بات تو سچ ہے مگر۔۔۔!

شہلا کلیم

 میری بات سن کر وہ ہنس دی ـ

” لو جی اس درویشنی کو بھی محبت ہو گئی ـ”

پھر کہنے لگی ـ

"کیا محبت تمہاری فطرت کا مزاحیہ پہلو ہے جس سے تم دنیا کو ہنساتی پھرو؟؟ اس راہ میں لبوں کی مسکراہٹیں چھین لی جاتی ہیں آگ سے کھیلنے کی کوشش نہ کرو جھلس جاؤگی”

وہ پھر ہنسی ـ

” اور یہ کم از کم تم جیسی ضدی، بد مزاج، لاابالی، لاپرواہ اور غیر سنجیدہ لڑکی کے بس کا روگ ہر گز نہیں”

میری بات ہوا میں اڑا کر اسے ہنستا دیکھ میرا خون کھول اٹھاـ

"کیوں مجھے محبت کیوں نہیں ہو سکتی کیا میں انسان نہیں یا میرے پاس جذبات نہیں؟؟”

"جذبات؟؟”

اس بار سنجیدگی سے اس نے مجھ سے سوال کیا…

"کون سے جذبات؟؟ بھول گئی کتنوں کی آہیں تمہاری جھولی میں ہیں؟؟ کتنے دل تم نے اپنے بے رحم ہاتھوں سے مسل ڈالے صرف اپنے دو کوڑی کے خیالات کے پیچھےـ”

” وہ بہت اچھا لڑکا ہے عرشی”

اس بار میں نے اسے یقین دلانا چاہاـ

"اور اسکی اچھائی کی حد؟؟ "

ایک لحظے کو ماحول پہ سکتہ چھا گیا مجھے خاموش دیکھ  اس نے خود ہی جواب دیاـ "یہی ناں کہ اس نے تمہیں یقین دلایا ہوگا اپنے منفرد ہونے کاـ وہ مختلف ہے دوسرے لڑکوں کی طرح نہیں وغیرہ وغیرہ…”

"وہ میرے خوابوں پہ کھرا اترتا ہے کیا یہ کم ہےـ وہ میری بہت عزت کرتا ہے مجھ سے کسی قسم کے مطالبات نہیں کرتا میری عزت اسے حد درجہ عزیز ہےـ”

"عزت” وہ ایک طنزیہ ہنسی ہنس دی… "کون سی عزت؟؟ عزت کی اس قدر پرواہ ہے تو ناجائز طریقوں کی بجائے جائز راستہ کیوں نہیں اپنا لیتےـ”

جانے کیوں وہ مخالفت پہ اتر آئی تھی میں نے بھی احتجاج ضروری نہیں سمجھا اور خاموشی سے سنتی رہی ـ

"اور تمہارے وہ خیالات کیا ہوئے جنکی آڑ میں کتنے معصوم دل ذبح کرتی آئی ہو؟؟”

 "میری کہانیوں کا اختتام عاشقوں کی جدائی ہے، میں محبوبہ کو زوجہ بنا دینے کی قائل نہیں کیونکہ میں نے دیکھا ہے مرد کو تروتازہ گلاب چہروں والی حسین محبوبہ کی شان میں قصیدے پڑھتے ہوئے اور میلے کپڑوں میں ملبوس بکھرے بالوں والی کام میں تھکی ہاری زوجہ کیلیے لطیفے کہتے ہوئے”

اس نے ایک سانس میں جیسے کسی رٹے ہوئے مضمون کو دہرا دیاـ

"یہی ہیں ناں تمہارے وہ عظیم خیالات؟؟ "

اس نے طنز کیاـ

"محبت پر کس کو اختیار ہے سو مجھے بھی نہ ہو سکا محبت کی نہیں جاتی یہ تو بس ہو جاتی ہےـ”

"تو واقعی تمہیں محبت ہو گئی، پھر محرم رشتے میں کیوں نہیں بندھ جاتے؟  پہلے اس بے نام رشتے کو نام دو پھر شوق سے عشق لڑاؤ”

"یہ غیر ممکن ہے”

میں نے دبی دبی آواز میں جواب دیاـ

"ہوں!! یعنی رکاوٹ کا سبب وہی ذات، برادری، رسم و رواج؟؟”

اس نے تصدیق چاہی اور مثبت جواب پاکر پھر سوال کر بیٹھی…

"کیا وہ جانتا ہے کہ یہ ناممکنات میں سے ہے؟؟”

"ہاں”

"حیرت ہے پھر بھی اسی راہ پہ چلے جا رہے ہو جو تمہاری منزل نہیں آخر کیوں؟؟”

"کیونکہ ہم محبت کرتے ہیں بے پناہ محبت ـ”

"اس محبت کا انجام جدائی ہے یہ جانتے ہوئے بھی ملنا ملانا باتیں کرنا کیا یہ وقت گزاری نہیں جب ہر حال میں جدائی ہی قسمت ہے تو کل کی جگہ آج ہی علیحدگی کیوں نہیں اختیار کی جا سکتی ـ”

"مان لو ہم بغاوت کر بیٹھیں اور ہماری شادی ہو جائے تو؟؟”

"تو بھی وہ تمہیں ذلیل کرےگاـ طعنے دے گا اس تعلق کے جسے آج محبت کا نام دیتی ہوـ انگلیاں اٹھائگا تمہاری اس محبت پر جس پر تم آج فخر کرتی ہوـ  سوالیہ نشان لگا دیگا تمہارے کردار پر اگر چہ تم اسی سے عشق لڑا رہی ہوـ”

اس نے مجھے لاجواب کر دیاـ پھر چہک کر بولی ـ

"جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے تو محبت کی تشریح بڑی جاندار کرتی ہے سنا ذرا عشق کا اپنا وہ فلسفہ”

نگاہیں میرے چہرے پہ گڑا کر جیسے کچھ ٹٹولنا چاہتی ہو…

"محبت وصال جیسی خود غرضی سے بہت پرے کی چیز ہے، محبت پاکیزہ جذبے کا نام ہے، پا لینا ہی عشق کی معراج نہیں”

اس نے میری ہی سوچ زوردار طمانچے کی طرح میرے منھ پر دے ماری ـ

"میں بابا کا مان ہوں، کبھی نامحرم کی محبت میں گرفتار نہیں ہو سکتی ، اگر ایسا ہو بھی گیا تو میں ہجر کو ترجیح دونگی یہی ہیں ناں تمہاری وہ تشریحات”

"فضولیات مت بکوـ جنکے دونوں ہاتھوں میں لڈو ہوں وہ دوسروں کو نصیحت کرتے اچھے نہیں لگتےـ”

اس بار میں بھڑک اٹھی اور اسے طعنہ دے بیٹھی اسکے سفید رخسار تمتما اٹھے نرگسی آنکھیں پانیوں سے بھر گئیں وہ اٹھی اور میرا ہاتھ پکڑ کر تقریبا گھسیٹتی ہوئی کمرے میں لے آئی ـ میرے سامنے کھڑی دونوں آستین  بازؤں تک ادھیڑ ڈالی میں حیرت سے آنکھیں پھاڑے اسے دیکھتی رہی پھر اس نے پیٹھ میری طرف کی اور قمیض اوپر  اٹھا دی پورا جسم سرخ اور نیلے نشانات سے بھرا پڑا تھا کچھ پرانے زخم تھے جو نیل کی شکل اختیار کر چکے تھے اور کچھ بلکل تازہ جو ابھی سرخ دھبے بنے ہوئے تھےـ میں کچھ دیر یونہی ساکت و جامد بت بنی اسے گھورتی رہی ـ یہ عرشی تھی میری ہمراز میری ہمدم میری سہیلی جو میرے نزدیک دنیا کی سب سے خوش قسمت بیٹی، بہو ،بیوی اور ماں تھی ـ یہ اسکی خوش نصیبی ہی تو تھی کہ کنوارپن میں اسے خیبر جیسا چاہنے والا عاشق ملا مگر پھر وہی ذات، برادری، رسم و رواج انکی لو اسٹوری کا ویلن بنے اور یوں اسکے یک طرفہ پرانے عاشق کے بھاگ کھل گئے جو اسکا تایا زاد بھی تھاـ فرحان بھائی اسکی داستان عشق سے واقف تھے مگر انکی بے پناہ چاہتوں میں کبھی کمی نہ آئی تھی انکی بے لوث محبتوں کے نتیجے میں خدا نے ایک خوبصورت سا بچہ انکی جھولی میں ڈال دیا ـ شادی کے فورا بعد ہی دونوں دبئی چلے گئےـ سسرال کے جھگڑوں سے دور نعمتوں کے روپ میں بر سر روزگار اور محبت کرنے والے شوہر کی قربت، بیٹے کی کلکاریاں، ایک لڑکی کیلیے اس سے زیادہ خوشبختی کی علامات اور کیا ہو سکتی ہیں ـ مجھے یاد آیا کہ کس قدر بےتاب تھے فرحان بھائی اسکو پانے کیلیے اور شادی کے بعد بھی بھنورے کی طرح اسکے آگے پیچھے لگے رہتے پھر اسکو اپنے ساتھ ہی دبئی لے گئے اور آج بڑے عرصے بعد جب عرشی نے اپنی آمد کی اطلاع دی اور اصرار کیا تو میں ملنے چلی آئی فون پر تو مسلسل رابطہ رہا مگر وہ دو سال بعد میرے رو برو تھی اب کی بار میں نے غور سے دیکھا وہ بلکل بدل گئی تھی زرد پڑتا چہرہ جہاں کرب کے سوا کچھ نہ تھا…

"کیا زندگی تمہاری کہانی کا کوئی کردار ہے جسے جیسے چاہوگی لکھ دوگی؟؟”

اسکی آواز پر میرے خیالات کا تسلسل ٹوٹاـ

میری نگاہوں کا تعاقب کرتے ہوئے اسکی آنکھیں اپنے  بازوؤں کے زخموں پر ٹھہر گیئں اور ایک اداس مسکراہٹ لبوں پر سجائے مجھ سے مخاطب ہوئی ـ

"کیا دیکھ رہی ہو کہ یہ زخم کیسے لگے؟؟” پھر ایک لمبی سانس کھینچتے ہوئے گویا ہوئی… "یہ محبتوں کی عطا ہے روحی!! یہی سوچ رہی ہو ناں کہ اس قدر چاہتیں لٹانے والا شوہر اتنا وحشی کیسے ہو سکتا ہے؟؟”

اور واقعی میں یہی سوچ رہی تھی جو شخص  ہمیشہ اس قدر محبت کرتا رہا ہو کہ وہ اسے ایک تلخ ماضی کے ساتھ بھی قبول تھی یہ اسکے ہاتھوں کی ضرب کے نشانات کیونکر ہو سکتے ہیں ـ  اتنے مختصر عرصے میں اس قدر تلخیاں پھر پوری زندگی اس شخص کے ساتھ کیسے بسر ہوگی اس خیال پر مجھے جھرجھری سی آ گئی….

"یہ میرا ماضی ہے روحی جو میرے آج پر اثر انداز ہے ماضی کبھی پیچھا نہیں چھوڑتا اور جبکہ وہ ایک لڑکی کا ہو”

 اسنے زخموں پر ہاتھ پھیرا…

” اپنا حال ایسا نہ بنا کہ تیرا مستقبل متاثر ہوـ اپنا آج ایسا کر کہ تیرا کل شرمندہ نہ ہو سکےـ”

"لیکن تم نے کبھی ذکر تک نہیں کیا آخر کیسے  مسکراہٹوں کے پیچھے یہ سب جھیلتی رہی ـ”

میں نے شکوہ کیاـ

” تو کیا کرتی؟؟ علیحدگی اختیار کر لیتی؟؟”

اسنے سوال کیا اور پھر خود ہی جواب بھی…

” کیا بگڑ جاتا اِس شخص کا یا کیا بگڑ گیا اُسکا جو میرا ماضی تھا جسکی بدولت مجھے یہ زخم ملتے ہیں ـ میں نہ سہی کوئی دوسری ـ جیسے چار دن کے ماتم کے بعد اُسے ملی اِس کو بھی مل جاتی ـ

 کسی کے بغیرکوئی جینا چھوڑ دیتا ہے؟؟  کسی کے فراق میں دھرتی اپنے محور پہ گھومنا بھولی ہے؟؟ کسی کی جدائی میں وقت تھما ہے کبھی؟؟ زخم چاہے جتنے گہرے ہوں وقت انہیں بھر ہی دیتا ہےـ”

اس کی سانسیں اکھڑی اکھڑی سی تھیں ـ بات کرتے کرتے یوں رک جاتی گویا سانس اٹک گئی ہو سانسیں بحال کرتی اور پھر شروع ہو جاتی ـ

"بگڑتا تو میرے بیٹے کا بھی کچھ نہیں ہاں البتہ اسکی جگہ بیٹی ہوتی تو اسے میرے اعمال کا وارث بنا دیا جاتاـ میرے دامن پہ لگے داغ اسکے ماتھے کا کلنک بنا دیے جاتےـ میرے گناہوں کے بوجھ تلے اسکی جوانی دفن ہو جاتی ـ زندگی بہر صورت ایک عورت کی ہی برباد ہوتی ہےـ دنیا بھر کی رسوائی اور طعنوں سے بہتر ہے میں چپ چاپ چہاردیواری میں پڑی اپنے مرد کی مار کھاتی رہوں…”

اور میں ہکا بکا بس اسے تکے جا رہی تھی وہ رکی اور پھر کہنے لگی ـ

 "مرد کی محبت بڑی شدید ہوتی ہے مگر اسکی مدت بڑی ہی مختصر کیونکہ بیزاری مرد کی فطرت کا اہم جز ہے جبکہ عورت مستقل مزاج اور میانہ رو محبتوں کی عادی ہے اسی لیے وہ پوری زندگی ایک مرد کے ساتھ بسر کر دیتی ہے اور کبھی اسکے بغیر صرف یادوں کے سہارے بھی ـ   محبتوں کے دونوں دعویداروں نے کیا دیا ایک نے زخم دیئے اور دوسرا زخموں کی وجہ ـ "

 "اور تم مجھے یہ سب آج بتا رہی ہو یعنی میں تم سے ملنے نہ آتی اور اپنا ذکر نہ چھیڑتی تو کبھی نہ بتاتی؟؟”

"تو کیا اپنے زخموں کی نمائش لگا کر اپنی رسوائی کا سودا کرتی پھروں؟؟ تم نے بات گہری کی تھی ٹیس اٹھی اور زخم کھل گئے ورنہ آج تک ڈھانپ ہی رکھے تھےـ”

اور آج میں نے واقعی دیکھ لیا تھا مرد کو تروتازہ محبوبہ کی شان میں قصیدے پڑھتے ہوئے اور باسی بیوی کی زندگی کو عذاب کرتے ہوئے۔۔۔!

تبصرے بند ہیں۔