بابری مسجد کا جھگڑا یا تنازعہ انگریزوں کا کیا دھرا

عبدالعزیز

 ہندستان میں انگریزوں کی آمد سے پہلے بابری مسجد کا نہ کوئی قضیہ تھا اور نہ تنازعہ اور نہ ہی ہندو اجودھیا کو ہندوؤں کا پَوِتر استھان (مقدس مقامات) سمجھتے تھے۔ انگریزوں نے اپنی حکمرانی کی عمر دراز اور پائدار کرنے کیلئے ہندو اور مسلمانوں کو ’’لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی اختیار کی۔ انگریزوں نے مسلمانوں سے ہندستان میں ہندوؤں سے نہیں بلکہ مسلمانوں سے قتل و غارتگری کے ذریعہ حکومت چھینی تھی۔ انگریزوں کو اپنی حکومت بچانے کیلئے ہندوؤں کو ساتھ لے کر رہنا تھا اور ہندوؤں کو مسلمانوں کا کسی نہ کسی طرح دشمن بناکر رکھنا تھا تاکہ دونوں متحد ہوکر ان کی ظالمانہ حکومت کے درپے نہ ہوں ، انگریزوں نے اپنی پالیسی میں بہت حد تک کامیابی حاصل کی مگر جب ان کے پاپ کا گھڑا بھر گیا اور پانی سر سے اونچا ہونے لگا تو ہندوؤں کی سمجھ میں آیا کہ انگریز اپنے جبر و ظلم کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں ۔ جب ہندو اور مسلمان دونوں مل کر انگریزوں اور ان کی حکومت سے ٹکرا گئے تو انگریزوں کو بالآخر اپنا بوریا بستر اس ملک سے گول کرنا پڑا جسے وہ سونے کی چڑیا سے تعبیر کرتے تھے۔

رام جنم بھومی اور بابری مسجد:

 مغل بادشاہوں کی حکومت کے زمانہ میں رام جنم بھومی اور بابری مسجد کے تنازعہ کا ذکر کہیں نہیں ملتا، ان کی حکومت کمزور ہوئی تو اودھ میں نوابوں کی حکومت قائم ہوگئی، یہ بھی بے جان ہوتی چلی گئی تو انگریزوں نے اس پر تسلط جمانا شروع کیا، وارن ہسٹنگز (1772-85ء) کے زمانہ ہی سے اودھ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرف سے ایک امدادی فوج متعین کردی گئی تھی، اس کے مصارف نواب کے ذمہ تھے، اس فوج میں وارن ہسٹنگز نے غیر معمولی اضافہ کردیا، اس کے مصارف بھی نواب کو برداشت کرنا پڑا، فوجی مصارف کیلئے جب کثیر رقم مانگی جانے لگی تو نواب سے باقاعدہ ادا نہ ہوسکی، وارن ہسٹنگز نے بیگمات اودھ کے زیورات اورجواہرات چھین کر یہ رقمیں وصول کیں ، اس سے ظاہر ہے کہ اودھ کے نواب انگریزوں کے زیر نگیں ہوگئے تھے، لارڈ ویلزلی کے زمانہ میں یہ فوج دس ہزار سے بھی زیادہ بڑھا دی گئی، اس کے مصارف کیلئے نواب کو اپنا آدھا علاقہ کمپنی کے حوالہ کرنا پڑا، لارڈ ولارنس کے زمانہ سے وہاں ایک انگریز ریزی ڈنٹ رہنے لگا، جو اپنی فوج کی مدد سے ریاست کے نظم و نسق کا نگراں ہوگیا، لارڈ ڈلہوزی کے زمانہ میں نواب واجد علی شاہ نام کے نواب رہ گئے، یہ ساری تفصیلات اس زمانہ کی کسی تاریخ میں پڑھی جا سکتی ہیں ، خود نواب واجد علی شاہ نے اپنی مثنوی حزن اختر میں لکھا ہے:

یہ واجد علی ابن امجد علی … سناتا ہے اب داستاں رنج کی

کہ جب دس برس سلطنت کو ہوئے … جو طالع تھے بیدار سونے لگے

ہوا حکم جنرل گورنر بہ بار … کرو سلطنت کو خلا ایک بار

جفا کش کا شاہ اودھ نام ہے … حکومت کا اختر یہ انجام ہے

جو وہ لارڈ ڈلہوزی اس وقت تھے … مضامین انہوں نے یہ خط میں لکھے

رعایا بہت تم سے ناراض ہے … تمہاری ریاست ہے بدنام شئے

رزیڈنٹ جرنیل اوٹرم جو تھے … گورنر کا خط مجھ کو وہ دے گئے

وہ لائے تھے اس طرح کی ساتھ فوج … کہ جس طرح دریا کی آتی ہے موج

سید کمال الدین حیدر حسنی الحسینی الشہدی نے اپنی تصنیف قیصر التواریخ یا تواریخ اودھ کی جلد دوم میں لارڈ ڈلہوزی ریزیڈنٹ جنرل سیلمن اور جنرل اوٹرم، نواب واجد علی شاہ کیساتھ جو کچھ کرتے رہے اس کی پوری تفصیل لکھی ہے ، اسی زمانہ میں اجودھیا کے مسجد و مندر کا جھگڑا کھڑا ہوا، جو 1855ء میں انتہائی خوں ریز تصادم تک پہنچ گیا، اس میں سراسر انگریزوں کا ہاتھ رہا، انہوں نے شروع ہی سے یہ سوچ رکھا تھا کہ اس ملک میں ان کی حکومت اسی وقت تک قائم رہ سکے گی جب تک یہاں کے مختلف فرقوں میں باہمی نفرت پیدا ہوتی رہیگی، اودھ میں ان کا تسلط ہوا تو اجودھیا ان کی سامراجی حکمت عملی کا بڑا اچھا دارالعمل بن گیا، اس شہر کو ہندو اپنے لئے ایک پوتر استھان سمجھنے لگے ۔مسلمانوں کی باضابطہ حکومت دہلی میں 1205ء ہی سے شروع ہوگئی تھی ، اس کے بعد وہ جس شہر میں آباد ہوتے وہاں مسجدیں ضرور تعمیر کراتے، ان کیلئے خطیب اور مؤذن مقرر کرتے، سرائیں بھی بنواتے، درویشوں کیلئے خانقاہوں کی تعمیر بھی کروادیتے، مدرسے بھی قائم کرتے جن کیلئے مدرسین مقرر کرتے، مسلمان اجودھیا میں سکونت پذیر ہوئے تو یہاں بھی مسجدوں کی تعمیر ہوئی، انگریزوں کا تسلط اودھ پر ہوا تو ان کو اجودھیا میں مسجد اور مندر کا تنازعہ کھڑا کرنے کا موقع ملا، وہ مسلمانوں سے حکومت چھین رہے تھے، اس لئے ان کو ہندوؤں کی ہمدردی حاصل کرنے کی ضرورت تھی، انہوں نے ہندوؤں کو مسلمان کے خلاف اپنی مختلف تحریروں میں یہ لکھ کر ورغلایا کہ اجودھیا کی زیادہ تر مسجدیں ، ان کے مندروں کو توڑ کر یا ان کی کسی پوتر جگہ پر بنائی گئی ہیں ۔

  یہی انگریز اپنے گزیٹر اور آثار قدیمہ کی رپورٹ میں اس پوتر مقام کی تحقیر لکھ کر بھی کرتے رہے کہ یہ تو ویران ہوکر جنگلوں میں گم ہوچکا تھا، اس کو از سر نو آباد کیا گیا، جس میں پوتر مقامات کی تعیین محض قیاس سے کی گئی ہے، ایسی تحریر لکھنے کا مقصد یہ بھی ہوتا کہ وہ مسلمانوں کو اس کی ترغیب دیں کہ وہ اس بات کو تسلیم نہ کریں کہ ان کی مسجدیں پوتر مقامات پر بنائی گئی ہیں ، مسلمانوں کے مقابلہ میں انگریزوں کا مصلحت آمیز ہمدردانہ رجحان ہندوؤں کی طرف زیادہ تھا، انہوں نے اس کی ترویج پر زور طریقہ پر  کی کہ مسلمانوں کا یہ مذہبی عقیدہ ہے کہ وہ جہاں جائیں وہاں کی قوم پر اپنا مذہب زبردستی نافذ کریں ، اور وہاں کی عبادت گاہوں کو منہدم کرکے اپنی عبادت گاہوں کی تعمیر کریں کوئی کسی غیر ذمہ دار یا برخود غلط یا اسلامی تعلیمات سے ناواقف مسلمان مصنف کی تحریروں ، یا غیر معتبر کتابوں سے ایسا ثابت بھی کرے تو پھر یہ غور کرنے کی بات ہے کہ اگر یہ واقعی مسلمانوں کا مذہبی عقیدہ رہتا تو ہندستان میں ان کے حکمرانوں کی فوجیں کشمیر سے راس کماری اور مغرب سے مشرق تک فتح و تسخیر میں مشغول رہیں ، ان علاقوں میں ایک مندر بھی نظر نہ آتا، صرف مسجد ہی مسجدیں ہوئیں ، رسول اللہ ﷺ نے اپنی حکومت میں غیر مسلموں کو جو رعایتیں دی وہ اسلام کی ان اعلیٰ تعلیمات کے بعد بھی انگریزوں نے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی مہم جاری کررکھی تھی، کہ وہ تو دوسروں پر اپنا مذہب مسلط کرتے ہیں ،اور دوسروں کی عبادت گاہیں مسمار کرکے اپنی مسجدیں تعمیر کرتے ہیں ۔

 مسجد کی تعمیر کیلئے زمین کو حلال طریقہ سے حاصل کیاجانا اس کی صحت کی شرط ہے، اور اس حلال طریقہ کی وضاحت اس طرح کی جاتی ہے کہ اس زمین پر کسی بھی شخص کا کوئی حق نہ ہو، ہدایہ میں ہے کہ اگر ایک شخص نے کوئی ایسی مسجد بنائی جس کے نیچے کوئی تہ خانہ ہو، اس کے بالائی حصہ پر کوئی مکان ہو، بیچ میں مسجد ہو اور اس کا دروازہ کسی راستہ پر کھلتا ہو، اور گو اس مسجد کے حصہ کو اسی شخص نے اپنی ملکیت سے نکال کر مسجد بنادیا ہو، تو یہ درست نہیں ہوگا، کیونکہ جب اس نے اس کو باضابطہ فروخت نہیں کیاہے تو اس کو یا اس کے انتقال کے بعد اس کے وارثوں کو اس حصہ کو فروخت کرنے کا حق باقی رہے گا، صاحب ہدایہ نے اس مسئلہ کی عقلی دلیل یہ دی ہے کہ مسجد اللہ کیلئے خالص نہیں تھی، کیونکہ اس سے بندہ کاحق متعلق ہے، قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ مسجد وہ ہے جس میں کسی کو بھی حق منع حاصل نہ ہو، یعنی اس مسجد پر کسی کاکسی طرح کا کوئی بھی حق نہ ہو (ہدایہ ج:2، ص:625، 624) فقہا کا اس مسلک پر ہمیشہ عمل رہا، موجودہ دور کے فتاویٰ میں بھی اسی قسم کی مثالیں ملتی ہیں ، مثلاً فتاویٰ رضویہ میں ایک استفتاء کے جواب میں یہ لکھا گیا ہے کہ مسجدیں اللہ کیلئے ہیں ، ان کیلئے لازم ہے کہ وہ اپنی شش جہت میں جمیع حقوق عباد سے منزہ ہوں ، اگر کسی حصہ میں ملک عبدباقی ہے تو مسجد نہ ہوگی (فتاویٰ رضویہ، ج:6، ص:453) اسی طرح ایک استفتاء میں یہ پوچھا گیا کہ مسلمان چاہتے ہیں کہ ہندو زمین دار سے زمین خرید کرمسجد بنائیں ،کیونکہ مسلمانوں کے پاس موروثی زمین سے الگ کوئی ایسی زمین نہیں ہے جس پرمسجد یا جامع مسجد بنائی جاسکے، لیکن وہ ہندو زمین دارزمین نہیں بیچنا چاہتا، تو ایسی صورت میں کیاکیا جائے؟ اس کے جواب میں یہ فتویٰ دیا گیا ہے کہ اگر وہ ہندو زمین نہیں بیچتا تو پھر مسلمان گھروں ہی میں نماز پڑھیں ۔ (فتاویٰ رضویہ، ج:6، ص:461)

 ایک مورخ یہ سوال کرسکتا ہے کہ یہ جھگڑا مغل بادشاہوں کے دور میں کیوں نہیں شروع ہوا؟ اس کا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ ہندو اس دور میں دبے سہمے رہے، اس لئے وہ خاموش تھے، حالانکہ اکبر سے لے کر اس کے جانشینوں کے دور عروج تک بڑے بڑے راجپوت سردار ان کے لشکر اور دربار میں رہ کر اپنے کارناموں کی وجہ سے خطابات اور امتیازات پاتے رہے، انہوں نے اپنے شاہی آقاؤں کی توجہ اجودھیا جیسے پوتر مقام کے مندروں کی بے حرمتی کی طرف کبھی نہیں دلائی اور شاید وہ اس کو ایک پوتر مقام سمجھ کر یہاں کی تیرتھ کیلئے کبھی آئے بھی نہیں ، اس جگہ کی اہمیت برطانوی حکومت کے زمانہ میں زیادہ ہوئی، پھر مسمار شدہ مندروں کامسئلہ اٹھاکر ہندوؤں کے جذبات کو ابھارا گیا، جس کے بعد ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان لازمی طور پر باہمی نفرت پیدا ہوئی۔

اس قضیہ کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس میں انگریز ، ہندو اور مسلمان تینوں فریق بن گئے تھے، انگریز اس لئے کہ انہوں نے ہی ہندوؤں کو یقین دلایا کہ ان کے مندروں کو منہدم کرکے مسجدیں بنائی گئیں ، اور پھر اس جھگڑے کو چکانے کیلئے ان ہی کی فوج سرگرم عمل رہی۔ ہندو اس لئے فریق ہوگئے کہ ان کا مطالبہ ہوا کہ جن مندروں کو توڑ کر مسجدیں بنائی گئی ہیں ان کی تعمیر از سر نو، اور مسجدیں مسمار کردی جائیں ۔ مسلمان یہ کیسے گوارا کر سکتے تھے ،ان کی دلیل تھی کہ یہ صحیح نہیں کہ یہ مسجدیں مندروں کوتوڑ کر بنائی گئی ہیں ۔ یہ باتیں محض زبانی روایتوں سے مشہور کی گئی ہیں ، جن کا ثبوت مستند معاصر تاریخوں میں نہیں ، بہت بعد کی کسی کتاب میں ان کاذکر ہے تو وہ قابل قبول نہیں ، ان کا اصراریہ رہا کہ جن مسجدوں میں برابر نمازیں ہوتی رہی ہیں ان میں اسی طرح نمازیں پڑھی جانی چاہئیں ۔ اجودھیا میں یہ جھگڑا 1855ء میں شروع ہوا۔

 اس کے بعد بھی جو مقدمات بابری مسجد کے تعلق سے چلے وہ دراصل ہندوؤں کا بابری مسجد پر یا اس کی زمین پر کوئی دعویٰ نہیں تھا بلکہ بابری مسجد کے دروازے پر جو ہندوؤں نے ایک چبوترہ بنا لیا تھا اور جہاں انہوں نے زور زبردستی پوجا پاٹ شروع کردیا تھا اس کیلئے تھا یا اسے پختہ بنانے کیلئے یا اس پر چھپّر یا چھت ڈالنے کیلئے تھا۔ مقدمات کے سارے فیصلے نامے ان وکلاء کے پاس آج بھی محفوظ ہیں جو بابری مسجدکا مقدمہ لڑ رہے ہیں ۔ نومبر 1883ء کی ایک درخواست سے جو عدالت میں دی گئی تھی اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسجد کے قریب احاطے میں ایک چبوتر بن گیا وہ بھی پہلی درخواست میں یہ صراحت موجود تھی کہ صدیوں سے زمین خالی پڑی تھی، اسی درخواست سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ باہری دیوار، گھیرے اور پھاٹک سے مدعیٰ علیہ کو کوئی واستہ نہیں ، یہ ساری چیزیں مسجد کی ہیں ،کیونکہ تمام علامات و نشانات مسجد کے ہیں ، یہاں تک کہ دروازے کے اوپر لفظ اللہ مرقوم ہے، مسجد کے متولی ہمیشہ سے مسجد کے ساتھ دیوار اور پھاٹک کی سفیدی کراتے رہے ہیں لیکن اس سے سال سفیدی کا سامان منگانے کے بعد مدعیٰ علیہ نے مزاحت کی۔

 اس کے بعد اجودھیا کے مہنتوں نے 1885ء میں ایک مقدمہ دائر کیا، اس میں مہنت رگھو بیر دا س مہنت استھان واقع اجودھیا نے اس زمانہ کے سکریٹری آف اسٹیٹ کو مدعا علیہ بناکر ایک درخواست دی جس میں بتایا :

(1)شہر فیض آباد نے اجودھیا کے مقام پر واقع جنم استھان ہندوؤں کی ایک پرانی اور مقدس عبادت گاہ ہے اور مدعی عبادت گاہ کا مہنت ہے۔

 (2) جنم استھان کا چبوترہ مشرقی اور مغربی جانب سے 21 فٹ لمبا اور شمالی اور جنوبی جانب سے 17 فٹ ہے، اس پر ایک چھوٹا مندر بھی جس کی پوجا کی جاتی ہے۔

 (3) مذکورہ چبوترہ مدعی کے قبضہ میں ہے اور چونکہ اس چبوترے میں کوئی عمارت بنی ہوئی نہیں ہے۔ اگر چبوترے کے اوپر مندر بنا دیا جائے تو اس سے کسی کو نقصان نہیں ہوگا۔

 فیض آباد کے ڈپٹی کمشنر نے مارچ یا اپریل 1883ء میں کچھ مسلمانوں کی طرف سے اعتراض کی بنا پر مندر کی تعمیر پر ممانعت کردی تھی جس کی وجہ سے رگھو بیر داس مہنت نے یہ درخواست پیش کی تھی درخواست دہندہ مہنت رگھو بیر داس کی دستخط 29جنوی 1885ء کے ساتھ آج بھی ریکارڈمیں موجود ہے۔ رگھو بیر داس کی یہ درخواست ڈپٹی کمشنر نے رد کردی ۔اسی طرح کئی مقدمات عدالتوں میں دائر ہوئے، ہندوؤں کو کامیابی نہیں ملی۔ 1885ء میں ڈسٹرکٹ جج فیض آباد انگریز ہونے کے ناطے جو فیصلہ صادر کیا وہ مسجد کے بارے میں یہ بتایا کہ 356 سال قبل کی یہ مسجد ہے لیکن فیصلے میں یہ ریمارک بھی پاس کردیا کہ یہ مسجد ایک زمین پر بنائی گئی ہے جو ہندوؤں کے نزدیک خاص تقدس رکھتی ہے۔ اور یہ بھی لکھ دیا کہ اس کا موقع نہیں ہے کہ اس کا تدارک کیا جاسکے جو کچھ کیا جاسکتا ہے وہ یہ کہ جملۂ فریقین موجودہ حالت کو برقرار رکھیں ۔ اس طرح کے معاملے میں جیسا کہ یہ ہے کوئی بھی نیا اضافہ کسی فائدے کے بجائے کہیں زیادہ نقصان اور نظم کی ابتری کا باعث بنے گا۔ یہ پہلا انگریز جج تھا جس نے ہندوؤں کو راستہ دکھایا کہ وہ دعویدار بن سکتے ہیں ۔ جج نے محض مسلم اور اسلام دشمنی کی وجہ سے ایسا ریمارک پاس کیا جو بعد میں تنازعہ کا سبب بن گیا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔