میں اشکِ ندامت بہاؤں بھی کیسے

مجاہد ہادؔی ایلولوی

میں اشکِ ندامت بہاؤں بھی کیسے
غمِ ہجر تم کو سناؤں بھی کیسے

۔

مجھے زخم یارو جگر پر لگے ہیں
یہ زخمِ جگر میں دکھاؤں بھی کیسے

۔

کبھی میری آنکھوں نے جو کھینچ لی تھی
وہ تصویر تیری جلاؤں بھی کسے

۔

ستم جو محبت میں جھیلے ہیں میں نے
زمانے سے وہ سب چھپاؤں بھی کیسے

۔

ترے عشق کا راز ہے جس میں پنہا
وہ پردہ میں آخر اٹھاؤں بھی کیسے

۔

جو شمع محبت جلائی تھی میں نے
اب اشکوں سے اس کو بجھاؤں بھی کیسے

۔

تمنا جو دل میں پنپتی ہے میرے
لبوں پر اسے میں سجاؤں بھی کیسے

۔

جو حالت ہے ہادؔی محبت میں ان کی
بھری بزم میں وہ چھپاؤں بھی کیسے

تبصرے بند ہیں۔