طاقت ہتھیاروں میں نہیں ہوتی

 ممتاز میر

جنوری ؍ فروری۱۹۷۹میں ایران میں انقلاب رونما ہوا۔محمد رضا شاہ پہلوی کے اقتدار کا سورج غروب ہوا اور لاشرقیہ لا غربیہ اسلامیہ  اسلامیہ کا نعرہ لگانے والے امام خمینی افق اقتدار پر طلوع ہوئے۔مگر مغرب نے انھیں برداشت نہ کیا۔ پہلے چند سال مغرب نے اس نوزائداہ حکومت کو نیست و نابود کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ پورے ملک میں جو ممکن تھا خون خرابہ کرایا گیا۔ یہاں تک کہ پوری پارلیمنٹ اور صدر مملکت کو ایک دہشت گردانہ حملے میں اڑا دیا گیا۔ اور ’’معصوم‘‘ مغرب کو اس وقت نہ ایران میں دہشت گردی نظر آتی تھی نہ افغانستان میں ۔کیونکہ دہشت گردی کرنے والے مغربی اور عیسائی تھے۔ اور شکار مشرقی اور مسلمان تھے۔

انہی دنوں روس نے بھی افغانستان پرقبضہ کر لیا تھا۔ ۱۹۸۰ میں عراقی صدر صدام حسین، جو کہ اس وقت امریکی ایجنٹ تھے کو ہشکار کر ایران پر حملہ کر وادیا گیا۔ایران عراق جنگ ۸ سال چلی۔بہرحال بڑی مشکلوں کے بعد ایران میں حکومت کو استحکام حاصل ہوا اور اس نے ترقی کا سفر شروع  کیا۔۱۹۸۸ میں جنگ کے خاتمے پر ایران فقیر ہو چکا تھا۔ بد قسمتی سے اس کے حمایتی بھی غریب ممالک ہی تھے۔جبکہ عراق کو مالدار عرب ممالک اور ان کے آقا امریکہ کی حمایت حاصل تھی۔ کتنی حیرت اور دکھ کی بات ہے کہ اسی آقاکے طفیلی نے عراق کا ایٹمک پلانٹ تباہ کیااور آقا دیکھتا رہا پھر بھی مسلمان غلاموں کی آنکھیں نہ کھلیں ۔ وفا داری ہو تو ایسی۔۔۔خیر۔۔ ایران نے اپنی غربت کو اپنی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہ بننے دیا۔

۱۹۸۹ میں روس بھی افغان جہاد کی بنا پر بدحال ہو کر ٹکڑے ٹکڑے ہو چکا تھا۔ اس صورتحال کی بنا پر روس کے بہت سارے سائنسداں بے روزگار ہو چکے تھے۔ایران نے خود بھوکا رہ کر ان سائنسدانوں کو روزگار عطا کیا۔ ایران کی موجودہ ترقی اسی پیٹ کاٹنے کا نتیجہ ہے۔ اس وقت مالدار عرب ممالک اپنی عیاشیوں میں ڈوبے ہوئے تھے۔بین الاقومی دباؤ پر ایران بم تو نہ بنا سکا مگر اتنی  ترقی بہرحال کر چکا ہے کہ مغرب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے۔ ان کے افراد کو گرفتار کرتا ہے تواپنی شرائط پر چھوڑتا ہے ڈر کرنہیں ۔اس کے حکمراں ہمیشہ سے یہ کہتے آرہے ہیں کہ وہ نیو کلئر بم کو غیر اسلامی سمجھتے ہیں ۔ اور اسے ضرورت بھی کیا ہے؟وہ نیو کلیئر بم بنائے بغیر بھی امریکہ کی آنکھوں میں خار کی طرح کھٹکتا ہے۔وہ جنگ کے بغیر بھی امریکہ کو ہر محاذ پر شکست دے رہا ہے۔۱۹۷۹ کے انقلاب  سے اب تک امریکہ کھسیانی بلی کی طرح کھمبا نوچنے کے سوا ایران کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔ اور اب تو کھمبا نوچنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔

یہی حال ترکی کا ہے۔ ترکی کی خلافت عثمانیہ کا کبھی دنیا میں ڈنکا بجتا تھا۔ پھر سنت الہیٰ کے مطابق انھیں بھی زوال آیا۔مگرحالت زوال کی آخری پائیدان پر بھی آخری عثمانی سلطان؍خلیفہ اتنا بہادر تھا کہ اپنی سلطنت کی قیمت پر بھی وہ یہودیوں کے سامنے جھکا نہیں ۔ اس نے اپنا اقتدار تو گنوا دیا مگر  اپنی خودی اپنے وقار اپنی زبان کا سودا نہ کیا۔آخر اس کے فوجی کمانڈر مصطفیٰ کمال پاشا نے ۲۹ اکتوبر ۱۹۲۲ کو اس کی سلطنت کا خاتمہ کر دیا اور ترک جمہوریہ کا قیام عمل میں آیا۔پھر ۱۹۲۴ میں خلافت کی بساط بھی لپیٹ دی گئی۔مصطفیٰ کمال کا سیکولرزم بڑا ہی عجیب و غریب تھا۔اس سیکولرزم یا کمالزم میں ہر مذہب کا نام لیا جا سکتا تھا سوائے اسلام کے۔کچھ محققین کا خیال ہے کہ وہ منافق تھا۔ اس کے دادا نے بظاہر اسلام قبول کر لیا تھا۔مصطفیٰ کمال نے ترکی سے اسلامی شعائر مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ خواتین کے برقعے نوچے گئے۔ علمائے کرام کو پھانسیاں دی گئیں ۔یہاں تک کہ عربی میں اذان دینا ممنو ع قرار دیا گیا۔فوج نے اس ٹیڑھے ترچھے سیکولرزم کے گارڈین کا کردار سنبھال لیا۔مصطفیٰ کمال کی زندگی میں ترکی میں کوئی دوسری سیاسی پارٹی تھی ہی نہیں تھی۔مگر اس کی موت کے بعد ۱۹۴۶ میں ملٹی پارٹی سسٹم کی اجازت دی گئی۔
اس اجازت کا نتیجہ یہ نکلا کہ ۱۹۵۰ کی دہائی میں عدنان مندریس ترکی کے وزیر اعظم بن گئے۔ انھوں نے اپنے دور حکومت میں

عربی میں اذان پر سے پابندی ختم کردی۔کمالی سیکولرزم کی علمبردار فوج کے نزدیک یہ اتنا بڑا ’’گناہ ‘‘ کہ وہ واجب القتل ٹہرے۔۱۹۶۰ میں فوج نے انھیں پھانسی دلوادی۔ترکی کا قافلہ اس عجیب و غریب سیکولرزم کے زیر سایہ چلتا رہا۔ مگر عوام کے دلوں سے اسلام کو کھرچا نہ جاسکا۔بیسویں  صدی کے آخری سالوں میں یورپ کے مرد بیمار نے پھرانگڑائی لی۔نجم الدین اربکان کی صورت میں اسے پھر ایک’’بوڑھا جواں مرد‘‘ وزیر اعظم میسر آیا۔نجم الدین اربکان نے اپنے ایک ڈیڑھ سالہ دور حکومت میں ترکی کو یورپ سے دور نہ لے جاتے ہوئے اپنی جڑوں سے قریب کرنا شروع کیا۔انھوں نے پے درپے مسلم ممالک کے دورے کئے۔اور مسلم ممالک کا D8 نامی اقتصادی فورم تشکیل دیاجو آج بھی کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے۔مگرنجم الدین اربکان کی یہی سرگرمیاں کمالی سیکولرزم کے علمبرداروں کے نزدیک ناقابل معافی جرم ٹہریں  انھیں نہ صرف معزول کر دیا گیا بلکہ ڈھائی سال کیلئے داخل زنداں کردیا گیا۔ سیکولرزم کے چیمپئنوں کی یہ حرکت بھی ان کے کچھ زیادہ کام نہ آئی۔رجب طیب اردگان جنھیں نجم الدین اربکان نے استنبول کا میئر بنایا تھا، اربکان کے جیل جانے کے بعد جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی بنا کر مطلع سیاست پر طلوع ہوئے۔

۲۰۰۲ کے قومی الکشن میں ان کی پارٹی بڑی اکثیریت سے جیتی۔اور یہ اس وقت ہوا جب پارٹی لیڈر اردگان جیل میں تھے۔اس دن سے لے کر آج تک اردگان نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ سب سے پہلے انھوں نے فوج کو اپنے فرائض منصبی ادا کرنے کے لئے بیرکوں میں واپس بھیج دیا۔ مگر فوج میں موجود کمالی ذرّیت نے ہار نہ مانی۔ انھوں نے حکومت کے خلاف بغاوت کا ایک منصوبہ ترتیب دیا جس کا نام Sledgehammer تھا۔ ۲۲ فروری ۲۰۱۰ کو اس جرم میں ۴۰ فوجی افسران کو گرفتار کیا گیاجن میں ۴ایڈمرل،۱ جنرل اور دو کرنل تھے۔پھر ۲۰۱۳ میں تقسیم غازی پارک کا مسئلہ کھڑاکیا گیا۔رجب طیب اردگان کیبنٹ کے ۴ وزراء پر کرپشن کے الزامات گھڑے گئے یہاں تک کے ان کے فرزند بلال اردگان کو بھی اس میں ملوث قرار دیا گیا۔اورسب سے آخر میں ۱۵ جولائی ۲۰۱۵کو پھر ایک فوجی بغاوت کرادی گئی۔ہمارے نزدیک یہ بغاوت اچھی بھی تھی اور بری بھی۔ بری اس لئے کہ اس میں ۲۵۰ قیمتی جانیں چلی گئیں ۔اچھی اس لئے کہ اس بغاوت نے یہ بتادیا کہ عوام حقیقتاً کس چڑیا کا نام ہے؟ حکمراں اچھا ہو تو عوام کی محبت کا کیا حال ہوتاہے  اسی عوامی محبت کے برتے پر آج رجب طیب اردگان امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر رہے ہیں بلکہ اسرائیل اور امریکہ کو ہر محاذپر شکست دے رہے ہیں ۔ہمیں یقین ہے کہ جلدیابدیرفتح اللہ گولن کو بھی ترکی کے حوالے کرنا پڑے گا۔رجب طیب اردگان نے آج تک کبھی نیو کلیئر بم بنانے کی بات نہیں کی۔نہ انھیں اس کی ضرورت ہے۔ہاں ۔ چند ہفتے پہلے کی ایک خبر کے مطابق انھوں نے چند سالوں میں ترکی کو دفاع کے معاملے میں خود کفیل بنانے کی بات ضرور کی تھی۔

اب آئیے نیو کلیرطاقت کے حامل ملک پاکستان کی بھی بات کرلیں ۔پاکستان کو اسلام کے نام پر وجود میں آئے ۷۰ سال ہو چکے ہیں ۔مگر ایک دن کے لئے بھی پاکستان میں اسلامی حکومت قائم نہ ہوسکی۔ جبکہ بھارت میں اب تک تین بار خالص ہندتو وادی حکومت قائم ہو چکی ہے؟حالانکہ عالم اسلام کی دو(اسلامک)مدرمومنٹ میں سے ایک کا تعلق پاکستان سے ہے۔پاکستان کے حکمرانوں نے روز اول سے اسلام بیزار اور مغرب کی حاشیہ برداری کا رویہ اپنا رکھا ہے۔ اسی رویے کی بنا پر پاکستان اپنے قیام کی سلور جوبلی منا نے سے پہلے ہی دولخت ہو گیا۔ پاکستانی جرنیلوں نے کبھی ملک کو بچانے کے لئے تو کام نہ کیا ہاں ،ٹکڑے کرنے کے لئے ضرور کام کیا۔اتنے بڑے طوفان سےآشنا ہونے کے باوجود پاکستانی حکمرانوں کی عقل ٹھکانے نہ آسکی۔نیو کلیئر دوڑ میں شامل ہونے کی کوششیں تو وہ ۱۹۷۴ کے بعد ہی سے کر تھے مگر باقاعدہ طاقت کا اعلان انھوں نے مئی ۱۹۹۸ میں کیا۔اس کے باوجود وہ امریکہ کے باجگزار رہے۔ شاید اس لئے کہ یہ بم امریکہ  کے لئے نہیں صرف اور صرف انڈیا کے لئے ہے۔باقی جو بھی انھیں تھپڑ مارے گا یہ اپنا دوسرا گال بھی اسے پیش کردیں گے۔ہر معاملے میں امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانا ان کا شیوہ رہا۔

جنرل پرویز مشرف نے تو دم ہلانے کی حد ہی کردی۔جنرل صاحب کہا کرتے تھے کہ وردی ان کی کھال ہے۔وہ عوام کو اکثر اپنا مکہ بھی دکھایا کرتے تھے۔مگر ۹؍۱۱ کے بعد امریکی اہل کار کی ایک فون کال پر انھوں نے پاکستان کو غیر مشروط طور پر امریکہ کے حوالے کر دیا۔خود امریکی اہلکار کو حیرت ہوئی تھی کے آرمی چیف؍صدر مشرف نے بغیر کوئی شرط رکھے ان کی بات مان لی۔ بات تو یہ بھی بڑی ذلت کی تھی مگر انھوں نے اس پر بس نہ کیا بلکہ اپنے ہی ملک کے مردوں ہی کو نہیں بلکہ خواتین کو بھی پکڑ پکڑ کر امریکہ کے حوالے کرنا شروع کر دیا یہاں تک کہ تمام سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھ کر پاکستان میں افغانی سفیرملا عبدالسلام ضعیف کوبھی امریکہ کے حوالے کر دیا (پاکستانیوں کو اس پر غور کرنا چاہئے کہ ان کے درمیان ایسے بزدل، کمزور،بے شرم و بے غیرت حکمراں کیونکر پنپتے ہیں )اس زمانے میں ایک امریکی اخبار میں جنرل مشرف کاایک گھناؤنا کارٹون بھی شائع ہوا تھاجس میں ایک امریکی فوجی ایک کتے کی رسی پکڑے کتے کہہ رہا ہے کہ جا ایک اور پکڑ کر لا۔اور کتے پر لکھا ہے پرویز مشرف۔یہ تھی ایک نیو کلیئر طاقت کے مالک ملک کے سول نہیں فوجی حکمراں کی تصویر۔

اس تصویر کو ہم سے بہتر امریکی حکمراں اور مراکز دانشThink Tanks سمجھتے ہیں ۔کیا فائدہ ایسی نیو کلیئر طاقت کا؟اسی سب کچھ بلکہ اپنی طاقت سے زیادہ کرنے کے باوجود امریکہ ان سے ’’ڈو مور۔ڈو مور‘‘ کا مطالبہ کرتا ہے۔ اور پاکستانی حکمراں دہائیاں گزریں شرم و غیرت بیچ کھا چکے ہیں ۔ورنہ وینزولاتو ایک چھوٹا سا کمزورملک ہے مگر طاقت ہیوگو شاویز کے اندر تھی۔

امریکی حکمرانوں کو ناکوں چنے چبوادئے تھے۔ پاکستانی حکمرانوں کے لئے بہتر تو یۂی ہوگا کہ وہ اپنی نیوکلیئر طاقت کو بیچ دیں اور امریکی حکمرانوں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائیں ۔مگر وہ ایسا کریں گے نہیں ۔ پاکستانی عوام کی نفسیات بھی بڑی ٹیڑھی ہے۔ وہ بھی بے وقوف بنائے جانے کی خوگر ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔