ایک مستقل پلیٹ فارم کی ضرورت

حفیظ نعمانی

            اتراکھنڈ اور اتر پردیش کے سابق گورنر عزیز قریشی نے ابھی نہیں اس وقت بھی جب راجیہ سبھا کا الیکشن ہورہا تھا، کہا تھا کہ انھیں کانگریس اور سماج وادی کے اس رویہ سے بہت دکھ ہوا ہے کہ دونوں نے ملک کے کسی مسلمان کو اس قابل نہیں سمجھا کہ وہ ان کو راجیہ سبھا میں بھیجیں، یہ اپنا اپنا سوچنے کا انداز ہے، بہرحال ایک بڑے سیاسی لیڈر کا یہ الزام اپنی جگہ برحق ہے۔ کانگریس 2004ء اور 2009ء میں صرف مسلم ووٹوں کی مدد کی وجہ سے مرکزی حکومت بنا سکی تھی، اور اس کانگریس کو مسلمانوں نے 27 برس سے اترپردیش میں کرسی سے باہر کر رکھا ہے، مرکز میں جو دوبار حکومت بنوائی اس کی وجہ کانگریس سے محبت نہیں تھی بلکہ یہ تھی کہ اگر کانگریس نہیں تو بی جے پی ہے اور جب ان دونوں میں سے کسی ایک بری چیز کو قبول کرنا پڑے تو چھوٹی اور کم بری کانگریس ہے، اس لیے اسے اپنا لیا گیا۔

            قریشی صاحب نے کہا کہ ان پارٹیوں سے تو اچھی بی جے پی ہے کہ اس نے دو مسلمانوں کو راجیہ سبھا بھیج دیا، ان کی مراد مختار عباس نقوی اور ایم جے اکبر سے ہے۔

            اس سے کون انکار کرسکتا ہے کہ یہ دونوں مردم شماری کے رجسٹر میں اور ہر اس جگہ جہاں مذہب لکھا جاتا ہے اپنے کو مسلمان لکھتے ہیں، لیکن یہ مسلمانوں کے کیسے نمائندے ہیں، اس کی وضاحت ہم یہاں نہیں کریں گے۔

            اب رہی بات کانگریس کی تو اس کے پاس تو ایک ممبر کو بھیجنے کے لیے اتر پردیش میں ووٹ نہیں تھے اور دوسری ریاستوں کا جو حال ہے وہ بھی سب کو معلوم ہے۔ لیکن سماج وادی پارٹی کو ضرور کہا جائے گا کہ مسلمانوں نے 2012ء میں اس کا جیسے ساتھ دیا تھا اس کے بعد ان کا حق تھا کہ ان کے دو ممبر راجیہ سبھا میں جائیں۔ اور وہ اپنی پسند سے نہیں بلکہ مسلمانوں کے ذمہ دار حضرات سے مشورہ کرکے منتخب کیے جائیں۔ بہرحال اب سانپ تو نکل گیا، لکیر پیٹنے سے کیا حاصل ہے؟

            قریشی صاحب نے ایک بہت اہم بات کہی ہے کہ اسدالدین اویسی نے اپنی پارٹی کے کارکنوں سے یہ کیسے کہہ دیا کہ اترپردیش میں مسلمانوں کی بری حالت کے لیے ایس پی ذمہ دار ہے؟ اور بی جے پی کو کلین چٹ دے دی، ہمیں شبہ ہے کہ اویسی صاحب قائد اعظم بننا چاہتے ہیں، اور یہ نہیں جانتے کہ مسٹر جناح خود گلے میں ڈھول ڈال کر نگری نگری نہیں گھومے تھے کہ مجھے قائد اعظم بنا لو، بلکہ وہ تو مسلمانوں کی احمقانہ حرکتوں سے مایوس ہو کر لندن چلے گئے تھے اور پریکٹس کررہے تھے، یہ مسلمان ہی تھے جنھوں نے خوشامد کرکے انھیں بلایا اور قا ئد اعظم بنادیا جبکہ شاید جناح صاحب کو قائد اعظم کا مطلب بھی نہیں معلوم ہوگا۔

            اویسی صاحب نے مہاراشٹر میں دو سیٹیں جیت کر ابو عاصم اعظمی کو گونگابنادیا جو اب ممبئی میں ہی رہتے ہیں اور مسلمانوں کے لیے کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں، اب وہ اکیلے ہیں بولیں تو کیا بولیں ؟ اس کے بعد بہار میں اویسی نے لالو نتیش محاذ کو کمزور کرنا چاہا، وہ تو اللہ نے خیر کردی کہ مسلمانوں کے دردمندوں نے انھیں سمجھایا اور مسلمانوں کی سمجھ میں آگیا، اس کے باوجود امت شاہ نے جو بویا تھا اس کا کچھ نہ کچھ پھل انھیں مل گیا۔

            لکھنؤ میں اویسی صاحب اپنے ورکروں میں آئے تو نعرے لگے’’کون آیا کون آیا‘‘جواب تھا ’’شیر آیا شیر آیا‘‘اسد کے معنی بے شک شیر ہیں لیکن اسد اللہ اور اسد الدین دوسری چیز ہے اور ہندوستان کا شیر دوسری چیز۔

             ہندوستا ن میں جانوروں کی پوجا کرنے والوں کی حکومت ہے، یہاں اسد الدین، اسد حسین اوراسداللہ نام کے آدمی کو اتنی سی بات پر قتل کیا جاسکتا ہے کہ اس کے گھر میں گائے کا گوشت رکھا ہے، یا یہ کہ ڈرائیور ہے اور گایوں کو کسی بازار میں لے جارہا ہے، جہاں ان کا مالک انہیں فروخت کرے گا لیکن اسے صرف اس لیے کہ وہ گائے کو کیوں لے جارہا ہے، گولیوں سے بھونا جاسکتا ہے، رہا شیر یعنی وہ شیر جو جنگل میں جنگلی گائے کو مار کر کھاتا ہے اور اگر چڑیا گھر میں ہوتا ہے پنڈت جی اس کے لیے کسی جانور کا گوشت روز لاتے ہیں، وہ اگر جنگل سے شہر میں آجائے اور دو چار آدمیوں کو مار دے یا دس بیس کو زخمی کردے تب بھی اسے مارنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ اسے احترام کے ساتھ کسی چڑیا گھر میں بھیج دیا جاتا ہے۔

            ہمیں نہیں معلوم کہ اویسی صاحب اپنے کوکونسا شیر کہلاتے ہیں؟ وہ جس قسم کے بھی ہوں ایک عینی گواہ دہلی میں ایسا ہے جس کا دعویٰ ہے کہ اس نے بہار کے الیکشن میں رات کو ۳؍بجے اسدالدین اویسی اور اکبرالدین اویسی دونوں بھائیوں کو امت شاہ سے گفتگو کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس بات کا جب شور ہوا تو اویسی صاحب نے انتہائی سخت لہجے میں کہا کہ وہ جھوٹا ہے اور میں اسے حیدرآباد کی عدالت میں بلا کر ایسی سزا دلائوں گا کہ دھرتی کانپ جائے گی۔ اس واقعہ کو شاید ایک مہینہ ہوگیا یا ہونے والا ہے۔ اچھا یہ ہے کہ وہ اترپردیش کے مسلمانوں کا امت شاہ سے سودا کرنے سے پہلے اس ملاقات کی حقیقت سامنے لے آئیں اور اس جھوٹے کو سزا دلانے سے پہلے اترپردیش کے دورے نہ کریں۔

            اترپردیش میں سماج وادی پارٹی اور بی ایس پی 25 برس سے باری باری مسلمانوں کے ووٹوں سے حکومت بنا رہی ہیں۔ اس سے پہلے یہ کام کانگریس اور چودھری چرن سنگھ کرتے رہے ہیں، اترپردیش کے مسلمان برابر کا حق چاہتے ہیں اور اس کی تلاش میں کانگریس سے پوری طرح مایوس ہو کر بھٹک رہے ہیں، ا ور بھٹکتے رہیں گے، اس لیے کہ نہ زبان سے کوئی کہے نہ کہے، ہر ہندو کے دل میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ 14؍ اگست کو مسلمان اپنا حصہ لے چکے اور اسد الدین اویسی جیسا خاندانی سیاست داں اس سے انکار نہیں کرسکتا کہ مسلم لیگ کی قیادت میں 90(نوے) فیصدی سے زیادہ مسلمانوں نے کہا تھا کہ ہم ایک الگ قوم ہیں، ہماری تہذیب، ہمارے نام، ہماری قدریں، ہمارا پرسنل لا، ہمارے رسم و رواج اور ہماری امنگیں ہر چیز الگ ہے، اس لیے ہمیں اپنے مذہب اور اپنی نسلوں کے دین و ایمان کو بچانے کے لیے ایک الگ ملک دیا جائے، اور وہ ملک پاکستان کے نام کا لے لیا، ہم اسے مولانا آزاد کا احسان مانتے ہیں اور جمعیۃ علماء کا کہ اس نے جو مسلم لیگ اور پاکستان کی مخالفت کی اس کے بارے میں ہر کانگریسی لیڈر کو یقین تھا کہ انھوں نے سب کچھ خلوص سے کیا اور یہی وجہ ہے کہ دستور بناتے وقت ان مسلمانوں کو جو ہندوستان میں رہ گئے، ہندوستانی تسلیم کیا گیا، لیکن انہیں وہ سب نہ دینے کا جو عمل ہے وہ اس لیے ہے کہ ان کے دل و دماغ میں بیٹھا ہے کہ مسلمان بنگال، پنجاب، سندھ سرحد اور بلوچستان لے چکے، اب اور کیسے دے دیں ؟ عزیز الدین قریشی یا دوسرے مسلمان گورنر اور وزیر بنتے رہے ہیں، لیکن وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ نہیں بنایا جاتا اور نہ کبھی بنایا جائے گا، اس لیے اگر عزیز الدین قریشی صاحب بہت سنجیدہ اور سیاسی ذہن رکھنے والے سو پچاس مسلمانوں کو مدعو کرکے کوئی ایک راستہ اپنائیں تو یہ ہر سال کی در بدری ختم ہوسکتی ہے، اترپردیش کا الیکشن سیاسی پارٹیوں کے لیے کرویا مرو کا الیکشن ہے اور خدا کا شکر ہے کہ سوچنے کے لیے ابھی وقت ہے، اس میں بہت کچھ ہوسکتا ہے۔

 

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔