ایک تھی زینب!

شیخ خالد زاہد

ملکوں اور قوموں کی ترقی کی مختلف وجوہات ہونگی، جس میں کچھ بنیادی وجوہات میں سے ایک توان ممالک کے حکمران اپنے اقتدار کیلئے بہت واضح اور جامع حکمت عملی اپنی عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں، وہ حکمت عملی جووقت کی ضرورت ہوا کرتی ہے اور دوسری اور اہم ترین وجہ یہ کہ بہت غور و خوض کے بعد کئے جانے والے اقدامات اور ان پر استقامت، ثابت قدمی اور اسکے نتیجے میں پیدا ہونے والے استحکام میں پوشیدہ ہے۔ اب آپ غور کیجئے کہ ہمارے ملک میں حادثات و سانحات کا تو تسلسل ہوتا ہے مگر کسی بھی حکومت کی نا تو کوئی جامع حکمت عملی ہوتی ہے اور نا ہی اس حکمت عملی پر دیر پا و مستحکم اقدامات ہوتے ہیں۔ وقتی طور پر عوام کو دیکھانے کیلئے تو کچھ بھی ہوجاتا ہے مگر کل وقتی کوئی اقدام نہیں ہوپاتا۔ ہم، ہمارے حکمران جذباتی ہیں اور سال ہا سال سے جذبات کے سمندر میں غوطہ زن ہیں، اس سمندر کی لہریں ہمارے وقت کا تعین کرتی ہیں۔

ہم پاکستانی بدلتے ہوئے وقت کیساتھ اپنا مزاج بدلتے چلے جاتے ہیں یعنی ابھی کسی ایک رونما ہونے والے واقع کو کسی منتقی انجام پر پہنچا نہیں پاتے کہ کوئی دوسرا واقع ہمیں اپنی طرف متوجہ کرلیتا ہے اور ہم پچھلے واقع کو وہیں چھوڑ کر بلکہ یہ کہوں کے بیچ سڑک پر چھوڑ کر دوسرے پر اپنی توجہ مرکوز کرلیتے ہیں اور اسی طرح تیسرا واقع اور پھر چوتھا واقع۔ اس ساری صورتحال کے عادی اور سب سے زیادہ مستفید ہونے والے ہمارے حکمران ہوتے ہیں جو اس بات کی قطعی کوئی فکر نہیں کرتے کہ کیا ہوا ہے اور کیا ہو رہا ہے انہیں صرف اور صرف اپنی کرسی کی فکر ہوتی ہے اور وہ ہر واقع کو اس ہی تناظر میں لیتے ہوئے اپنے سیاسی داوٗپیچ کیلئے استعمال کرتے دیکھائی دیتے ہیں۔ مشکلات اور مصائب صرف اور صرف ہم عوام کے مقدر میں لکھ دئے گئے ہیں۔

ہماری اس تذبذب اور گوناگوں کی کیفیت سے تقریباساری دنیا ہی واقف ہے مگر ہم خود ہی ناواقف ہیں (جانے نا جانے گل ہی نا جانے گلشن تو سارا جانے ہے)۔ اس بات کی گواہی یہ ہے کہ ہمیں کبھی لسانیت کی لڑائی میں لگادیا جاتا ہے، کبھی فرقوں میں بانٹ دیتے ہیں، کبھی دہشت گردی میں گھسیٹ لیتے ہیں، کبھی مشال خان کو بربریت کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے اور پوری قوم مشال خان کو انصاف دلانے نکل پڑتی ہے، کبھی سرحدوں پر مشکلات کھڑی کردی جاتی ہیں، تو کبھی بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والا گروہ سامنے لایا جاتا ہے، کبھی مذہبی منافرت بڑھانے کیلئے آسیہ کو لایا جاتا ہے اور سلمان تاثیر کو مروایا جاتا ہے، کبھی افغانستان کو دھمکیوں کا جواب دینا پڑتا ہے تو کبھی امریکی صدر کیلئے مذاق بن جاتے ہیں، کبھی دھرنے دیئے جاتے ہیں اور پوری قوم کو اس میں لگالیا جاتا ہے، کبھی کراچی کو یرغمال بنایا جاتا ہے، پھر ایک زینب کے نام کو روندہ جاتا ہے اور اس معصوم کے قتل پر واویلہ مچایا جاتا ہے۔دنیا توہمیں ریوڑ اور ہجوم کے نام سے جانتی ہے ہم قوم کب کب ہوئے ہیں جب جب ہم پر کسی قسم کی آفت آئی یا پھر کسی نے ہم پر تسلط کی کوشش کی۔ مذکورہ چند ایسے چیدہ چیدہ واقعات ہیں جن پر قوم نے اپنی پوری قوت کے ساتھ اٹھ کر کھڑے ہونے کا اور قوم ہونے کا بھرپور تاثر پیش کیا مگر دشمن کو یہ تو ہونے ہی نہیں دینا، پھر ایسے ہی واقعات کا نیا چکر۔

یہ بات ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ ہم آج تک کسی مجرم کو اسکے کیفر کردار تک کیوں نہیں پہنچا سکے، کیوں ہمارے تھانے غریبوں کیلئے عقوبت خانے بن جاتے ہیں جن کے باہر لکھا ہوتا ہے دار الامان، کیوں ہمارے حکمران یا سیاستدان عوام کے درمیان نہیں رہ سکتے، آخر کب تک یہ لوگ یونہی بغیر محنت و مشقت کے ہمارے ملک کے امراء میں شمار ہوتے رہینگے۔ آخر کب تک ہم اپنی بے بسی کی بھینٹ کبھی کبھی کسی کو تو کبھی کسی کو چڑھاتے رہینگے، ہم کب تک یونہی خودکشیاں کرتے رہینگے۔ یہی حکمران جو قانون بناتے ہیں، اگر انکا بنایا ہوا قانون ان کو سزا وار ٹہرا دے تو یہ اس قانون کی دھجیاں اڑاتے پھرتے ہیں اور کوئی ان سے پوچھنے تک کا اہل نہیں ہوتا ہم لوگ جیل سے آنے والوں کو جو اپنے کسی بھی قسم کی سزا بھگت کر آیا ہو اس طرح خوش آمدید کہتے ہیں نئی نسل پھر ان کاموں میں مصروف ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے جیل جایا جاتا ہے۔ دنیا میں لوگ بدعنوانی کر کے بدعنوان کہلوانے سے پہلے خودکشی کر لیتے ہیں ہمارے یہاں تو بدعنوان خودکشیاں کروادیتے ہیں۔

یوں تو معلوم نہیں کتنے ہی معصوم بچے اس غلاظت میں لتھڑے ہونگے مگر معصوم زینب ایک تحریک بن کر ابھرنے والی ہے۔ اب جذباتیت اور حقیقت بہت کم فرق باقی بچا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ زینب کی آہ و فغاں اور اس معصوم کا خون کیا رنگ لانے والا ہے یا پھر یہ بھی بے شمار بنتی بھول بھلیاں میں گم ہوجانے والا ایک واقع ہوگا جس پر تاریخ سینہ کوبی کرتی دیکھائی وسنائی دے گی اور بھیڑ اور ریوڑ کی دستانوں میں ایک نئی داستان رقم کرکے چھوڑدی جائے گی جسے ایک تھی زینب کے نام سے یادرکھا جائے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    قصور میں درندگی کا شکار ہوکر جان سے جانے والی سات سالہ معصوم زینب کا واقعہ کوئی پہلا واقعہ نہیں. اِسی قصور شہر میں صرف ایک برس میں پیش آنے والا یہ دسواں واقعہ ہے. جبکہ پورے پاکستان میں اس طرح کے واقعات مسلسل ایک تواتر کے ساتھ پیش آتے رہے ہیں جن میں معصوم بچے بچیوں کو حیوانیت کا نشانہ بناکر قتل کردیا جاتا ہے. پاکستانی رپورٹس کےمطابق صرف سن2016 کےاعدادوشمارسےپتہ چلتاہےکہ سو بچے اس درندگی کا نشانہ بناکر قتل کردیے گئے تھے.
    اصل سوال یہ ہے کہ اس طرح کے کتنے سفاک مجرم پکڑے گئے اور کتنوں کو سزائے موت دی گئی؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس طرح کے اکثر مجرم پکڑے نہیں جاتے، پکڑے جاتے ہیں تو ان کو سزا نہیں ملتی، سزا ملتی ہے تو اس پر عمل نہیں ہوتا. لوگوں سے ایسے واقعات کے متعلق پوچھا جائے تو دوچار واقعات سب ہی سنادیں گے. لیکن یہ کوئی نہیں بتاسکے گا کہ ایسے کسی مجرم کو کبھی سزا دینے کا واقعہ میڈیا میں ایسے ہی رپورٹ ہوا ہو جیسے جرم رپورٹ ہوتا ہے.
    اگر صورت حال یہ ہے تو پھر دل تھام کر سنیے کہ یہ واقعہ آخری واقعہ نہیں ہے. جس معاشرے میں تربیت کے ادارے تباہ ہوچکے ہوں، فحش فلمیں ہر عام آدمی کی پہنچ میں ہوں، قانون صرف چیف جسٹس، سیاسی حکمرانوں اور آرمی چیف کی مداخلت کے بعد حرکت میں آتا ہو وہاں کوئی زینب آخری زینب نہیں ہوسکتی. اگر اس صورت حال کو بدلنا ہے تو چند امور کے بارے میں پوری قوم کی سوچ کو بدلنا ہوگا.
    سردست برصغیرہندوپاک کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کےلوگ صرف کرنٹ افئیر میں جیتے ہیں. سوشل اور الیکٹرونک میڈیا جس معاملے پر شور مچادے گا، دو دن کے لیے سب اس میں لگ جاتے ہیں. پھر رات گئی بات گئی. دو دن بعد کوئی اور معاملہ اٹھے گا اوردانش ور,شعراوادبا اسی پر لکھ رہے ہوں گے اور پوری قوم کو اسی کا غم کھایا جارہا ہوگا.
    ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اس طرح قوموں کی تعمیر ہوتی ہے اور نہ ان کے حقیقی مسائل اس طرح حل ہوتے ہیں. مثلاً اسی جنسی حیوانیت کے واقعے کو لے لیجئے. اس طرح کے مسائل کے حل کے مستقل مداوہ کے لیے کچھ لوگوں کو ساری زندگی کچھ کاموں کے لیے وقف کرنا ہوگا.
    کچھ لوگوں کو یہ طے کرنا ہوگا کہ وہ عدالتی نظام کو اوپر سے نیچے تک تبدیل کرانے کا عزم کریں گے. وہ ساری زندگی اسی جدوجہد میں لگادیں گے کہ عدالتی نظام میں وہ تبدیلیاں لائی جائیں جن کے بعد کسی چیف جسٹس کی مداخلت کے بغیر ہی ہر مقدمے کا فیصلہ جلد از جلد ہونا ہمارے عدالتی نظام کی پہچان بن جائے. مجرموں کو سزا ملے اور بے گناہ باعزت بری ہو جائیں.
    کچھ لوگوں کو یہ طے کرنا ہوگا کہ پولیس کے نظام میں اصلاحات ان کی زندگی کاہدف ہو گی. وہ اس کے لیے ہر ممکن سیاسی اور سماجی دباؤ پیدا کرکے پولیس کے نظام کو کرپشن سے پاک کریں گے. سیاسی وابستگی اور رشوت کی بنیاد پر تقرری کے بجائے میرٹ پر پولیس کا نظام قائم ہوگا. تاکہ کوئی مجرم قانون کے شکنجے سے بھاگ سکے اور نہ کوئی بے گناہ اس کی زد میں آئے.
    کچھ لوگوں کو طے کرنا ہوگا کہ وہ معاشرے کی اخلاقی تربیت کو اپنا مسئلہ بنائیں گے. ان میں اعلیٰ اخلاقی اور انسانی اقدار کا ایسا شعور پیدا کریں گے کہ جرم وجود میں آنے سے قبل ہی مٹ جائے اور مجرم پیدا ہونے سے قبل ہی مر جائے.
    ظاہر ہے کہ ان میں سے ہر کام زندگی بھر کی جدوجہد چاہتا ہے. مگر آج بیس کروڑ کی آبادی والےپاکستان میں سے بیس بیس لوگ بھی یہ عزم کرلیں تو بیس برس بعد اس طرح کے واقعات ختم نہ بھی ہوں تب بھی بہت کم ہوچکے ہوں گے. یہ نہیں ہوا تو کرنٹ افئیرز میں جینے والی قوم بیس برس بعد بھی کسی نہ کسی ’’زینب‘‘ کا ماتم کررہی ہوگی.

تبصرے بند ہیں۔