بادل سا تیری یاد ٹپکتی ہے بوند بوند

شازیب شہاب

  بادل سا تیری یاد ٹپکتی ہے بوند بوند
چشمِ وفا میں آس چمکتی ہے بوند بوند

کیسے بتاؤں کیا ہے ترے اشک کی لڑی
سینے میں دل کی طرح ڈھرکتی ہے بوند بوند

آتا ہے لفظ لفظ وہ ایسے خیال میں
شبنم کلی پہ جیسے ٹپکتی ہے بوند بوند

الزام کیا دوں دشت کو ذروں کی پیاس کا
دریا میں بھی عطش سے سسکتی ہے بوند بوند

یہ کون ضو فشاں ہے مری چشمِ شوق میں
یہ کس کی روشنی سے چمکتی ہے بوند بوند

آغوشِ آبشار میں مدہوش و مست حال
بادِ صبا کی دھن پہ تھرکتی ہے بوند بوند

بے رنگ و بو گھٹا کو یہ شاید پتا نہیں
مٹی کی خوشبوؤں سے مہکتی ہے بوند بوند

دن کی دھنک ہنسی کا یہ اعجاز ہی تو ہے
قوس قزح سے دھوپ کو تکتی ہے بوند بوند

اس کی چمک دمک کا بھروسا بھی کیا شہابؔ
وہ موم ہے پگھل بھی تو سکتی ہے بوند بوند

تبصرے بند ہیں۔