ہادیہ، عدلیہ اور ہم !

عالم نقوی

مولانا رضی الاسلام ندوی نے لکھا ہے کہ آج سے 14 سو برس پہلے جب قریش مکہ کی عداوتیں اپنے عروج پر تھیں، انھوں نے مسلمانوں کا جینا دوبھر کر رکھا تھا، جو لوگ اسلام قبول کرتے تھے انہیں سخت  ترین ایذاؤں کا نشانہ بنایا جاتا تھا یہاں تک کہ مسلمانوں نے پہلے حبشہ اور مدینہ ہجرت کی لیکن اس کے بعد بھی  مشرکین مکہ ان کے درپئے آزار رہے۔ یہاں تک کہ ہجرت کے چھٹے سال حدیبیہ کے مقام پر انہوں نے مسلمانوں سے جن شرائط پر صلح کی ان میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ جو مسلمان مدینے سے مکہ جائے گا اسے واپس نہیں آنے دیا جائے گا لیکن اگر کوئی مسلمان مکے سے مدینہ جائے  گا تو اسے واپس اہل مدینہ کو اسے ہر حال میں مکہ واپس بھیجنا ہوگا۔

ان حالات میں کچھ خواتین کو اسلام قبول کرنے کی توفیق ہوئی انہوں نے اپنے دین و ایمان کی حفاظت کے لیے مدینہ منورہ ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا انہی میں ایک مشرک سردار مکہ عقبہ کی بیٹی ام کلثوم بھی تھی لیکن ان کے مدینہ پہنچتے ہی ان کے دو مشرک بھائی بھی ان کا پیچھا کرتے ہوعئے مدینہ پہنچے اور نبی کریمﷺ سے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا۔اس موقع پر وحی آئی کہ ان خواتین کا امتحان لیا جائے اور اگر وہ اپنے ایمان میں پختہ ثابت ہوں تو انہیں واپس نہ کیا جائے ۔ لہٰذا آپﷺ نے انکار کرتے ہوئے فرمایا کہ  حدیبیہ کے معاہدے میں ’رجل (مرد ) ‘ کا لفظ ہے لہٰذا اس کا اطلاق عورتوں پر نہیں ہوتا۔ مشرکین ہکا بکا رہ گئے کہ معاہدہ لکھتے وقت انہوں نے متن  کے الفاظ پر اتنی باریکی سے غورہی نہیں کیا تھا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ان خواتین کے نکاح مسلمانوں سے کر دیے۔ کرالا کی نو مسلم ہادیہ آج کی ام کلثوم ہی لگتی ہے۔ اس کا مشرک باپ بھی سماج کا سر بر آوردہ شخص تھا اور ہادیہ کا ظالم باپ بھی ایک فوجی افسر ہے۔ ہادیہ نے بھی ام کلثوم ہی کی طرح ساری زندگی مشرکانہ ماحول میں رہنے کے باوجود اپنی فطرت کی آواز پر دین فطرت کو قبول کیا ہے۔

ام کلثوم کے باپ نے بھی اسے اپنے آبائی مشرکانہ مذہب میں واپس لانے کے سارے جتن کر ڈالے تھے اور ہادیہ کے مغرور و متکبر گھر والوں نےبھی اُسے،  پیدائشی بلندی و پستی کے فاسد اور غیر انسانی نظرئیے والے اپنے آبائی مذہب میں ، واپس لانے کے لیے کوئی  دقیقہ اٹھا نہیں رکھا ہے ۔ ام کلثوم کا امتحان ہوا تھا جس میں وہ ثابت قدم پائی گئی تھی، ہادیہ کا بھی  مسلسل امتحان  ہو رہا ہے اور اس کے قدموں میں بھی ابھی تک کسی ڈگمگاہٹ کا شائبہ تک نظر نہیں آیا ہے۔ یہاں تک کہ آج  (29 نومبر 2017 کو )

سپریم کورٹ میں کھلے عام ہونے والے امتحان میں بھی ہادیہ نے نہایت متانت  کے ساتھ  فاضل ججوں کے سوالوں کے جواب جس بے باکی اور اعتماد سے   دیے ہیں وہ اس کے ایمان کی پختگی کا کھلا ثبوت ہیں ۔ جس طرح ایمان کا ثبوت ملنے کے بعد اللہ کے رسول ﷺ اور مسلمانوں نے ام کلثوم اور دیگر خواتین کو مشرکین مکہ کے حوالے نہیں کیا تھا اور قانونی تدابیر اختیار کر کے انہیں اپنے درمیان روکنے کا جواز فراہم کر لیا تھا اسی طرح ہادیہ کے ایمان کا پختہ ثبوت ملنے کے بعد اس کا حق ہے کہ اسے ایک مسلمان کی حیثیت سے زندگی گزارنے کا موقع فراہم کیا جائے اور اپنے آبائی مشرکانہ دین کی طرف جبراً پلٹائے جانے کی ہر سرکاری اورسنگھی کوشش ناکام بنا دی جائے۔ سپریم کورٹ دو ماہ بعد اس معاملے میں اپنا آخری اور فائنل فیصلہ سنائے گا اس وقت تک  کے لیے عدالت عظمیٰ نےہادیہ کے باپ کے بجائے  اس کے ہومیو پیتھک میڈیکل کالج کے پرنسپل کواس کا گارجین مقرر کر دیا ہے اور پوری آزادی سے اپنی پڑھائی مکمل کرنے کی ٓزادی دی ہے۔ اب یہ ہمارے سربر آوردہ نمائندوں کی ذمیداری ہے کہ وہ پوری تیاری سے ہادیہ کا کیس لڑیں اور اسے مشرکین کے چنگل سے بچائیں ۔ ‘‘مولانا رضی ا لاسلام ندوی کا سوشل میڈیا پر  پوسٹ ہونے والا یہ پیغام چونکہ بر وقت تھا اس لیے ہم نے یہ مناسب سمجھا کہ اپنے اخبار کے قارئین کو بھی اس سے باخبر کرادیا جائے۔

البتہ اے پی این نیوز کے ویب پورٹل پر شایع 29 نومبر 2017 ہی کی ایک خبر کے مطابق ہادیہ کے کالج پرنسپل نے  جنہیں سپریم کورٹ نے اس کا  نیا ’گارجین ‘ مقرر کیا ہے، اُسے اپنے شوہر سے ملنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے ۔ یہ کالج تمل ناڈو کے سلیم شہر میں ہے جہاں  منگل کے روز پولیس نے اُسے پہنچا دیا ہے۔ اپنے پرنسپل کے رخ کا مشاہدہ کرنے کے بعد ہادیہ نے  کہا ہے کہ’’ میں  اب بھی آزاد نہیں ہوں   مجھے  لگتا ہے کہ اب یہ کالج  ہیمیرا  دوسرا قید خانہ ہوگا جبکہ میں آزادی چاہتی ہوں ۔ اپنے شوہر سے ملنے کی آزادی جو میرا قانونی اور اخلاقی حق ہے ! ‘‘

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔