ایک شام معروف شاعر ممتاز راشد کے نام

محمد طاہر جمیل

میڈیا سیکریٹری بزمِ اردو قطر

کوئی صدائے جرس، کوئی جلترنگ نہیں
جو تو نہیں ہے تو دل میں کوئی امنگ نہیں (ممتاز راشد)

’ بزمِ اُردو قطر‘ (قائم 1959 ء) اپنے محسنین اور بزم اردو سے کسی طور بھی وابسطہ ساتھیوں کو ہمیشہ انکے جانے کے بعد بھی یاد رکھتی رہتی ہے ۔بزمِ اردو کے زیرِ اہتمام سابق صدر اور چئیرمین محمد ممتازراشد لاہوری کے اعزاز میں جمعرات ۲۹ستمبر کی شام پی این ٹی سی ہال واکرہ میں ایک شام کا اہتمام کیا گیا۔ قطر میں ۳۶ سالہ قیام کے بعد ۱۸ کتابوں کے خالق شاعر و ادیب محمد ممتا ز راشدکو انکی ریٹائرمنٹ کے بعدقطر سے بڑے باوقار اور عزت و احترام کے ساتھ رخصت کیا گیا تھا۔ ۲۵ اپریل ۲۰۱۴ء کو اُنکے جانے پر قطر کے ادبی حلقوں میں انکی کمی شدت سے محسوس کی جا رہی تھی ۔ قطر سے انکی وابستگی مستقلاً قائم ہے اور سال میں دو بار قطر ضرورتشریف لاتے ہیں۔ ہربار کی طرح اس بار بھی جب وہ مختصر دورہ پر دوحہ قطر آ ئے تو مختلف تنظیموں اور انکے دوست و احباب کی طرف سے انکے اعزاز میں دعوتوں کا سلسلہ شرو ع ہو گیا۔
محمد ممتاز راشد بہت بڑے شاعر ہونے کے ساتھ بہت بڑے انسان بھی ہیں۔بزم کی اس تقریب میں قطر کے کئی نامی گرامی شعراء حضرات اور دوحہ کی معزز شخصیات مدعو تھیں۔ تقریب کی صدارت بزم قطرکے سرپرست رانا ایوب کے ذمہ تھی جو ممتاز راشد کے پرانے ساتھیوں میں سے ہیں۔ آ جکی تقریب کے ہیرو ممتاز راشد جنکے اعزاز میں یہ محفل سجائی گئی ہے مہمانِ خصوصی کی نشست پہ برا جمان تھے ۔قطر میں مقیم سہ ماہی رسالہ ’ صدف‘ کے مدیر انتظامی شہاب الدین مہمانِ عزازی کی نشست پر جلوہ افروز ہوئے ۔ پروگرام کا باقاعدہ آغاز ربِ کریم کے بابرکت کلام سے ہوا جس کی سعادت اطہر اعظمی کو حاصل ہوئی۔ منصور اعظمی نے نعت رسول مقبول ﷺ پیش کی ۔
ْ صبر کی تعلیم دیتے تھے محمد مصطفیٰ ﷺ
کیجئے مت کوئی کام عجلت و جذبات سے
بزم کے جنرل سیکریٹر ی احمد اشفاق نے تقریب کی ابتدائی نظامت سنبھالی اور اس تقریب میں تین کتا بوں کی روئنمائی کا اعلان کیا۔ جو کتابیں آج کی تقریب میں شامل ہیں ان میں، پٹنہ بہار ہندوستان سے شائع ہونے والے سہ ماہی رسالہ ’صدف ‘ کا تازہ شمارہ ، جاپان میں مقیم پاکستانی نژاد صحافی، اردو نیٹ جاپان کے مدیر اور سماجی شخصیت ناصر ناکا گا وا کے سفر ناموں اور ادبی و معلوماتی مضامین پر مشتعمل کتاب ’ دنیا میری نظر میں‘ اور ممتاز راشد کے اندرون اور بیرونِ پاکستان سفر ناموں سے مزینّ کتاب ’ سفر اسفل‘ کی روئنمائی ڈاکٹر توصیف ہاشمی، ابراہیم کمال خان، خالد داد خان ، تقریب کے صدر، مہمان خصوصی اور مہمان اعزازی کے ہاتھوں بزم کے عہدیداران کی مو جودگی میں انجام پائی۔ حاضرین اور مہمانوں میں ممتاز راشد نے اپنے سفر اسفل اورگزشتہ دو دھائیوں سے دوحہ اور لاہور پاکستان سے باقاعدگی سے شائع ہونے والے سہ ماہی رسالہ ’ خیال و فن کے نئے شمارہ کی کاپیاں تقسیم کئیں جبکہ شہاب الدین نے صدف کا تازہ شمارہ پیش کیا۔
کتابوں کی روئمائی کے اس مرحلہ کے بعد اب باری تھی مشاعرہ کی ، جس کی نظامت بزم کے خا زن راقم اعظمی نے شاندار انداز سے کی جسے ہر ایک نے پسند کیا۔ اس کامیاب مشاعرہ میں قطر کے تقریباً سبھی معروف شعرائے کرام موجود تھے جنہوں نے اپنا اعلیٰ و معیاری کلام پیش کیا ۔ حاضرینِ محفل نے بھی خوب لطف اٹھایا اور دل کھول کر داد دی۔جب تمام شعراء اپنا کلام سنا چکے تو شہاب الدین نے اپنے مہمانِ اعزازی بنائے جانے اور اس تقریب میں ’صدف‘ کے نئے شمارہ کی روئنمائی پر بزم کا شکریہ ادا کیا، انہوں نے کہا کہ اس طرح کی ادبی اور شعری نشستیں بڑی اہم ہوتی ہیں، جو ادبی ماحول پیدا کرتی ہیں اور شعراء کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔ انہوں نے مذید کہا کہ ’صدف ‘ انکے لیے ایک مشن ہے جس کے ذریعہ وہ اردو کی اصل بستی ہند و پاک کے علا وہ جہاں کہیں بھی اردو کے ادیب و شاعر بستے ہیں انکی تخلیقات و تصنیفات کو منظرِ عام پر لائیں گے اور بزم صدف انٹر نیشنل کے تحت انکی پزیرائی کی جا ئیگی اور انکی بہترین تخلیق پرانعام بھی دیاجائے گا۔ اس طرح نئے قلم کاروں کو بھی متعارف کرایاجائے گا ۔ مہمان اعزازی کی حوصلہ افزا ء خطاب کے بعد مہمانِ خصوصی ممتاز راشد نے اپنے خیالات پیش کئے انہوں نے آج کی اس تقریب پر اپنی خوشی کا اظہار کیا کہ بزمِ ارد و نے انکے اعزاز میں یہ با وقار تقریب منعقد کر کے اپنے کئی دیرینہ دو ستوں سے ملاقات کا مو قع فراہم کیا اسکے ساتھ انہوں نے کامیاب مشاعرہ کے انعقاد پر بزم کو مبارکباد پیش کی ، انہوں نے بزم اردو سے اپنی پرانی وابستگی کا ذکر کیا اور بزم کی ادب نوازی کو سراہا کہ ہمیشہ کی طرح بز م نے نئے آنے کی حوصلہ افزائی کی ہے اور آج کے مشاعرہ میں نئے شعراء کو سن کر خوشی ہوئی اور انکی کاکردگی شاندار رہی ہے۔
آج کے مشاعرہ کے صد ر رانا ایوب کو اپنے خیالات کے اظہار کی دعوت دی گئی، انہوں نے اس عزت افزائی پر بزم کے اراکین کا شکریہ ادا کیا ، اپنے مختصر خطاب میں انہوں نے اپنے تعاون کا ایک بار پھر یقین دلایا ان کا کہنا تھا کہ بزم اردو سے وابسطہ علمی اور ادبی شخصیات میرے لئے قابل احترام ہیں اور ہمیں تمام تر اختلافات سے بالا تر ہو کر اردو کی تر ویج اور ترقی میں بزم کا ساتھ دینا چاہیے اور مجھ سے جو کچھ بھی ہو سکتا ہے اردو کی ترقی کیلئیے ضرور کروں گا ۔ بزم کے نائب صدر منصور اعظمی نے تقریب کے صدر، مہمانانِ خصوصی و اعزازی، شعرائے کرام اور معزز سامعین اور شرکائے مجلس کا شکریہ ادا کیا ۔ جن نمایاں اشخاص نے اس تقریب کو رونق بخشی ان میں خالد داد خان ، صدرانجمنِ محبانِ اردو ہند ، ابراہیم کمال خان بانی انجمنِ محبانِ اردو ہند ، ہر دلعزیز ڈاکٹر توصیف ہاشمی، سلطان اعظمی ، شمس الدین اور نصیر احمد خطیب وغیر ہ شامل تھے ۔
تقریب میں شامل غزلوں سے منتخب اشعار۔
انمول اتفاق۔
کس طرح سوچ لیا میں نے حیا آتی ہے
دل میں محفوظ ہے انمول امانت تیری
ظریف مہر بلوچ۔
اس محفل جاناں کی تھی تاشیر ہی ایسی
تا عمر اس شوخ کا گھر یاد رکھوں گا
محمد طاہر جمیل۔
میں نے کہا ُ برے کو ُ برا ، کیا ُ برا کیا
ہوتی ہے سب کے دل کو صداقت کی آرزو
راقم اعظمی۔
میں تیری جستجو میں چلتا رہا
تیری خاطر سہے عذاب سبھی
تم جو آئے تو حادثہ یہ ہوا
دفعتاً اٹھ گئے حجاب سبھی
اشفاق دیشمکھ۔
میں بیوفائی پہ تیری، کتاب لکھوں گا
تمھارا نام رکھوں گا کتاب کا عنوان
رضا حسین رضا ۔
کزن میرج بڑا پرُ درد قصہ
وبال جاں بھی ہے جو ر و ستم بھی
بلائیں خالہ جی کی لیتے لیتے
بلا اک مفت کی لے آئے ہم بھی
محمد اطہر اعظمی۔
حصول جب تک نہ تھا تمھارا ،خیال میں اک کشش بسی تھی
جو مل گئے ھو تو لگ رھا ہے کہ زیست میں کچھ نیا نھیں ہے
قیصر مسعود۔
اک طرف کھل کر نہیں ہوتے کبھی
یہ جو قیصر درمیاں کے لوگ ہیں
آصف شفیع۔
عمر ساری تری چاھت میں بتانی پڑ جائے
یہ بھی ممکن ہے کہ یہ آگ بجھانی پڑ جائے
میرے اعداء سے کہو حد سے تجاوز نہ کریں
یہ نہ ہو کہ مجھکو بھی شمشیر اٹھانی پڑ جائے
منصور اعظمی۔
اردو کا ماحول بنانے ھم دوحہ میں آئے ھیں
اردو کے بن کر پروانے ھم دوحہ میں آئے ھیں
اعجاز حیدر۔
زمیں پہ رھتا ھوں آکر کہاں تلک جاتا
میں کتنا اڑتا فقط آسماں تلک جاتا
احمد اشفاق۔
فاصلہ اب بہت ضروری ہے
تیری قربت سے جل رھا ھوں میں
کہہ چکا ھوں انھیں خدا حافظ
رفتہ رفتہ سنبھل رہا ھوں میں
عزیز نبیل۔
کسی سے ذھن جو ملتا تو گفتگو کرتے
ھجوم شہر میں تنہا بھی ھم بھٹک رھے تھے
نہ جا نے کس کے قدم چومنے کی حسرت میں
تمام راستے دل کی طرح دھڑک رھے تھے
شوکت علی نازؔ ۔
مجھے تو یاد بھی کب تھا وہ کوئی قصہ پارینہ
مجھے سوچوں کی سولی پر چڑھانا لازمی تھا کیا
بڑی مشکل سے یہ تنہائیوں کی برف پگھلی تھی
کہو کیا ہجر کا مو سم بنانا لازمی تھا کیا
شفیق ا ختر۔
ہر شخص مجھ کو کہتا ہے بے جرم و بے خطا
بے فیض و بے خطا ہے یہ بندہ بھلا نھیں
میں بھی کسی کی آنکھ کا تارا ہوں نور ہوں
جتنا مجھے سمجھتے ہو اتنا برا نھیں
فرتاش سید۔
عرصہ ہجر میں سینے سے لگائے ہوئے ھیں
ہم تیری یاد کو تعویز بنائے ہوئے ھیں
تیرے نز دیک تو ھے کا رِ محبت بھی مذاق
یہ تو ھم لو گ ھیں جو کام چلائے ہوئے ھیں
محمد ممتاز راشد لا ہوری۔
فِشار غم سے مِرا ظرف آزماتے ھیں
مجھے رُکے ہوئے آنسو بہت ستا تے ھیں
بیت سے شعر بڑھاتے ھیں میری بینائی
بہت سے شعر مجھے فلسفہ سکھا تے ھیں

تبصرے بند ہیں۔