بابا رام رحیم کی اصلیت کیا ہے؟

عبدالعزیز

 بابا رام رحیم کا پورا نام گرمیت رام رحیم سنگھ ہے۔ 23ستمبر 1990ء میں انھوں نے ’’ڈیرہ سچا سودا‘‘ کے نام سے ایک نئے مذہب کا اعلان کیا۔ اس اعلان کے بعد ڈیرہ سچا سودا کے عقیدت مندوں اور سکھ مذہب کے حامیوں کے درمیان کشمکش کی شروعات ہوئی۔ ہریانہ کے ہیسار میں ان کا بہت بڑا آشرم ہے۔ ان کے ماننے والوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچتی ہے۔ ان کے ڈیرہ میں ہر سیاسی پارٹی کے لوگ آشیرواد لینے پہنچتے ہیں ۔ 2014ء میں نریندر مودی نے بابا کی تعریف کا پل باندھا تھا۔ بی جے پی کے بہت سے لوگ جن میں امیت شاہ، دہلی کے منوج تیواری آشیرواد لینے گئے تھے۔ ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر بھی ان کے دربار میں حاضری دیتے رہتے ہیں ۔ ان کے اسپورٹس منسٹر شرما نے ان کے دربار میں حاضری دی اور 51لاکھ روپئے دیا۔ کانگریس کے بھی لیڈر ان کے ڈیرہ میں حاضری دیتے تھے لیکن 2014ء میں بابا رام رحیم نے بی جے پی کی حمایت کا اعلان کیا جب سے بی جے پی کے لوگ ان کے بہت زیادہ شیدائی ہوگئے۔ صرف ہریانہ کے ہی نہیں دوسری ریاستوں کے بھی وزراء اعلیٰ ان کے دربار میں حاضری دینا اپنے لئے وجہ عزت سمجھتے ہیں ۔ کچھ دنوں پہلے بہت سے تحفے تحائف کے ساتھ مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس نے بھی ان کے دربار میں حاضری دی تھی۔

2002ء میں بابا گرمیت رام رحیم پر الزام لگا کہ انھوں نے دو لڑکیوں کی عصمت دری کی۔ ایک مقامی اخبار جس کے ایڈیٹر رام چندر چھترپتی تھے انھوں نے لڑکیوں کے الزام کو اپنے اخبار میں چھاپا جس کی وجہ سے اخبار کے ایڈیٹر کو جان سے مار دینے کی دھمکی ملنے لگی۔ اس وقت ہریانہ میں چوٹالہ (دیوی لال کے بیٹے) کی حکومت تھی۔ ایڈیٹر نے حکومت کو اطلاع دی کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔ اس کے باوجود حکومت نے ان کے تحفظ کا کوئی بندوبست نہیں کیا اور انھیں اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ بابا کے حامیوں نے ان کے گھر کے سامنے انھیں گولیوں سے بھون دیا ۔ ان کے لڑکے نے زبردست ہمت دکھائی اور اپنے باپ کیلئے مقدمہ لڑنا شروع کیا۔ اب تک بیٹے کو انصاف نہیں ملا۔ بابا کے خلاف دو لڑکیوں کی عصمت دری کا مقدمہ دائر ہوا۔ دونوں نے دھمکی کے باوجود پندرہ سال تک انصاف کیلئے دوڑ دھوپ کی۔ بالآخر سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے جج نے بابا کو مجرم قرار دیا، جس کی وجہ سے ملک کی تین ریاستوں پنجاب، ہریانہ اور دہلی میں بڑے پیمانے پر غنڈہ گردی، فساد اور آتش زنی کے واقعات رونما ہوئے۔ اب تک 30 افراد ہلاک ہوئے ہیں ۔ سیکڑوں زخمی ہیں اور پولس اور میڈیا کی کئی گاڑیوں اور کئی بسوں اور درجنوں موٹر سائیکلوں کو نذر آتش کر دیا گیا ۔ بہت سی سرکاری عمارتوں کو بھی جلایا گیا۔ جس چھوٹے شہر پنچکولہ میں مقدمہ کا فیصلہ ہوا دو روز پہلے وہاں دفعہ 144 نافذ کر دیا گیا۔ اس کے باوجود بابا کے ہزاروں حامی اور عقیدتمند جمع ہوگئے۔ پولس محکمہ کو مقدمہ کے فیصلہ کی جگہ، تاریخ اور وقت معلوم ہونے کے باوجود لوگوں کو وہاں بڑی تعداد میں جمع ہونے دیا۔ بتایا جاتا ہے کہ اوپر سے یعنی وزیر اعلیٰ کی طرف سے ممانعت تھی کہ بابا کے حامیوں پر زور زبردستی نہ کی جائے جس کی وجہ سے پولس لاچار تھی۔ بابا کے حامیوں نے جب پرتشدد مظاہرے کئے جب کہیں پولس حرکت میں آئی اور فوج بلالی گئی۔ اس وقت تناؤ ہے مگر حالات قابو میں ہیں ۔

 بابا کو پولس نے گرفتار کرلیا مگر انھیں ہیلی کوپٹر کے ذریعہ ہیسار لے جایا گیا۔ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ضرور رکھا گیا ہے مگر ان کے ساتھ VIP (اہم شخصیت) جیسا سلوک کیا جارہا ہے۔ ان کے کمرے میں ایئر کنڈیشن کا انتظام ہے اور وہ قیدیوں کے کپڑے میں نہیں بلکہ اپنے کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور ان کے کھانے کا اچھا خاصا نظم ہے۔ ان کو قید خانے میں بھی عیش و آرام کی سہولت دی جارہی ہے۔

 ایک طرف روشنی کی کرن نظر آتی ہے کہ رام چندر چھتر پتی جیسے شخص نے بابا کی بدکرداری کو اجاگر کیا اور انھیں جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی مگر وہ اپنے فرض کو پورا کرتے رہے۔ اسی طرح دو لڑکیوں نے گواہی دی اور کئی بار انھیں عدالت میں جانا پڑا۔ وہ بھی اپنے فرائض نبھاتی رہیں ۔ ڈی ایس پی درجہ کے ایک پولس افسر نے بھی کیس کی تفتیش اچھی طرح سے کی۔ جج نے بھی دھونس اور دھمکی کی پرواہ کئے بغیر سچا فیصلہ کیا۔ ان چار افراد کا کردار دیکھنے اور دوسری طرف اہل سیاست اور خاص طور سے بی جے پی کے لوگوں کا بھی کردار دیکھئے جو عصمت دری کے مجرم کی ہر مرحلہ پر عزت افزائی کرتے رہے اور آج بھی وہ اسی روش پر قائم ہیں ۔ بی جے پی کے بدنام زمانہ ایم پی ساکشی مہارا ج نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ عدالت کا احترام کرتے ہیں مگر جنسی استحصال کیلئے عدالت کا دو گواہوں پر بھروسہ کرلینا اچھی بات نہیں ۔ دیکھنا چاہئے کہ ایک طرف دو کی گواہی ہے تو دوسری طرف بابا کے لاکھوں عقیدت مند اور پیروکار ہیں ۔ انھوں نے مزید کہاکہ بھارتی سنسکرتی کے خلاف یہ سازش ہورہی ہے۔ سادھویوں اور بابا کو بدنام کیا جارہا ہے۔ ساکشی مہاراج عدالت کو مشورہ دے رہے ہیں کہ اسے ایسا فیصلہ نہیں کرنا چاہئے اور میڈیا پر بھی الزام لگا رہے ہیں کہ بھارتی سنسکرتی کو میڈیا والے بدنام کر رہے ہیں اور سازش کے شکار ہیں ۔

 آج ایک ایسی پارٹی کی حکومت ہندستان کے اکثر حصوں پر ہے جو یوگیوں اور باباؤں کی قدرداں ہے جو اپنے آشرم میں رنگ رلیاں مناتے ہیں اور جنسی استحصال کرتے ہیں ۔ منوہر لال کھٹر ہریانہ کے وزیر اعلیٰ ہیں ۔ بابا گرمیت رام رحیم سنگھ کے بھکتوں میں شامل ہیں ، ان کی حکومت میں یہ تیسری بار پرتشدد واقعات ہوئے اور حالات قابو سے باہر ہوگئے۔ ان سب کے باوجود وہ اپنے عہدہ پر برقرار ہیں کیونکہ وہ آر ایس ایس اور مودی جی سے قریب ہیں ۔ اگر ایسے لوگ جو مجرموں اور ظالموں کی حمایت کرتے رہیں گے اور اقتدار کی کرسی پر بھی براجمان رہیں گے تو اس ریاست کی حالت ہریانہ اور گجرات جیسی ہی ہوگی جہاں لوگ و خوف و ہراس کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے۔ آہستہ آہستہ پورا ملک ہریانہ اور گجرات بنتا جارہا ہے۔ مودی حکومت کا عدلیہ پر بھی یلغار ہے۔ اس کے باوجود عدلیہ کا ایک حصہ اس یلغار کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ روشنی کی یہی ایک کرن جو بحر ظلمات پر بھاری نظر آتی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


4 تبصرے
  1. Najmul Huda Sani کہتے ہیں

    جب ‛مضامین ڈاٹ کام‛ شروع کیا گیا تھا تو امید تھی کہ یہ ویب سائٹ معیارپر سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ مگر افسوس بہت جلد یہاں بھی عام اردو اخباروں‛ رسالوں اور ویب سائٹس کی طرح ہر طرح کی چیزیں چھپنے لگیں اور مواد اور معلومات میں سطحیت راہ پاگئی۔ ہمارے یہاں سنحیدہ اور علمی انداز سے لکھنے والوں کی کمی ہے۔ مجھے مجلس ادارت کے مسائل کا احساس بھی ہے۔ مگر کہیں نہ کہیں ایک اپنے معیار کے لئے ایک ‛لکشمن ریکھا‛ تو کھینچنی پڑتی ہے نا! رپورٹنگ اور تجزیہ میں فرق تو ہونا چاہئے نا! تلخ کلامی کے لئے معذرت۔

  2. زارا علی کہتے ہیں

    لعنت ہے ایسے بابا پہ اور اس کی حمایت کرنے والوں پہ بھی

  3. زارا علی کہتے ہیں

    لعنت ہے ایسے بابا پہ اور اس کی حمایت کرنے والوں پہ بھی

  4. زارا علی کہتے ہیں

    لعنت ہے ایسے بابا پہ اور اس کی حمایت کرنے والوں پہ بھی

تبصرے بند ہیں۔