کونوا مع الصادقین !

عالم نقوی

ہم نے جمعۃ الوداع کو صہیونی دجالوں کے اس ظلم کے خلاف احتجاج درج کرانے کے لیے  یوم القدس منایا تھا جو  فلسطین  اور غزہ میں بے روک ٹوک جاری ہے  اور اب  آج عید کے دن، شکرانہ عید کی ادائگی کے لیے  آئیے ہم اس حالت میں گھروں سے نکلیں کہ ہمارے بازؤوں پر سیاہ پٹیاں  ہوں ! ہم دجال کے تمام ملکی غلاموں اور وطن عزیز کے  سبھی ظالموں کے خلاف اس طرح اپنا خاموش احتجاج  درج کرا کے  دنیا کو یہ بتا دیں کہ صہیونیت کے دیسی کارندے  چاہےہمارے کتنے ہی اخلاقوں، جنیدوں اور منہاجوں کو  اپنے ظلم اور تکبر  کی زد پر رکھ کر شہید کر ڈالیں، ہم خوفزدہ نہیں ہوں گے۔ہم اللہ کی دی ہوئی عید کے دن سوگ  تونہیں منائیں گے لیکن ظلم کے خلاف احتجاج ضرور  کریں گے  !

دہلی یونیورسٹی کےپروفیسر اپوروا نند جھا نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ’’ ملک میں جو ماحول ہے وہ بتا رہا ہے کہ اب قانون کی حکمرانی نام کی کوئی چیز باقی نہیں بچی ہے یا پھر حکومت  نے  جان بوجھ کر ملک کوغنڈوں کے حوالے کر دیا ہے  کہ وہ جس کو چاہیں پیٹیں، ان کے مویشی چھین لیں اور انہیں مار ڈالیں کیونکہ حکومت کی شہ کے بغیر یہ سب ممکن ہی نہیں ہے۔ یہ سب 2014 کی انتخابی مہم سے شروع ہوا تھا جس میں آج کے پردھان منتری نے یہ کہا تھا کہ دیش واسیوں کو سفید انقلاب اور گلابی انقلاب میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے۔

گلابی انقلاب سے مراد ظاہر ہے کہ  گوشت خوری، مسلمان اور ان کے مذبح تھے۔ تواس کے بعد سے جو کچھ ملک میں  شروع ہواہے  وہ انہی کے اُکسانے کا راست نتیجہ ہے۔باقی سب بہانے ہیں۔ اور یہ جو عورتوں کے تحفظ کی باتیں ہورہی ہیں یہ تو محض ایک مذاق ہے۔ آپ مسلمانوں کو مار کر مسلم عورتوں سے یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم مسلم عورتوں کو مسلم مردوں کے ظلم سے بچانا چاہتے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس سے بڑا کوئی مذاق، پچھلے ڈیڑھ دو سو سال میں اس دیش میں ہوا ہے !یہ ایک نہایت غیر سنجیدہ بات ہے لیکن اس کو سنجیدگی سے لینا اس لیے ضروری ہے کہ سرکار یہ کہہ رہی ہے۔ در اصل یہ ملک کو ایک خاص طرح کا ہندو راشٹر بنانا چاہتے ہیں جس میں اصل اقتدار صرف غنڈوں کے ہاتھوں میں ہوگا جس میں کوئی بھی محفوظ نہیں ہوگا۔ یہ بات خاص طور پر ہندوؤں کے سوچنے کی ہے کہ انہیں اس دیش کی سبھیتا کو بچا کر رکھنا ہے یا نہیں کیونکہ یہ جو کچھ ہورہا ہے وہ  اُس تہذیب اور انسانیت کے سراسر خلاف  ہے جس  کے لیے یہ ملک جانا جا تا ہے‘‘

ملک میں اگر غیر اعلان شدہ ایمرجنسی جیسی صورت حال ہے تو اس میں حیرت کی کوئی بات اس لیے نہیں ہے کہ سنگھ پریوار نہ اندرا گاندھی کی ایمرجنسی کے خلاف تھا نہ اس سے پہلے وہ  کبھی انگریزوں  کی غلامی کے خلاف  رہا کیونکہ سنگھ پریوار کے بنیوں ہی کی مدد سے تو وہ حکومت کر رہے تھے۔ دو سال قبل ستمبر 2015  میں انٹلی جنس بیورو کے سابق سربراہ ٹی وی راجیشور  یہ انکشاف کر ہی چکے ہیں  کہ آر ایس ایس تو ایمرجنسی کے خلاف  کبھی تھا ہی نہیں۔ راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ نہ صرف ایمرجنسی کے حق میں تھا بلکہ اس وقت کے سربراہ بالا صاحب دیو رَس نے تو اندرا گاندھی سے ملنے کی کوشش بھی کی تھی۔ ایمرجنسی کے زمانے میں (یعنی1975۔76)ٹی وی راجیشور آئی بی کے نائب سربراہ تھے۔ 22 ستمبر 2015 کو شایع پی ٹی آئی کی ایک خبر کے مطابق  انڈیا ٹوڈے کے پروگرام ’ٹو دا پوائنٹ ‘ میں  کرن تھاپرکو انٹر ویو دیتے ہوئے  انہوں نے  بتایاتھا  کہ نہ صرف اندرا گاندھی سے بلکہ دیورس تو سنجے گاندھی سے بھی ملنے کے لیے بے قرار تھے جس کا مقصد اُن  کے اقدامات کے تئیں اپنی غیر مشروط حمایت کے اظہار کے سوا اور کچھ  نہ تھا لیکن اندرا گاندھی اور سنجے دونوں ہی نے دیورس سے کسی بھی طرح کا رابطہ رکھنے   سے انکار کر دیا تھا۔ اپنی کتاب ’دی کروشیل ائیرس ‘ میں بھی  وہ یہ باتیں لکھ چکےہیں۔

یہ کتاب بھی 2015 میں شایع ہوئی تھی جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ ایمرجنسی لگانے کا مشورہ سدھارت شنکر رے نے اندرا گاندھی کو دیا تھا۔ ایمرجنسی کے دوران اصل حکومت تو سنجے گاندھی کے ہاتھوں میں تھی جس کا انہوں نے بے دریغ استعمال کیا۔ اندرا گاندھی سب جانتی تھیں لیکن نہ جانے کیوں وہ اس کے نتائج کا اندازہ لگانے سے قاصر رہیں۔ ایمرجنسی کے زمانے میں ہونے والی زیادتیاں خواہ وہ جامع مسجد اور ترکمان گیٹ کو خوبصورت بنانے کے نام پر صدیوں سے آباد لوگوں کو اجاڑنا ہو یا فیملی پلاننگ کے نام پر جبری نس بندی، بیشتر مسلمانوں ہی کے خلاف تھیں اور ظاہر ہے کہ سنجے گاندھی سنگھ پریوار ہی کے ایجنڈے پر عمل کر رہے تھے یہ اور بات ہے کہ وہ منافقین کے ٹولے میں تھے۔ سنگھ پریوار کی کوئی بات ہمیں اگر پسند ہے تو وہ یہی کہ وہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں تو ڈنکے کی چوٹ پر کہتے بھی ہیں اور اب خدا خدا کر کر کے مودیوں، یوگیوں  اڈانیوں اور امبانیوں کے طفیل اقتدار ہاتھ آیا ہے تو وہ دو ڈھائی سو برسوں سے جو پلاننگ کر رہے تھے اس پر کسی بھی طرح By Hook or by Crook عمل کر لینا چاہتے ہیں کیونکہ یہ تو وہ بھی جانتے ہیں کہ۔ ۔ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں۔ ۔ناؤ کاغذ کی سدا چلتی نہیں۔ ۔!

ایشیا ٹائمس نے 25 جون 2017 کو اپنے نیوز پورٹل پر تفصیل سے بتایا ہے کہ ستمبر 2015 سے جون 2017 تک اکیس مہینوں  میں مسلمانوں پر اکیس حملے ہوئے ہیں جن میں محمد اخلاق، زاہد رسول بھٹ، محمد مظلوم، آزاد خان، ابو حنیفہ، ریاض الدین، پہلو خان، غلام محمد، ظفر حسین، جنید اور منہاج انصاری سمیت  گیارہ مسلمانوں کو، سنگھی غنڈوں کی بھیڑ کے ذریعے گھیر کربے رحمی کے ساتھ  بے جرم و بے خطا مارا جا چکا ہے اور دس  افراد خونیں بھیڑ کے شکار بن کر سنگین طور پر زخمی ہو ئےہیں۔

  مسلمانوں کے پاس بھی اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوجائیں اور صرف اللہ سے ڈریں  تاکہ سچوں کا ساتھ دے سکیں۔ کیونکہ مستقبل ٹرمپوں، مودیوں اور انہیں اپنا ولی و سرپرست بنا لینے والوں کا نہیں اُس دین حنیف ’اسلام ‘ کا ہے جو اللہ کا پسندیدہ دین ہے   اور پوری دنیا کا متحد  ہوکر اسلام کے خلاف ہوجا نا اس کا ثبوت ہے۔ یہ سب مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے ہی کے لیے تو ہو رہا ہے ! مسلمان اعلان کردیں کہ وہ صرف اللہ سے ڈرتے ہیں اور حصول ِ علم کے ساتھ ہی  خدمت  ِ خلق کو اپنا نصب ا لعین بنا لیں۔ دنیا میں صرف مسلمان ہی ظلم و ستم کا شکار نہیں کچھ اور  بھی کمزور قومیں اور طبقے ہیں جن کے حقوق پر  وقت کے قارونوں، فرعونوں اور یزیدوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔