ہندوستان کا بیت الحکمت دارالمصنفین اعظم گڑھ

حقانی القاسمی

شبلی نعمانی (م18نومبر 1914)کی وفات کے تین روز بعد ان کے خواب کو حقیقت کی وہ زمین مل گئی جس پر کچھ عرصہ بعد دارالمصنفین کی عمارت قائم کی گئی۔ 1910سے ہی شبلی کے ذہن میں ایک خیال مسلسل گردش کررہاتھا اور وہ تھا ایک ایسے کتب خانے کا قیام جس کے ذریعہ مسلمانوں کے علوم وفنون اور تاریخ کو زندہ رکھا جاسکے ۔علامہ شبلی نعمانی جب دارالعلوم ندوۃ العلما لکھنو سے وابستہ تھے ،تبھی سے ان کے ذہن میں دارالمصنفین کا ایک خاکہ تیار تھا۔ان کی خواہش تھی کہ یہ ادارہ ندوۃ العلما میں ہی قائم کیاجائے مگر شاید قدرت نے اس کے لیے اعظم گڑھ کی سرزمین کو منتخب کرلیاتھا اور اس کی راہ یوں ہموار ہو گئی تھی کہ شبلی نے اپنا زرخیز ذہن تو پہلے ہی اس کے لئے وقف کر دیا تھا پھر اپنی زمین ‘ باغ اور بنگلہ وقف کر کے ساری رکاوٹیں ہی دور کر دیں۔
21نومبر کو اخوان الصفا کی ایک عارضی مجلس تشکیل دی گئی جس کے ارکان میں مولانا حمیدالدین فراہی ،مو لوی مسعود علی ندوی ، سید سلیمان ندوی اورعبد السلام ندوی جیسی شخصیات تھیں ۔ اسی مجلس کی کوششوں سے 25مئی 1915کو دارالمصنفین کا ادارہ باقاعدہ رجسٹرڈ ہوگیا۔
دارالمصنفین کے قیام کے پیچھے علامہ شبلی کے جو جذبات اور محرکات تھے وہ خالصتاًاسلامی ثقافت کے فروغ اور تحفظ سے جڑے ہوئے تھے۔شبلی کے شعور میں یہ بات نقش تھی کہ مغربی اور اسلام مخالف استعماری طاقتیں جو متون‘ بیانیے اور کلامیے تیار کررہی ہیں،ان میں اسلامی ثقافت غیریت اور عصبیت کی شکار ہوجائے گی اور اسلامی تاریخ کا چہرہ مسخ کردیاجائے گا۔ مغربی یورپی ڈسکورس مکمل طور پر مسلمانوں کو اور ان سے جڑے ہوئے علوم وفنون کو ڈسکارڈ کردے گا، اسی لیے دارالمصنفین کی صورت میں انہیں ایک جوابی کلامیے( کاؤنٹر ڈسکورس) کی ضرورت شدت سے محسوس ہوئی۔ایک ایسا ڈسکورس جو اسلامی علوم وفنون مسخ ہونے سے بچا سکے اسی لیے علامہ شبلی نعمانی نے ایسے علماء اور دانشور وں سے مراسلت کی جو مغربی چیلنجز کا نہ صرف علمی مقابلہ کرسکیں بلکہ ان تمام اعترا ضات کا مسکت جواب دے سکیں،جو معاندین اسلام اکثر کرتے رہتے ہیں۔شبلی نے خود بھی اپنی تحریروں کے ذریعہ مغرب کی غلط بیا نیوں کے سد باب کی کوشش کی ۔اور ان تعصبات کے تار عنکبوت کو توڑا جو مستشرقین اور معاندین کے ذہنوں سے جمہور عوام تک پہنچ رہے تھے ۔ اورنگ زیب عالمگیر پر ایک نظر ‘ حقوق الذمیین ‘ کتب خانہ اسکندریہ یہ سب جوابی کلامیے تھے ۔ شبلی کو یہ بھی احساس تھا کہ علما کی ایک جماعت شرح ملا کے ایک ضمیر کا مرجع متعین کرنے میں مدتوں سے مصروف ہے یا ایسے مسائل میں الجھی ہوئی ہے جن کا قوم کی فلاح اور ترقی سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اسی لئے شبلی نے ایسے اہل قلم اور مصنفین کی جماعت تیار کرنے کے بارے میں سوچا جو سنجیدہ علمی مسائل و مباحث میں اپنے وقت کا صحیح استعمال کرے ۔ معاش سے بے فکر ہو کر تصنیف و تالیف میں ہمہ تن مصروف رہے ۔ شبلی کے اس مشن کو کامیابی ملی ۔ دارالمصنفین سے ایسے ارباب علم و ہنر وابستہ ہوئے جن کی علمیت ، استعداد،مطالعاتی وسعت ،عمق نظر ،ارتکاز فکر پر کسی کو کوئی شک اور شبہ نہیں ہوسکتاتھا۔یہ وہ لوگ تھے جو اپنے فن میں ممتاز ، اعلیٰ علمی تحقیقی تجسس آشنا ذہن رکھنے والے تھے۔ان میں ہر ایک آفتاب ومہتاب کی حیثیت رکھتاتھا۔علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا عبد السلام ندوی، مولانا عبدالباری ندوی، مولانا سعید انصاری،شاہ معین الدین ندوی،مولانا ابوالحسنات ندوی، مولانا سید نجیب اشرف ندوی، مولانا ابوالجلال ندوی، مولانا سید ریاست علی ندوی، مولانا سید ابوظفر ندوی، ڈاکٹر محمد عزیز ، سید صبا ح الدین عبدالرحمن، مولانا محمد یوسف کوکن اور اس طرح کے بہت سے مشاہیر تھے جو اس کے صیغۂ تصنیف سے وابستہ تھے۔ان سرکردہ افراد کی وابستگی سے دارالمصنفین کی علمی عظمت وشہرت میں اضافہ ہوتاگیا اور یہ ادارہ پوری علمی دنیا کا مرجع ومرکز بن گیا۔اس ادارے کی تصنیفات سے علمی دنیا میں روشنی کی نئی کرنیں پھیلیں ۔ نئے علمی مباحث ‘ مسائل اور موضوعات سامنے آئے ۔ علمی انکشافات کے در کھلتے گئے ۔ سیرت اور تاریخ، اسلامی علوم وفنون ،فلسفہ وعقائد،ادبیات اور دیگر موضوعات پر اس ادارے سے جو کتابیں شائع ہوئیں اس سے پوری ملت نے نہ صرف استفادہ کیا بلکہ ان کتابوں کی حیثیت مورخین اور مصنفین کے لیے حوالہ جاتی ہوگئیں۔بہت ایسی سیریز شروع کی گئیں جن سے بہت سی غلط فہمیوں کے دروازے بند ہوئے ۔دارالمصنفین کا ارتکازصرف اسلامی تاریخ پر نہیں رہا تاریخ ہند پر بھی دارالمصنفین نے نہ صرف نہایت اعلی درجہ کا کام کیا بلکہ تاریخ کو صحیح سمت دی ۔نفرت وعداوت کے بجائے محبت و یگانگت کے مواد کو تاریخ کے نصاب کا حصہ بنایا ۔اشتعال انگیزی کے بجائے اعتدال اور توازن کی راہ اختیار کی ۔ عرب و ہند کے تعلقات ( سید سلیمان ندوی ) ہندوستان عربوں کی نظر میں( ضیا ء الدین اصلاحی ) بزم مملوکیہ، بزم تیموریہ ، بزم صوفیہ ‘ ہندوستان کے عہد ماضی میں مسلمان حکمرانوں کی مذہبی رواداری‘ ہندوستان کے عہد وسطی کا فوجی نظام ‘ ہندوستان کے عہد وسطی کی ایک جھلک ‘ سلاطین دہلی کے عہد میں ہندوستان سے محبت اور شیفتگی کے جذبات ‘ عہد مغلیہ ہندو مسلم مورخین کی نظر میں ( سید صباح الدین عبد الرحمن ) عہد اسلامی کا ہندوستان ( ریاست علی ندوی )مختصر تاریخ ہند ( ابو ظفر ندوی ) اور اس طرح کی بہت سی کتابیں شائع کی گئیں جن سے ہندوستانی تاریخ کا حقیقی چہرہ سامنے آئے۔ دارالمصنفین نے ادبیات اور اس کی تاریخ پر بھی خاص طور پر توجہ دی۔موازنہ انیس ودبیر ، شعرالعجم( شبلی نعمانی ) ، اقبال کامل( عبد السلام ندوی )، اردو غزل( یوسف حسین خاں ) ،غالب مدح وقدح کی روشنی میں( صباح الدین عبد الرحمن ) اسی زمرے کی کتابیں ہیں۔مختلف قوموں ،ملکوں اور شہروں کی مستند تاریخیں بھی اسی ادارے سے شائع کی گئیں۔تاریخ اندلس( ریاست علی ندوی ) ،گجرات کی تمدنی تاریخ،( ابو ظفر ندوی ) طبقات الامم اسی ذیل میں آتی ہیں۔
علمی سطح پر دارالمصنفین نے جو کارنامے انجام دیے ہیں وہ قابل رشک ہیں۔ اس نے یہ ثابت کر دیا کہ مسلمان ارسطو کی گاڑی کے قلی نہیں بلکہ نئے جہانوں کی جستجو کر سکتے ہیں ‘ علم کی نئی دنیائیں آباد کر سکتے ہیں ۔دار امصنفین نے اپنے مجلہ معارف کے ذریعہ بھی علمی دنیا کو یہی باور کرایا ۔ اس کے علمی مضامین نے پوری علمی دنیا کو حیرت زدہ کر دیا ۔ نئی علمی تحقیقات کی وجہ سے معارف کو جو اعتبار حاصل ہوا وہ بہت کم رسالوں کو نصیب ہوتا ہے ۔ جمشید احمد ندوی کے اشاریہ معارف اعظم گڑھ جولائی 1916 ۔ دسمبر 2011( جو 723 صفحات پر محیط ہے ) اور وفیات معارف مرتبہ محمد سہیل شفیق کراچی(جو 783 صفحات پر مشتمل ہے ) دیکھ جائیے تو اندازہ ہوگا کہ معارف میں کیسے کیسے گنجینہ جواہر ہیں ۔ ایسی نادر و نایاب موتیاں کہ تلاش بسیار کے بعد بھی نہیں مل سکتیں ۔ دار المصنفین نیمختلف سطحوں پر جو علمی رہنمائی کی ہے اس کی نظیر مشکل سے ملے گی۔سو سال سے یہ ادارہ سر گرم عمل ہے مگر آج جب کہ تناظر بدلا ہے اور ثقافتی علمی منظرنامہ میں بھی کچھ تبدیلی واقع ہوئی ہے تو ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ شبلی نے جس مقصد کے تحت یہ ادارہ قائم کیاتھا کیا اس مقصد کی تکمیل میں یہ ادارہ کامیاب ہے؟۔کیا ملک کا اشرافیہ اور دانشور طبقہ اس ادارہ کی تصنیفات سے ذہنی طور پر جڑپایا ہے؟۔کیا ذہن کی جس منطق اور منطقہ کو تبدیل کرنے کا منصوبہ شبلی نے بنایاتھا، وہ کامیاب ہوپایا؟۔کیا دارالمصنفین نے اس طبقے کو متاثر کیاہے جس کے توڑ کے لیے ادارہ قائم کیاگیاتھایا وہ طبقہ ہی متاثر ہوا ہے جو صرف خیالوں میں سماج کی سمت ورفتار بدل سکتاہے، مگر حقیقت میں اس کی حیثیت صفر ہوتی ہے، جو تصوریانظریہ اسلام سے منحرف ذہنو ں میں نقش کردیاگیاتھاکیا دارالمصنفین کی مطبوعات سے اس نقش کی نفی ہو پائی ؟۔کیا دارالمصنفین کے مذہبی اور تاریخی کلامیے کو مسکت اور موثر قرار دیا جاسکتاہے ؟ میرے خیال میں معاندانہ بیانیہ کے رد و ابطال کے لئے دار المصنفین کی سعی رائگاں نہیں گئی ۔ دارالمصنفین نے غلط فہمیوں کے کچھ بادل تو ہٹائے ہیں پھر بھی مغربی ڈسکورس میں وہی اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں جن کے جوابات پہلے ہی دیے جاچکے ہیں تو اس کا واضح مطلب ہے کہ وسائل کی کمی کی وجہ سے انگریزی ‘ ہندی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ کی شکل میں ان تصنیفات کی ترسیل مسموم ذہنوں تک نہیں ہو پائی ۔ اس لئے یہ سارے سوالات دار المصنفین کے رفقا اور انتظامیہ سے نہیں کئے جاسکتے کہ وہ لوگ بے سرو سامانی کے عالم میں معمولی تنخواہوں پر بھی غیر معمولی کام کر رہے ہیں ۔ وہ اپنا علمی فریضہ بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں ۔ یہ سوا لات تو اس سماج سے ہیں جس کے علمی تہذیبی ارتقا کے لئے پورا ادارہ لگا ہوا ہے مگر یہ بے حس معاشرہ ذرائع اور وسائل کی سطح پر کسی طرح کی معاونت کے لئے تیار نہیں ہے ۔ معاشرہ کی یہی بے حسی بڑے بڑے اداروں کو برباد کر دیتی ہے ۔المیہ یہ ہے جن اداروں کے پاس وژن ہے ‘ وہ وسائل سے محروم ہیں اور جن کے پاس وسائل ہیں ان کے یہاں وژن کی کمی ہے ۔
دار المصنفین اپنے وژن کی وجہ سے زندہ ہے یا اس جذبہ اخلاص کی وجہ سے جو رفقا دارالمصنفین کی رگوں میں لہو بن کر دوڑ رہا ہے ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔