جج بی ایچ لویا کی پُراسرار موت کا مقدمہ

عبدالعزیز

سی بی آئی کے سابق اسپیشل جج بی ایچ لویا کی دسمبر 2014ء میں اس وقت موت ہوئی جب سہراب الدین کے فرضی مڈبھیر   کے مقدمہ کی سماعت ان کے ذمہ تھی۔ اس کیس میں خاص ملزم امیت شاہ تھے جو اس وقت بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر ہیں ۔میڈیا میں ان کی موت کی وجہ دل کا دورہ بتائی گئی۔ اس وقت میڈیا نے بھی اسے کوئی اہمیت نہیں دی اورنہ چھان بین کرنے کی کوشش کی۔ جب جسٹس لویا کی ایک ڈاکٹر بہن نے اخبارات میں اپنا بیان دیا کہ ان کے بھائی کی فطری موت نہیں ہوئی بلکہ ان کا قتل کرایا گیا ہے تو پھر ان کے متعلق کچھ نئے سرے سے خبریں آنے لگیں ۔ ان کی بہن نے میڈیا کو بتایا کہ وہ ان کی صحت کی جانچ اکثر و بیشتر کرتی رہتی تھیں مگر ان کو دل کی کوئی بیماری نہ تھی۔ اس خبر کے بعد ’کارواں ‘ میگزین نے اپنی تحقیقی رپورٹ پیش کی جس کی وجہ سے جج جسٹس لویا کی پر اسرار موت کی خبر پھر سے تازہ ہوگئی۔

’این ڈی ٹی وی‘ کے رویش کمار نے اس پر تبصرہ کیا۔ خبر اسی طرح پھیلتی چلی گئی۔ کارواں کی تحقیق کے مطابق جج لویا کی موت صیغہ راز میں رکھی گئی۔ ان کو کوئی اجنبی آدمی اسپتال میں لے گیا۔ آج تک پتہ نہیں چلا کہ وہ کون آدمی تھا۔ ان کے خاندان کو خبر کئے بغیر ان کی لاش کا پوسٹ مارٹم کر دیا گیا۔ ان کے خاندان کے لوگ ناگپور اوربمبئی میں رہتے تھے۔ لاش نہ ناگپور کے گھر میں پہنچائی گئی اورنہ بمبئی میں ان کے کسی رشتہ دار کو سونپی گئی ۔ بغیر کسی پروٹوکول کے (نہ پولس اور نہ ڈی ایم) ان کی لاش کو ان کے گاؤں خاموشی سے پہنچا دی گئی۔ ان کے کپڑے اور چشمے پر خون تھا جو پوسٹ مارٹم کے ذریعہ نہیں ہوتا۔ اس سے ان کی بہن نے یہ نتیجہ نکالا کہ ضرور ان کے بھائی نے قاتل کے ساتھ مزاحمت کی ہوگی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ پر دستخط بھی کسی نامعلوم آدمی کا ہے۔

 گزشتہ جمعہ کے دن سپریم کورٹ کے چار سینئر ججوں نے جسٹس لویا کی پر اسرار موت کا بھی مسئلہ اٹھایا اور ساتھ ہی اسی خط میں بھی اس کا ذکر کیا جو خط دوماہ پہلے چیف جسٹس آف انڈیا دیپک مشرا کو دیا گیا تھا کہ جج بی ایچ لویا سی بی آئی کے اسپیشل جج تھے اور ان کی موت اس وقت واقع ہوئی جب ایک اہم مقدمہ کی سماعت کی ذمہ داری ان پر تھی۔ لہٰذا ایسے مقدمہ کو ایک جونیئر جسٹس کے حوالے نہیں کرنا چاہئے تھا۔ اسے سینئر ججوں کی بنچ کے سپرد کیا جانا چاہئے۔ بمبئی کے بی آر لون نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کی ہے جس میں درخواست کی گئی ہے کہ جسٹس لویا کے مقدمہ کی شنوائی بمبئی ہائی کورٹ میں ہونا چاہئے اور اس کی جانچ بڑے پیمانے پر کی جانی چاہئے۔ پہلے جو جانچ ہوئی ہے وہ تشویش کا باعث ہے۔ جب تک دوبارہ جانچ نہیں ہوتی ان کی موت پر جو پردہ پڑا ہوا ہے اس کا اٹھنا مشکل ہے۔ جج لویا کے بیٹے انجو لویا نے دو روز پہلے بیان دیا ہے کہ ان کے باپ کی موت فطری طور پر ہوئی ہے۔ اس کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش نہ کی جائے۔ جسٹس لویا کے بیٹے کے بیان کو بہت سے لوگوں نے کہا ہے کہ وہ کسی نہ کسی کے زیر اثر (Under Pressur) ہے؛ کیونکہ خاندان کے دوسرے لوگوں کا بیان بیٹے کے بیان سے بالکل مختلف ہے۔

 کانگریس کی طرف سے جو مطالبہ ہورہا ہے اس میں کافی وزن ہے۔ وہ مطالبہ ہے کہ معاملہ بہت سنگین اور اہم ہے، اس لئے کسی کے بیان سے متاثر ہوکر اس اہم معاملہ کی از سر نو جانچ کرانا ضروری ہے اور مقدمہ ایسی بنچ کے حوالے ہو جو سینئر جج ہوں۔ سپریم کورٹ کے چار ججوں کی پریس کانفرنس کی وجہ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جج لویا کی پر اسرار موت پر آسانی سے پردہ نہیں ڈالا جاسکتا۔ بمبئی کے وکلاء کی انجمن نے بھی اس خاص مقدمہ کو بمبئی ہائی کورٹ میں شنوائی کرنے کی اپیل کی ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دیپک مشرا پر چار سینئر ججوں نے کئی سنگین قسم کے الزامات عائد کئے ہیں ۔ جن میں سے ایک جج لویا کی موت یا قتل کے مقدمہ کو جونیئر جج کی سپردگی میں سماعت بھی ہے۔ چیف جسٹس دیپک مشرا نے ابھی تک منہ نہیں کھولا ہے کہ آخر وہ کیا کرنا چاہتے ہیں ۔ در پردہ حکومت کی جانبداری کا الزام ہے۔ حکومت بھی منہ بند کئے ہوئے ہے مگر اب معاملہ عوام کی عدالت میں پریس کانفرنس کی وجہ سے آچکا ہے۔

اس لئے جج جسٹس لویا کی موت پر جو پردہ پڑا ہوا تھا۔ وہ دیر یا سویر ضرور اٹھے گا۔ اس کیس میں امیت شاہ جیسے اہم آدمی کے علاوہ کئی پولس افسران کا بھی نام ہے۔ ایک ایک کرکے سارے نام سامنے آئیں گے۔ جسٹس لویا کے بعد سی بی آئی کا اسپیشل حج بتایا گیا تھا۔ اس نے کئی بار امیت شاہ کو عدالت میں حاضر ہونے کیلئے نوٹس بھیجا مگر امیت شاہ نہیں گئے۔ جج کو ہی ٹرانسفر کر دیا گیا۔ اس کی ایک جگہ ایک دوسرے جج گوسوامی کو لایا گیا ۔ انھوں نے امیت شاہ کو بری قرار دے دیا۔ سی بی آئی کی ڈیوٹی تھی کہ وہ اونچی عدالت میں اپیل دائر کرتی مگر اس نے بھی مقدمہ دائر نہیں کیا۔ یہ وہ تمام باتیں ہیں جن سے شک کی سوئی جس پر جاتی ہے اسے دنیا آسانی سے سمجھ سکتی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔