برناڈشا اور اسلام

تحریر:خالد کمال مبارکپوری۔ ترتیب: عبدالعزیز

 برناڈ شا کا عصر حاضر کے عالمگیر شہرت یافتہ ائمہ مفکرین میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اس کی تصنیفات دنیا کے گوشہ گوشہ میں پھیلی ہوئی ہیں اور دنیا کی بہت سی زندہ زبانوں میں ان کا ترجمہ بھی ہوچکا ہے۔ اس کے افکار و آراء ہر مذہب اور ملت کے اہل علم طبقہ میں مشہور و معروف ہیں۔ اس کے افکار و آراء کی مقبولیت اس کی فلسفیانہ رنگینی، لطیف نکات، عبارت کی عمدگی اور طرزِ تحریر کا اچھوتا پن ہے۔ اگر وہ اپنی تحریر میں عام طرز تحریر کا رنگ اختیار کرتا اور اپنے زمانہ کے رائج طریقہ کو اپناتا تو ہر گز اسے یہ مقبولیت حاصل نہ ہوتی اور وہ صرف اہل علم کے مخصوص طبقہ میں ہی منحصر ہوجاتا۔

جب آپ اس کے ڈرامے پڑھتے تو ان پر جاسوسیت کا رنگ غالب نظر آتا ہے، لیکن اگر آپ غور کریں تو مصنف کے مقاصد کو بالکل واضح پائیں گے اور آپ کو بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ اس معلم و مصلح کا مقصد ان ڈراموں سے بلندیِ اخلاق کا ایسا قلعہ تعمیر کرنا ہے جو فلسفۂ اخلاق کی بنیاد پر قایم ہو۔

برناڈشا نے اپنے ڈراموں میں صرف ہنسی مذاق اور تفریحی عبارتیں ہی نہیں پیش کی ہیں بلکہ ہر ڈرامہ کا ایک طویل مقدمہ بھی بالتفصیل بیان کیا ہے جو اس کے نظریات و افکار کی ترجمانی کرتا ہے اور ہر صاحب فہم و فراست کے ذہن پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مقدمات کبھی کبھی ڈرامہ سے بھی بڑے ہوجاتے ہیں۔

اس مقالہ کا مقصد برناڈ شاکے دینی، سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ نظریات و افکار کا تجزیہ و تشریح نہیں ہے بلکہ آج ناظرین کرام کے سامنے اس کی تصنیفات سے عرب، بلاد عرب اور اسلام و مسلمین سے متعلق باتیں پیش کی جائیں گی، جن سے برناڈ شاکی علوم شرقیہ سے دلچسپی اور فنونِ مشرق سے متعلق معلومات کا پتا چلتا ہے۔

برناڈ شا اور الف لیلیٰ: دنیائے عرب میں برناڈ شانے سب سے پہلے جس چیزکو پہچانا وہ داستانِ الف لیلیٰ کیلئے ریف گیا۔ وہاں اسے الف لیلیٰ کا ترجمہ مل گیا۔ پھر کیا تھا ، دل و جان سے اس کے مطالعہ میں مصروف ہوگیا۔ جب اس کی پھوپھی نے دیکھا کہ دنیا وما فیہا سے بے خبر ہوکر اس کے مطالعہ میں غرق ہے تو کتاب اس کے ہاتھ سے چھین لی اور اسے اپنے کپڑوں کے بکس میں بند کرکے رکھ دیا۔ جب برناڈ شانے ضد کی تو کہاکہ اس کے پڑھنے کے ذہن پر برا اثر پڑتا ہے، لیکن برناڈ شانے عہد کر لیا کہ اس کو اچھی طرح دیکھے بغیر چین سے نہیں بیٹھے گا۔ چنانچہ اپنی پھوپھی کو غافل کرکے اس کی تلاش جاری کر دی۔ جویندہ یابندہ کے مطابق اسے کتاب مل گئی۔ پھر اس کے مطالعہ میں غرق ہوگیا اور اس کے تمام قصے پڑھ ڈالے، جن کا اس کے ذہن و دماغ پر چھا گیا۔ اس کا مظاہرہ یوں ہوا کہ ایک مرتبہ جبکہ وہ تورات اور اس کے اخلاقیات کا مطالعہ کر رہا تھا، نہایت جرأتمندانہ لہجہ میں مسیحیوں کو خطاب کرکے کہا کہ مسیحی حضرات؛ صرف تورات کو مقدس سمجھنے سے باز آجائیں اور تورات کو اپنے کتب خانوں میں الف لیلیٰ کے پہلو میں رکھا کریں ۔

نیز بیورتان جو اپنے دین کے معاملہ میں بڑے متشدد قسم کے لوگ ہوتے ہیں ، ان کے تین ڈراموں کے مقدمہ میں برناڈشا نے انگریزی اور عربی ادب میں محبت کے قضایا کے سلسلے میں دونوں کو ملاکر دوش بدوش چلنے اور قضایا کا حل دریافت کرنے کی تجویز پیش کی ہے، چنانچہ وہ کہتا ہے:

’’الف لیلیٰ ایسے قصوں کے مجموعہ پر مشتمل ہے جو اپنی افادیت اور عمدگی کے لحاظ سے انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔ ہمارے افسانوں اور قصوں میں اس کی مثال ملنی مشکل ہے، کیونکہ عرب ادب میں محبت کا علاج صورت طبیعہ مثلاً احساسات وغیرہ سے کیا گیا ہے۔ لہٰذا اس کے اندر نہ تو مبادی مقرر کا وجود ہے نہ سراب نما شخصیت کا فقدان اور نہ ہی اس بات کا مظہر ہے کہ مرد اور عورت دونوں کا شجاعت، محبت، دوستی کی صفت میں متصف ہونا ناممکن ہے۔ ہاں البتہ جب دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کی صفت سے دلچسپی لیتا ہے تو یہ اور بات ہوتی ہے۔ عربی قصہ نویس، جن کی تقلید میں انگریزی افسانے لکھے جاتے ہیں ، یکے بعد دیگرے شخصیات کو اجاگر کرتے رہتے ہیں اور ایک سے ایک نئی ایجاد پیش کرتے رہتے ہیں اور انگریزی افسانہ نویس صرف جنسی معاملات ہی میں الجھ کر رہ جاتے ہیں ، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ جنسی گوشے اس قدر قوی ہوگئے کہ ناشرین و محررین اور پروڈیوسر حضرات اس وقت تک کتاب یا ڈرامے شائع کرنے سے پرہیز کرتے ہیں ، جب تک کہ ان کے اندر محبت اور جنسی ادب کا ذخیرہ موجود نہ ہو‘‘۔

برناڈ شا اور حضرت محمدؐ: برناڈشا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت اور اسلامی تعلیمات کا بڑا شیدا تھا۔ چنانچہ اس نے اپنی بعض تصانیف میں لکھا ہے :

’’میری بڑی تمنا ہے اور میں اسے واجب سمجھتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو انسانیت کے نجات دہندہ کی حیثیت سے دیکھوں اور میرا تو یہ اعتقاد ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسی شخصیت کو اگر آج کے عالم جدید کی عنانِ حکومت دے دی جائے تو دنیا اپنی مشکلات کے حل تلاش کرنے میں کامیاب و بامراد ہوجائے گی اور اس کے اندر امن و سلامتی کی لہر دوڑ جائے گی۔ کاش! دنیا اس جیسے مسلح کی ضرورت کو محسوس کرتی‘‘۔

برناڈشا اپنے ڈرامے میں انبیاء و اولیاء کے متعلق بھی کچھ لکھنا چاہتا تھا، اس نے حضرت مسیحؑ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح لکھنے کی نیت کی تھی لیکن اس خوف سے کہ حضرت مسیحؑ سے متعلق ڈرامہ عالم مسیحیت میں مقبولیت حاصل نہیں کرسکتا۔ اسی طرح حضرت محمدؐ سے متعلق ڈرامہ عالم اسلام میں مقبول نہ ہوگا۔ اس نے کھل کر دونوں شخصیتوں کا ڈرامہ نہیں لکھا، بلکہ اپنی فکر کو بدل کر ان دونوں شخصیتوں کی زندگی پر اپنے مختلف ڈراموں میں روشنی ڈالی ہے، چنانچہ اس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق اپنے تین مشہور ڈراموں میں بہت کچھ لکھا ہے۔ اسی طرح اپنے ڈاکٹر سے متعلق ایک ڈرامہ کے مقدمہ میں برناڈشا نے پاکیزگی، صفائی اور نظافت کے سلسلہ میں اسلام کو سراہا ہے، چنانچہ مسیحیوں کے انقلاب کی جانب اشارہ کرنے کے بعد لکھتا ہے:

’’یہ کہنا بہت آسان اور ممکن ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ بڑی دور رس اور وسیع تھی، جس کا ثبوت اس سے ہوتا ہے کہ آپ نے نظافت (وضو) کو ارکان اسلام میں داخل فرمایا‘‘۔

اسی طرح اپنے ایک اور ڈرامہ ’’انڈر وکلس اور سیر‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’مسیحیوں نے جب دیکھا کہ مسلمانوں کی تہذیب یورپ کی تہذیب سے کئی گنا زیادہ ترقی پر ہے تو ان دہشت آمیز تعجب کا اندازہ کرنا مشکل ہوگیا‘‘۔

پارلیمنٹ کے ممبروں کے سامنے جو مطبوعات کی رقابت پر بحث کرنے کیلئے جمع ہوتے تھے تو برناڈشا نے جو بیان دیا اس میں دین اسلام کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:

’’ثقافت عامہ کو اپنانے کے سلسلے میں رقابت نے جو گل کھلائے اس کے سامنے دنیا کی بڑی سے بڑی مصیبتیں بھی ہیچ ہوکر رہ جاتی ہیں ۔ اس کی مثال یوں لیجئے کہ جب فلسفہ ارتقائی دور میں ہمارے اور فلسفہ کے درمیان رقابت پیدا ہوئی اور ڈارون، ہکسلی، ٹنڈال، سنبسر، کارمیل سے لے کر رسکن اور تبلز تک یہ کشمکش جاری رہی تو اس وقت عام مفہوم اور عوام کی اصطلاح میں ان کی کتابوں کو فسق و فجور اور دہریت کی حامل بتلایا جاتا تھا، ہم آج بھی دیکھ رہے ہیں کہ کاتھولیکی اور ارتھوڈکسی فرقے ان کی تصنیفات پڑھنے سے شدت کے ساتھ روک رہے ہیں ۔ جب ان سے وجہ پوچھی جاتی ہے تو یہی کہتے ہیں کہ یہ کتابیں دہریت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا عبادتِ اصنام کے خلاف علم جہاد بلند کرنے اور وحدانیت باری کیلئے کوشش کرنے کے خلاف اگر مسیحیت اور اس کے اخلاق غالب آجاتے تو آج دنیا کا کیا نقشہ ہوتا؟‘‘

’’اسلام اور مسیحیت اپنی وسعت کے باوجود عوام کی نظر میں اپنے ماضی کو زیادہ مضبوط اور مستقل نہ بنا سکے۔ آج انگریز اس لئے مسیحی ہے کہ وہ انگلینڈ میں پیدا ہوا ہے۔ اگر وہی استنبول میں پیدا ہوتا تو اس کا مسلمان ہونا ضروری ہوتا۔ لوگ آج اسلام اور مسیحیت کے ان جہادوں سے واقف نہیں ہیں جو ان دونوں نے بلندیِ اخلاق کیلئے کئے ہیں ۔ اسی طرح اسلام اور مسیحیت کے وجود کو قرون ماضی کے اخلاق کے سر پر خطرہ ماننے کیلئے بھی تیار نہیں ہورہے ہیں ‘‘۔

برناڈشا اور تعدد ازواج: اپنے مشہور ڈرامہ ’’شادی کی تیاری‘‘ کے ایک طویل مقدمہ میں برناڈ شا نے شادی پر سماجی، اقتصادی، سیاسی، دینی اور جنسی حیثیت سے سیر حاصل بحث کی ہے اور اس میں مختلف نظریات کو ذکر کرنے کے بعد اپنے نظریہ کی وضاحت ان الفاظ میں کرتا ہے:

’’اگر مان لیا جائے کہ جنگ ہمارے تین چوتھائی مردوں کو فنا کے گھاٹ اتار دے تو اس صورت میں ہمارے لئے لازم ہوگا کہ اسلامی طریقہ کو اپنایا جائے جوبیک وقت چار شادی تک کی اجازت دیتا ہے۔ اس کے علاوہ ہم اپنی قوم کو کسی بھی صورت سے خطرہ سے باہر نہیں لاسکتے اور اگر اتفاق سے جنگ کبھی اس کے برعکس تین چوتھائی عورتوں کو ختم کر دے تو اس صورت میں ہمیں بڑی پریشانیوں کا سامنا کرنا ہوگا اور ہمارا وجود تنگی میں پڑجائے گا۔ یہیں سے یہ بنیادی نظریہ پیدا ہوتا ہے کہ میدانِ جنگ میں عورتوں کو قتل نہ کیا جائے تاکہ نسل انسانی باقی رہے، صرف شرافت و بہادری کا بقا مقصود نہیں ہے، جیسا کہ عام طور پر یہی خیال کیا جاتا ہے‘‘۔

حضرت محمدؐ اور بت پرستی: اسی ڈرامہ میں آپ کو یہ عبارت بھی ملے گی:

’’ہوچکس نے سومرس راہب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے ارادے، اپنے تکبر اور اپنی شرافت کے علاوہ کسی بھی دوسری چیز سے مطمئن نہیں ہوں ۔ تمہاری دینی تعلیم تمہاری پوری پوری موافقت کرتی ہے، لیکن وہ میرے قابل نہیں ہے۔ میں تو نا بلیوں کی طرح اسلام کو دوسرے ادیان کے مقابلہ میں فضیلت دیتا ہوں اور میرا اعتقاد ہے کہ برطانوی شہنشاہیت اس صدی کے آخر میں حلقہ بگوش اسلام ہوجائے گی۔ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت سے بہت زیادہ متاثر ہوں اور مجھے ان کی رائے سے ایک حد تک اتفاق ہے۔ میری یہ بات اسے سومرس تمہیں زمین پر ڈال سکتی ہے۔ تمہیں معلوم نہیں کہ دین میں ایک عظیم قوت ہوتی ہے۔ یہ قوتِ دافعہ حقیقت اور وحدانیت کا بہترین مظاہرہ ہوتی ہے لیکن تم اور تمہارے جوڑی دار اس حقیقت کے سمجھنے سے قاصر ہیں ، وہ نہیں سمجھ سکتے کہ تالیف انسانیت کی آسان اور بہتر ترکیب کیا ہے؟ دین اور ایمان و عقیدت کی چمک دمک لے کر انسان کی طرف بڑھنا یہی اس کے قریب کرنے کا بہترین نسخہ ہے۔ اس حقیقت کو چھوڑ کر تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ لوگ تمہاری دیانت داری پر ایمان لائیں ؟ اور اس نشہ میں چور ہوکر تم یہاں تک حماقت کر بیٹھے ہو کہ اپنے علاوہ دوسرے سے علم حاصل کرنے سے بہتر یہ بتلاتے ہو کہ بچہ موت کے ظالم ہاتھوں میں پڑکر دم توڑ دے‘‘۔

زنجبیہ کی ذات باری سے متعلق بحث والے ڈرامہ میں بعض تقلیدی عادتوں اور ان رسم و رواج پر تنقید کی ہے، جو احکام رسل اور تعلیماتِ انبیاء سے بے تعلق ہیں ، چنانچہ اسی میں آگے چل کر لکھا ہے کہ ’’نبی عربی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت بڑی عظیم اور جرأت مندانہ اقدام کئے جب توحید بت پرستی کے مقابلہ میں آگئی اور آپؐ نے دنیا کو ادیان سابقہ کی جانب پلٹ کر غور و فکر کرنے کی دعوت دی اور ایک ذات وحدۃ الوجود کو پہچاننے پر زور دیا‘‘۔

اس کے بعد لکھتا ہے کہ ’’تورات میں مذکورہ دوسری وصیت، جس میں فرمایا گیا ہے کہ آپ اپنے لئے نہ کوئی تمثال بنائیں نہ کوئی صورت اور نہ اس کو سجدہ کریں نہ اس کی عبادت کریں ، مسلمانوں کے نزدیک زیادہ محترم اور قابل عمل ہے۔ اگر مسیحیوں سے اس معاملہ میں موازنہ کیا جائے، تو مسلمان بہت آگے نظر آئیں گے‘‘۔

تبصرے بند ہیں۔