بانی حیدرآباد کا ایک تعارف

سلیمان سعود رشیدی

۱۵۸۰ ؁ء تا ۱۶۱۲ ؁ء

بہمنی سلاطین میں ’’سلطان محمد ثانی‘‘ ایک حکمران گذرا جس کا وزیر اعظم محمود گاؤں تھا، اس نے نظم ونسق کے ضبط کے لئے اپنی حکومت کو ۸؍صوبوں میں تقسیم کیا تھا اور ہر ایک کے لئے ایک صوبہ دار مقرر کیا لیکن بادشاہ اور محمودکے اختلاف کے سبب محمود گاؤں قتل کردیا گیا جس کے بعد یہ سلطنت مائلِ زوال ہونے لگی آخر کار ۱۵۲۷ ؁ء میں اس کا خاتمہ ہوا۔

زوال کے وقت ہی جس طرح دوسرے صوبہ داروں نے خود مختاری کا اعلان کیا اسی طرح قلی قطب شاہ نے بھی ۱۵۱۸ میں خود مختاری کا اعلان کر کے گولکنڈہ میں اپنی خود مختارحکومت قائم کرلی جو ۱۶۸۷ تک قائم رہی۔

اسی حکومت کا پانچواں حکمران ’’محمد قلی قطب شاہ ‘‘ اپنے باپ ’’ ابراہیم قطب شاہ ‘‘کی وفات کے بعد ۱۲؍سال کی عمر میں ۱۵۸۰ کے اندر تخت نشین ہوا، اس کا دور قطب شاہی حکومت کا دورِ عروج شمار ہوتا ہے، اس دور میں لڑائی جھگڑوں کی فضابدل کر آشتی کا دور بن گیا تھا، اس کی کوشش تھی کہ سلطنت کے حدود مستحکم ومحفوظ رہیں جس کے لئے اپنے پایہ تخت گولکنڈہ کے چاروں طرف حفاظتی دستے متعین کئے اور اندرونی اعتبار سے نظم و نسق کو درست کیا یہی وجہ ہے کہ یہ دور ارتقائے تمدن وتہذیب اور تعلیم کے فروغ کے لحاظ سے عہدِ زریں کہلاتاہے۔

کچھ نہ گفتہ بہ حالت کی بنا پررعایا گولکنڈہ (پایہ تخت )کی آب وہوا سے متنفر ہوگئے، تو اس نے گولکنڈہ سے چار کوس کے فاصلہ پر ایک نیا شہر آباد کیا، جو ہر چہار سمت سے ہندوستان میں بے نظیر تھا، اسے اپنا پایہ تخت بناکراس شہر کو بھاگیہ ؍بھاگ نگر کے نام سے موسوم کیا، لیکن آخر میں حیدرآباد نام رکھا،

اس زمانہ میں اس شہر کی طول وعرض پانچ کوس تھی، جس میں ایک بازار تھا جو ہندوستان بھر میں اپنی نوعیت کا ایک منفرد بازار تھا،(جو آج بھی اپنی  آب تاب سے قلی قطب شاہ کی یاد دلاتا ہے) ، یہ بازار ندی کے کنارے لگتا تھا جس کے دونوں جانب ندی بہتی جس کے اطراف سایہ دار درخت تھے،(جسے ہم موسی ندی کے نام سے جانتے ہیں )،ایک ایسا شہرجسکی آب وہوامسافر اور اہل شہر کے مزاج کے موافق تھی،یہی وجہ ہے کہ اس روززے تا امروز مرجع الخلائق ہے،خدایا میرے شہر کو آباد رکھنا شاد رکھنا۔
محمد قلی قطب شاہ میں چند باتیں ایسی تھیں جو بہت کم بادشاہوں میں ہوتی ہیں :

اپنے بھائیوں کو بہت عزیز رکھتا تھا اپنے ۲۲؍سالہ دور میں کبھی ناراض نہیں ہوا،میر محمد مومن استر آبادی جیسے جید اور قابل شخص کو اس نے اپنے دبار میں طویل زمانہ تک  سلطنت کا وکیل بنائے رکھا، اس کی اسی مسلمہ قابلیت کی بنا پر حکومتی نظم ونسق میں کوئی خرابی نہیں آئی، اس کے دور میں دکن پر مغلوں کے حملے شروع ہوگئے تھے یہ بوریشوں کی روک تھام اور دکن کی آزادی کے لئے ہمیشہ کوشاں رہا، اس نے شہر حیدرآباد کو عالی شان عمارتوں، خوبصورت ایوانوں، سرسبز باغوں اور نہروں سے آراستہ کیا،بادشاہی محل اپنے ساخت کے اعتبار سے بے مثال تھا، قلب شہر میں چارمینار تعمیر کرایا جو اس وقت کی تعلیم گاہ کی حیثیت رکھتا تھا مریضوں کے لئے دارالشفا(چار مینار ہاسپٹل)مکہ مسجدکی تعمیر اسی کے دور حکومت میں شروع کی گئ تھئ   اور دل بستگی وشگفتگی کے لئے باغات لگائے، حمام تعمیر کرائے۔

اس کو فنون لطیفہ کی ہر شاخ سے بے پناہ لگاؤ تھا، ایسے تمام تعمیرات میں نقش ونگار اور مصوری کے شاہ کا ر جمع کرائے تھے،علاوہ ازیں شاعری اور موسیقی سے خصوصی دلچسپی تھی، اس کے دور میں نہ صرف علوم اسلام کو فروغ ملا بلکہ فارسی اور عربی کے شاہ کارمزین ہوئے، ساتھ ہی ساتھ دکنی اور تلنگی ادب کو بھی فروغ ملا اور خود بھی ان زبانوں میں شاعری کرتا تھا اسے دکنی اردویا ہندی کا موجد ماناجاتا ہے۔

بالآخروہ ۱۶۱۳ء میں زندگی کی بہاریں دیکھ کر اس دنیا سے چل بسا۔

تبصرے بند ہیں۔