بزم اردو قطر کا ایک شاندار مشاعرہ 

اردو  ہے جسکا  نام ہمیں جانتے  ہیں  داغ

سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

دوحہ قطر کی اولین اولین و قدیم ترین اردو ادبی تنظیم  بزم اردو قطر (قائم شدہ۱۹۵۹ ؁ء)  کے زیر اہتمام  اردو فکشن رائٹر محترمہ نوشابہ خاتون کے اعزاز میں تقریب پذیرائی کا انعقاد مورخہ ۲۲ فروری بروز جمعرات  بوقت ۸بجے شب  مازہ ریسٹورینٹ  دوحہ جدید میں ہوایہ تنظیم قطر کی سب سے قدیم ترین تنظیم ہے۔ اسے ادبی حلقوں میں سبھی اردو ادبی تنظیموں کی ماں ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔اس کا ادبی سفر ۱۹۵۹ ء  میں ’’بزم ارباب سخن ’’کے نام سے شروع ہوا اور ۱۹  اپریل ۱۹۷۹ ء میں اس کا نام بدل کر ’’بزم اردو قطر’’ رکھا گیا،اس مشاعرے کی صدارت  دو  لوگوں نے کی، پہلے حصے کی صدارت جناب صبیح بخاری(سرپرست اعلی، بزم)نے فرمائی  اور دوسرے (شعری)حصہ کی بانی انجمن جناب ابراہیم خان کمال صاحب نے فرمائی۔ مہمان خصوصی محترمہ نوشابہ خاتون اور مہمان اعزازی جناب ڈاکٹر ندیم جیلانی دانش تھے،  مشاعرہ کے پہلے حصہ کی نظامت بزم کے جنرل سکریٹری  احمد اشفاق نے کی اور دوسرے ( شعری حصہ) نظامت کے فرائض راقم اعظمی نے انجام دئے۔

پروگرام کا باقاعدہ آغاز  قاری سیف الرحمن کی تلاوت کلام اللہ سے ہواپہلے حصہ میں ہندوستان کے صوبہ بہار سے تشریف لائی نوشابہ خاتون (فکشن رائٹر) کی کتاب  ’’خزاں کے بعد‘‘ کی رسم اجرا عمل میں آیا اور مہمان کی خدمت میں بزم کی جانب سے لوح سپاس پیش کیا گیا  اسکے بعد قطر میں مقیم کالم نویس  اور تنقید نگار محترمہ فردوس شیخ نے بے حد معیاری مفصل مقالہ پیش کیا جس میں نوشابہ خاتون کے فکر وفن پر روشنی ڈالی  اور فکشن کے بارے  میں تفصیل سے گفتگو کی جسے سامعین نے بے حد پسند کیا اور دادو تحسین سے نوازا، اسکے بعد مہمان اعزازی نے اپنی شاعری اور گفتگو سے بے حد متأثر کیا۔

پہلے حصہ کے صدارتی خطبہ میں جناب صبیح بخاری (سرپرست اعلی، بزم اردو  قطر) نے اس بات کا ذکر کیا کہ خواہ اب کتنی بھی تنظیمیں قطر میں بنائی جائے اور اردو کی بقا کے لئے کا کیا جائے لیکن قطر کی اولین تنظیم ہونے کا سہرا بزم کو ہی حاصل رہے گا اور اس سے محبت ویسے ہی فطری ہے جیسے کہ پہلی اولاد سے ہوتی  ہے بعد ازاں انہوں نے  باہمی اتحاد و اتفاق پر زور دیا۔

دوسرے حصہ کی صدارت میں  انجمن محبان اردو ہند قطر کے بانی جناب ابراہیم خان کمال نے اراکین بزم کا شکریہ ادا کیا اور مقالہ نگار فردوس شیخ کی ستائش کرتے ہوا کہا کہ  قطر کی ادبی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی مقامی خاتون نے اتنا عمدہ اور معیاری مقالہ پیش کیا ہے اور ساتھ انہوں نے اپنی اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ اگر ممکن ہو تو قطر کے دیگر ادبی تقاریب میں بھی وہ حصہ لیں۔

معمول کے مطابق دوسری نشست مشاعرے کی تھی  جس میں مقامی شعراء نے اپنے اشعار پیش کئے، شعراء کی مجموعی تعداد تقریبا ۲۰  کے قریب رہی۔ مشاعرے کی نظامت کے فرائض جناب راقم اعظمی نے بڑی ہی خوبصورتی سے انجام اور بڑی داد و تحسین وصول کی۔ راقم اعظمی کا نام چند برسوں قبل ایک مبتدی شاعر کی حیثیت سے بزم میں شامل کیا گیا تھا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے یہ مبتدی کامیابی کی سیڑھیاں پھلانگتا گیا اور آج اسی کاوش و محنت نیز بزم سے التحاق کا ثمرہ تھا کہ بزم نے  انکی نظامت میں ایک شاندار مشاعرے کا انعقاد کیا، صدر مشاعرہ نے صدارتی کلمات میں کہا کہ آج کے مشاعرے کی کامیابی سے بہت خوشی ہورہی ہے کیونکہ اپنے ملک سے اتنی دور جہاں اردو زبان ایک اجنبی زبان تھی اس زبان کے لئے ہم سب کچھ کر رہے ہیں اور اسی کاوشوں کا یہ سلہ اب ہمیں مل رہا ہے کہ یہ زبان اب یہاں اجنبی نہیں رہ گئی ہے بلکہ ایک معروف زبان کی حیثیت سے اپنی ایک پہچان بنا چکی ہے، انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ مجھ سے جتنا ہو سکے گا اس زبان کی ترقی و فروغ کے لئے ہر ممکن تعاون کی کوشش کرونگا انشا ء اللہ۔ اسکے بعد  جناب شوکت علی ناز نے شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔ جن شعراء نے کلام پیش کئے ان کے نام درج ذیل ہیں۔

ندیم جیلانی دانش

زہر کے تاجر ترے آنے سے اتنا تو ہوا

سانپ تھے جتنے پرانے بے ضرر لگنے لگے

وقت کی رفتار ہوتی جارہی ہے تیز تر

گردش ایام کو ہیں بال و پر لگنے لگے

عتیق انظر

بجائے کون  اب  مندر  کی گھنٹی

پجارن خود ہی اب دیوی ہوئی ہے

ہمارے  عہد کا  منظر  عجب ہے

ندی برسات میں اتری ہوئی ہے

شفیق اختر

ایک دن پچھتاؤگے تم ہم کو ٹھکرانے کے بعد

لوٹ کر آتے نہیں ہیں لوگ مر جانے کے بعد

جتنے چاہو مار لو پتھر مجھے تم شوق سے

کون آئے گاتمہارے پاس دیوانے کے بعد

شوکت علی ناز

ایک مدت ہوئی، پر یاد ہے اب تک مجھ کو

میری دہلیز پہ سجدہ میری تنہائی کا

حبس اتنا ہے کہ مر جائے نہ تنہائی مری

کوئی تو کھولے دریچہ مری تنہائی کا

عزیز نبیل

یہ میری ذات کے معبد میں کس نے پائوں رکھا

مہک اٹھے در ودیوار دھیان ٹوٹ گیا

تمہارا ساتھ اگر ہو تو جوڑ سکتا ہوں

وہ سلسلہ جو سر داستان ٹوٹ گیا

ندیم ماہر

میں تجھے جیت کر بھی ہارا ہوں

یہ ہزیمت بھی کامرانی ہے

شاعری ہے عنایت مولی

یہ جو نعمت ہے آسمانی ہے

احمد اشفاق

بند آنکھوں سے اسے دیکھ لیا جب چاہا

یاد میں اپنی وہ پاگل نہیں ہونے دیتا

سانپ کی طرح لپٹ جاؤں نہ اس سے اک روز

جسم کو اپنے وہ صندل نہیں ہونے دیتا

منصور اعظمی

خدانے جب سے نوازا ہے مال و دولت سے

وفا خلوص ترے دل سے یار ختم ہوا

اک شہنشاہ کے دل نے یہ کہا بر جستہ

میری ممتاز جہاں ہو تو غزل ہوتی ہے

قیصر مسعود

گواہوں نے بیاں بدلا ہوا ہے

کہ سارا واقعہ بدلا ہوا ہے

فضا کے رنگ بھی بدلے ہوئے ہیں

ڈوپٹہ تو نے کیا بدلا ہوا ہے

ڈاکٹر وصی بستوی

سدا الجھے سے ہیں کچھ خار اس میں

گریباں ہے کہ دامن ہو گیا ہے

سرایت کر گئے رگ رگ میں کیا تم

سراپا جسم دھڑکن ہو گیا ہے

محمد اطہر اعظمی

پیر لگنے لگے ہیں دھرتی سے

گر گئے تم ہو آسمان سے کیا

ہو گئی میری ذات بے عنواں

وہ گیا میری داستان سے کیا

اشفاق دیشمکھ

شادی کے بعد ہوتا ہے ایسا کبھی کبھی

آتا ہے اپنے آپ پر غصہ کبھی کبھی

وہ ڈانٹتی ہے روز مجھے آکے خواب میں

میرے خدا یہ خواب ہو جھوٹا کبھی کبھی

مشفق رضا نقوی

باتوں میں زہر، لہجے میں نفرت بھری ہوئی

منہ میں تو رام راو ہے منظر اداس ہے

انسانیت کہاں ہے، سب اقدار کھو گئیں

لاشیں ہیں، قتل عام ہے منظر اداس ہے

راشد عالم راشد

راہ میں گر ہمیں قندیل جلانا ہوگا

ان ہواؤں کو بھی آداب سکھانا ہوگا

آنکھ گر وقت پہ کھل جائے غنیمت سمجھو

ورنہ آنکھوں سے فقط اشک بہانا ہوگا

  سانو ل عباسی

قاتل وقت ہمیں سچ ہے مقدم سر سے

ہم نے سیکھا ہی نہیں سر کو جھکا کر چلنا

اب تو رکھتے ہیں مسیحا بھی نمک ہاتھوں میں

دل کے ہر زخم کو دنیا سے چھپا کر رکھنا

اجمل عارف

یہ مٹی بھی مری بیٹی سے کتنی ملتی جلتی ہے

لپٹ جاتی ہے پیروں سے مجھے جانے نہیں دیتی۔   

اتفاق انمول

بہت خوبصورت مری جان تم ہو

مگر اس خبر سے تو انجان تم ہو

تجھے دیکھ کر میں ٹھٹھک سا گیا ہوں

مجھے دیکھ کر جیسے حیران تم ہو

شاہد سلطان اعظمی

زمین اپنی  نہیں اپنا آسماں نہ ہوا

کوئی بھی شخص مصیبت میں مہرباں نہ ہوا

دل شاہد سے فکر جناب میر تلک

ہمارے عشق کا چرچا کہاں کہاں نہ ہوا

راقم اعظمی

ہوگئی کیا خطا دیکھتے دیکھتے

ہوگئے وہ خفا دیکھتے

درمیاں دو دلوں کے وہ کیوں آگیا

ہوگئے ہم جدا دیکھتے دیکھتے

رضا حسین

میں ہوں تیرے پیار میں پاگل کیسے میں بتلائوں

تیرے ہی میں پڑھوں قصیدے تیرے ہی گن گائوں

تو ہی بتا دے مجھ کو تیرے کیا کیا ناز اٹھائوں

تو چاہے تو تجھ سی بیگم اک میں اور لے آئوں

تبصرے بند ہیں۔