بخت میں تھی بے قراری اور تڑپنا تھا ہمیں

افتخار راغبؔ

بخت میں تھی بے قراری اور تڑپنا تھا ہمیں

بے رخی اُن پر تھی طاری اور تڑپنا تھا ہمیں

 کس کو تھی آسودگی کی آس اُس بے درد سے

تھا سفر وحشت کا جاری اور تڑپنا تھا ہمیں

عقل کو معلوم تھا تم کس قدر سفًاک تھے

دل میں تھی چاہت تمھاری اور تڑپنا تھا ہمیں

وہم تھا ہم کو وفا کی آس ہے امید سے

یاس کا تھا پانو بھاری اور تڑپنا تھا ہمیں

بالیقیں پتھًر کا دل تھا موم کے اُس جسم میں

بے اثر تھی آہ و زاری اور تڑپنا تھا ہمیں

چاہ کر بھی ہم سمٹ پائے نہ راغبؔ آپ تک

تھی رگوں میں دوست داری اور تڑپنا تھا ہمیں

تبصرے بند ہیں۔