ہندوستانی سیاست مرکز سے ریاستوں تک

عرض داشت

صفد ر امام قادری
وزیر اعظم سے لے کر نتیش کمار تک اور ممتا بنرجی سے لے کر اکھلیش یادو تک سب کو ملک کے روزانہ مسائل اور ان کے حتمی حل کے بارے میں غور و فکر کرنے سے زیادہ مناسب وقتی طور سے کچھ ہنگامہ کھڑا کرنا اور پھر اُسے خود ہی بھول جانا ہے ۔
سیاست یوں تو انتظا م اور اہتمام کے لیے اصطلاحی طور پر مستعمل لفظ ہے لیکن عوام الناس میں اسے سازش کرنا ، مخالفت کرنا یا تکڑم کرنے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ انھی معنوں میں سیاست کی عالمی رفتار چلتی ہے ساری مشقت ووٹ لے کر کرسی حاصل کرنے تک کی ہے ۔ اس دوران سبزباغ دکھانا ،طرح طرح کے وعدے کرنا اور نیک نیتی سے عوامی خدمت کا دم بھرنا جیسے معمولات دنیا بھر میں عام ہیں ۔ اب تو ہندستان سے باہر خود ہمارے وزیراعظم کی مثال دی جاتی ہے کہ تقریر اور بیان کا انداز کوئی ان سے سیکھے۔ روز نئی باتیں اور نئے اعلانات۔ عوام بھولیں یا نہ بھولیں وزیر اعظم تو ضرور انھیں بھول جاتے ہیں ۔مرکزی حکومت بھی ان بیانات کو نا فیصلہ سمجھتی ہے اور نہ ایسے اعلانات ہو تے ہیں ۔ کرسی بچی ہو ئی ہے تو باقی سب کچھ ٹھیک ہے ۔ سچائی تو یہ بھی ہے کہ دنیاوی خداؤں کو اپنے علاوہ کوئی دوسرا نظر ہی نہیں آتا ۔اب وہ دوسروں پر جواب دہی کیوں تھوپیں ۔ مطلب صاف ہے کہ اقتدار کی کرسی پر جو بیٹھا، وہ الیکشن کے وعدے کو بھول کر عوام سے ہی بیراگی ہو جاتاہے ۔ لیکن یہ دنیا دار بیراگی دنیا کو یعنی عوام کو چھوڑ دیتے ہیں اور خود کو ہی بنیاد میں رکھتے ہیں ۔
نریندر مودی نے ڈھائی سال پہلے پارلیمنٹ انتخابات میں اور اس کے بعد پِے بہ پے جو اعلانات کیے، کیا ان کی فہرست بنانے کی کوئی کوشش شروع ہو ئی ہے ؟آخر ملک کے سب سے اونچے عہدے پر بیٹھے افراد کو اگر ان کی باتیں یاد نہیں ہیں تو اُسے کیا مانا جائے ۔ گذشتہ دنوں وزیر اعظم کے پارلیمانی حلقے میں جانے کا موقع نصیب ہوا ۔ڈھائی برس میں وزیر اعظم نے مثالی حلقے کی بات تو چھوڑیے، اپنے حلقۂ انتخاب کو اوسَط درجے کے ترقی یافتہ حلقوں میں بھی تبدیل نہیں کیا ۔ ریلوے اسٹیشن کا باہری حصہ ایک تہائی پیشاب گھر میں بدلا ہوا ہے اور وزیر اعظم پورے ملک میں صفائی کا ابھیان چلاتے ہیں ۔ اب وزیر اعظم سے بڑا اور با اثر کون آدمی ہو جسے لوگ اپنے پارلیمانی حلقے کا نمایندہ بنائیں اور اس سے توقع کریں کہ اس علاقے کی ترقی ہو جائے گی۔ افسوس جو نمایندہ اپنے حلقے کی ترقیات کے بارے میں نہیں سوچ سکتا ،وہ ملک کے لیے پالیسیاں بناتے ہوئے کس حد تک ان پر عمل در آمد کے لیے کوششیں کر سکتا ہے ۔ کمال یہ ہے کہ وزیرِ اعظم اور ان کے سیاسی کنبے کے ہزاروں کو صرف واہ واہی چاہیے لیکن وہ کام کے عوض نہیں ہو بلکہ صرف اعلانات کے بل بوتے پر فیصلہ لیا جاے۔
مرکز سے ذرا دکن کی طرف جائیے ،جے للیتا کی حکومت کس انداز سے چل رہی ہے ، یہ آسانی سے ملک کو پتا نہیں چل سکتا ۔ ا ن کے اسپتال میں جانا، کسی کو قائم مقام قرار دیا جانا اورپھر واپسی ، منتخب سرکاروں کی یہ پرائیویٹ پارٹی کی طرح سے ہے اور عوام پہ لعنت کہ ان کو کون یاد کرتا ہے ۔ اُتّر پردیش کی حکومت اور سماج وادی پارٹی کے کاموں سے تو پورا ملک چکرا یا ہوا ہے اور سیاسی مبصرین اس دن کا انتظار کر رہے ہیں کہ الکشن میں ملائم سنگھ یادو اور ان کے خاندان کا کہیں پھر سے صفایا نہیں ہو جائے۔ باپ بیٹے بھائی بھتیجے کی مل جل کر پارٹی کچھ اس انداز سے چل رہی ہے کہ لوگ تمام گیدڑ بھبکیوں کو دوستانہ میچ کے طور پر لیتے ہیں ۔ لوگ کہتے ہیں کہ اس تماشے میں ایک بات کی صداقت طے ہے کہ ہماری ناکار کردگی پر دوسرے کیوں لعنت ملامت بھیجیں ، ہم آپس میں لڑنے کا کھیل کرتے رہیں اور مخالفین کویا پھر عوام الناس کو پس و پیش میں مبتلا کر دیں ۔ اس کھیل میں ملائم سنگھ اور اکھلیش یادو کامیاب ہو ں یا ناکام لیکن اتنا طے ہے کہ جس تعداد سے فتح یابی انھیں عطا ہو ئی تھی ، عوام کے جذبوں کا ان لوگوں نے یکسر خیال نہیں کیا۔ یہاں بھی باپ بیٹے ایسے بیراگی ہیں جنھیں عوام سے تو کوئی مطلب نہیں لیکن اپنے سے مطلب ہی مطلب ہے۔
بہار کے معزز وزیر اعلیٰ نتیش کمار بھی راگ اوربیراگ کے اسی دھاگے سے بندھے ہوئے ہیں ۔ صوبے میں کسی پروگرام کا اعلان ہو، وہ چونکانے کی کوشش کرتے ہیں ۔جب جب حکومت پر کوئی دباؤ ہو یا مشکل گھڑی ہو تو وہ بیراگیوں کی طرح سے لمبی یاترا پر نکل جاتے ہیں ۔ کبھی وکاس یاترا،کبھی حکومت کے کاموں کی ضلعی سطح پر جانچ پرکھ کے لیے علاحدہ یاترا پر نکل جائیں گے ۔ معلوم ہو گا، پورے بہار کا انتظامیہ دستہ ان کے ساتھ ضلعوں میں گھوم رہا ہے ۔ مرکزی طور پر سارے شعبوں کے دفاتر وزیر اعلیٰ کی یاترا کے ختم ہو نے اور ان کے دفاتر کے کار بند ہونے کا انتظا ر کرتے ہیں ۔ اعتراض اس بات پر نہیں کہ وزیر اعلیٰ یا حکومت کا مکھیا گاؤں گاؤں پہنچ کر لوگوں کے دکھ درد کیوں جاننا چاہتا ہے ۔ یہ کام سراہنے لائق ہے ۔مشکل یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ یا کسی بھی سرکار کے چلانے والے کو جس کام کو عام طور سے روزانہ کرنا چاہیے ، اس کے لیے لمبی لمبی یاترائیں اور سیاست کا رُخ ناپ تول کر اقدام اٹھانا یہ بتاتا ہے کہ یہاں حکمت زیادہ ہے اور عوامی چارہ گری کم ہے ۔ وزیر اعلیٰ کو روٹین کاموں کے لیے ایسی ہنگامی صورتِ حال کیوں بنانی چاہیے کہیں۔ اس سے یہ تو ثابت نہیں ہو تا کہ انتظامی ڈھانچہ یا تو ناکارہ ہے یا اس پر وزیراعلیٰ کی گرفت نہیں ۔ یہ انداز بھی سیاسی پارٹی کا نہیں بلکہ پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ (پی پی پی موڈ )کا ہے۔
ممتا بنرجی بھی وزیر اعلیٰ ہونے کے باوجود اسی انداز سے ریلیاں کرتی ہیں جس انداز سے وہ حزبِ اختلاف میں رہتے ہوئے کرتی تھیں ۔ ممتا بنرجی کسی کام کے لیے اچانک کوئی فیصلہ لینے میں اوراس کے لیے دوڑ جانا ان کا خاص انداز ہے۔ قومی سیاست میں جے للیتا ، مایا وتی اور ممتا بنرجی کے اگلے قدم کے بارے میں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا ۔ ان لوگوں نے اپنی کار کردگی سے ثابت کیا ہے کہ اپنی سہولت کے مطابق وہ اِس طرف ہو ں گی یا اُس طرف ہوں گی ۔ ملائم سنگھ یادو بھی رفتہ رفتہ سیاسی پارٹیوں میں اسی مقام تک پہنچ گئے ہیں ۔وہ کس مصلحت سے کس طرف رُخ کریں گے ، اسے کوئی نہیں جانتا ۔ لیکن ہر کام میں ان کا فائدہ شامل ہو نا چاہیے ،عوام یا ووٹ دینے والے کی کسے فکر ۔
گذشتہ دنوں نوٹ بندی کے سلسلے سے نتیش کمار کے جو بیانات سامنے آئے ،سیاسی مبصرین نے اُن کے کئی معنیٰ لیے یا ایک معنیٰ یہ بھی کہ نتیش کمار ایک کھڑکی بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف کھلی رکھنا چاہتے ہیں تاکہ ضرورت کے وقت یا بہار میں آ ر جے ڈی سے متوقع مبارزت میں تنکے کا سہارا مل سکے۔ اب تو نتیش کمار کی حقیقی شکایت نریندر مودی کے باضابطہ طور پر وزیراعظم منتخب ہو جانے کے بعد اپنے آپ معنیٰ نہیں رکھتی کیوں کہ اولاً بھاجپا سے الگ ہونے کے بعد انھوں نے اسے ہی بنیادی سبب کے طور پر پیش کیا ۔ سوال یہ ہے کہ موقع پرستی اور موقع شناسی کے درمیان عوامی جواب دہی جیسی کوئی شے ہے یا نہیں ۔ یہ سب کچھ نہیں ہو،تب بھی یہ سوال کیا جانا چاہیے کہ ملک اور ریاست یا زندگی یا دنیا کو چلانے کے لیے کچھ مثالی اصول ہو تے ہیں اور ایک مدبّر سے ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان پرحالات کے الٹ پھیر یا ذاتی نفع نقصان کے باوجود ان اصولوں یا بنیادوں پر قائم رہے ۔، ہندستان کی سیاست میں ایسی نہ جانے کتنی بہترین مثالیں موجود ہیں ۔
ہندستانی سیاست میں عوام یا ووٹر کا کام محض ایک دن بھیڑ کی طرح آکر ووٹ دینے کا رہ گیا ہے ۔ حکومت چاہے جس پارٹی کی ہو اور اس کے سر براہ جتنے صاحبانِ عقل موجود ہو ں، اس بات کی سب نے کوشش کی ہے کہ عوامی جواب دہی سے وہ گریز کی خو اپناے ۔ عوامی مسائل کے لیے الیکشن کے وقت میں جو وعدے کیے گئے ،وہ سب بے کار ثابت ہو ئے کیوں کہ سیاست دانوں کو صرف ہاتھی کے دکھانے والے دانت کی طرح سے یہ سب کچھ کرنا ہے۔ جمہوری نظام جھوٹ ،دغا اور بے شرمی پر کچھ اس انداز سے قائم ہو گیا ہے کہ یہ بات سوچنے کی ہے کہ سیاست دانوں پرکس طور پر عوامی نکیل کیسے کسی جائے ۔ جے پرکاش نارائن بار بار یہ بات کہتے تھے کہ عوام کو اپنے نمایندوں کو ناکار کردگی کے سبب واپس بلانے کا حق ملنا چاہیے ۔ یعنی Right to Recollابھی الیکشن میں NOTAکا استعمال ہو رہا ہے ۔کل عدم اطمینان کے سبب عوامی نمایندوں کو واپس بلائے بغیر کام نہیں چلے گا۔ صرف سرکاریں اپنے محکموں کی پارفارمنس رپورٹ لیتی پھریں اور اس کے بدلے سزا اور جزا کی صورتِ حال پیدا ہو لیکن صرف عوام کو یہ اختیار نہیں کہ اس کے ساتھ جس نے دغا کیا، اس کا علاج بھی وہ کر سکے کیوں کہ جمہوریت آخر عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے مکمل ہو تی ہے ۔ آج یہ وقت آگیا ہے کہ حکومت کی سربراہی کرنے والے تمام بیراگیوں کو حقیقی جوگ میں مبتلا کیا جائے اور انھوں نے جس طرح عوام کو بھلا کر خود کو یاد کرنے کی حکمت اپنائی ہے ،اس کی سزا کے طور پر ہمالیہ کی گپھاؤں میں بھیج دیا جائے ۔ تبھی ان کا عوا می بیراگ واقعتا مکمل ہو گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔