موجودہ حالات اور یہودیوں کا ایمان و یقین

 وقاص چودھری

کولمبس نے جس  نئی دنیا ’امریکا‘ کا راستہ سپین میں آباد اقوام کو دکھایا اس نے جدید دنیا میں ظلم، قتل وغارت، لوٹ مار اور اجتماعی نسل کشی کی ایک تارٰیخ رقم کر دی۔

15 مارچ 1493ء کو جب وہ واپس سپین پہنچا تو اس کے پاس امریکا میں بسنے والے ریڈ انڈینز کے بارے میں معلمومات کا ایک خزانہ تھا۔ اس کے روزنامچے میں درج معلومات ریڈانڈینز کی سادہ لوحی، نفاست، انسانی اقدار اور حسن معاشرت پرمبنی معاشرے کی نشاندہی کرتی تھی۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں ذاتی ملکیت نہ ہو، تمام وسائل پوری بستی کے تصرف میں ہوں، انہیں نہ ہتھیاروں کا علم تھا اور نہ وہ لڑائی سے آشنا تھے۔

یہودی سرمایہ کاروں کی محنت راس آئی اورچارخونی چاند چاندوں کی پیشگوئی پرکامل یقین نے انہیں امریکا ہجرت کی طرف مائل کیا اوراس کے بعد اس براعظم کے دوسوسال مقامی آبادی کے قتل اوراجتماعی نسل کشی کی ایک داستان بیان کرتے ہیں۔ اجتماعی پھانسیاں، چھوٹے بچوں کوقتل کرکے ان کے گوشت کو کتوں کی خوراک بنانا، نوجوان عورتوں کوموت تک جنسی تشدد کا شکار کرنا، گھروں کوآگ لگانا، لوگوں کوقطار میں کھڑا کر کے تیراندازی کی مشق کرنا شامل تھا۔

سب وسائل پرجب قبضہ کرلیا گیا توامریکا معاشی دنیا میں ایک طاقت بن کر ابھرنے لگا اوراس کی معیشیت کی ڈوریں سپین اور یورپ سے ہجرت کرکے آنے والے یہودیوں کے ہاتھ میں تھیں۔ تقریباً تین سوسال کے ظلم اورغلاموں کی تجارت کے بعد 1830ء میں امریکی برآمدات 72 ملین ڈالر تک جا پہنچیں جو 1910ء تک آتے آتےَِ 2۔67 بلین ڈالر ہو گئیں۔ طاقتور یہودی سرمایہ دار، سائنسدان، صحافی اور ماہرین تعلیم امریکا اور یورپ کے معاشروں میں چھانے لگا۔

یہی زمانہ تھا جب 1896ء میں انہوں نے صیہونیت کی بنیاد رکھی اور وہ مشہور یاداشتیں تحریر کیں جنہیں پروٹوکول (Protocols) کہا جاتا ہے جس میں یورپ کے وہ تمام یہودی شامل تھے جو ان ملکوں میں کامیاب تو تھے، لیکن معاشرتی نفرت کا مسلسل سامنا کررہے تھے۔ کبھی اس شہرسے نکالے جاتے تو کبھی دوسرے سے۔

دو ہزار سال تک مسلسل عیسائیوں کے ہاتھوں ذلت اور ظلم کی زندگی گزارنے کے بعد یہ لوگ اکٹھے ہوئے کیونکہ اب انکے  ربی انہیں کہے رہے تھے کہ اگلے چارچاند گرہن 50۔1949 میں لگیں گے، ان سے پہلے یہودیوں پربہت بڑی آفتیں اور مصیبتیں نازل ہوں گی۔
اسی لیے انہوں نے پیش بندیاں شروع کیں۔ جن ملکوں میں یہ آباد تھے ان کے مفادات کے برعکس برطانیہ سے خود کومنسلک کرکے بالفور ڈیکلریشن کروایا جس میں اسرائیل کی سر زمین اور یروشلم میں دنیا بھر کے یہودیوں کی واپسی کو یقینی بنانے کا اپنے وقت کی عالمی طاقت برطانیہ نے اعلان کیا۔

اس کے بعد ہٹلر کے جرمنی سے لے کریورپ کے پولینڈ تک ان پر قیامتیں ٹوٹیں جنہیں وہ آج بھی ہالوکاسٹ کے نام سے یاد رکھتے ہیں۔ ان کے اندازے کے مطابق 60 لاکھ یہودی بدترین تشدد سے قتل کیے گئے، لیکن اس آفت کے بعد ان کی پیش گوئیوں کے مطابق انہیں فتح کی صورت میں 14 مئی 1948ء کوایک وطن ملا جسے اسرائیل کہتے ہیں جہاں وہ 1920ء سے آہستہ آہستہ آباد ہونا شروع ہو گئے تھے۔

عربوں نے مل کر 1948ء میں ان کے خلاف جنگ شروع کی۔ اس جنگ میں پانچ عرب ممالک شامل تھے۔ اسرائیل کے پاس ایک منظم فوج بھی نہ تھی، مگرچونکہ وہ کئی سالوں سے اس کی تیاریوں میں مصروف تھے اس لیے وہ یہ جنگ جیت گئے اورسات لاکھ فلسطینی بے گھرکردیے گئے اورانہوں نے اتنے ہی یہودیوں کودنیا بھرسے لاکروہاں آبادکیا۔ دنیا بھرکے یہودیوں کا ایمان اور یقین مزید مستحکم ہو گیا کہ چار چاند گرہن ان کے لیے پہلے آفت و تباہی لاتے ہیں جن میں فتح و کامیابی چھپی ہوتی ہے۔ اب وہ اگلے چار چاند گرہنوں کا انتظار کرنے لگے جو ان کے مقدس ایام میں 68۔1967ء میں لگنا تھے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ یہودیوں کی یروشلم سے بے دخلی تو تاریخ کا حصہ ہے جو تینوں مذہبی کتابوں تورات، انجیل اور قرآن میں مختلف حوالوں سے مذکور ہے، لیکن اس بےدخلی اور دربدری کے بعد یروشلم میں واپسی کا ذکر بھی ان تینوں کتابوں میں ملتا ہے۔ دوہزارسال سے یہودی دن میں تین دفعہ یروشلم کی طرف منہ کر کے عبادت کرتے ہیں اور یروشلم کی آبادی اور ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی دعا کرتے چلے آرہے ہیں۔ اس دعا میں وہ اپنے مسیحا کی مدد بھی طلب کرتے ہیں۔ ان کی کتابیں کہتی ہیں کہ آخری زمانوں میں چار خونی چاند تیزی سے لگیں گے اور پھر دنیا میں ان کا اقتدار قائم ہو جائے گا۔

50۔1949ء کے چاند گرہنوں اور اگلے آنے والے چاند گرہنوں (68۔1967ء) میں صرف 15 سال کا وقفہ تھا، لیکن ان پندرہ سالوں میں یہودیوں نے خود کو اس آفت سے بچانے کی پوری تدابیر کیں تاکہ وہ آنے والی بشارت کو صرف اور صرف فتح میں بدل سکیں۔

7 جون 1967ء کو اردن، شام اور مصر کے ساتھ اسرائیل کی جنگ کا آغاز عرب ممالک نے کیا اور ابتدائی طور پر فتح کی طرف ان کے قدم بڑھ گئے، لیکن آخرکار اسرائیل نے انہیں ذلت آمیز شکست دے کر دو ہزار سال بعد یروشلم پر اقتدار قائم کر لیا۔ ایسا پہلی دفعہ ہوا کہ یہودی جس خوفناک آفت کا انتظارکر رہے تھے وہ بہت کم ہوئی اور بدھ 7 جون 1967ء کوصبح سے لے کر گیارہ بجے دوپہر تک یروشلم فتح کرتے ہوئے وہ دیوار_ِگریہ پر جا پہنچے۔

اب انہیں صرف اورصرف 2014ء اور2015ء کولگنے والے چارخونی چاندوں کا انتظارتھا۔ ایک وسیع مواد جمع کیا گیا۔ تمام ربی اورقبالہ ک صوفی سرجوڑکربیٹھے کہ یہ چارخونی چاند ان کوتاریخ کے آخری معرکے میں لے جائیں گے۔ ان کی اس تحقیق اور یقین و ایمان نے امریکا کی عیسائیت کو بھی متاثر کیا اور امریکا میں عیسائیوں نے عرق ریزی کے ساتھ سوچنا شروع کیا کہ لگتا ہے کہ دنیا کا آخر یعنی End of Times کا مرحلہ آن پہنچا ہے۔

عیسائیوں کے ہاں دجال یعنی Antichrist کی گفتگو نے زور پکڑا اور ایک عیسائی گروہ جس کی امریکا میں خاصی اکثریت ہے یعنی ایونجیلیکل میں اس کی مشہور شخصیت بلی گراہم ہے کہ جس نے ایک زمانے کو اپنی تقریروں سے متاثر کیا ہے۔
ان کا عقیدہ ہے کہ چونکہ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ کو نہیں مانا تھا، اس لیے عذاب کا شکار ہوئے اور اب انہیں یروشلم میں اکٹھا

کرکے اللہ ایک اور موقع دے گا کہ جب وہ ہیکل سلیمانی تعمیرکر لیں گے اور ایک عالمی حکومت بنا لیں گے تو پھر حضرت عیسیٰ اس دنیا میں نازل ہوں گے اور اگر یہودیوں نے نہ مانا تو انہیں نیست و نابود کر دیں گے۔

یہ طبقہ امریکا کے عیسائیوں کا قائل کرچکا ہے کہ جلدازجلد اسرائیل کی بالادستی مشرق وسطیٰ میں قائم کرو، ہیکل سلیمانی کی تعمیر میں مدد دو تاکہ حضرت عیسیٰ زمین پر واپس آ سکیں۔اس لیے سخت گیر عیسائیوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کوجوق در جوق ووٹ دیے تاکہ وہ یروشلم پر یہودی اقتدار قائم کروائے۔

ٹرمپ کا نائب صدر مائیک پینس ایک ایونجیلسٹ ہے اوروہ بلی گراہم کے بنائے ہوئے اس قانون پرسختی سے عمل کرتا ہے کہ کسی مرد کو کسی عورت سے اکیلے میں نہیں ملنا چاہیے۔ اس نے اعلان کیا کہ اس نے آج تک کسی عورت کے ساتھ کھانا نہیں کھایا سوائے اپنی بیوی کیرن کے۔ اس پوری صورتحال میں ٹرمپ کا امریکی سفارتخاے کو یروشلم میں منتقل کرنے کا فیصلہ حیران کن نہیں لگتا، لیکن اس کے بالکل برعکس یہودی ’’چارخون چاند‘‘ کے موسم کوذہن میں رکھتے ہوئے گزشتہ تیس سال سے صرف ایک کام میں مصروف تھے کہ انہیں ان پیشگوئیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مسیحا کی آمد سے پہلے اسرائیل کو ایک ایسی فوجی اور اقتصادی قوت میں تبدیل کرنا ہے جو مسیحا کی جنگ میں اس کی دست و بازو بن سکے۔

30؍ مارچ 2017ء کواسرائیل کی دفاعی پیداوارکے ڈائریکٹر برگیڈیئر مائیکل بن باروچ نے فخریہ طور پر کہا کہ 2016ء میں ہم ساڑھے چھ ارب ڈالرکا اسلحہ بیچ کر دنیا کا اسلحہ برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک بن چکے ہیں۔ 1985ء سے لے کراب تک دنیا میں جتنے ڈرون فروخت ہوئے۔ ان دونوں معاملات میں امریکا اسرائیل سے بہت پیچھے چلا گیا ہے۔

1967ء میں جنگ جیتنے کے بعد تمام بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مرکزی دفاترکا ایک سب دفتراسرائیل میں قائم ہوچکا ہے اورتمام کمپیوٹر ٹیکنالوجی تل ابیب کی سیلیکان وادی میں منتقل ہوچکی ہے اب صرف یہودی بینکاروں نے ایک اعلان کرنا ہے کہ ایک کلومیٹرکے علاقے پرمشتمل وال سٹریٹ کے بینک ہیڈکوارٹر اسرائیل منتقل ہو جائیں تو صرف وہاں کمپیوٹر کھلنے کی دیر سے جتنے وقت میں دنیا کا معاشی دارلحکومت نیویارک سے منتقل ہو کر یروشلم منتقل ہو جائے گا۔

یہ سب یہودیوں نے اس ایمان اوریقین کی دولت سے حاصل کیا ہے کہ ان سے وعدہ کیا گیا ہے کہ ایک دن ان کا مسیحا آئے گا اورانہیں حضرت داؤد علیہ السلام اورحضرت سلیمان علیہ السلام والی حکومت دوبارہ مل جائے گی۔ وہ اسرائیل میں بشارتوں کے تحت ایک جنگ کے لیے جمع ہیں اورجنگ بھی مسلمانوں کے ساتھ۔

وہاں اگرکوئی صلح کی بات کرے تواس کا انجام بھی موت ہے جو 4 نومبر 1995ء کواسرائیلی وزیراعظم اسحاق رابین کا مقدربنی، جس نے امن کا اوسلومعاہدہ کیا تھا۔موت اورصرف موت، ایک شدت پسند یہودی کے ہاتھوں موت۔ کیا مسلمان یہودی شدت پسندوں کا مقابلہ امن کے گیتوں سے کرسکیں گے۔

تبصرے بند ہیں۔