طرحى غزل

میری تشہیر ایسے کرا دی گئی
صبح دم ایک شمع بجھا دی گئی

ہرخلش میرے دل کی دبا دی گئی
عشق کی دوستو یہ سزا دی گئی

روشنی بانٹنے جب سے نکلے ہیں ہم
تیرگی اور شب کی بڑھا دی گئی

قتل تو جرم ہے ہر کسی کے لئے
اپنی تہذیب پھر کیوں مٹادی گئی

کس کو ناصح کہیں ساقیا کون ہے
سارے بے خود ہیں سب کو پلا دی گئی

ہم کو پہلے تو ان سے جدا کر دیا
بعد میں پھر ملن کی دعا دی گئی

رونقیں گھر کی بازار میں آ گئیں
در سے زنجیر جب سے ہٹادی گئی

سارے فنکار صف میں کھڑے رہ گئے
منصبی رہزنوں میں لٹا دی گئی

ایک وعدہ بھی جو نہ وفا کرسکے
حکمرانی ان ہی کو تھما دی گئی

کب تلک ہوش میں ہم نہیں آئیں گے
اک نشانی تھی وہ بھی مٹا دی گئی

بے غرض راہ میں وہ ملے ایک دن
اور افواہ پھر اک اڑا دی گئی

یار خانہ بدوشی مبارک تجھے
دیکھ لے مجھ پہ تہمت لگا دی گئی

ہجر کا غم کسی موت سے کم نہیں
کیا کریں جب سزا ہی سنا دی گئی

سارے اغیار تو سامنے تھے مرے
پشت پر ضرب کیسے لگادی گئی

فصلِ گل اور ہنگامۂ میکدہ
پھول کو توڑکر مئے بنا دی گئی

خودکشی عام ہے شہر میں ان دنوں
عشق کی آگ اتنی بڑھادی گئی

عشق کی ایک تمثیل ہیں مصطفیؐ
عشق میں جن کے دنیا بنا دی گئی

چند سکّوں کے بدلے غلامی ملی
آج میری بھی قیمت لگادی گئی

سن کے اپنے ہوئے غیر ابنِ چمنؔ
’’کیا کہانی تھی اور کیا بنا دی گئی‘‘

تبصرے بند ہیں۔