ماہِ ربیع الاول کی آمد اور اس کے تقاضے

مفتی محمد صادق حسین قاسمی 

ماہِ صفر کے بعد ربیع الاول کی آمد ہوتی ہے ،ربیع بہار کو کہتے ہیں،اسی مہینہ میں خزاں رسیدہ چمن میں بہار جادواں آئی ،دم توڑتی انسانیت کو حیاتِ نو دینے ،پامال ہوتی شرافتو ں کو بچانے ،بے دینی ،بداعمالی اورکفر و شرک کے سیلاب بلا خیز میں تھپڑے کھاتی مخلوق کو ایمان و اسلام کے ساحل سے ہمکنار کرنے اور خالق سے جوڑنے کے لئے عظیم ہستی ،محسنِ انسانیت ،خاتم النبین ﷺ کی آمد آمد ہوئی۔یعنی ربیع الاول ہی کے مہینہ میں سرورکائنات حضرت محمد مصطفی ﷺ دنیا میں تشریف لائے ۔آپ ﷺ کی تاریخِ ولادت کے بارے میں سیرت نگاروں میں اختلاف پایا جاتا ہے لیکن مہینہ کے سلسلہ میں تقریبا اتفاق ہے کہ ربیع الاول ہی کے مبارک مہینہ میں نبی کریم ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی ۔اس اعتبار سے ربیع الاول کا مہینہ ایک عظیم اورتاریخی مہینہ ہے ،جس میں ایک مسلمان کے لئے جہاں خوشی و مسرت کے سوغات ہیں وہی اپنے پیارے اور محسن نبی ﷺ کی تعلیمات کے پیغامات بھی ہیں جو دراصل ہمارے تعلق اور رشتۂ الفت کو مضبوط کرنے اور فدائیت و فنائیت کی سچی ترجمانی کرنے والے ہیں۔
ماہِ ربیع الاول میں جہاں مسلمانوں کو خوشی ہوتی ہے کہ اسی مہینہ میں فخرِ کائنات ،امام الانبیاء ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی،وہیںیہ احساس بھی بے قرار کردیتا ہے کہ اسی مہینہ کی 12 تاریخ کو رحمۃ للعالمین ﷺ نے دنیا سے پردہ فرمایا ،یعنی ربیع الاول کا مہینہ آپ ﷺ کی ولادت اور رحلت کا مہینہ ہے ۔یہ مہینہ بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ اس میں انسانیت کے سب سے بڑے اور حقیقی خیرخواہ سید الرسل حضرت محمد ﷺ آئے اور انہوں نے اپنی مختصر زندگی میں انقلاب برپا کیا ،دلوں کی دنیا بدلی ،تمناؤں اور آرزؤں کے رخ کو موڑا، اورجو خودسیدھے راستے پر نہیں تھے اپنی نرالی اور انقلابی تعلیمات کے ذریعہ انہیں آنے والے انسانوں کا امام بنایا۔قرآن کریم میں اللہ تعالی نے نبی کریم ﷺ کی بعثت کو بطور احسان بیان کرتے ہوئے ہوئے فرمایا:لقد من اللہ علی المؤمنین اذ بعث فیھم رسولا من انفسھم یتلو علیھم ااٰیٰتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتٰب والحکمۃ وان کانوا من قبل لفی ضلال مبین ۔( اٰل عمران :164)حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرے ،انہیں پاک صاف بنائے اور انہیں کتاب اورحکمت کی تعلیم دے ،جب کہ اس سے پہلے لوگ کھلی گمراہی میں مبتلاتھے ۔
ماہِ ربیع الاول ہر سال آتا ہے اور رخصت ہو جاتا ہے ،وقتی طور پر مسلمان خوشی و مسرت کا اظہار کردیتے ہیں ،اور اپنے نبی ﷺ سے محبت کے ثبوت دینے کے لئے چند جلسوں کا اہتمام بھی کرلیتے ہیں ،سیرت رسول ﷺ کو بیان کیا جاتا ہے اور رات دیر گئے تک تقاریر ہوتی ہیں ،لیکن جوں ہی ربیع الاول کا مہینہ بلکہ 12 تاریخ گذرجاتی ہے ،زندگی پھر اسی پرانی حالت پر اور سابقہ طرز پر آجاتی ہے ،جب کہ ماہِ ربیع الاول ایک پیغام دے رخصت ہوتا ہے ،اپنے نبی پاک ﷺ سے محبت کا دم بھرنے والوں کو بیدار کرکے جاتا ہے ، یہ مہینہ بھی اہل ایمان سے کچھ تقاضے کرتا ہے ، جس مہینہ میں سرور دوعالم ﷺ کی ولادت ہوئی اور آپ ﷺ ساری انسانیت کے لئے پیغام ہدایت اورمژدۂ نجات لے کر آئے کیا اس مہینہ کا کچھ مطالبہ مسلمانوں سے نہیں ہوگا؟یقیناًیہ مہینہ جہاں بہت قابل احترام اور لائق تعظیم ہے کیوں کہ اسی مہینہ میں خلاصۂ کائنات محمد رسول اللہ ﷺ دنیا میں تشریف لائے وہیں یہ مہینہ ہمارے ایمان کو جانچنے اور محبت رسولﷺ کے پیمانوں کو ناپنے کا مہینہ میں بھی ہے ۔توآئیے ایک نظر ڈالتے ہیں کہ یہ مہینہ ہم سے کیا تقاضا کرتا ہے اور اس مہینہ کی حقیقی قدردانی کیا ہے؟
سچی محبت کی ضرورت :
ماہِ ربیع الاول اپنی آمد کے ساتھ اہل ایمان سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنے دلوں میں نبی کریم ﷺ کی سچی محبت کو پیدا کرے ،حقیقی محبت کو بیدار کرے ،ظاہری اور رسمی محبت سے ہٹ کر دل وجان سے نبی کریم ﷺ کو چاہا جائے ، نبی کریم ﷺ سے محبت ایمان کا لازمی جزوہے ،آپ ﷺ سے محبت کے بغیر ایمان کامل نہیں ہوتا ہے ،قرآن و حدیث میں آپﷺ کی جہاں اطاعت و فرماں برداری کا حکم دیا وہیں آپ سے محبت کرنے کی تعلیم دی گئی ،صحابہ کرام کی زندگیاں محبتِ رسول سے سرشار تھیں ،وہ اپنے نبی کو دل و جان سے بڑھ کر چاہتے اور ان پر اپنی جان چھڑکتے تھے ،محبت رسول میں ان لوگوں نے بڑی بڑی قربانیاں دیں اور دنیا والوں کو بتایا کہ ہر رشتہ سے بڑھ کر نبی کا رشتہ ہے اور ہر ایک کی محبت سے زیادہ عزیز رسول اللہ ﷺ کی محبت ہے ۔ دنیوی تعلقات اور رشتوں کی بناء پر اور دنیوی مال ومتاع کی وجہ سے اگر محبت رسول میں کمی ہوگی یا اس سے صرف نظر کیا جائے گا تو قرآن کریم میں اس سلسلہ میں بڑی سخت وعید بیان کی گئی،ارشاد ہے :قل ان کان اباؤکم وابناؤکم واخوانکم وازواجکم وعشیرتکم واموال ن اقترفتموھاوتجارۃتخشون کسادھاومسکن ترضونھااحب الیکم من اللہ ورسولہ وجہادہ فی سبیلہ فتربصواحتی یأ تی اللہ بامرہ۔( التوبۃ :24)( اے پیغمبر!مسلمانوں سے )کہہ دو کہ :اگر تمہارے باپ بیٹے،تمہارے بھائی ،تمہاری بیویاں ،اور تمہارا خاندان ،اور مال و دولت جو تم نے کمایا ہے ،اور وہ کاروبارجس کے مندا ہونے کا تمہیں اندیشہ ہے ،اور وہ رہایشی مکان جو تمہیں پسند ہیں ،تمہیں اللہ اور اس کے رسول سے ،اور اس کے راستے میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں،تو انتظار کرو ،یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ صادر فرمادے۔امام قرطبی ؒ نے اس آیت کے ذیل میں لکھا ہے کہ:وفی الایۃ دلیل علی وجوبحب اللہ وحب رسولہ،ولاخلاف فی ذلک بین الائمۃ،وان ذلک مقدم علی کل محبوب۔( الجامع للقرطبی:10/141)کہ یہ آیت اللہ اور اس کے رسول سے محبت کی فرضیت پر دلالت کرتی ہے ،اس میں ائمہ کے درمیان اختلاف نہیں ہے ،اور یہ محبت ہر محبوب چیز سے مقدم ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے اس معاملہ میں اہم ترین ہدایات دیں اور اپنی محبت کو ہر ایک پر فائق ہونے کو کمال ایمان کی نشانی بتا ئی ہے ۔آپ ﷺ نے فرمایا :والذی نفسی بیدہ لایؤمن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین۔(بخاری ،حدیث نمبر:13)کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے تم میں سے کوئی ا س وقت تک مؤمن کامل نہیں بن سکتا جب تک کہ اس کے دل میں اس کے والد ،اس کی اولاد ،اور دنیا کے تمام لوگوں سے میر ی محبت زیادہ نہ ہوجائے۔ ایک موقع پر حضرت عمرؓ نبی کریم ﷺ کے ساتھ جارہے تھے ،آپ ﷺ حضرت عمر کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے ،اسی دوران حضرت عمر نے فرمایا کہ یا رسول اللہ ﷺ !مجھے اپنی جان کے علاوہ دنیا کی ہر چیز سے زیادہ آپ سے محبت ہے ۔اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے عمر! تم کیا کہتے ہو ؟اگر بات ایسی ہی ہے تو تم ابھی کامل ایمان والے نہیں ہوئے،اور نبی کریم ﷺ نے قسم کھا کر فرمایا کہ :تم پر لازم ہے کہ میری ذات تمہارے نزدیک تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب ہو،اس کے بغیر تمہارا یمان کامل نہیں ہوسکتا ۔جب حضر ت عمرؓ نے نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد سنا تو کہنے لگے کہ یا رسول اللہ ! اب آپ کی ذات میر ی جا ن سے بھی زیادہ عزیز اور محبوب ہے ۔تب آپﷺ نے فرمایا کہ عمر تمہارا ایمان اب مکمل ہوا۔( بخاری ،حدیث نمبر:617۰)
مذکورہ بالا ارشادات سے پتہ چلتا ہے محبتِ رسو ل ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے ،اور جب تک دل میں نبی کی محبت نہیں ہوگا ،اس کا ایمان کامل ومکمل بھی نہیں ہوگا ،اس لئے محبت رسول ﷺ کو دلوں میں زندہ کرنے کی ضرورت ہے ،اور ایسی محبت جو واقعی حقیقی ہو اوربے لوث ہو،جس میں کسی قسم کا دکھایایا ڈھونگ نہ ہوایسی محبت سے سینوں کو آباد کرنے اور زندگیوں کو منور کرنے کی سخت ضرورت ہے ۔
سیرتِ رسولؐ پر عمل کی ضرورت :
حقیقی محبت کو چانچنے کے لئے نبی کریم ﷺ نے ایک آسان طریقہ بتادیا کہ جوکوئی آپ کی سیرت اور سنت کو اپنائے گا وہی حقیقی محبت کرنے والا شماؤر کیا جائے گا ،زبان سے بلند بانگ دعوے ہو اور زندگی عمل سے خالی اور سیرت و کردار میں نبوی تعلیمات کی جھلک نہ ہوتو وہ محب صادق نہیں قرار دیا جائے گا ۔ نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالی نے ساری انسانیت کے اسوہ اور نمونہ بناکر بھیجا ہے، اور خود قرآن کریم میں اس کا اعلان فرمایاکہ :لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ ۔( الاحزاب:21)حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لئے رسول اللہ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے ۔اگر کوئی اللہ تعالی سے محبت کا طلب گار ہے تو اس کو حکم دیا کہ وہ نبی کریم ﷺ کی پیروی کرے چناں چہ ارشاد فرمایا:قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ و یغفرلکم ذنوبکم ( اے پیغمبر لوگوں سے ) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو ،اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خاطر تمہارے گناہوں کومعاف کردے گا۔( ال عمران :31)ایک حدیث میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جومجھ سے محبت کرے گا وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔( مشکوۃ:حدیث نمبر175 )اور ایک حدیث میں ارشاد ہے :لا یؤمن احدکم حتی یکون ھواہ تبعا لما جئت بہ۔( شرح السنۃللبغوی:حدیث نمبر:103) تم میں سے کوئی ( حقیقی) مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہشات میری لائی ہوئی ہدایت و تعلیم کے تابع نہ ہوجائے۔
ماہِ ربیع الاول اپنی آمد کے ساتھ مسلمانوں کو متوجہ کرتا ہے نبی کریم ﷺ نے جن تعلیمات کے ذریعہ دنیا میں انقلاب برپاکیا اور انسانوں کی کایا پلٹی ہردور اور ہرزمانے میں ہم انہی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر دنیا میں پیارے آقاﷺ کی حقیقی غلامی کا تصور دے سکتے ہیں۔دنیا ہر عہد میں انہیں تعلیمات کے ذریعہ چین و سکون پاسکتی ہیں ،ہر شعبۂ حیات سے وابستہ انسانوں کی حقیقی کامیابی صرف آپ ﷺ کے لائے ہوئے مبارک دین میں ہے ،آپ ﷺ ہی کے دامن مبارک سے وابستہ ہوکر دوجہاں میں سرخرو وکامیاب ہوسکتے ہیں ۔آپ ﷺ کی ذات بابرکات کو اللہ تعالی نے ساری انسانیت کے لئے نمونہ اور اسوہ بنایا ،صبحِ قیامت تک ہر فردِ بشر آپ ﷺ ہی کے نقشِ قدم کی پیروی میں سربلند ہوسکتا ہے ۔آپ ﷺ سے اٹوٹ وابستگی اور سچی محبت ہی ایمان کامل کی علامت ہے ،اور اپنی تمام تر خواہشات ومرضیات کو آپﷺ کی شریعت وتعلیمات پر قربان کرنے کے نتیجہ میں ہی مومنِ کامل بن سکتے ہیں ۔
محبتِ رسول ﷺ کا حق صرف یہ نہیں ہے کہ ایک جلسہ سن لیں اور کسی جلسہ کا اہتمام کردیں بلکہ محبت رسول ﷺ کے لئے ہمیں سیرت نبوی ﷺ کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنانا پڑے گا ،ہمارا عمل اور رہن سہن ،معاملات او ر معاشرت سے سیرت رسول ﷺ نمایاں ہونا چاہیے ،ہماری زبان اور فکر سے اسوۂ حسنہ کی عکاسی ہونا چاہیے ،آپ ﷺ ہی کے فرمان کے مطابق مظلوموں کی مدد بھی کرنا اور ظالموں کو ظلم سے روکنے کی تدبیریں بھی کرنا ہوگا،ہم کوشش کریں کہ ہم دنیا والوں کے سامنے اپنے پیارے آقاﷺ کی حقیقی ترجمانی کرنے والے بنیں،ہمارا کوئی عمل اور طریقہ اسلام اور پیغمبر اسلام پر انگلی اٹھانے والے والا نہ ہواور دشمن کو ہمارے دین کا مذاق آڑانے کاموقع نہ ملے ،ہمارے سیرت رسول کو اپنانے کے نتیجہ میں دشمنان اسلام اور معاندین نبی کی تمام تر سازشیں اور تحریکیں ناکام و نامراد ہوجائیں گی ،اور کبھی ان کو نبی کی شان میں گستاخی یا بے ادبی کرنے کی جسارت نہیں ہوگی ۔
تعلیمات نبویؐکو عا م کرنے کی ضرورت:
ماہِ ربیع الاو ل کا تقاضا یہ بھی ہے کہ ساری انسانیت کی بھلائی اور خیرکی تعلیمات لے کرآنے والے نبی ﷺ کی تعلیمات کو دنیا کو سامنے اچھے انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی جائے ،قرآن کریم میں اللہ تعالی نے آپ ﷺ کی بعثت کو ساری انسانیت کے رحمت قرار دیتے ہوئے فرمایا گیا:وما ارسلنا ک الا رحمۃ اللعالمین۔(الانبیاء:107 )ہم نے تمہیں سارے جہانوں کے لئے رحمت ہی رحمت بناکربھیجا ہے۔ جس نبی ﷺ کے لاتعداد احسانات دنیائے انسانیت پر ہیں ،جو ساری انسانیت کی بھلائی کے لئے آیا،جس نے ہر کٹھن مرحلہ پر انسانوں کا ساتھ دیا اور مشکلات سے نکلنے کا نسخہ عطا کیا ،جس نے عورتوں کو عزت دی ،یتیموں پر دستِ شفقت پھیرا،بیواؤں کو سہارا دیا ،غلاموں کو آزادی دلائی ،مظلوموں کے لئے آواز اٹھائی ،ظالموں کو ظلم سے روکا ،دشمنوں کو معاف کیا ،پتھر مارنے والوں کو دعائیں دیں،تجارت ومعیشت کے اصو ل دئیے ،خانگی اور خارجی زندگی گزارنے کے ڈھنگ بتائے ،اچھے اور برے کی تمیز کروائی ،نفع و نقصان سے آگاہ کیا ،امن وانصاف کی تعلیمات دیں ،ناحق قتل و خون ریزی سے منع کیا ،بچوں ،بوڑھوں ،عورتوں اور کمزوروں پر ظلم کرنے سے روکا، خلوص و محبت کا سبق سکھایاغرض یہ کہ دین و دنیا کی ہر تعلیم اور ہر ایک کے حق کو بتا یا آج ہم نے ایسے عظیم محسن اور ساری انسانیت کے غم خوار نبی کی تعلیمات کو خود بھی چھوڑا اور دوسروں کو بھی دور رکھا !!!!نبی اکرم ﷺ کی بعثت عرب و عجم ،گالے و گورے ،شہری و دیہاتی ،پڑھے لکھے اور جاہل، مالد ار وغریب ،اپنے اور پیرائے ،سب کے لئے ہوئی ،آپ ﷺ کی تعلیمات قیامت تک زندہ رہیں گی اور انہیں تعلیمات کی روشنی میں انسانیت کا سفینہ آگے کامیابی کے ساتھ بڑپائے گا۔دنیا چاہے جتنی بھی ترقی کرلے لیکن اسے آپ ﷺ کی تعلیمات کے سامنے سرنگوں ہونا ہی پڑے گا۔
ماہِ ربیع الاول ہم اہل ایمان سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم دنیا والوں کے سامنے پیارے آقا ﷺ کی سیرت کو اچھے انداز میں پیش کریں ،آپ ﷺ کی حیات طیبہ کو عملی طور پر اختیار کرکے بتائیں ،اپنے گھرانوں کو سنت کے سانچے میں ڈھالیں ،اپنی اولاد کو دینی تربیت سے آراستہ کریں ، ان کے دل میں محبت رسول اور اتباعِ سنت کے جذبات کو فروغ دیں ،نوجوان اپنی حلیہ اور لباس ،وضع قطع کے ذریعہ اور اپنی اداؤں سے سیرت رسول کو زندہ کریں ،خواتین میں دینی شعور بیدا ر کیا جائے ،اخلاق و حیا کی تعلیمات کو عام کیا جائے اور مغربی تہذیب کی نقالی سے ان کو بچایا جائے ،گھرکے ماحول کو اسوۂ نبوی کی روشنی میں سنواراجائے،اوراخلاق و کردار ،رحم دلی و شفقت ،خیرخواہی اور ہر ایک کی ہمدردی کا مظاہر ہ کریں ،گہری بصیرت اور حکمت سے آراستہ ہوکر اصلاح اور انقلاب کی کوشش کریں ۔
ایذا رسانی سے اجتناب کی ضرورت:
ماہِ ربیع الاول چوں کہ پیارے آقا حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ولادت باسعادت کا مہینہ ہے ،اس کی مناسبت سے ہر کوئی دینی جلسے اور اجتماعات منعقد کرتے ہیں ،سیرت رسول ﷺ سے آگہی کے لئے اور آپ کی عقیدت و محبت میں ربیع الاول میں ان کا بڑا اہتمام میں کیا جاتا ہے ،ولادت نبویﷺ اور آپﷺ کی آمد کے ذکر خیر کے چرچے اور تذکرے ہوتے ہیں ،اور یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ ہمارے لاتعداد جلسے اور اجتماعات ،مقالے اور کتابیں ،تقاریر اور مواعظ سب مل کر بھی اس موضوع کا حق ادا نہیں کر سکتے ،یہ تو ہماری سعادت اور خوش بختی ہے کہ ہمیں ان کے ذکر خیر کا موقع کا نصیب ہوجائے ۔لیکن اس سلسلے میں یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ آپﷺ جو دین لے کر مبعوث ہوئے وہ دینِ رحمت ہے ،جس میں ساری انسانیت کے لئے امن وعافیت کا پیغام ہے ،اسلام کے سایہ میں نہ صرف انسانوں کو آرام و سکون نصیب ہوا بلکہ جانور بھی اسلام کے سایہ میں ہمیشہ کے لئے محفو ظ و مامون ہوگئے،کیوں کہ اسلام نے پورے اہتمام کے ساتھ ہر طرح کی ایذا رسانی پر نہ صرف پابندی لگا دی بلکہ کسی کوبھی تکلیف پہونچانا حرام قرار دیا ،اور کمال ایمان کی علامت یہ بتائی کہ زبان اور ہاتھ کی ایذا رسانی سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے ۔المسلم من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ۔(بخاری:حدیث9)
اس سلسلہ میں یہ بات نہایت ضروری ہے کہ ہمارے کسی جلسہ یا یاپروگرام سے کسی کوبھی زبان و ہاتھ اور گفتگو سے ایذیت نہیں ہونا چاہیے ،ہم سیرت رسول ﷺ کو تعلیمات رسول ﷺ کی روشنی میں انسانوں کے سامنے پیش کرنے والے بنیں ،ہمیں دوسروں کی دیکھا دیکھی کرنے کی قطعا ضرورت نہیں۔جو نبی ﷺ انسانوں کو راحت پہونچانے اور رحمت و ارفت کا عام پیغام لے کر آئے ،جن کی نظر میں کسی انسان کو بلکہ جانور کو بھی بے جا تکلیف پہونچا نا سخت ناگوار گزرتا اور جو ہر ایک کی راحت رسانی کے لئے ہر دم کوشاں رہتے اس محسن نبی کا نام لے کرہم لوگوں کے لئے پریشانی اور ایذیت کا سبب نہ بنیں۔ایک مرتبہ حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں ایک مقرر حضرت عائشہؓ کے حجرہ کے سامنے زور زور سے تقریر کررہا تھا تو آپؓ نے حضرت عمرؓ کے پاس شکایت بھیجی کہ اس کی بلند آواز سے مجھے تکلیف ہو رہی ہے اور کسی کی آواز بھی نہیں سنائی دے رہی ،امیر المؤمنین حضرت عمرؓ نے پہلے اس کی تنبیہ فرمائی جب وہ اس سے باز نہیں آیا تو پھر اس کو سزا دی ۔( تاریخ المدینہ لابن شبہ :1/15 شاملۃ)
اس لئے ضرورت ہے کہ ہمارے دینی اجتماعا ت بھی اسلام کا پیغام پھیلانے کاذریعہ بنیں اورسیرت رسولؐ کا آفاقی پیام انسانوں تک پہونچ سکے اور ہر اس عمل اور کام سے اجتناب ضروری ہے جو پیغمبر اسلام کی تعلیمات کو بدنام کر نے سبب ہو ۔ بلاشبہ یہ بھی ایک دینی تقاضا ہے کہ آپ ؐ کے پیغام کواور آپ ؐ کے مقصد بعثت کو دنیاتک پہونچا یا جا ئے اور مختلف جلسوں اور اجتماعات کے ذریعہ اس کو عام کیا جائے لیکن اس کے لئے طریقہ بھی وہی ہو نا ضروری ہے جس سے آپ ؐکی تعلیمات پر کسی قسم کی بھی زد نہ پڑے اور ہمارے کام غیر وں کو اسلام سے بد ظن کرنے سبب نہ ہو۔
آخری بات :
یہ چند اہم اور بنیادی تقاضے جو ماہِ ربیع الاو ل کی آمد کے ساتھ ہی ہمیں دعوتِ فکر و عمل دیتے ہیں ،اس کے علاوہ بھی اور تقاضا ہوں گے لیکن اگر ہم عملی طور پر سیرت رسول کو اپنانے والے اور سچی محبت رسول سے سرشار ہوجائیں تو پھر دیگر تقاضوں کو پورا کرنا بھی ہمارے آسا ن ہوگا ،اس لئے ہم اب تو عہد کریں کہ یہ ربیع الاول ہماری زندگیوں کو بنانے والا بنے اور اس ماہ میں آنے والے پیارے نبی کی مبارک اور پیاری تعلیمات کو عملی طور اختیار کرسکیں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔