بابر اور بابری مسجد

 عبد العزیز

  راقم ضلع فیض آباد کے ایک گاؤں میں پیدا ہوا جہاں سے اجودھیا تقریباً 60 کیلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ فیض آباد اور اجودھیا جڑواں  شہر(Twin City) ہے اسی شہر اجودھیا میں بابری مسجد 935ہجری میں تعمیر کی گئی۔ جسے سنگھ پریوار نے نرسمہا راؤ اور کلیان سنگھ کی ظالمانہ حکمرانی میں 1992ء کو منہدم کردیا۔ اس کے بعد سے جو حالات اجودھیا اور فیض آباد کے ہوئے اس کا میں عینی شاہد ہوں اور مسجد کا جب انہدام ہوا تو میں کلکتہ کے ایک روزنامہ اخبار ’’اقراء‘‘ کا ایڈیٹر تھا اوربابری مسجد ایکشن کمیٹی کاایک سرگرم رکن بھی تھا۔ بابری مسجد کے انہدام سے پہلے سے مغربی بنگال یا کلکتہ میں بابری مسجد کے تحفظ کیلئے جو کوششیں ہورہی تھیں اس کا میں ایک حصہ تھا کلکتہ ہی وہ شہر ہے جہاں بابری مسجد کے انہدام سے بہت پہلے میری اور حاجی منصور صاحب کی کوششوں سے بابری مسجد پرایک سیمینار ، ودیا مندر میں منعقدہوا جس میں سید شہاب الدین ،مولانا صباح الدین عبد الرحمن ناظم دارالمصنفین ، اعظم گڑھ اورانگریزی کے مشہور صحافی ومعروف وکیل اے جی نورانی شریک ہوئے۔ اس بابری مسجد کو بچانے کیلئے ہندستان کی جس شخصیت نے قولی و عملی طور پر سب سے زیادہ جدوجہد اورکوششیں کیں اس کا نام سید شہاب الدین ہے۔ سید شہاب الدین صاحب سے میری قربت ستمبر 1979 سے ہے ۔ میں ان کے کردار کے ہر پہلو سے واقف ہوں اور سوئے اتفاق سے ان کی سرگرمیوں میں میں بھی ہاتھ بٹاتا رہا اس لئے میں ان کو دور سے نہیں بہت قریب سے جانتا ہوں ۔ ’’تحفظ بابری مسجد اور شہاب الدین ‘‘خود ایک بڑا موضوع ہے جسے میں الگ سے انشاء اللہ لکھنے کی سعی کرونگا۔ اس مضمون کے اندر صرف اتنی بات بتانا مقصود ہے کہ سید شہاب الدین کا رول بابری مسجد کو بچانے کیلئے انتہائی مثبت (Positive) تھا۔ جو لوگ بابری مسجد کے تعلق سے یا کسی اور تعلق سے محترم سید شہاب الدین صاحب کی شخصیت کو منفی انداز میں پیش کرتے ہیں وہ میرے خیال سے نہ تو ان کیساتھ انصاف کرتے ہیں اور نہ ہی ملت کیساتھ اور میں یہ اگر کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ وہ ہندستان کیساتھ بھی انصاف کرنے سے قاصر رہتے ہیں ۔

  ہم مسلمان یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ خدا کا گھر یعنی مسجد جہاں ایک بار تعمیر ہوجاتی ہے وہاں فرش سے لے کر عرش تک تا قیامت وہ مسجد ہی رہتی ہے خواہ وہ قدرتی یا غیر قدرتی وجہ سے ڈھ جائے یا ڈھادی جائے۔ بابری مسجد کی تاریخی حیثیت کیا ہے؟ یہاں سے بات شروع کرتا ہوں ۔اس کی تاریخی حیثیت تو اس کے کتبہ سے ظاہر ہوتی ہے ، اس مسجد پر لکھے ہوئے کچھ اشعار تو یہ ہیں :

بفر مود شاہ بابر کہ عدلش

بنائیست کا کاخِ گر دوں ملاقی

بنا کرد ایں مہبطِ قد سیاں

امیر سعادت نشاں میرباقی

بود خیر باقی و سالِ بنایش

عیاں شد چوں گھنتم بود خیر باقی

          ۹۳۵ھ

 اس کا مطلب یہ ہے کہ شاہ بابر کے حکم سے جس کی عدل پروری کا رخ گردوں سے ملتی ہے، اس کی بنا پڑی، سعادت حاصل کرنے والے ایک امیر میر باقی نے اس کو بنوایا، جواب فرشتوں کے اترنے کی جگہ ہے، خدا کرے یہ کار خیر باقی رہے، اسی لئے اس کی تعمیر کا سال ’’بود خیر باقی‘‘(۹۳۵ھ؁) ہے۔

دوسرے کتبہ میں یہ تین اشعار ہیں :

بنام آں کہ دانا، مست اکبر

کہ خالق جملہ عالم لامکانی

درود مصطفیٰ بعد از ستایش

کہ سرور انبیائے دو جہانی

فسانہ در جہاں بابر قلندر

کہ شد در دورگیتی کامرانی

 ان اشعار میں پہلے اللہ تعالیٰ کو دانا، اکبر ، جملہ عالم اور خالق اور لامکان کہا گیا ہے، پھر اس حمد کے بعد محمد مصطفیٰ ﷺ پر درود بھیجا گیا ہے۔ اور آپ کو دونوں جہاں کاسردار کہا گیا ہے، پھر آخری شعر میں کہا گیا ہے کہ بابر قلندر کا افسانہ دنیا میں پھیلاہوا ہے، اس لئے کہ وہ اس دنیا میں کامران رہے۔

بابر کا اخلاق وکردار:

  بابر کے متعلق یہ بھی گمان نہیں کیا جاسکتا کہ اس نے یہاں آتے ہی مندروں اور مورتیوں کو مسمار کرنا شروع کردیا، کیونکہ جس سال یہ مسجد بنی ہے، اسی سال اس نے ہمایوں کیلئے یہ وصیت نامہ لکھ کر چھوڑ رکھا تھا:

  ’’اے فرزند! ہندستان کی سلطنت مختلف مذاہب سے بھری ہوئی ہے، خدا کا شکر ہے کہ اس نے اس کی بادشاہت عطا کی، تم پر لازم ہے کہ اپنے لوح دل سے تمام مذہبی تعصبات کو مٹادو، اور ہر مذہب کے طریقہ کے مطابق انصاف کرو، تم خاص کرگائے کی قربانی کو چھوڑ دو، اس سے تم ہندستان کے لوگوں کے دلوں کی تسخیر کرسکو گے، پھر اس ملک کی رعایا شاہی احسانات سے دبی رہے گی ، جو قوم حکومت کے قوانین کے اطاعت کرتی ہے اس کے مندروں اور عبادت گاہوں کو منہدم نہ کرو، عدل و انصاف اس طرح کرو کہ بادشاہ رعایا اور رعایابادشاہ سے خوش رہے، اسلام کی ترویج ظلم کی تلوار سے زیادہ احسانات کی تلوار سے ہوسکتی ہے، شیعوں اور سینوں کے اختلاف کو نظر انداز کرتے رہو، ورنہ اسلام میں ان سے کمزوری پیدا ہوتی رہے گی، مختلف عقائد رکھنے والی رعایا کو اس طرح ان عناصر اربعہ کے مطابق ملاؤ، جس طرح انسانی جسم ملارہتا ہے، تاکہ سلطنت کاڈھانچہ اختلافات سے پاک رہے ، یکم جمادی الاولیٰ 935؁ھ (انڈیا ڈیوائڈڈ ص39، تیسرا ایڈیشن)

 یہ تحریر اسی سال کی ہے جس سال بابری مسجد بنائی گئی، اگر یہ رام جنم بھومی مندر کو منہدم کرکے بنائی جاتی تو وہ اپنے لڑکے ہمایوں کو یہ وصیت نامہ کیونکر لکھ سکتا۔

اس وصیت نامہ کوڈاکٹر راجندر پرشاد سابق صدر جمہوریہ نے اپنی مشہور کتاب انڈیاڈیوائڈڈ میں درج کرکے بابرکومذہبی تعصب سے بالا تر تسلیم کیاہے۔

ہندو مورخین کی شہادت:

 اسی طرح پروفیسر سری رام شرما کی کتاب مغل امپائر آف انڈیا کی جلد اول کے ص۵۴-۵۵ پر بھی بابر کا یہ وصیت نامہ درج ہے، اسی لئے پروفیسر صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ ہم کو کوئی ایسی شہادت نہیں ملتی ہے کہ بابر نے کسی مندر کو منہدم کیا، اور کسی ہندوکی ایذا رسانی کی، محض اس لئے کہ وہ ہندو ہے۔ (ص:۵۵؛۱۹۴۵ ؁ء ایڈیشن)

جناب رام پرشاد کھوسلہ پٹنہ یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر تھے، انہوں نے ۱۹۳۴؁ء میں مغل کنگ شپ اینڈ نو بیلٹی لکھی، اس میں بابرکے اوصاف کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بابر کی تزک میں ہندوؤں کے کسی مندر کے انہدام کا ذکر نہیں اور نہ یہ ثبوت ہے کہ اس نے کفار کا قتل عام ان کے مذہب کی وجہ سے کیا، وہ نمایاں طور پر مذہبی تعصب اور تنگ نظری سے بری تھا۔ (ص:۲۰۷)

بابر اور مندروں کا احترام:

  بابر کی تزک بابری کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ ہندوؤں کے مندروں کا ذکر لطف لے لے کر کرتا ہے، مثلاً جب وہ گوالیار کے قلعہ میں پہنچاتو وہاں کے عالی شان بت خانہ کا ذکر اس طرح کرتا ہے کہ یہاں کے تالاب کے مغرب میں ایک عالیشان بت خانہ ہے، سلطان شمس الدین التمش نے اس بت خانہ کے پہلو میں ایک مسجد بنائی ہے، یہ بت خانہ اتنا بلند ہے کہ قلعہ میں اس سے اونچی کوئی عمارت نہیں ، دھول پور کے پہاڑ پرے گوالیار کا قلعہ اور بت خانہ خوب نظر آتا ہے، کہتے ہیں کہ اس بت خانہ کا سارا پتھر وہاں کے تالاب کو کھود کر حاصل کیا گیا ہے، (اردو ترجمہ ص:۳۳۲، انگریزیترجمہ بابر نامہ ص:۶۱۰)

 اگر بابر چاہتا تو گوالیار کے اس عالیشان بت خانہ کی تعریف کرنے کے بجائے اس کو منہدم کردیتا، اس کیلئے اس ملک کے مندر اور بت خانے بالکل نئی چیزیں تھیں ، اس لئے ان کو شوق سے دیکھتا رہا۔

گوالیار کے بت خانہ کے پہلو میں سلطان شمس الدین التمش کی بنائی ہوئی ایک مسجد سے یہ ظاہر ہے کہ التمش نے بھی اس کے بغل میں بت خانہ کو منہدم کرنا پسند نہیں کیا۔

بابر پھر اور داکی طرف جاتا ہے تو لکھتا ہے کہ اس کے اطراف کے پہاڑ کا ایک ٹکڑا تراش کر چھوٹے بڑے بتوں کی مورتیں بنائی گئی ہیں ،اس کے جنوب میں ایک بڑے بت کی مورت ہے، جو تقریباً بیس گز کی ہوگی، ان سب بتوں کو ننگا بنایا ہے، ان کے ستر کو ڈھکا نہیں ہے، (اردو ترجمہ،ص:۳۳۳، بابرنامہ،ص:۱۲-۶۱۱)

 بابر چاہتا تو ان برہنہ بتوں کو مسمار کردیتا ، مگران کو اسی طرح رہنے دیا، پھر گوالیار کے بت خانہ کی سیر کرنے کو گیا، تو لکھتا ہے کہ بت خانہ میں بعض جائے دہرائے اور بعض جائے تہرے والان ہیں ، مگر اگلی وضع کے نیچے نیچے، ان کے دروازہ کے پتھرمیں مجسم بت کندہ کئے ہوئے بت خانہ کے بعض ضلع مدرسوں کی وضع کے ہیں ، صدر مقام میں ایک بڑا اونچا برج ہے، جس کے حجرے ایسے ہیں جیسے مدرسوں کے حجرے ہوتے ہیں ، ہر حجرے کے اوپر پتھر کی تراشی ہوئی چھوٹی چھوٹی برجیاں ہیں ، حجروں میں نیچے کی جانب کے پتھروں میں بت تراشے ہیں ، ان مقاموں کی سیر کرکے گوالیار کے غربی دروازہ سے نکل کر قلعہ گوالیار کے جنوب میں ہوتا ہوا رحیم داد کے چار باغ میں جو ہتھیا پول دروازے کے سامنے ہے، آکر ٹھہرا ۔ (اردو ترجمہ،ص:۳۳۴، انگریزی ترجمہ بابر نامہ ص:۱۴-۶۱۳)

 بابر نے ان مندروں اور بت خانوں کو توڑنے کے بجائے وہاں سیر کرکے ان سے لطف کیا، اور اپنی تزک میں ان کی تفصیل قلمبند کرکے ان کو تاریخی اہمیت دے دی ہے البتہ اس کا اعلیٰ اور بلند جمالیاتی ذوق اس کو پسند نہیں کرتا تھا کہ چمن بندی کے حسن کو بھدی مورتیوں سے ضائع کیا جائے، اروا کا ایک چمن اس کو بہت پسند آیا، اور اس سے بڑی دلچسپی لی، لیکن اس کے خیال میں اس کا بڑا عیب یہ تھا کہ اس میں طرح طرح کی مورتیاں بنائی گئی تھیں ، چمن کی خوبصورتی کی خاطر ان کو وہاں سے بر طرف کرادیا۔ (اردو ترجمہ ص:۳۳۳، بابر نامہ،ص:۶۱۲)

بابر کی شخصیت پر ہندوؤں کا تبصرہ:

 اب تک تمام ہندو مورخین بابر کی شخصیت کی دلآویزی کے قائل رہے ہیں ، مغلوں کے آخری دور کے مورخ سبحان رائے نے اپنی خلاصۃ التواریخ میں اس کے بارے میں لکھا ہے کہ:   ’’در داد و عدل مبالغہ مرمودے‘‘

 اگر وہ داد و عدل کا قائل تھا تو پھر وہ کسی مندر کو بلا وجہ کیوں مسمار کرتا۔

 پنڈت جواہر لال نہرو بھی بابر کی دلکش شخصیت سے متاثر تھے، وہ اپنی کتاب ڈسکوری آف انڈیا میں لکھتے ہیں کہ:

’’وہ نشاۃ ثانیہ کے دور میں نمونہ کا رہنما تھا، مہم جو تھا، آرٹ، لٹریچر اور اچھی زندگی کا شائق تھا‘‘۔

 اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جونشاۃ ثانیہ کا نمونہ ہوگا، وہ دوسروں کی عبادت گاہوں کو مسمار کرکے ظلم اور دل آزاری کا الزام لینا پسند نہیں کر سکے گا۔

الٰہ آباد یونیورسٹی کے ڈاکٹر رام پرشاد ترپاٹھی اپنے زمانہ کے مشہور مورخ گزرے ہیں ، انہوں نے اپنی تصنیف رائز اینڈ فال آف مغل امپائر میں لکھا ہے:

’’بابر میں مذہبی جنون نہ تھا، اس کا رویہ ہندو، افغانی، امراء اور رعایا کے ساتھ مہذبانہ، شریفانہ اور دوستانہ تھا‘‘۔

 پھر وہ ایک لمبے تبصرہ میں رقمطراز ہیں کہ مغل سلطنت کی شان و شوکت صرف اس کی وجہ قوت میں نہ تھی، بلکہ اس کی شان غیر مسلم رعایاخصوصا راجپوتوں کے ساتھ اس کی مذہبی رواداری میں تھی، پھر اس زمانہ میں کلچر کو جو فروغ ہوا، وہ بھی ایک شاندار کارنامہ ہے، اکبر کو اس کے مرتبہ سے محروم نہیں کیاجاسکتا، لیکن اس پالیسی کا بیج اس کے ممتاز دادا بابر ہی کے زمانہ میں ڈال دیا گیا تھا، اور ایک ایسی سلطنت قائم ہوئی جس کی سیاست میں مذہبی اور طبقاتی اختلاف کا کوئی دخل نہیں رہا، تخت و تاج کی حیثیت ریاست میں خاطرخواہ طریقہ پر رکھی گئی، راجپوتوں کے مسائل، دوستی اورشادی بیاہ کے رشتے سے حل کئے گئے، دربار کے تہذیبی پہلوؤں کو زیادہ اہم قرار دیا گیا، لیکن ان تمام باتوں کی ابتدا بابر کے زمانہ سے ہوگئی تھی، جس نے ایک نئی سلطنت قائم کرنے کا راستہ ہموار ہی نہیں کیا، بلکہ کس طرح حکومت کی جانی چاہئے اس کی پالیسی بنانے کا اشارہ بھی کردیا، اس نے ہندستان میں ایک ایسا خاندان اور ایک ایسی روایت قائم کی جس کی مثال دوسرے ملکوں کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ (ص:۶۱)

ہندستان کے ایسے بڑے محسن اور ایسی دلکش شخصیت کو بابری مسجدکے جھگڑے میں الجھانا ملک کی شاندار روایت کو مجروح کرنا ہے، اوراس کی طرف من گھڑت واقعات منسوب کرکے نہ صرف ہندستان کے علم اور دانشوری کو بدنام کرناہے بلکہ ملک کی سیکولرزم ، قومی یکجہتی اور وطن دوستی کیساتھ دشمنی کا ثبوت دینا ہے. بابری مسجد کا تنازعہ برطانوی حکومت کی سامراجیت کا شاخسانہ ہے، انگریز مورخین اب بھی کچھ نہ کچھ ایسی باتیں لکھ جاتے ہیں جوہندوؤں اور مسلمانوں کے دلوں میں ایک دوسرے سے تکدر، ملال، غم و غصہ پیداکرتی ہیں لہٰذا ہندوؤں اور مسلمانوں کو انگریز مورخین پراعتماد ہر گزنہیں کرنا چاہئے ان کی تو انتشار کر واور حکومت کرو (Divide & Rule) کی پالیسی تھی۔ وہ اسی پالیسی پر آخری وقت تک ہندستان میں عمل کرتے رہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔