلوک کیا جائے ان کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھیں، مزدور کو مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے قبل دی جائے۔۴۰؎  وہ اپنے مالک کا کام دیانتداری اور پوری محنت سے کریں اور مالک ان کی محنت کے مطابق مزدوری دیں۔

 اسلام نے دولت کو ذخیرہ کرنے سے منع کیا ہے اور دولت کی گردش کے لیے زکوۃ اور میراث کا قانون وضع کیا ہے۔ (الحشر:۷) اسلام نے دولت کو خیر اور فضل کہا ہے۔ مگر اسکو زندگی کا مقصد نہ گرداننے کا حکم دیا ہے  بلکہ دولت ایک علی مقصد کے حصول کے لئے ذریعہ بنانے پر زور دیا گیا ہے۔

  نبی پاک ﷺ نے دوآدمیوں سے رشک کرنے کا فرمایا ہے ان میں ایک آدمی وہ ے جسکو اللہ نے دولت (حلال) کی نعمت سے نوازتا ہے اور وہ اپنی دولت کو اللہ کی راہ میں صبح و شام خرچ کرتا رہتا ہے۔ ۴۱؎

مولانا روم نے دولت کو مقصد زندگی بنانے اور دولت کو ایک اعلی مقصد کے حصول کا ذریعہ بنانے کی مثال   کشتی سے دی ہے کہ اگر کشتی پانی کے اوپر تیرتی ہے منزل مقصددتک پہنچ جاتی ہے اور اگر پانی کوسینے میں جگہ دیتی ہے تو ڈوب جاتی ہے مسلمان اگر دولت کو زندگی کا مقصد سمجھ کر اسکو دل میں جگہ دیتا ہے تو غرق ہوجاتا ہے اور اگر اسکو اعلیٰ مقصد کے حصول کے لیے اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے تو کامیابی و کامرانی مقد رہے۔

 اسلام نے بخل اور کنجوسی کی قباحت بیان کی ہے۔ لیکن اسراف سے بھی روکا ہے۔ دولت خرچ کرنے میں اسلام نے اعتدال سے کام لینے کا حکم دیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ جس نے اعتدال سے کام لیا کبھی تنگ دست نہیں ہوگا۔ آدمی کے سمجھدار ہونے کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ خرچ  میں اعتدال وتوازن سے کام لیتا ہے۔ ۴۲؎

  یہ امرھی مسلمہ ہے کہ معاشرے میں ایسے افراد بھی پائے جاتے ہیں جو کام نہیں کرسکتے وہ جسمانی اور ذہنی طور پر معذور ہوتے ہیں اور ایسے افراد بھی ہیں جو کام تو کرسکتے ہیں مگر ان کی کمائی ان کی ضروریات زندگی کے لیے  کفایت نہیں کرتی۔ اس طرح معاشرے میں مسکین، مسافر، یتیم، بیوائیں، اندھے، لولے اور لنگڑے لوگ بھی ہوتے ہیں جو محنت و مزدوری نہیں کر سکتے۔ مگر ضرورت زندگی کی تکمیل ان کی بنیادی حقوق میں سے ہے۔ اس قسم  کے افراد کا حق بنتا ہے کہ متمول لوگوں یا حکومت کے سامنے اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے ہاتھ بڑھائیں اور ان دونوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ ان کی ضروریات کی تکمیل میں ان کی مدد کریں۔ ۴۳؎

کسی فلاحی معاشرے میں تہذیب و شائشتگی کی یہ علامت  ہوگی کہ اس کے اغنیاء اور اسکی قیادت مذکورہ بالا اشخاص کی فراخدلی کے ساتھ مدد کریں۔ صدقات و زکوۃ اس مدکے لیے بہترین ذرائع ہیں۔  (سورہ توبہ آیت،۴۰)

  حقیقت یہ ہے کہ بنیادی ضروریات کی تکمیل میں انسان اور حیوان میں کوئی فرق نہیں۔ اسلام ان کی بنیادی ضروریات کی تکمیل پر زور دیتا ہے۔ اگر ان کی ضروریات خوش اسلوبی سے مہیا کئے جائیں اور مخلص، لوگوں کی ضروریات کی تکمیل کا بندوبست منصفانہ طور پر کیا جائے تو معاشرے کا ماحول کبھی بھی خراب اور آلووہ نہیں ہوگا اسکے برعکس معاشرے میں خوش حالی، امن، دوستی اور آشتی کا ماحول ہوگا۔ جہاں لوگ بھائیوں اور بہنوں کی طرح رہیں گے سبزخانے کا درجہ حرارت معتدل اور خوشگوار رہے گا۔ ماحولیاتی آلودگی اور استحصال کا نام و نشان نہیں رہے گا اور اسطرح انسان خوشی اور اطمینان کی زندگی  بسر کریگا۔

ماحول اور اخلاق :

ماحول کو خوشگوار رکھنے کے لئے  یہ بھی ضروری قرار دیا گیا ہے کہ لوگ ایک دوسرے کودھوکہ نہ دیں جوٹ بول کر کر حقیقت کو نہ چھپائیں جس سے دوسرے کی حق تلفی ہوجسکے نتیجے میں ماحول میں گھٹن پیدا ہو۔ اسلام نے فرائض (ذمہ داری) کی ادائیگی پرزور دیا ہے تاکہ اس نتیجے میں لوگوں کے حقوق اداہوں اور جب حقوق اداہوں اور فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی نہ برتے تو ماحول پر امن اور خوشگوار رہتا ہے۔ جسمیں لوگ خوشی اور اطمینان کے ساتھ زندگی گزارسکتے ہیں۔ اسلام نے غیبت اور الزام تراشی سے بھی روکا ہے۔ (الحجرات۱۲) تاکہ لوگوں کی عزت و آبرو کاتحفظ ہو۔بدکاری اور ٖفحاشی سے اسلیے روکا ہے کہ ایسا کرنے سے خاندانوں اور افراد کی ناک کٹ جاتی ہے۔ اور معاشرے کے لیے ایسے افراد پیدا ہوتے ہیں جسکی کفالت کی ذمہ داری کسی معین شخص  پر نہیں آتی اور جس کے نتیجے میں وراثت کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے اس مقصد کے حصول کے لئے اسلام نے وہ تمام راستے بند کردئے ہیں جو اس شنیع عمل کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔  مثلاً پردے کا حکم دیا گیا عورتوں کو زیادہ گھر کے اندر رہنے کی تلقین کی گئی مخطوط اور آزاد نہ ملنے سے روکا گیا۔ مردوں کو نظریں نیچے رکھنے کا حکم دیا گیا اور عورت کو نگا ہیں نیچے کا حکم دیا گیا۔ عورتوں کے تنہا گھر سے نکلنے پر پابندی لگائی گئی اور غیر محرم رشتہ دارکے سامنے آنے سے منع کیا گیا کسی بھی غیر محرم سے تنہائی میں ملنا غیر اسلامی عمل قرار دیا گیا۔

چوری سے اسلئے روکا گیا کہ لوگوں کے مال کا تخفظ ہوجائے نشہ آور اشیاء سے اسلئے روکا گیا کہ عقل کی حفاظت ہوا ور معاشرے میں مخبوط الحواسی اور دیوانے لوگوں کا راستہ روکا جاسکے اور معاشرہ پر امن اور خوشگوار رہے ۴۴؎۔

ماحول اور گزرگا ہیں :

 جغرافیائی ماحول کو صاف ستھرا رکھنے  کے لئے اسلام نے بہت سی تعلیمات دی  ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ایمان کی سترسے کچھ اور شاخیں ہیں اعلیٰ شاخ  کلمہ طیبہ ہے اور ادنی شاخ راستے سے اذیت دہ چیز  کا ہٹانا ہے۔ ۴۵؎

  اذیت دہ چیزوں میں غلاظت،گندگی،کانٹے پتھر، رکاوٹ، پیشاب پاخانہ، مردہ جانور وغیرہ سب شامل ہیں۔ اسلام نے ان اشیاء کو ہٹا کرراستے کو پاک و صاف رکھنا ایمان کی شاخ قرار دیا ہے یہ اس لیے کہ انسان جہاں بھی جائے یا جہاں جہاں سکونت پزیر ہو وہ علاقے پاک اور صاف رہیں۔

 آپ ﷺ نے ہڈی وغیرہ کو ہٹا نے کو صدقہ قرار دیا ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ ان کی وجہ سے راستے کا ماحول متاثر ہوتا ہے راہ گیر کے لیے بلاخوف و خطرتاریکی ہو یا روشنی گزرنا مشکل ہوجاتا ہے لہذا ان رکاوٹ والی چیزوں کو ہٹانا ضروری ہے۔ تاکہ ذہنی سکون واطمینان بھی مل جائے اور ماحول کی آلودگی سے بھی  پاک رہے۔

مذکورہ ارشادات نبوی سے معلوم ہوتا ہے کہ گلیوں، راستوں، سڑکوں اور شاہراہوں پر اگر ایک طرف غلاظت، گندگی اور اذیت ناک چیزیں نہ ڈالی جائیں تو دوسری طرف گلیوں، راستوں، سڑکوں، شاہراہوں پر پڑی ہوئی بدیودار غلیظ، گندگی اور مردار اشیاء وہاں سے ہٹائی جائیں۔ یہ ہر مسلمان کی اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کو نہ صرف  یہ کہ اذیت نہ دے بلکہ انکو اذیت پہنچانے والی چیزوں  سے بچانے کی کوشش کرے۔

 آپ ﷺ نے لوگوں کے آرام کے لئے سڑکوں، شاہراہوں کے کنارے مساجد اور سرائے بنانے کا حکم دیا ہے تاکہ سیاحوں اور مسافروں کو نماز پڑھنے اور آرام کرنے کی سہولت میسر ہے۔

  اسلامی تعلیم یہ بھی ہے کہ سڑکوں کو محفوظ اور ہموار بنایا جائے۔ نبی پاک ؐ نے لوگوں کو گلیوں، راستوں، سڑکوں اور شاہراہوں پر بیٹھنے، نماز پڑھنے، اور رکاوٹ پیدا کرنے اور پیشاب اور پاخانہ کرنے  سے روکا ہے۔ ۴۶؎

اس سے ماحول گندہ ہوجاتا ہے اور لوگوں کے آرام میں خلل پڑنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ یہ اعمال اسلام کی صفائی کی تعلیما سے متصادم بھی ہے۔ آپؐ نے گزرگاہوں میں کسی کی رکاوٹ پیدا کرنے اور لوگوں کی آمدورفت میں مخل ہونے سے بازآنے کی تعلیم دی ہے۔

 اس حکم سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ سڑکوں اور گزرگاہوں میں تجاوزات کرنا بھی اس ضمن میں آجاتا ہے لہذا تجاوزات کو دور کرنا اسلامی تعلیمات میں شامل ہے۔ آپؐ نے تمام گزرگاہوں کے کنارے سیاحوں، مسافروں کی قیامگاہوں کو کشادہ رکھنے کا حکم دیا ہے۔ آپ ؐ کا یہ بھی فرمان ہے کہ گزرگاہوں کو تنگ وتاریک نہ رکھاجائے اور نہ انکو بند کیا جائے۔

  آپؐ نے فزرگاہوں کے درمیان بیٹھ کر آمدورفت میں خلل ڈالنے کو منع فرمایا اور اگر بفرض محال کسی کوکسی  ضرورت کی بناہ پر ایسا کرنا پڑے تو اسکو ان باتوں کا خیال رکھنا کہ گزرگاہوں پر گزرنے والی خواتین کو تنگ نہ کرے۔ کسی کو تکلیف اور اذیت نہ دے راہ گیر کے سلام کاجواب دے نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کرے۔ ۴۷؎

 موٹر یا کسی دوسری گاڑیوں میں سفر کرتے وقت چھلکے یا غیر ضروری اشیاء سڑک یا شاہراہوں پر ڈالنا ایک غیر مہذب عمل ہے اس سے ماحول گندہ ہوجاتا ہے۔ اسلام میں اس قسم کا عمل غیر ذمہ دارانہ ہے جس کو کسی صورت پسند نہیں  کیا جاتا۔

ماحول اور نشہ آور اشیاء:

 اسلام نے ہر قسم کی دخان  نوشی کو ممنوع قرار دیا ہے اگر ایک طرف ماحول آلودہ ہوجاتا ہے تو دوسری طرف یہ ہوا (فضا) کومتعفن بناتا ہے۔ سگر یٹ نوشی چلم کشی وغیرہ اصل میں ایک مہذب انداز میں انتہائی شنیع قسم کی بدتہذیبی ہے۔ کسی مجمع یا گاڑی میں ان چیزوں کا استعمال ایسا ہے جیسے کسی کے منہ میں رکھ کر پھونکا جائے۔ سگریٹ نوشی کے ذریعے دوسروں کے پیٹ تک دھواں چلا جاتاہے۔ جوکاربن ڈائی آکسائیڈ ہے جوناچاہتے ہوئے بھی دوسروں کو متاثر  لیتا ہے۔

اسلام نے ہر قسم کی نشہ آور اشیاء کو اسلئے ممنوع قرار دیا ہے کہ اس سے ماحول بھی خراب ہو جاتا ہے ہوا بھی مسموم ہوجاتی ہے۔ جگہ بھی گندی ہوجاتی ہے۔ اور یہ حفظان صحت کے اصول کے منافی بھی ہے۔

  اسلام معنوی طور پر بھی ماحول کو صاف رکھنے بر زور دیتا ہے۔اسلام ہر انسان کو مخلص دیا نتدار اور ہمدرد رہنے کا حکم دیتاہے۔ ہر شخص ایک دوسرے کا محدود معاون ہمدرد اور مخلص ہو۔ آپس میں ایک دوسرے کا بھلا اور خیر چاہتا ہو۔

ماحول اور مقاصد شریعت:

 شریعت اسلامی کے مقاصد میں سے یہ بھی ہیں کہ انسان کا مذہب، عقل، نسل، جان، مال اور آبرو محفوظ ہوں۔  اسلئے اسلام نے وہ تمام افعال ممنوع اور حرام قرار دئے ہیں۔ جن سے کسی کے مذہب، عقل، نسل، جان و مال اور آبرو کو خطرہ لا حق ہو۔ ماحول درحقیقت اسوقت خراب ہوجاتا ہے جب کسی مذہب، عقل، نسل، جان و مال اور آبرو کو خطرہ لاحق ہوجائے اور ان اشیاء پر زد آنے کا یقین ہو جائے۔ اسلام نے ان کی حفاظت کا بھرپور انتظام کیا ہے۔ لا اکراہ فی الدین کہہ کر غیر مسلموں کے مذہب کو تحفظ دیا گیا ہے اور اسلام کو خطرات پیش آنے کی صورت میں جہاد کو فرض قرار دیا ہے اور دین کی تبلیغ واشاعت حکومت اور عوام دونوں کی ذمہ داری قراردی گئی ہے۔ قصاص اور دیت کا قانون لاگو کرکے جان کی حفاظت یقینی بنائی گئی اور کسی کے ناحق جان لینے کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا۔ آبرو کی حفاظت کا بندوبست حدقذف اور حدزنا کی شکل میں کیا گیا۔ مال کی حفاظت کا بندوبست نکاح رجم اور کوڑوں  کی سزاکی شکل میں کیا گیا۔ اس طرح ماحول کو آلودہ کرنے والی چیزوں کو سختی سے روکا گیا ہے۔ ۴۸؎

ماحول اور فرض کی ادائیگی:

 معاشرہ کے اندر ماحول کو سازگار بنانے کے لیے اسلام نے حقوق و فرائض کی ادائیگی پر زور دیا ہے۔ انسان آپس میں ایکدوسرے پر انحصار رکھے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ ان کے درمیان رشتے ناطے ہوتے ہیں۔ لین دین ہوتا ہے۔ اس لئے معاشرے کے تمام افراد کو حقوق و فرائض کی زنجیر میں مضبوطی کے ساتھ کس دیا گیا۔ اسلام نے زیادہ زور فرض کی ادائیگی پر دیا۔۴۹؎  یہ اسلئے کہ فرض ادا ہوتا ہے تو حق خود بخود ادا ہوتا ہے۔ فرض کی ادا ئیگی جس کے ساتھ ہوتی ہے۔ اس قدر حسن کے ساتھ دوسرے کو حقوق ملتے ہیں۔ فرض کی ادائیگی عمل کا نام ہے اور حق اس عمل کے رد عمل یا ثمرہ کا نام ہے۔ پھر فرض ادا کرنا  یا عمل کرنا یا حرکت کرنا زندگی کا نام ہے اور اسکے  برعکس فرض ادانہ کرنا کام نہ کرنا یا ساکن رہنا موت کی علامت ہے۔ اسلام معاشرے کے اندر موت و  جمود نہیں بلکہ زندگی اور حرکت چاہتا ہے۔ اس لئے اسلام نے حقوق کی ادائیگی پر بہت زور دیا بالخصوص حقوق العباد کی اہمیت پر بہت زیادہ تاکید کی گئی۔ فرض کی ادائیگی اور حقوق کا ملنا ایک خوشگوار صاف پاکیزہ اور پر امن و پر سکون ماحول کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اسلئے اسلام نے ہر آدمی کے فرائض اور حقوق متعین کئے ہیں اور ان کی ادائیگی پر زوردیا ہے۔

 اسلام نے بعض حقوق کی حفاظت قانون کے ذریعے کی ہے اور بعض کو لوگوں کے شعور اور ذمہ داری کے احساس پرچھوڑا ہے۔ بعض حقوق کی پشت پر قانون ہے اور بعض کی پشت پر اخلاق قانون اور اخلاق ایک دوسرے کے لیے لازم و طزوم ہیں۔ قانون کی پشت پر اخلاقی قوت نہ ہو تو قانون کا کردار بہت محدود ہوتا ہے۔ قانون کے دائرہ کار میں بہت  کم معاملات آتے ہیں۔ اکثر معاملات اخلاق کے دائرہکار میں آتے ہیں۔ اگر معاشرے کے افراد اخلاقی قوت کے مالک نہ ہوں۔ ان کے دل میں اللہ کے خوف او ر تقوی نہ ہو اور ان کے دل کی دنیا آباد نہ ہو، ضمیر زندہ نہ ہوتو قانونی تحفظ کے نتائج بہت کم مثبت نکلتے ہیں۔ اسلئے اسلام نے قانونی تحفظ کے ساتھ ساتھ انسان کے اندرونی کیفیت یعنی اخلاقی قوت کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔ قرآن اور سیرت کی کتابیں اخلاقی تعلیمات سے بھری پڑی ہیں۔ صرف اخلاق قوت زندہ  ضمیر تقوی شعور اور احساس ذمیداری زیادہ تر معاملات کو بطریق احسن سلجھا نے میں مدد دیتے ہیں۔ انہی امور کی تربیت سے ماحول پاکیزہ و صاف  ہوجاتا ہے اور معاشرتی آلودگی اختتام پزیر ہوتا ہے۔ ۵۰؎

ماحول اور اختلاف رائے:

 جہاں تک ماحول اور اختلاف رائے کا تعلق ہے یا مسلکی اور مذہبی آلودگی کا تعلق ہے۔ مسلمانوں کے لیے یہ ضروری قرار دیا گیا ہے کہ وہ قرآن و سنت کا مطالعہ کریں ان کو سمجھیں اور ان کی تعلیمات کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی گزاریں۔ انسان کی پوری زندگی اور اس سے متعلق تمام نظاموں کا مرکزی نقطہ قرآن و سنت ہونا چاہئے۔

  قرآن و سنت  کی تعلیمات کی رہنمائی کے بغیر زندگی کا ہر نظام اور ہر پہلو ناقص اور بیمار رہتا ہے۔ اسلئے انکو قرآن و سنت کاتابع کرکے صحت مند بنایا ہے اور وننزل من القرآن ماھوشفاء۔ کا یہی مقصد ہے۔ ایسا کرنے سے وہ نتائج پیدا ہوں گے جو ایک صحیح تندرست اور صحت مند نظام پیدا کرتا ہے

 قرآن وسنت کا ہر مسلمان سے یہ مطالبہ ہے وہ ایمان لائے اور اسلام پر عمل پیرارہے۔ اوران دونوں کے بارے میں کسی قسم کی سودابازی نہ کرے۔ قرآن و سنت کو ایک بالاوست حیثیت سے تسلیم کرے۔ درحقیقت اسلام کے بنیادی مآخذ قرآن وسنت ہیں جوبھی مسئلہ درپیش ہو اسکو پہلے قرآنی احکام کی روشنی میں حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ اگرقرآن میں نہ ملے توسنت کی طرف رجوع کیا جائے۔ ایسا کرنے میں کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ اختلاف رائے کی نوبت اسوقت آتی ہے جب قرآن و سنت سے مسئلے کا حل حاصل نہ ہو۔

 بہر حال یہ بات مسلم ہے کہ قرآن وسنت، اجماع صحابہ قانون کے بنیادی مآخذ ہیں۔ اگر کسی مسئلے کاحل ان تینوں میں مل سکتا ہے تو پھر اجتہاد کی ضرورت نہیں رہتی۔ اجتہاد کی ضرورت اسوقت پیش آتی ہے جب ان تینوں میں سے کسی ایک میں بھی مسئلے کا حل نہ مل سکے۔ پھر پیش آمدہ مسئلے کا حل اجتہاد کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔ ۵۱؎

مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں نے دین کو چار مکاتب فکر میں محصور کر دیا جسکے لیے ان کے پاس کوئی ٹھوس اور وزنی دلیل نہیں ہے۔ یہ درحقیقت اجتہاد کے عمل کو محددود کرنا ہے۔ جسکو شریعت نے آزاد چھوڑا ہے۔ دین کو چار مکاتب فکر میں محصور کرنا در حقیقت اسلام کے بحیثیت ابدی نظام ہونے کو چیلنج کرنا ہے۔

  اسلئے دنیا میں موجودہ مختلف مکاتب فکر کے علماء  سے درخواست ہے کہ قرآن و سنت کا بحیثیت مآخذ قانون (شریعت) تسلیم کرنے میں کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ اجماع صحابہ پر بھی اکثریت کا اتفاق ہے۔اختلاف رائے  کی اجازت صرف فردعی مسائل میں ہے۔ جس کا حق ہر مکتب فکر کے علماء کو حاصل ہے۔ پھر اجتہادی اور اختلافی امور میں مجتہد کی رائے درست مانی جاتی ہے اگر مجتہد کا اجتہاد درست نہ بھی ہو تووہ  سباب کا مستحق ٹھہرتا ہے۔

  لہذا فروعی مسائل میں  ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہئے چہ جائیکہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالا جائے۔ اس طرز فکر سے دنیا میں ایک پر امن اور خوشگوار مذہبی ماحول پیدا کرسکتے ہیں اور مذہبی تعصب اور انتشار افتراق جیسے خطرناک آلودگیوں سے ملک وملت کو بچاسکتے ہیں۔

مراجع و مصادر

۱۔      المعجم الوجیز مجمع اللغتہ العربیہ ط: ۱۹۸۰ء، قاہرہ، مصر،ص ۶۶، حرف ’’باء‘‘۔

۲۔      ایضاً۔

۳۔      مراد، برکات  محمد الاسلام والبیئہ ط ا: ۲۰۰۳ء دارالقاہرۃ، مصر، ص ۱۴۔

۴۔      "Qazi, Saeedullah, Environment and Islam. Dawah Academy, International Islamic, University Islamabad p.1

۵۔      See. "Man Does not Stand Alone”. P. 123

۶۔      بحوالہ مذہب اور جدید چیلنج۔ وحید الدین، دارالتذکیر (س۔ن)، ص: ۲۰۷

۷۔      John F. Haught: "Science & Religion”. P. 189.

۸۔      I.G. Simmons, "Interpreting Natural”, "Cultural Construction of the Environment London & York, Routledge, 1993), P. 1333.

۹۔      John. F. Haught, "Science & Religion”, P. 187.

۱۰۔    مسلم بن الحجاج بن مسلم القشیری :الجامع الصحیح مسلم،دارالسلام للنشر والتوضیح، الریاض،الطبعہ الاولیٰ 1999، کتاب الطہارت، باب النھی عن البول فی الماء  الراکد۔

۱۱۔    ایضاً،کتاب الوضو، باب کراہیۃ غمس المتواضی وغیرہ ید المشکوک فی نجاستھا فی الاناء قبل غسلھا ثلاثا

۱۲۔    بخاری محمد بن اسماعیل ابو عبداللہ،الجامع الصحیح بخاری، دارالسلام للنشر والتوضیح، الریاض،الطبعہ الثانی 1999،کتاب الاشربہ، باب الشرب من فم السقاء۔

۱۳۔    ابنِ ماجہ محمد بن یزید،سنن ابن ماجہ،دارالسلام للنشروالتوضیح، الریاض،الطبعہ الاولیٰ 1999،کتاب الطھارت  و سننھا، با ب ما جاء  فی القصد فی الوضوء  و کراہیۃ التعدی فیہ۔

۱۴۔    ابوداؤدسلیمان بن اشعث سجستانی:سنن ابوداؤد، دارالسلام للنشروالتوضیح، الریاض،الطبعہ الاولیٰ 1999،کتاب البیوع، باب فی منع الماء۔

۱۵۔    الصحیح البخاری، کتاب الحیل، باب ما یکرہ من الاحتیال فی البیوع ولا یمنع فضل الماء لیمنع بہ فضل الکلا۔

۱۶۔    ایضاً، کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ وجوہ یومئذناضرۃ الیٰ ربھانا ظرۃ

 ۱۷۔   ابوبکر الجصاص احمد بن علی الرازی، احکام القرآن،دار احیاء التراث العربی، البیروت، 1997،ج۔1،ص۔78

۱۸۔    الصحیح البخاری، کتاب الحرث و المزارعۃ، باب فضل الزرع والغرس اذااکل منہ۔

۱۹۔    ترمذی محمد بن عیسیٰ:جامع ترمذی، دارالسلام للنشروالتوضیح، الریاض،الطبعہ الاولی 1999،کتاب الاحکام عن الرسول، باب ماجاء  فی فضل الغرس۔

۲۰۔    امام مالک،مؤطا امام مالک،کتاب الجہاد،مؤسسۃ زاید بن سلطان آل نہیان،الطبعۃ:الاولی۱۴۲۵ھ، ج۔۳،ص۔۶۳۶۔

۲۱۔    جامع ترمذی،کتاب البیوع،باب ما جاء فی الرخصۃ فی اکل الثمار بھا۔

۲۲۔    نسائی ابو عبدالرحمٰن:سنن نسائی، دارالسلام للنشر والتوضیح، الریاض،الطبعہ الاولی ۱۹۹۹،کتاب الجنائز، باب استراحۃالمومن۔

۲۳۔    ابوداؤدسلیمان بن اشعث سجستانی:سنن ابوداؤد، دارالسلام للنشروالتوضیح، الریاض،الطبعہ الاولی ۱۹۹۹،کتاب الادب، باب فی قطع السدر۔

۲۴    جامع ترمذی،کتاب البر والصلہ، باب ما جاء  فی رحمۃ الناس۔

۲۵۔    الصحیح البخاری، کتاب الانبیاء، باب حدیث الغار۔

۲۶۔    سنن ابو داؤد،کتاب الادب، باب فی قتل الذر۔

۲۷۔    ایضاً،کتاب الادب، باب   ما جا فی الدیک و البھائم۔

۲۸۔    پروفیسر محمد یوسف خان،اسلام میں حیوانات کے احکامات، بیت العوام، لاہور،ص۔۹۰

۲۹۔    احمد بن حنبل؛مسند الاحمد بن حنبل،مؤسسۃ قرطبہ،القاہرہ،مسند عبداللہ بن عمر بن خطاب،ج۔۲،ص۔۱۰۸

۳۰۔    ابن خزیمہ محمد بن اسحاق؛صحیح ابن خزیمہ،المکتب السلامی بیروت،۱۳۹۰ھ،باب الزجر عن رکوب الجلالۃ من الدواب المرکوبۃ۔

۳۱۔    سنن ابوداؤد، کتاب الادب، باب فی قتل الضفدع۔

۳۲۔    البیھقی احمد بن الحسین؛ سنن البیھقی الکبریٰ؛ مکتبہ دار الباز، مکہ المکرمہ۱۴۱۴ھ، باب تحریم قتل مالہ روح الابأن یذبح فیوٗکل۔

۳۳۔ سنن ابوداؤد، کتاب الادب، باب فی قتل الذر۔

۳۴۔    سنن ابوداؤد، کتاب الصلوٰۃ، باب فی رفع الصوت بالقرأۃ فی الصلوٰۃ۔

۳۵۔    سنن ابوداؤد، کتاب الوتر، باب استغفار۔

۳۶۔    سنن ابوداؤد، کتاب الصلوٰۃ،باب رفع الصوت بالقراٰ ۃ فی صلا ۃ الیل۔

۳۷۔    بخاری‘ کتاب الادب۔

۳۸۔    سنن ابو داؤدٗ کتاب الادب باب النصیحتہ والحیاطۃ۔

۳۹۔    مسند احمد‘ ۳؍۴۶۶

۴۰۔    بخاری‘ کتاب الرقاق‘باب ھذاالمال خٖضرۃ حلوۃٗ۔

۴۱۔    سنن ابن ماجہ‘ ابواب رھون‘ باب اجراالا جراء۔

۴۲۔    بخاری‘ کتاب العلم‘ باب الاغتباط فی العلم۔

۴۳۔    مسند احمد ا؍۴۴۷

۴۴۔    بخاری‘ کتاب المناقب‘ باب علامات النبوۃ فی الاسلام۔

۴۵۔    مسلم‘ کتاب الاشربتہ حدیث نمبر ۷۲ تا ۷۵۔

۴۶۔    مسلم‘ کتاب الایمان‘باب بیان شعب الایمان۔

۴۷۔    سنن ابن ماجہ‘ کتاب الطھارۃٗ باب النبی عن الخلاء۔

۴۸۔    بخاری‘ کتاب الاستیذان باب بدء السلام۔

۴۹۔    مسلم‘ کتاب الامارۃٗ باب الامربیعۃ الخلفاء الاول فاالادل۔

۵۰۔    ڈاکٹر سعید اللہ قاضی: اسلام اور جدید ذھن کے مسائل۔

۵۱۔    مسلم‘ کتاب النکاح‘ فضل الاحسان علی البنات۔

تبصرے بند ہیں۔