ایک مسلمان کا مقصدِ زندگی کیا ہو؟

ڈاکٹر محمد واسع ظفر

 یوں تو مقصد زندگی کے تعین کے سلسلہ میں اکثر انسان کج فہمی کا شکار ہیں اور انہیں اس کا احساس بھی نہیں ہے کیوں کہ وہ ایمان و ہدایت سے محروم ہیں لیکن نہایت تعجب اور افسوس کی بات یہ ہے کہ امت مسلمہ جسے اللہ نے اپنے پیارے رسول محمد ﷺ اور اپنی آخری کتاب یعنی قرآن کریم کے ذریعہ مقصد زندگی سے پوری طرح آگاہ کردیا تھا، آج اس سے غافل ہوکر کفار و مشرکین اور یہود و نصاریٰ کی طرح دنیوی زندگی اور اس کے متعلقات کو ہی اپنی زندگی کا مقصد بناچکی ہے۔مال و دولت اور آرام و آسائش کی چیزوں کا حصول، دنیوی جاہ و منصب اورحشم و خدم کی تمنا ہی اب اکثر افراد کی زندگی کا مقصد رہ گیا ہے، الا ماشاء اللہ۔ عصری علوم و فنون کی طلب اور ان پر مہارت ہے تو اسی کے لئے، زراعت و تجارت ہے تو اسی کے لئے یا پھر حکومت و وزارت ہے تو بھی اسی کے لئے حالانکہ یہ دنیا نہ توآرام و آسائش کی جگہ ہے اور نہ ہی اس کے حصول کی کوشش اس عارضی زندگی کا مقصد ہے۔ قرآنی تعلیمات کے مطابق یہ تمام چیزیں جن کے لئے لوگ کوشاں ہیں انسان کی آزمائش کے لئے ہیں نہ کہ آشائش کے لئے بلکہ انسان کا وجود ہی مکمل آزمائش سے عبارت ہے۔اللہ کا ارشاد ہے:

الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاۃَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً(سورۃ الملک:۲)

 ’’ اسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون اچھے عمل کرتا ہے‘‘۔انسان اگر کائنات کے اندر پھیلی ہوئی اشیاء پر غور و فکر کرے تو اس نتیجہ پر پہنچے بغیر نہیں رہے گا کہ تمام چیزیں خواہ وہ نباتات ہوں،  حیوانات ہوں یا جمادات ہوں یا ہو ا اور پانی کا نظام ہو یا پھر مکمل نظام شمسی ہو، یہ سب انسانی ضروریات کی تکمیل کے لئے ہی پیدا کئے گئے ہیں۔ ہر چیز کے وجود کا ایک مقصد ہے اور وہ بلا واسطہ یا بالواسطہ حضرت انسان کی خدمت میں مصروف رہ کر اپنے مقصد وجود کو پورا کررہی ہے۔ تو کیا انسان جو اس کائنات میں مخدوم کی حیثیت سے ہے اور تمام مخلوقات سے برتر و اشرف ہے یوں ہی بے مقصد اور بے کار پیدا کیا گیا ہے اور خود سے کمتر چیزوں کا حصول ہی اس کی زندگی کا مقصد ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ انسان کو اللہ رب العزت نے ایک عظیم تر مقصد کے لئے پیدا کیا ہے اور اس کی وضاحت اپنے کلام میں ان الفاظ سے کی ہے:

وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْن (الذاریات:۵۶)

 یعنی ’’ہم نے انسان و جنات کو نہیں پیدا کیا مگر اپنی عبادت (بندگی) کے لئے‘‘۔ گویاکہ انسان کی زندگی کا مقصد اللہ کی عبادت اور اس کی رضا کا حصول ہے۔ اکثر مسلمان اس بات کو جانتے ہیں اور اپنی زبان سے اس کا اقرار بھی کرتے ہیں لیکن ان کی زندگی کی روش یہ بتاتی ہے کہ انہوں نے اس کو اپنی زندگی کا مقصد نہیں بنایا بلکہ بعض مسلمانوں کے قول و عمل سے تو ایسا ظاہرہوتا ہے کہ ان کے نزدیک اس دنیا کی زندگی کے علاوہ کوئی اور زندگی ہے ہی نہیں اور انہیں حیات بعدالموت اور جزا و سزا سے کوئی سابقہ ہی نہیں پڑنے والا۔ایک دوسرا طبقہ ان مسلمانوں کا ہے جو کسی نہ کسی درجہ میں اللہ کی عبادت کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھتا ہے اور اسے پورا کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے لیکن وہ  لفظ ’عبادت‘ کی ناقص فہم کا شکار ہے۔ اس کے نزدیک’ عبادت‘  نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ و صدقات، قربانی، دعا و اذکار وغیرہ تک ہی محدود ہے اور زندگی کے مختلف شعبوں میں عبدیت اور بندگی کا کوئی تصور اس کے نزدیک نہیں اس لئے وہاں وہ اپنے آپ کو آزاد سمجھتا ہے۔اس ناقص فہم ہی کا نتیجہ ہے کہ بعض لوگ نماز و روزے کے تو بڑے پابند دیکھے جاتے ہیں لیکن معاملات ان کے انتہائی خراب ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں یہ سب اعمال شریعت اسلامی کی تجویز کردہ خاص عبادات اور شعائراسلام ہیں لیکن عبادات کا دائرہ اگر ان تک ہی محدود کردیا جائے تو ظاہر ہے ان سب کا مجموعہ انسانی زندگی کے ایک مختصر حصہ کو ہی اپنے احاطہ میں لے سکتا ہے پھر اسے مقصد زندگی کہنامناسب نہیں معلوم ہوگا۔مقصد زندگی ہونے کا تقاضہ تو یہ ہے کہ اس کے دائرہ کی وسعت زندگی کے تمام شعبوں کو محیط ہو اور حقیقت میں ہے بھی ایسا ہی۔ آئیے اسے سمجھنے کے لئے چند لغات و تفاسیر کا سہارا لیا جائے۔

مولانامحمد عبدالرشید نعمانی اپنی تصنیف لغات القرآن میں لفظ ’عبادت‘ کی تشریح کرتے ہوئے یوں رقمطراز ہیں : ’’قاموس میں ’’عبادت‘‘ کے معنی طاعت کے بیان کئے ہیں لیکن ابن الاثیر کے نہایہ میں یہ الفاظ ہیں ’’العبادۃ فی اللغۃ الطاعۃ مع الخضوع‘‘  لغت میں عبادت نام ہے اس اطاعت کا جو عاجزی کے ساتھ ہو‘‘۔ مولانا نعمانی علامہ ابن الاثیر کی عبادت کی اس تعریف کو بہت جامع بھی قرار دیتے ہیں۔ (لغات القرآن از مولانامحمد عبدالرشید نعمانی، مکتبہ حسن سہیل،  لاہور، جلد ۴، صفحہ ۲۱۶)۔امام ابو عبداللہ محمدبن احمد بن ابوبکر قرطبیؒ سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۲۱ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :ترجمہ’’عبادت سے مراد اس کی توحید کا اقرار اور اس کے دین کی شرائع کا التزام ہے۔ عبادت کی اصل خضوع اور تذلیل ہے ‘‘۔(تفسیرقرطبی اردو، مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۱۲ء، جلد ۱، ص ۲۴۱)۔اسی طرح تفسیر جلالین میں لفظ ’عبادت‘ کی وضاحت کچھ اس طرح کی گئی ہے:ترجمہ: ’’۔۔۔۔اور عبادت کے معنی پوجا پاٹ کے نہیں ہیں بلکہ تابعداری اور اطاعت کے معنی ہیں جس میں نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ بھی آگئے اور نکاح، طلاق، معاملات،  خرید و فروخت وغیرہ سب احکام آگئے‘‘۔(تفسیرکمالین شرح اردو تفسیر جلالین، مطبوعہ دارالاشاعت، کراچی، ۲۰۰۸؁ء، جلد ۱، صفحہ ۵۶)۔مفتی محمد شفیع صاحبؒ  لفظ ’عبادت‘ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’عبادت کے معنی ہیں اپنی پوری طاقت مکمل فرمانبرداری میں صرف کرنا، اور خوف و عظمت کے پیش نظر نافرمانی سے دور رہنا‘‘۔( معارف القرآن، مکتبہ معارف القرآن، کراچی، ۲۰۰۸؁ء، جلد ۱، ص ۱۳۲ بحوالہ روح البیان، ص ۷۴، جلد ۱)۔مولانا محمد آصف قاسمی صاحبِ تفسیر بصیرت قرآن لکھتے ہیں کہ’’ عبادت صرف چند رسموں کا نام نہیں ہے بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ہر حکم کو عاجزی،  ادب و احترام کے ساتھ ماننا، اطاعت و فرمان برداری کرتے ہوئے زندگی کو پوری طرح ادا کرنا عبادت ہے‘‘۔ ( تفسیر بصیرت قرآن از مولانا محمد آصف قاسمی، مکتبہ بصیرت قرآن،  کراچی،  جلد ۱، ص، ۴۹)۔

عبادت کی سب سے جامع تعریف شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ نے اپنی تصنیف ’کتاب العبودیہ‘ میں ان الفاظ کے ساتھ کی ہے:

’’الْعِبَادَۃُ ھِیَ اِسْمٌ جَامِعٌ لِکُلِّ مَا یُحِبُّہُ اللّٰہُ وَ یَرْضَاہُُ مِنَ الْاَقْوَالِ وَالْاَعْمَالِ الْبَاطِنَۃِ وَالْظَّاھِرَۃِ فَالصَّلَاۃُ،  وَالزَّکَاۃُ، وَالصِّیَامُ، وَالْحَجُّ، وَصِدْقُ الْحَدِیْثِ، وَأَدَائُ الْاَمَانَۃِ، وَبِرُّ الْوَالِدَیْنِ، وَصِلَۃُ الْاَرْحَامِ، وَالْوَفَائُ بِالْعُھُودِ، وَالْاَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ، وَالنَّھْیُ عَنِ الْمُنْکَرِ، وَالْجِھَادُ لِلْکُفَّارِ وَ الْمُنَافِقِینَ، وَالْاِحْسَانُ لِلْجَارِ، وَالْیَتِیمِ، وَالْمِسْکِینِ، وَابْنِ الْسَّبِیلِ، وَالْمَمْلُوکِ؛مِنَ الْآدَمِیِّینَ وَالْبَھَائِمِ، وَالدُّعَائُ، وَ الذِّکْرُ، وَالْقِرَائَ ۃُ، وَأَمْثَالُ ذٰلِکَ مِنَ الْعِبَادَۃِ۔ وَ کَذٰلِکَ حُبُّ اللّٰہِ وَ رَسُولِہِ، وَ خَشْیَۃُ اللّٰہِ وَ الْاِنَابَۃُ اِلَیْہِ،  وَ اِخْلَاصُ الدِّینِ لَہُ، وَ الصَّبْرُ لِحُکْمِہِ، وَ الْشُّکْرُ لِنِعَمِہِ، وَالرِّضَا بِقَضَائِہِ، وَ الْتَّوَکُّلُ عَلَیہِ، وَالرَّجَائُ لِرَحْمَتِہِ، وَالْخَوْفُ مِنْ عَذَابِہِ، وَأَمْثَالُ ذٰلِکَ ھِیَ مِنَ الْعِبَادَۃِ لِلّٰہِ‘‘ (کتاب العبودیہ، جامع شیخ الاسلام ابن تیمیۃ، ص۴)۔

 ترجمہ: ’’عبادت ایک جامع لفظ ہے جو اللہ تعالیٰ کے تمام محبوب و پسندیدہ، ظاہری و باطنی اقوال و اعمال( افعال) کو شامل ہے، چنانچہ نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج، بات میں سچائی، امانت کی ادائیگی، والدین سے حسن سلوک، رشتہ داروں سے نیکی، وعدوں کو پورا کرنا، نیکی کا حکم، برائی سے روکنا، کفارومنافقین سے جہاد، پڑوسیوں،  یتیموں،  مسکینوں،  مسافروں اور زیر دست انسانوں اور جانوروں کے ساتھ بھلائی، دعا،  ذکر، قرأت اور ان جیسی اورباتیں سب عبادات ہیں،  اسی طرح اللہ و رسول ؐ سے محبت، اللہ کا ڈر اور اس کی طرف رجوع، دین کو اسی کے لئے خالص کرنا، اس کے حکم پر ڈٹ جانا، اس کی نعمتوں پر شکر ادا کرنا، اس کی قضاء و قدر پر راضی رہنا، اس پر توکل کرنا، اس کی رحمت کی امید اور اس کے عذاب کا خوف اور ان جیسی اورباتیں بھی اللہ کی عبادات ہیں ‘‘۔

  لفظ ’عبادت‘ کی ان تشریحات پر غور کرنے سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ عبادت مکمل اطاعت و فرمانبرداری کا نام ہے جس میں انتہا درجہ کا خضوع، تذلل اور عاجزی شامل ہو اور جس کا محرک اللہ کی عظمت و محبت ہو اور اس کا دائرہ ظاہر ہے چند مخصوص اسلامی عبادتوں تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ زندگی کے تمام شعبوں کو اپنے وسعت میں سموئے ہوئے ہے۔ اس لئے صرف نماز، روزہ، تلاوت و اذکار وغیرہ میں ہی محدود رہ کر یہ سمجھنا کہ ہم نے مقصد زندگی کو حاصل کرلیادرست نہیں جب تک انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام متعلقہ شعبوں یعنی اخلاقیات، معاملات، معیشت ( اور اس کے مختلف ذرائع مثلاً ملازمت، تجارت، زراعت، صنعت و حرفت وغیرہ)،  معاشرت، سیاست و نظام حکومت، اور نظام عدل و انصاف وغیرہ میں اللہ کے احکامات کو نافذ نہ کرے۔جس نے متعلقہ شعبوں میں اللہ کے احکامات کے سامنے سر تسلیم خم کردیااور کامل اطاعت پر پابندی برتی وہ عبادت و بندگی کے حق کو ادا کرنے کی سعی کرنے والا کہا جائے گا۔نیزاللہ کی اطاعت میں اللہ کے رسول ﷺ کی اطاعت و اتباع بھی شامل ہے۔اسی لئے بندگی کے اس مقام و مرتبہ کو حاصل کرنے والے کے لئے کامیابی کی ضمانت دی گئی ہے:

 وَمَن یُطِعْ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ فَازَ فَوْزاً عَظِیْماً

’’اور جس نے اللہ کی اطاعت کی اور اس کے رسول کی تو یقینا وہ بڑی مراد کو پہنچا‘‘۔ (الاحزاب:۷۱)۔

اسی طرح سورۃ النسآء میں وراثت کے احکام بیان کرنے کے بعد ارشاد ہے:

تِلْکَ حُدُودُ اللّٰہِ وَمَن یُطِعِ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ یُدْخِلْہُ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الأَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا وَذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْم ہ وَمَن یَعْصِ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ وَیَتَعَدَّ حُدُودَہُ یُدْخِلْہُ نَاراً خَالِداً فِیْہَا وَلَہُ عَذَابٌ مُّہِیْن. (النسآء:۱۳-۱۴)

 ترجمہ:’’یہ (تمام احکام) اللہ کی حدیں ہیں اور جو شخص اللہ اور اس کے پیغمبر کی فرمانبرداری کرے گا اللہ تعالیٰ اُس کو جنتوں میں داخل کرے گا جن میں نہریں بہہ رہی ہیں،  وہ اُن میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ بڑی کامیابی ہے۔ اور جو اللہ اور اُس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اُس کی حدوں سے نکل جائے گا اُس کو اللہ دوزخ میں ڈالے گا جہاں وہ ہمیشہ رہے گا اور اُس کو ذلت کا عذاب ہو گا ‘‘۔

عنی نہ صرف یہ کہ اطاعت پر کامیابی کا وعدہ ہے بلکہ اس سے روگردانی پر جہنم کی دھمکی اور وعید بھی ہے۔

  یہ تو وہ بنیادی مقصد تھا جس کے لئے اللہ رب العزت نے ساری انسانیت کو پیدا فرمایا۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور ہدف بھی ہے جسے مسلمانوں کو اپنی زندگی کا مقصد بنانا چاہیے اور وہ ہے تمام ادیان پر دین اسلام کو غالب کرنے کی کوشش۔رسول کریم ﷺ کی بعثت کا یہ ایک بنیادی مقصد ہے۔چنانچہ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

 ہُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ.(التوبہ:۳۳)۔

 ’’ وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت (کا سامان یعنی قرآن) اور دینِ حق(یعنی اسلام ) دے کر بھیجا تاکہ اس (دین) کو (دنیا کے) تمام دینوں پر غالب کرے اگرچہ کافر ناخوش ہی ہوں ‘‘۔

اس مقصد کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں تین جگہ یہ آیت لائی گئی ہے سورۃ  الصف کی آیت نمبر ۹ میں تو بعینہ اور سورۃ الفتح کی آیت ۲۸ میں آخری الفاظ کے تغیر کے ساتھ یعنی وہاں پر{وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُون}کی جگہ پر { وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَھِیْدًا ہ} ہے جس کا مطلب ہے’’ اور اللہ (اس بات پر) کافی گواہ ہے ‘‘۔دین اسلام کو باقی ادیان پر غالب کرنے کا یہ مشن معقولیت اور دلیل و حجت کے اعتبار سے بھی ہے کہ ہر شخص پر یہ عیاں ہوجائے کہ اسلام ہی حق ہے اور اس کے مقابل و مخالف جو کچھ بھی ہے وہ سب باطل ہے،  افرادی قوت کے اعتبار سے بھی ہے یعنی انسانوں کی اکثریت دین اسلام کو اپنا لے اور اس پر عمل پیرا ہوجائے اور حکومت و سلطنت کے اعتبار سے بھی ہے یعنی نظام خلافت اسلامی کا قیام عمل میں آجائے اور طاغوتی طاقتیں اسلامی حکومت کے آگے سر نگوں ہوجائیں۔ ان مقاصد کو حاصل کرنے کے دلائل، حجت و برہان اور حکمت کے ساتھ اقوام عالم کو اسلام کی دعوت دینا،  نوواردوں کی تعلیم و تربیت اور دعوت کی راہ میں حائل ہونے والی مخالف قوتوں کا استیصال وغیرہ حکمت عملی رسول پاک ﷺ کی سیرت طیبہ سے ثابت ہے۔اسلام مخالف قوتوں کا استیصال تو ہمارے بس میں نہیں کیوں کہ یہ اسلامی حکومتوں کا کام ہے لیکن دعوت دین اور تعلیم و تعلم کے مختلف طریقے تو ہم اپناہی سکتے ہیں اور اس مشن کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ کوشش کرنا ہمارے ذمہ ہے اور اس کے نتائج دینا اللہ کے بس میں ہے۔

 یہاں کسی کو یہ اشکال نہ ہو کہ دین اسلام کو غالب کرنے کا یہ مشن رسول پاک ﷺ تک ہی محدود تھا اور بعد کے ادوار میں یہ ساقط ہوگیا؟ اگر ایسا ہوتا تو خلفاء راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اس کے لئے اتنی قربانیاں نہ دیتے اور نہ ہی اتنی مشقتیں اٹھاتے؟ حقیقت یہ کہ رسول پاک ﷺ کے اس مشن میں آپ کی امت بھی برابر کی شریک ہے جس کی وضاحت قرآن کریم نے یوں کیا ہے:

قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلِیْٓ اَدْعُوْآ اِلَی اللّٰہِ  عَلٰی بَصِیَْرَۃٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیْ ط. ( سورۃ یوسف :۱۰۸)۔

’’آپؐ فرمادیجئے کہ یہ میرا راستہ ہے،  میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں سمجھ بوجھ کے مطابق، میں ( بھی) اور وہ (بھی ) جس نے میری پیروی کی‘‘۔

اس لئے امت کے ہر فرد پر یہ ذمہ داری  عائدہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے اس مشن کو آگے بڑھانے کا کام کرے اور اجتماعی طور پر ہر دور میں اسلام کو تمام ادیان پر غالب رکھنے کی سعی کرے۔حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ اس مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ترجمہ:’’خدا تعالیٰ نے ہدایت اور شریعت حق آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل فرمائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو صحابہؓ تک پہنچایا اور صحابہؓ نے ان معانی کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے (اپنے الفاظ سے ) مراد لئے تھے سمجھ لیا اور انھوں نے وہ تمام باتیں تابعین تک پہنچائیں (اور تابعین نے بھی ان کی مراد سمجھ کرتبع تابعین تک پہنچایا) و علیٰ ہٰذا کیوں کہ مقصود الٰہی صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیم نہ تھی نہ یہ مقصد تھا کہ آپؐ فرض تبلیغ سے سبکدوش ہوجائیں گو سننے والے(آپؐ کی مراد) نہ سمجھیں بلکہ مقصود الٰہی ظہور (اور غلبہ) دین برحق تھا ہر زمانہ میں ‘‘۔(ازالۃ الخفاء عن خلافۃالخلفاء مترجم، مطبوعہ قدیمی کتب خانہ، کراچی، جلد ۱، ص ۱۷۵-۱۷۶)۔اسی بات کو شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے اس طرح کہا ہے:

مری زندگی کا مقصد ترے دیں کی سرفرازی 

میں اسی لئے مسلماں،  میں اسی لئے نمازی

  یہی وہ ذمہ داری تھی جس کو خلفاء راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے سمجھا اور اس کے لئے جان و مال کی وہ قربانیاں دیں جو رہتی دنیا تک کے لئے اپنی مثال آپ ہے۔ لیکن افسوس کہ ہم نے اس سبق کو بھلا دیا اور ہم اس دین کو تمام باطل ادیان پر غالب کرنے کی تو کیا فکرکرتے، خود اپنے گھروں سے ہی اسے دھکے دے کر باہر کردیا کہ آج ہمارے گھروں میں غیروں کے طریقے تو زندہ ہیں لیکن نبی کریم ﷺ کا طریقہ مٹ چکا ہے۔ہم اپنے بچوں کو یہ سکھاتے ہیں کہ ان کی زندگی کا مقصد ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر اور آئی اے ایس وغیرہ بننا ہے تاکہ مال و دولت اور آرام و آسائش کی چیزوں کے حصول کو یقینی بنایا جاسکے لیکن ہم انہیں یہ نہیں بتاتے کہ بحیثیت مسلمان ان کی کیا ذمہ داریاں ہیں جن کی ادائیگی پر ان کی دنیا و آخرت کی حقیقی کامیابی کاانحصار ہے۔عصری علوم کو حاصل کرنا اور اس کے ذریعہ مختلف قسم کے جائز روزی کے ذرائع و عہدوں کو حاصل کرناکوئی غلط بات نہیں بلکہ ضروری ہیں اور اگر نیتوں کی درستگی کے ساتھ حاصل کئے جائیں تو عین دین ہیں اور ان سے بہت سے دینی منفعت حاصل کئے جاسکتے ہیں لیکن ان کا حصول زندگی کا وقتی مقصد تو ہوسکتا ہے لیکن حتمی مقصد (ultimate goal) نہیں ہوسکتا۔انسان کی فکر اگر صحیح ہو تو انہی ڈگریوں اور عہدوں کا استعمال اللہ کے دین کی سربلندی کے لئے کرسکتا ہے،  اپنے علم سے لوگوں کو نفع پہنچا سکتا ہے اور اپنے شعبہ میں عملی نمونہ بن کر دین کو زندہ کرسکتا ہے لیکن کب ؟ جب ہم اپنے بچوں کی عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم و تربیت کا بھی بہترین نظم کریں تاکہ ہمارے بچے دنیا کے میدان میں بھی کسی سے پیچھے نہ رہیں ساتھ ہی ساتھ اپنی عملی زندگی میں وہ اللہ کی بندگی کا بہترین حق ادا کرنے والے بھی بنیں اور مختلف شعبہ حیات میں رسول پاک ﷺ کے نمائندہ (Representative) ہونے کا بہترین رول ادا کرسکیں۔ لیکن ہم تو ان کو ڈگریوں اور عہدوں سے صرف دنیوی منفعت حاصل کرنا اور عیش و عشرت کے لئے ان کا استعمال کرناہی سکھاتے ہیں۔

 نتیجہ کیا ہے؟ لگ بھگ ۵۰ مسلم ممالک اور آبادی کے لحاظ سے دوسرے مقام پر ہونے کے باوجود آج مسلمان سارے عالم کے اندر مغلوب و مقہور ہیں۔ اس ذلت و پستی سے نکلنے کے لئے مختلف حلقوں سے مختلف قسم کی تجاویز پیش کی جارہی ہیں اور مختلف قسم کی حکمت عملیاں اپنائی بھی جارہی ہیں لیکن سب کا نتیجہ صفر ہے۔ اصل مرض کی طرف ہمارا ذہن ہی نہیں جاتااور اگر جاتا بھی ہے تو ہماری آرام طلبی اور عیش کوشی ہمیں اپنے مقصد پر آنے نہیں دیتی کیوں کہ دعوت کا راستہ تو مجاہدہ،  ابتلاء اور آزمائش سے پر دکھائی دیتا ہے لیکن یہی وہ راستہ ہے جس کو اپنانے سے ملت موجودہ ذلت و نکبت سے نکل سکتی ہے۔ یاد رکھیں اللہ کا دین تو زندہ ہوگا جیساکہ جناب رسول ﷺ کی پیش گوئی ہے لیکن اس پر غور کریں کہ ہمارا کیا بننے والا ہے؟ حضرت تمیم داری ؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یہ دین ہر اس جگہ تک پہنچ کر رہے گاجہاں دن اور رات کا چکر چلتا ہے اور اللہ کوئی کچا پکا گھر ایسا نہیں چھوڑے گاجہاں اس دین کو داخل نہ کردے، خواہ اسے عزت کے ساتھ قبول کرلیا جائے یا اسے رد کرکے ذلت قبول کرلی جائے، عزت وہ ہوگی جو اللہ اسلام کے ذریعہ عطا کرے گا اور ذلت وہ ہوگی جس سے اللہ کفر کو ذلیل کردے گاـ۔(مسند احمد،  باب مسند الشامیّین)۔اس مضمون کی اور بھی روایتیں ہیں مثلاً مسند احمد باب مسند الانصار میں مقداد بن اسودؓ کی روایت، صحیح مسلم، کتاب الفتن میں حضرت ثوبانؓ کی روایت وغیرہ۔

 ان سب کا حاصل یہ ہے کہ دین تو سارے عالم کے اندر غالب ہوکر رہے گا لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس ہدف کو حاصل کرنے کی سعی کی سعادت حاصل کرنے والوں میں کیا ہمارا بھی نام ہوگا؟رسول پاک ﷺ کی محبت کا دعویٰ کرنے والے اور آپؐ کی شفاعت کی امید رکھنے والے! ذرا سوچیں،  کیا رسول پاک ﷺ کی محبت اور اتباع کا تقاضہ یہ نہیں ہے کہ ہماری زندگی کا بھی وہی مشن ہو جو آپؐ کی زندگی کا مشن تھا؟ روز قیامت اگر اللہ کے رسول ؐنے یہ پوچھ لیا کہ تم نے ہمارے دین کو زندہ کرنے کے لئے کیا کیا تو ہم کیا جواب دیں گے؟ اور خوف تو یہ بھی ہے کہ اللہ رب العزت کہیں ہماری جگہ کسی اور قوم کو نہ کھڑا کردے اور ان سے اس اقامت دین کا کام لے لے اور ہمیں بالکل ہی کنارے کردے جیسا کہ اس کا ارشاد ہے:

وَإِن تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَیْْرَکُمْ ثُمَّ لَا یَکُونُوآ أَمْثَالَکُمْ(محمد:۳۸  نیز اس مضمون کی دیگر آیات بھی دیکھئے النسآء:۱۳۳، المائدہ:۵۴، التوبہ:۳۸-۳۹)۔

’’اور اگر تم روگردانی کروگے تو وہ تمہارے سوا (تمہاری جگہ) کوئی دوسری قوم بدل دے گا اور وہ تمہارے جیسے نہ ہوں گے‘‘۔

بقول مولانا شمس نوید عثمانیؒ ’’ جو لوگ تمہیں آج اس لئے مار رہے ہیں کہ تم مسلمان ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ کل وہی اس لئے ماریں کہ مسلمان کیوں نہیں ہو‘‘۔ اس لئے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ خواب غفلت سے بیدار ہوجائیں ؛ اپنی جسمانی،  علمی و مالی تمامتر صلاحیتوں کو اس عظیم مقصد کی حصولیابی کے لئے استعمال کریں۔ اللہ کی اطاعت کے ذریعہ اس کی رضا حاصل کرنا اور دعوت دین اور  اس راہ کی جد وجہد کے ذریعہ اسلام کو زندہ اور غالب کرنے کی مستقل فکر کرنا، یہی وہ مقاصد ہیں جن کے لئے ایک مسلمان کو جینا و مرنا چاہیے اور باقی تمام مقاصدکو ان عظیم مقاصد کے تابع رکھنا چاہیے۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ اس بندہ عاجز کو بھی عمل کی توفیق عطا کرے اور اس کی تمامتر صلاحیتوں کو عافیت کے ساتھ اپنے دین کے احیاء و بقاء اور غلبہ حق کے لئے قبول فرمالے۔آمین!

تبصرے بند ہیں۔