بجھاکے رکھ دے یہ کوشش بہت ہواکی تھی

دیپاملک ،جس نے ہمت اور حوصلے سے تاریخ رقم کی

سفینہ عرفات فاطمہ

شب کی گہری تاریکی سحر کی نوید ہوتی ہے لیکن کچھ راتیں اس قدرسیاہ ہوتی ہیں کہ دوردورتک اجالے کی ایک مدھم اور ہلکی لکیر بھی دکھائی نہیں دیتی ۔لیکن اس وحشت میں‘ حوصلوں کو پست اور اعتماد کاخون کرنے والی ان طویل راتوں میں خود کی اندرونی قوتوں کو مجتمع کرکے صبحِ نو کی امیدرکھنے والے لوگ بھی اس دنیا میں موجود ہیں۔ان کی ہمت‘حوصلہ‘لگن اورنہ تھکنے اور گرکر سنبھلنے کی صلاحیت دوسروں کے لیے سرچشمۂ فیض اور مشعل راہ ہوتی ہے۔
کیاکوئی برسوں سے لاحق تکلیف دہ ٹیومر کی بیماری ‘حوصلہ شکن 31 مختلف آپریشنس ‘کمر اور پاؤں کے بیچ 183 ٹانکے لگنے کے بعد آدھے سے زائد مفلوج جسم کے ساتھ زندگی کی طرف لوٹنے کی ہمت کرسکتاہے؟ایک خوشگوار‘بھرپورزندگی جی سکتا ہے؟
ستمبرمیں مفلوج و معذورخاتون کھلاڑی دیپاملک نے Paralympics 2016 میںshotput F 53 زمرے میں چاندی کا تمغہ جیت کرہمت اور حوصلے کی نئی تاریخ رقم کی۔دیپاکی زندگی اس بات کی ایک روشن نظیر ہے کہ حادثے انسان کو ایک نئی طاقت سے بھردیتے ہیں‘وہ ’منفی‘ کو’مثبت‘ میں بدلنے کا ہنر جان لیتا ہے۔مایوسیوں میں امید کا ایک دریچہ اس کے لیے کھل جاتا ہے۔ وہ اپنی مٹھی میںآس کا جگنو پالیتا ہے۔
46 سالہ دیپاایک آرمی آفیسر کی اہلیہ ہیں‘ ان کی دو بیٹیاں ہیں۔6 سال کی عمر میں پتہ چلا کہ انہیں ٹیومر ہے۔1999 ء میںspinal tumor کے علاج کے بعد ان کے جسم کا کمرسے نچلا حصہ مفلوج ہوگیا ۔ وہ چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہیں۔دیپامعذور ہونے سے قبل کرکٹ کھیلا کرتی تھیں‘ انہیں بائکس اور موٹر سائکلینگ کابے حد شوق تھا ۔لیکن 17 برس قبل ٹیومر کے ساتھ جنگ کے دوران وہ فالج کی زدمیں آگئیں ‘ اور وہیل چےئر ان کے جسم کا ایک حصہ بن گئی۔
ایک طویل صبرآزما سفر کے بعدریوپیرااولمپک میں کوئی بھی میڈل جیتنے والی وہ ملک کی پہلی خاتون کھلاڑی بن گئیں۔انہیں دیگرکھیلوں جیسے javelin throwوغیرہ میں بھی مہارت حاصل ہے۔وہ ایک بائکرہونے کے علاوہ ایک ماہرتیراک بھی ہیں‘انہوں نے تیراکی میں کئی بین الاقوامی تمغے حاصل کیے ہیں ۔ جیولین تھرو میں ان کے نام ایشیائی ریکارڈ ہے۔انہوں نے 2011 ء میں عالمی چیمپےئن شپ میں شاٹ پٹ اور ڈسکس تھرومیں چاندی کا تمغہ جیتاتھا۔وہ اب تک قومی سطح پر57 اوربین الاقوامی سطح پر17 تمغے اپنے نام کرچکی ہیں۔
ہندی اخبار’دینک بھاسکر‘ کے مطابق دیپااب تک 68 گولڈ میڈلس حاصل کرچکی ہیں۔
دیپاhand controlled car کاخصوصی لائسنس رکھتی ہیں۔وہ ملک کی پہلی جسمانی طورپر معذورشخصیت ہیں جنہوں نے فیڈریشن موٹر اسپورٹس کلب آف انڈیا سے official rally licence حاصل کیاہے۔وہ modified ریلی وہیکل کے لیے لائسنس رکھنے والی بھی پہلی شخصیت ہیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ دیپا نے اپنے sports کرےئر کاآغاز 36 سال کی عمر میں کیا۔جبکہ وہ وہیل چےئر کی محتاج ہوگئی تھیں۔اکثر کھلاڑی اس عمر میں سبکدوش ہوجاتے ہیں۔ حکومتِ ہند نے انہیں42 برس کی عمر میں ارجن ایوارڈسے نوازا۔
دیپاملک 3000 کلومیٹر تک دہلی سے لداخ ڈرائیونگ کا ریکارڈ رکھتی ہیں۔یمنا ندی میں تیراکی کے علاوہ دیگر کارناموں کے لیے چاردفعہ ان کا نام لمکابک آف ریکارڈز میں درج ہوچکاہے۔
وہ President role model award کے بشمول دیگرکئی ایوارڈزاوراعزازات حاصل کرچکی ہیں۔
دیپا ملک کو ٹیومر(اوراس کا مسلسل پست ہمت کردینے والا طویل علاج و معالجہ) کے علاوہ ہائیپوتھائرائڈ کاعارضہ بھی ہے ‘پتے کے نکال دینے کی وجہ سے بھی انہیں صحت کے مسائل لاحق ہیں۔
دیپا کے pageپرانیتا سانگوان کی جانب سے لیاگیا ان کا انٹرویو موجود ہے۔وہ انٹرویونگار کے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ ایسے پریشان کن اوردہشت انگیز طبی تجربات کے بعد عام طورپرلوگ ہارمان لیتے ہیں؟ دیپا نے جواب دیا کہ ’’ دراصل مجھ میں ایک غصہ تھا‘جب میں ٹیومرسرجریز سے گزری اور مفلوج ہوگئی تو میں دوسروں کے لیے حتی کہ اپنے دوستوں کی نظر میں بھی ایک صحتمند فرد نہیں رہ گئی تھی۔ وہیل چےئر جومیری معاون ہے‘لوگوں کی نظرمیں میری محرومی اورمعذوری کی ایک علامت بن گئی تھی‘یہ سفر) sports career (یہ ثابت کرنے کے لیے شروع کیاتھا کہ وہیل چےئر پر بیٹھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اب زندگی ختم ہوگئی ہے‘ہم علیل نہیں ہیں‘ہم مریض نہیں ہیں‘ہم صرف وہیل چےئر کا استعمال کرتے ہیں اور بس ‘ ہم ایک صحتمندزندگی جی سکتے ہیں۔میں نے محسوس کیا کہ وہیل چےئراستعمال کرنے والوں میںیہ احساس پیداکیاجائے کہ وہ ایک بھرپورزندگی جی سکتے ہیں۔اسی مقصد کے تحت میں نے ability beyond disability کامشن شروع کیا۔
دیپا کی خواہش ہے کہ وہیل چےئر کے لیے ہرجگہ قابل رسائی ہو یہ نہ ہو کہ ’’ہم وہاں کیسے جائیں گے اور یہ کہ وہیل چےئر وہاں کیسے جائے گی ؟‘‘ (دیپاملک ایک motivational speakerبھی ہیں)۔
وہ اپنے انٹرویو میں کہتی ہیں:میرا یہ ماننا ہے کہ زندگی ایک تہوارہے اورہمیں اس کا جشن منانا چاہیے۔ ٹیومرکی باربارابھرنے والی تکلیف سے گزرنے کے بعد میں نے یہ سیکھا ہے کہ ہردن میری زندگی میں ایک بونس ہے‘ اوربونس ملنے کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ اس سے لطف اندوز ہواجائے۔
http://deepamalik.com
دیپا کے اس ہمت اور حوصلے کے سفر میں ہمیشہ ان کے شریک سفر نے ان کا ساتھ دیا ہے۔ وہ اپنی اس کامیابی کو شوہر‘بیٹیوں ‘ ارکان خاندان اور دوستوں کی حوصلہ افزائی کا نتیجہ قراردیتی ہیں۔
زندگی کی خاردار راہوں پرچلنا اس وقت سہل ہوجاتا ہے جب آپ کے ساتھ چند ہمدردومونس عزیزواقارب ہوں۔دیپا ’’دی کپل شرما شو‘‘ کا حصہ بھی بن چکی ہیں۔وہ کسی بھی پہلو سے ایک مفلوج اور معذور خاتون نہیں لگتیں۔ ان کا درخشاں چہرہ ‘ ان کی خوش مزاجی اور خوداعتمادی باعث حیرت ہے۔ان کا زندگی سے بھرپورقہقہہ ان صحتمند افراد کو شرمندگی میں مبتلاء کرسکتا ہے جنہیں زندگی سے شکایتیں ہیں۔
بجھا کے رکھ دے یہ کوشش بہت ہوا کی تھی
مگرچراغ میں کچھ روشنی انا کی تھی
(3دسمبر کوInternational day of disability منایاجاتاہے۔)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔