بریلی سے دیوبند اور انصار شیخ سے شُبھم تک کا سفر

اس بار جب ہم کالم لکھنے بیٹھے تو دو موضوعات آپس میں دست و گریباں ہو گئے۔ ایک نے کہا مجھے اور دوسرے نے کہا مجھے۔ لہٰذا فیصلہ کیا گیا کہ دونوں پر قلم اٹھایا جائے۔ ایک موضوع ہے اتحاد ملت کے سربراہ اور خانوادۂ اعلیٰ حضرت کے چشم و چراغ مولانا توقیر رضا خاں کی بریلی سے دیوبند تک کی یاترا اور دوسرا ہے آئی اے ایس کے باوقار امتحان میں کامیاب ہونے والے انصار شیخ کی کہانی۔ یکے بعد دیگرے پیش آنے والے یہ دونوں واقعات انتہائی خوش کن اور تحریک آمیز ہیں۔ اگر چہ ان دونوں کا آپس میں بظاہر کوئی رشتہ نہیں لیکن اگر معاملے کی تہہ میں جاکر غور کریں تو دونوں میں بالواسطہ رشتہ بھی ہے۔ پہلے بات مولانا توقیر رضا خاں کے دیوبند یاترا کی۔ موصوف سے میری بس ایک ملاقات ہے اور وہ بھی دس پندرہ سال قبل۔ لیکن اس وقت بھی ان کی باتوں سے یہی محسوس ہوا تھا کہ وہ ملت میں انتشار سے پریشان ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ یہ اختلافات دور ہوں۔ ہم اپنے اپنے مسلک پر قائم رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کی باتیں کر سکتے ہیں۔ انھوں نے دیوبند جا کر وہاں کے علما سے ملاقات کی اور اتحاد و اتفاق کے سلسلے میں وسیع تر تبادلہ خیال کیا۔ ان کے اس قدم کی بڑے پیمانے پر ستائش کی گئی اور ہونی بھی چاہیے۔ کیونکہ حالیہ دنوں میں مسلکی تعصبات کی جو گھنگھور گھٹائیں اٹھی ہیں ان میں یہ ملاقات امید کی ایک ایسی کرن بن کر چمکی ہے کہ جس سے کئی کرنیں پھوٹ سکتی ہیں اور وسیع پیمانے پر اجالا ہو سکتا ہے۔ ملی اتحاد کے لیے فکرمند ہمارے ایک بزرگ دوست نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے جہاں اس قدم کی تعریف کی وہیں یہ بھی کہا کہ اس کی اہمیت اس وجہ سے بھی ہے کہ یہ محض دو شہروں کی ملاقات نہیں ہے بلکہ دو نظریات کا ملن ہے، دو نقطہ ہائے نظر کی ایک دوسرے کے ساتھ بغل گیری ہے۔ لیکن چوطرفہ خیرمقدموں کے درمیان کچھ ناپسندیدہ آوازیں بھی اٹھی ہیں۔ جن پر خود مولانا توقیر رضا نے انتہائی سخت بیان دیا ہے۔ ان کے اس جملے سے کہ ’’میرے دیوبند جانے پر سوال کھڑا کرنے والے اپنا محاسبہ کریں، میں سب کے بارے میں جانتا ہوں، کون دیوبندیوں کے ساتھ کھاتا پیتا ہے اور کس نے ان سے اپنی بیٹی پوتے کا رشتہ کیا، زبان کھل گئی تو ان سب کو پھر سے نکاح اور کلمہ پڑھنا پڑے گا‘‘ ایک بات واضح ہو گئی کہ کچھ لوگوں کے ذریعے جو کہ ان کے اپنے ہیں اور ہم مسلک بھی ہیں مخالفت کرنے پر مولانا کو کتنی تکلیف پہنچی ہے۔ بات بھی تکلیف پہنچنے کی ہے۔ اگر کوئی شخص کسی سے اس لیے ملتا ہے کہ اسلام دشمن طاقتیں مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں کامیاب نہ ہو سکیں تو اس کی ہر حال میں پذیرائی کرنی چاہیے۔ بلکہ دوسروں کو بھی اس کی تقلید کرنی چاہیے۔ ایک سربراہِ مسلک کے وارث ہونے کی وجہ سے ان پر لوگوں کی نگاہیں ہیں اور اسی لیے انھوں نے واضح طور پر یہ بھی اعلان کر دیا کہ اگر اتحاد ملت کی ان کی سعی کو کچھ لوگ دوسرا رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں تو وہ اس سلسلے میں جامعہ اشرفیہ مبارکپور سے فتویٰ حاصل کریں گے۔ ہماری ناقص رائے میں کوئی بھی مفتی اتحاد ملت کے اقدامات کے خلاف محض اس وجہ سے فتویٰ نہیں دے سکتا کہ یہ کوشش دوسرے مسلک والوں سے مل کر کیوں کی گئی۔ اب جبکہ مولانا توقیر رضا نے یہ مبارک قدم اٹھایا ہے تو دوسرے مسلک کے ذمہ داروں کو بھی خاص طور پر دارالعلوم دیوبند کے ذمہ داروں کو چاہیے کہ وہ بھی بریلی جائیں اور مولانا توقیر رضا سمیت اس مسلک کے دیگر علما اور ذمہ دار حضرات سے ملاقات کریں تاکہ ان کی حوصلہ افزائی بھی ہو۔ اس پہل کو صرف یہیں تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ دوسرے مسالک یعنی اہلحدیث اور اہل تشیع حضرات کو بھی اس مہم میں شامل ہونا چاہیے اور مسلکی تحفظات کو الگ رکھ کر ملی مفاد کے پیش نظر آگے قدم بڑھانا چاہیے۔ مولانا توقیر رضا کے اس قدم سے ان کا قد اور بڑھ گیا ہے۔ اگر دوسرے ان کی تقلید کرتے ہیں تو یہ ان کے مسلک کی تقلید نہیں ہوگی بلکہ اتحاد کی ان کی کوشش کی تقلید ہوگی۔ اس قسم کی کوششیں پہلے بھی ہوئی ہیں جو بوجوہ ناکام بھی ہوتی رہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوششیں بند کر دی جائیں۔ ضرورت بے لوث قدم بڑھانے کی ہے۔ غیر متعصب ہو کر آگے بڑھنے کی ہے۔
جب میں نے یہ خبر پڑھی تو مجھے پچھلے سال لکھنؤ میں کی جانے والی اسی قسم کی ایک کوشش یاد آگئی جسے Shouldre To Shoulder نام دیا گیا تھا۔ یعنی کندھے سے کندھا ملانا۔ دوش بدوش ہونا۔ عید الاضحی کے موقع پر اس کوشش کا آغاز کیا گیا تھا اور لکھنؤ کی شیعہ مسجد میں شیعوں اور سنیوں نے ایک ساتھ مل کر ایک سنی امام کی اقتدا میں عید الاضحیٰ کی نماز ادا کی تھی۔ اس کوشش کا آغاز نئی دہلی کے جامعہ علاقہ سے ہوا تھا۔ چند شیعہ اور سنی مسلمانوں نے یہ مہم شروع کی تھی جس کے تحت پہلے جامعہ میں دوش بدوش نماز ادا کی گئی اور پھر لکھنؤ میں۔ لکھنؤ کے سبطین آباد کے امام باڑے میں نماز ادا کی گئی تھی جس میں دونوں مسلکوں کے مسلمانوں نے بڑی تعداد میں حصہ لیا تھا۔ لیکن نہ جانے کیوں پھر وہ مہم ڈھیلی پڑ گئی۔ جبکہ گزشتہ سال جولائی میں کویت کی سنی مسجدوں میں بھی شیعہ اور سنی مسلمانوں نے ایک ساتھ نمازوں کی ادائیگی کی۔ یہ قدم ایک شیعہ مسجد میں بم دھماکہ کے بعد جس میں 27؍ افراد ہلاک اور دو سو سے زائد زخمی ہوئے تھے یہ قدم اٹھایا گیا تھا۔ اِس وقت ہندوستان سمیت پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جس قسم کی مہم چلائی جا رہی ہے اس کے پیش نظر مسلمانوں کا بلا لحاظ مسلک اتحاد بے حد ضروری ہے۔ نہ تو ہندوستان میں یہ دیکھ کر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے کہ وہ سنی ہیں یا شیعہ اور نہ ہی دوسرے ملکوں میں۔ یہاں تو ان نام نہاد اور کمیونسٹ مسلمانوں کو بھی جن کا نماز روزے سے کوئی رشتہ نہیں محض مسلم نام ہونے کی وجہ سے تختہ مشق بنایا جاتا ہے۔ اگر ہم عالمی سطح پر دیکھیں تو وہاں بھی سنی اور شیعہ کی کوئی تفریق نہیں ہے۔ نہ ہی دیوبندی اور اہلحدیث کی ہے۔ اسلام دشمن قوتیں تو تمام مسلمانوں کو اپنا دشمن سمجھتی ہیں۔ لہٰذا مولانا توقیر رضا کے اس قدم کی جتنی بھی ستائش کی جائے کم ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ یہ سلسلہ یہیں بند نہ ہو بلکہ اسے دوسرے مسلک کے ذمہ دار آگے بڑھائیں۔
اب چند باتیں انصار شیخ کی۔ انصار مہاراشٹرا کے جالنہ کے رہنے والے ہیں۔ وہ ایک غریب آٹو رکشا ڈرائیور کے بیٹے ہیں۔ ان کا ایک بھائی تعلیم حاصل نہیں کر سکا۔ وہ ایک کرانے کی دکان پر نوکری کرتا ہے۔ تین بہنیں ہیں جن کی کم عمری میں شادی ہو گئی۔ وہ ان پڑھ ہیں۔ ان کے والد نے تین شادیاں کی ہیں۔ یہ دوسری بیوی سے ہیں۔ یہ تفصیلات اخباروں میں آگئی ہیں کہ جب انصار شیخ مزید تعلیم حاصل کرنے اور آئی اے ایس کی تیاری کرنے کے لیے پونے پہنچے اور رہائش اور کھانے پینے کے انتظام کے لیے میس ڈھونڈنے لگے تو محض اس وجہ سے کہ وہ مسلمان ہیں ان کو رکھنے کے لیے کوئی تیار نہیں تھا۔ لیکن وہ مایوس نہیں ہوئے۔ انھوں نے دیکھا کہ ان کے تمام دوستوں کو جو کہ ہندو ہیں میس مل گئے ہیں تو انھوں نے انھی کا ہتھیار آزمانے کی کوشش کی اور اپنے ایک دوست شُبھم کے نام کا استعمال کیا اور پھر وہ میس پانے میں کامیاب ہو گئے ۔ انھوں نے محنت کی اور اب وہ یو پی ایس سی کے باوقار او رانتہائی مشکل امتحان میں بھی کامیاب ہو گئے ہیں۔ توقع ہے کہ وہ کلکٹر کے عہدے پر فائز ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ انھیں اب اپنی شناخت چھپانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اب وہ فخر کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں اور ان کا نام انصار شیخ ہے۔ ان کا یہ واقعہ جہاں بے انتہا تحریک آمیز ہے اور ہمیں مشکل حالات سے لڑ کر تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دیتا ہے وہیں اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ ہندوستانی سماج کس قدر مذہبی تعصب کے خانوں میں بٹ گیا ہے۔ یہ آج کی بات نہیں ہے۔ اب سے پہلے بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ لیکن اس حکومت میں یہ تعصب کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے۔ اگر مسلمانوں میں اتحاد ہوتا تو شائد اس قسم کے واقعات پیش نہیں آتے۔ اس مسئلے پر اور بھی لکھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن کالم کی تنگ دامانی اس کی اجازت نہیں دیتی۔ لہٰذا یہ موضوع پھر کبھی۔ مسلمانوں کی نوجوان نسل کو انصار شیخ سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔