موہن بھاگوت کا نشۂ اقتدار بول رہا ہے

عبدالعزیز

 آر ایس ایس کے سنچالک موہن بھاگوت نے کرناٹک کے یدوپی میں وشو ہندو پریشد کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے گزشتہ روز (24نومبر) کہاکہ رام جنم بھومی پر رام مندر ہی بنے گا اور کوئی چیز نہیں بنے گی اور بننے کا وقت بالکل قریب آگیا ہے۔ جب تک بابری مسجد کو شہید نہیں کیا تھا سنگھ پریوار اور ان کے قبیلہ کے سردار کا بیان یہی کچھ رہتا تھاکہ وہ بابری مسجد کو گراکر دم لیں گے۔ اس وقت ان کی حکومت مرکز میں نہیں تھی جس کی وجہ سے اقتدار اور طاقت کا نشہ کم تھا۔ اس وقت ایک موقع ان کے ہاتھ آگیا جب نرسمہا راؤ وزیر اعظم ہوئے تو آر ایس ایس اور بی جے پی کے لیڈروں کو بابری مسجد گرانے میں مرکز اور ریاست دونوں جگہ کے حکمرانوں سے مدد مل گئی اور دن کی روشنی میں بابری مسجد کی تاریخی عمارت کو آناً فاناً گرادیا گیا۔ فوج اور پولس کا عملہ تماشائی بنا رہا۔ قانون کی حکمرانی کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ دستور اور عدلیہ کی دھجیاں بکھیر دی گئیں ۔ اس وقت کے وزیر اعلیٰ اتر پردیش کلیان سنگھ نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ پیش کیا تھا کہ وہ بابری مسجد پر آنچ آنے نہیں دیں گے۔ نرسمہا راؤ آر ایس ایس کی ذہنیت کے آدمی تھے، لیکن تعلق کانگریس سے تھا ذہنی طور پر وہ سنگھی تھے۔ اسی وجہ سے انھیں بی جے پی کا پہلا وزیر اعظم کہا جاتا ہے۔

اب ہندستان کی صورت اور بھی خراب ہے۔ مرکز میں نریندر مودی ہیں اور ریاست (اتر پردیش) میں یوگی ہیں ۔ دونوں رام مندر اندولن کی پیداوار ہیں ۔ یوگی ادتیہ ناتھ کلیان سنگھ سے بھی زیادہ بڑے دشمن اسلام اور دشمن مسلم ہیں ۔ مودی کا اسلام اور مسلم دشمنی اوڑھنا بچھونا ہے۔ ان کی مقبولیت اور شہرت 2002ء کے گجرات فساد کی وجہ سے ہوئی، جس میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور آج تک فسادیوں اور بلوائیوں کو سزا نہیں ملی بلکہ جس نے جتنا بڑا جرم کیا تھا آج اسے اتنا ہی بڑا انعام و اکرام سے نوازا جا رہا ہے۔ ان سب کے پیچھے آر ایس ایس کا تیار کردہ خاکہ ہوتا ہے جس میں سارے سنگھی ذہنیت کے لوگ رنگ بھرتے ہیں ۔

موہن بھاگوت نے جس طرح کا بیان دیا ہے وہ حقیقت میں سپریم کورٹ کو ایک چیلنج ہے کہ کورٹ کا جو بھی فیصلہ ہوگا مگر مندر بابری مسجد کی جگہ پر تعمیر کی جائے گی۔ یہ نہ صرف سپریم کورٹ کے خلاف چیلنج ہے بلکہ دستور اورجمہوریت کا کھلا ہوا مذاق ہے۔ اس طرح کی بات دنیا میں کہیں نہیں ہوتی۔ ایسی چیز میں تو جنگل راج کی نشاندہی کرتی ہیں ۔ جہاں نہ حکومت ہوتی ہے نہ دستور اور نہ عدلیہ کا وجود ہوتا ہے۔ یہاں سب کچھ ہوتے ہوئے بھی فساد اور انارکی کرنے والے دندناتے پھر رہے ہیں اور جو چاہ رہے ہیں کر رہے ہیں ۔ جہاں بھی چاہتے ہیں خواہ ٹرین ہو، بس ہویا شاہراہ ہو ہر جگہ قانون کو ہاتھ میں لے لیتے ہیں ۔ موہن بھاگوت کو مودی جی نے دور درشن سے بھی ملک کے شہریوں کو خطاب کرنے کا موقع دینا شروع کیا ہے۔ در اصل یہ بتانے کیلئے کہ ملک میں آر ایس ایس کا راج ہے اور اس کا سربراہ یہاں کا بے تاج بادشاہ ہے۔ اسی بے تاج بادشاہت اور حکومت کا نشہ بول رہا ہے جبکہ بے تاج بادشاہ کو معلوم ہے کہ 5دسمبر سے بابری مسجد کے تنازعہ کا مقدمہ شروع ہونے والا ہے۔ موہن بھاگوت کا بیان ایک طرح سے حکومت وقت کی ترجمانی ہے۔ اس ترجمانی سے پہلے بالواسطہ شری شری روی شنکر سے بھی چور دروازے سے پُر امن تصفیہ کی بات شروع کی گئی تھی اور اس کا صاف مطلب تھا کہ اگر راضی خوشی سے مسلمان بابری مسجد سے دستبردار نہیں ہوتے تو یہ کام زور زبردستی کرلیا جائے گا یا چور دروازے سے کرالیا جائے گا۔

 معاملہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں جو بابری مسجد کے تنازعے سے متعلق مقدمہ ہے وہ کس قدر عدل و انصاف کا تقاضہ پورا کرے گا وقت ہی بتائے گا کیونکہ سنگھ پریوار عدلیہ پر بھی حاوی ہوتا جارہا ہے۔ جہاں تک مسلمانوں کا موقف ہے وہ بالکل صاف اور واضح (Clear)ہے کہ عدلیہ کا جو بھی فیصلہ ہوگا مسلمان اسے تسلیم کریں گے؛ حالانکہ مسلمانوں کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ مخالف کیمپ کے پاس کوئی دلیل یا ثبوت نہیں ہے، محض کٹ حجتی ہے۔ مسلمانوں کو خواہ کچھ بھی ہو اپنے موقف پر ڈٹے رہنا چاہئے۔ جہاں تک سنگھ پریوار کی غنڈہ گردی اور بدمعاشی کا معاملہ ہے اسے بھی حتی الامکان روکنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ ان کی زبردست خواہش ہے کہ دھونس اور دھمکی دکھاکر مسلمانوں سے معاملہ کورٹ کے باہر طے کرلیا جائے کیونکہ شیعہ بھائیوں کا ایک گروپ جو ہمیشہ اقتدار اور حکومت کے ساتھ ہوتا ہے وہ ان کے ساتھ ہوگیا ہے مگر ان کا ایک گروپ ایسا ہے جو عدل و انصاف کا حامی ہے اسے ساتھ لے کر چلنا چاہئے تاکہ بکاؤ مال پر انصاف پسند طبقہ پر بھاری ثابت ہو۔ مسلمانوں کو اپنا حق ادا کرنا چاہئے، باقی کام اللہ کے ذمہ ہے۔ اللہ جو چاہے گا وہی ہوگا۔ خواہ کوئی کچھ سازش رچائے یا منصوبہ سازی کرے۔ اس زمین پر ایک ہی کا منصوبہ کام کرتا ہے۔ وہ منصوبہ ہے اللہ تعالیٰ کا جس پر کسی فرد یا جماعت یا حکومت کا ذرہ برابر بھی زور نہیں چلتا ہے۔ یہی ہے عقیدہ اور ایمان مسلمانوں کا ہے اور انشاء اللہ قیامت تک یہی ایمان و عقیدہ رہے گا  ؎

یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہیں پابند 

بہارہو کہ خزاں لا الٰہ الا اللہ

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔