بزم صدف انٹرنیشنل: خواب کی تکمیل میں سرگرداں

شہاب الدین احمد

دل لگا لیتے ہیں اہلِ دل ،وطن کوئی بھی ہو

پھول کو کھلنے سے مطلب ہے ، چمن کوئی بھی ہو

اردو زبان و ادب اور ثقافت سے متعلق بزم صدف انٹرنیشنل کے کارنامے ہماری توجہ کے مرکز ہیں ، یہ کہانی ہے ایک شخص شہاب الدین احمد کے چند برسوں پر مشتمل تگ و دو کی۔ شہاب  صاحب کا تعلق ہندوستان سے ہے لیکن وہ دوحہ قطر میں مقیم ہیں ، رزق کی تلاش ہمیں  ملکوں ملکوں لے جاتی ہے، نئی بستیوں سے متعارف کراتی ہے اور اپنی شقافتی بنیادوں سے ایک نیا رشتہ قائم کرنے کا موقع بھی فراہم کرتی ہے، وہ بزم صدف انٹر نیشنل کے بانی ہیں اور اس ادارے کے چئیر مین بھی، کتنے خواب ہیں ان کی آنکھوں میں جو وہ اس اادارے کے حوالے سے پورا کرنا چاہتے ہیں ۔

بزم صدف انٹر نیشنل تازہ امکانات کی جانب ایک لا متناہی سفر کا نام ہے وہ اسے تحریک کی صورت دینا چاہتے ہیں اور خلیجی ممالک کے علاوہ دنیا کے ان تمام گوشوں تک رسائی حاصل کرنا چاہتے ہیں جہاں اردو کی بستیاں آباد ہیں ، وہ کوشاں ہیں اردو زبان و ادب اورسقافت کی ترویج و اشاعت کی خاطر اور ان مقاصد کے حصول کی خاطر بھی جو ہماری ذاتی، معاشرتی اور اجتماعی شناخت کا وسیلہ ہیں ۔ انہوں نے صدف نام کا ایک ادبی رسالہ بھی جاری کر رکھا ہے اور اپنی مطبوعات کا سلسلہ بھی قائم کر دیا ہے، انہوں نے سے می نار بھی کئے ہیں ، مشاعرے بھی برپا کئے ہیں اور انعامات بھی دئے ہیں یہ سلسلے جاری ہیں اور آئندہ بھی منصوبہ بند طریقہ سے جاری رہیں گے۔ ان سب کے علاوہ اب وہ تعلیمی میدان میں بھی کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ، وہ چاہتے ہیں کہ مختلف مقامات پر تعلیمی ادارے قائم کریں جہاں نوجوان عمومی تعلیم کے علاوہ ایسی تعلیم و تربیت بھی حاصل کریں جو انہیں سماج  اور ملک کی بہتر خدمات کے لئے بھی تیار کر سکیں مزید یہ کہ یہ سہولیات انہیں مفت فراہم ہوں ، شہاب صاحب کے پاس اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ایک مکمل منصوبہ بھی موجود ہے۔

ذیل میں جناب باصر کاظمی اور شہاب الدین احمد کے درمیان گفتگو کا اہم حصہ پیش خدمت ہے۔

باصر کاظمی کی پیدائش 1953ء میں پاکستان میں ہوئی یہ معروف اردو شاعر ناصر کاظمی کے فرزند ہیں جنہوں نے 1990ء میں پاکستان سے ہجرت کی۔

باصر کاظمی شعبہء درس و تدریس سے تعلق رکھتے ہیں انکی چار کتابیں شائع ہوکر منظر عام پر آ چکی ہیں مثلا موج خیال، چمن کوئی بھی ہو، ہوائے طراب، چونسٹھ کہانیاں چونسٹھ نظمیں ، بساط، شجر ہونے تک اور انکی کئی نطموں کا انگریزی ترجمہ بھی ہو چکا ہے جو مختلف رسالوں کی زینت بھی ہوئے ساتھ ہی انہیں لندن کا اہم ادبی ایوارڈ بھی عطا کیا گیا ہے جو ملکہ برطانیہ سے منسوب ہے۔

بزم صدف کے قیام کا بنیادی مقصد کیا ہے؟

1۔ سہ ماہی صدف کی مسلسل اشاعت

2۔ سالانہ تین بین الاقوامی سیمینار و مشاعرہ کا اہتمام کرنا

3۔ اردو کی ان تاریخی کتابوں کی اشاعت جن کے مسودے کتب خانوں میں محفوظ ہیں ۔

4۔ ہند و بیرون ملک اردو کتب خانوں کا قیام۔

5۔ اردو کے ان قلم کاروں کا تعاون جو مالی بحران کا شکار ہیں اور جن کی تخلیقات اشاعت کی منتظر ہیں ۔

6۔ بڑے قلم کاروں کو  انکی مجموعی خدمات کے تعلق سے انعامات دینا جن میں نئی نسل کے قلم کاربھی ہوں گے۔

7۔    اعلا مقابلہ جاتی امتحانات خاص طور سے سِوِل سروِس کے امّیدواروں کے لیے رہائشی کوچنگ کا نظم کرنا ۔

 آپ کے زیر انتظام شائع ہونے والے رسالہ صدف کے تعلق سے کچھ عرض کریں ۔

  اپنے بڑے بھائی مرحوم ڈاکٹر ضیاء الدین احمد شاہدجمال قادری نے صدف سہ ماہی رسالہ 1995ء میں جاری کیا تھا جو چند شماروں کی اشاعت کے بعد معدوم ہو گیا تھا اسکی اشا عت ثانی کا خیال اکثر آتا تھا اور دل چاہتا تھا کہ اسے اپنے بھائی کی یاد میں پھر سے جاری کروں اور پھر ایک دن آ ہی گیا کہ اس کا  بیڑا بڑے آب و تاب سے ہم نے اٹھایا اور دیکھتے ہی  دیکھتے اردو رسالوں کی بھیڑ میں اپنی شناخت قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا، الحمد للہ اس کا چوتھاشمارہ بھی اپنی تمام جلوہ سامانیوں کے ساتھ منظر عام پر آگیا ہے۔

صدف کیسا رسالہ ہے اور اسکی ادبی دنیا میں شناخت کیا ہے۔

 صدف ایک سہ ماہی رسالہ ہے جسکی حیثیت اسکے مواد و مشمولات کے اعتبار سے بین الاقوامی ہے، ہم نے کوشش کی ہے کہ پوری اردو دنیا میں اردو جہاں جہاں لکھی بولی اور پڑھی جاتی ہے وہاں تک رسالہ پہنچے اور وہاں کے قلمکار وں کا معیاری کلام اس میں شائع ہو جس میں بہت حد تک کامیابی نصیب ہوئی ہے اور ہمیں فخر ہے کہ باوجود کم عمری کے یہ رسالہ اپنی حیثیت منوانے میں کامیاب ثابت ہوا ہے، اسکی مجلس مشاورت میں بارہ ملکوں کے شعراء و ادبا شامل ہیں اور ہم پندرہ سے زائد ملکوں کے قلم کاروں کی معیاری تخلیقات شائع کر چکے ہیں ۔ اردو کے علمی و ادبی حلقوں میں اسے نہایت ہی سنجیدگی سے قبول کیا جاتا ہے ساتھ ہی اردو کے بڑے اداروں مثلا لائبریریوں اور یونیورسیٹیوں میں باضابطگی سے اس پر توجہ دی جاتی ہے اور مقبولیت نصیب ہوئی ہے۔

 بزم صدف  کے زیر اہتمام بین الاقومی سیمینار و مشاعرہ پر مختصر روشنی ڈالیں ۔

12؍ اپریل کو  بزمِ صدف انٹرنیشنل کے زیرِ اہتمام  اے ۔این سنہا انسٹی ٹیوٹ میں ایک بین الاقوامی سے می نار کا انعقاد کیا گیا ۔ جس میں ملک اور بیرونِ ملک کے شعرا اور ادبا نے شرکت فرمائی، پروفیسر ناز قادری کو ان کی پچاس سال سے زیادہ کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں ممتاز شیریں ایوارڈ براے فکشن تنقید سے نوازا گیا اور ان کے سلسلے سے ایک سے می نار کا انعقاد کیا گیا۔

اپریل 2016ء میں ’ بزمِ صدف‘ کے تاسیسی پروگرام کے موقعے سے پٹنہ(ہند) میں یہ ایک لاکھ روپے کا بزمِ صدف بین الاقوامی ایوارڈ اور اکیاون ہزار کے بزمِ صدف نئی نسل ایوارڈ دینے کااعلان ہوا تھا۔ بین الاقوامی ایوارڈ اُس شخص کے لیے مقرّر ہے جس کی علمی اور ادبی خدمات کو عالمی طور پر قبول کیا جاتاہو، جس کی خدمات گراں مایہ ہو ں اورا جس کی تصانیف کو عام طور پر اعتبار حاصل ہو۔ اِسی طرح بزمِ صدف نئی نسل ایوارڈ کے لیے یہ نشانہ مقرّر کیا گیا کہ پچاس برس سے کم عمر کے ایسے اہلِ علم کو اس ایوارڈ کے لیے منتخب کیا جائے جس نے  اپنے ادبی کاموں سے ایک عالَم کو متوجہ کر لیا ہے۔ جس کے یہاں بہت سارے امکانات ہوں اور جس کی کتابوں کو بزرگ مصنّفین بھی اہمیت کے ساتھ مطالعے کا حصّہ بناتے ہوں ۔ ہماری بین الاقوامی جیوری نے مشہور ڈراما نگار اور شاعر و ادیب جناب جاوید دانش (کینیڈا) کو ’بزمِ صدف بین الاقوامی ایوارڈ‘ دینے کا فیصلہ کیا ہے اور ڈاکٹر واحد نظیر کو ’بزمِ صدف نئی نسل ایوارڈ‘ دینے کے لیے فیصلہ کیا تھا جو بڑے ہی تز ک و احتشام کے ساتھ نو دسمبر 2016ء کو خلیج میں اردو کی راجدھانی قطر میں دیے گئے۔ اور اس موقع سے مہجری ادب کے تعلق سے ایک سے می نار بھی منعقد کیا گیا ۔تقریب کا آخری حصہ بین الاقوامی مشاعرے پر مشتمل تھا جس میں ہندستان ، پاکستان، برطانیہ، کینیڈا، قطر اور ابو ظہبی کے شعراے کرام شامل تھے۔ قطر کی دیگر ادبی تنظیموں کو بزمِ صدف کی طرف سے یادگاری تحفے پیش کیے گئے اور نمایندہ شخصیات کو بھی اعزاز سے نوازاگیا۔

رسالہ صدف کے علاوہ بزم صدف کے اور کون کون سے منصوبے ہیں ؟

  ’بزمِ صدف‘ کے منصوبے کثیر جہاتی ہیں ۔ ادبی رسالہ، کتابوں کی اشاعت اور ادبی ایوارڈ کی تقسیم کے ساتھ ہم نے تہذیبی اور ثقافتی نیز ادبی پروگراموں کے انعقاد کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔ ہندستان کے مختلف شہروں میں ہم نے سے می نار کی بنیادیں رکھ دیں ہیں اور بین الاقوامی معیار سے بڑے بڑے سے می نار اورمذاکرے ، مشاعرے وغیرہ منعقد کرنے کا ہمارا عزم ہے۔شعراء کے کلیات کی اشاعت کا عزم ہے، گزشتہ سال تقریبا بیس کتابوں کی اشاعت ہوئی تھی اور سال رواں  (2017ء)میں پچاس کتابوں کی اشاعت کا ارادہ ہے۔

کتابوں کی اشاعت کے لئے کون سا پیمانہ مقر کیا ہے؟

ایسے قلم کار جن کی کتابوں کی اشاعت مختلف وجوہات کی وجہ سے نہیں ہوپاتی ہے ، مثلا فنڈ کی فراہمی یا وسائل کی کمی وغیرہ .ان  لوگوں سے رابطہ قائم کرکے  ان کی خواہش کی تکمیل کرنا، عہد حاضر میں بہت سے  بزرگ قلم کار  ایسے ہیں جو بہت عمدہ ادب تخلیق کر رہے ہیں ، بہت ہی عمدہ شاعری کر رہے ہیں مگر وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ گمنامی کے غار میں ہیں ان کے کلام کو منظر عام پر لانا اور انکی شخصیت پر مضامین لکھوا کر باضابطہ طور پر انکی کتابیں شائع کروانا ہما را اولین مقصد  ہے۔

 کتابوں کی اشاعت کے لیے اور بھی کئی منصوبے ہیں جن پر رفتہ رفتہ ہم عمل کریں گے۔ خاص طور پر کلاسیکی اہمیت کی کتابوں اور درس میں شامل نایاب یا کم یاب تحریروں کو خاص طور پر پیش کرنے کا ارادہ ہے۔ ایسی شخصیات جن کی بہت اہمیت تھی لیکن ان پر کتابیں نہیں لکھی گئیں ، ان کی خدمات پر کتابیں مرتّب کرکے شایع کرنا بھی ہمارا خاص منشا ہوگا۔

2017ء کا بین الاقوامی ایوارڈ بزم صدف کن کن قلم کاروں کو دے رہی ہے؟

ہماری بین الاقوامی جیوری کی میٹنگ جلد ہی متوقع ہے اور  ایوارڈ کا اعلان انشاء اللہ ایک دو ماہ میں کیا جائے گا۔

آپ نے ریسرچ اسکالرس سیمینار کا بھی گزشتہ دنوں اعلان کیا تھا؟

جی اس کا مقصد اردو کے ریسرچ اسکالرس کی حوصلہ افزائی بھی ہے اور نئی نسل کو اردو زبان و ادب کی بقا کے تعلق سے  دعوت فکر بھی، آج کا ریسرچ اسکالر کل کا نقاد ہو سکتا ہے لیکن یہ عدم توجہی کا شکار رہا ہے اس لئے ہم نے یہ قدم اٹھایا ہے ساتھ ہی ان کے حوصلوں کو تقویت بھی عطا کرنا ضروری ہے، ان شاء اللہ سال رواں میں خلیج کے کسی ملک میں یہ کانفرنس منعقد ہوگا۔

 کیا بزم صدف کا شعبہء تعلیم میں بھی کچھ کرنے کا ارادہ ہے؟

تعلیم کے بغیر ہم دنیا کے اندھیرے کو اُجالے میں بدل نہیں سکتے۔ تعلیم کے بغیر نہ ہم اپنی زبان کو بچا سکتے ہیں اور نہ تہذیب کو۔ اِسی لیے بزمِ صدف نے تعلیم کے کئی امور پر سنجیدگی سے کام کرنے کا ارادہ کیا ہے اور ان کاموں کی باضابطہ تیّاریاں چل رہی ہیں ۔مختلف اداروں اور تنظیموں کے عملی تعاون سے ہم نے یہ ارادہ کیا ہے کہ رہائشی تربیتی مرکز (Residensial Coaching & Counseling) قائم کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ اعلا مقابلہ جاتی امتحانات خاص طور سے سِوِل سروِس کے امّیدواروں کے لیے رہائشی کوچنگ کا نظم کرنا آج کی اہم ضرورت ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ ہندستان کے مختلف شہروں میں ہم ایسی تربیت کا انتظام کر سکیں ۔ ہماری کوشش ہوگی کہ یہ سارے کام مفت انجام پائیں تاکہ اقلیت آبادی بڑی نوکریوں میں اپنے لیے جگہیں پا سکے۔ بیوروکریسی میں جب تک اردو آبادی کا تناسب نہیں بڑھے گا، تب تک ہمارے مسائل الجھے ہی رہیں گے۔ اِسی لیے ہم ایسی پیش رفت کے لیے سنجیدہ ہیں اور مختلف طرح کے وسائل کے انتظام میں سرگرداں ہیں ۔

بزم صدف کو اپنے ہدف تک پہنچنے کے لئے ظاہر ہے ایک ٹیم درکا ر ہوگی؟

 ظاہر ہے اتنا بڑا کام ایک آدمی کے بس کا نہیں  بزمِ صدف کی بین الاقوامی کمیٹی کے ساتھ ساتھ ہندستان اور مختلف صوبوں کے لیے الگ الگ افراد کی قیادت میں کمیٹیاں کام کر رہی ہیں ۔ نشر و اشاعت کا کام، رسالے کی ادارت کا کام، سے می نار ، سمپوزیم اور دیگر علمی سرگرمیوں کے لیے بھی ہمارے پا س ٹیم موجود ہے۔ چیرمین کی حیثیت سے میرا کا م پالیسی بنا دینا اور اپنے سر پرستوں اور انتظام کاروں سے مل کر ضروری وسائل اُس خاص کام کے لیے مہیّا کر دینا ہے۔ پھر یہ سلسلہ اپنے آپ بڑھنے لگتا ہے۔واضح رہے کہ مواصلاتی انقلاب کے اس زمانے میں آپ دنیا کے کسی گوشے میں رہتے ہوئے کسی دوسرے خطّے کی ساری سرگرمیوں پر نظر بھی رکھ سکتے ہیں اور اسے مزید رفتار عطا کر سکتے ہیں ۔ اس لیے ہم اپنی کوششوں کو کامیابی کی سطح تک انشاء اللہ پہنچائیں گے ۔

بزم صدف کی حالیہ سرگرمیاں کیا رہی ہیں ؟

دوحہ کے پروگرام کی کامیابی کے بعد میرے حوصلے جوان ہوئے اور گزشتہ مارچ میں ہندوستان کے شہر بتیا میں جناب اشرف قادری کے فن اور شخصیت پر سے می نار اور مشاعرہ کا اہتمام کیا اس کے بعد شہر پٹنہ میں سر سید احمد خان کے دو سو سالہ جشن پیدائش پر انکی شخصیت پر سے می نار کیا ساتھ ہی معروف شاعر سلطان اختر کی شخصیت پر سے می نار کا انعقاد کیا اس موقع پر سلطان اختر کے تعلق سے تین کتابوں کا رسم اجرا ء بھی عمل میں آیا ساتھ ہی ان 17 کتابوں کا بھی رسم اجراء بھی عمل میں آیا جس کی اشاعت گزشتہ سال ہوئی تھی۔

اس موقع پر بزم صدف انٹرنیشنل ایوارڈ برائے اردو تحریک ڈی۔پی۔ایس اسکول  دوحہ کے چئر مین جناب حسن عبد الکریم چوگلے کو دیا گیا ساتھ ہی گلف اردو کونسل کے جنرل سکریٹری جناب مہتاب قدر اور رسالہ سہیل کے ایڈیٹر مسعود منطر کو بھی ان کی ادبی خدمات کے عوض ایوارڈ عطا کیا گیا۔

ہمارا آخری پڑائو کلکتہ تھا جہاں ہم نے ڈاکٹر سمیع اللہ اسد کے فن و شخصیت پر سے می نار اور مشاعرہ کا اہتمام کیا اور واپس وطن ثانی قطر لوٹ آیا۔

میں سمجھ سکتا ہوں کہ بزم صدف اردو کے تعلق سے ایک بامعنی تحریک ہے ؟

یہ اردو زبان کا جادو ہے جو اپنی خصوصیت سے لوگوں کے سر چڑھ کر بولتا ہے  اور اس کی بقا کے لئے بزم صدف ہمہ تن کوشاں ہے اور عالمی پیمانے پر  سرگرم عمل ہے۔

اپنے مشن کے تعلق سے  اظہار خیال کریں

میں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ اردو شعراء اور اسکالرس کے گھرانے میں پیدا ہوا، اردو میری مادری زبان ہے، میں ہندوستان اور خلیجی ممالک کے شعراء و ادبا کے درمیان زبان و ادب کی بقا کے لئے  باہمی ربط دیکھنا چاہتا ہوں اور اسی غرض سے ہم نے بزم صدف کی بنیاد رکھا تھا اور اب ایک مشن ہے جس کی تکمیل میں اردو داں طبقہ سے تعاون کی امید رکھتا ہوں ساتھ ہی یہ امر حو صلہ افزا بھی ہے کہ ہمیں ادب کے نئے معاونین میسر ہوتے جارہے ہیں اور یہ کارواں رواں دواں ہے۔

آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟

اپنے خواب کی تکمیل میں سرگرداں ۔

3 تبصرے
  1. نوشاد مومن کہتے ہیں

    خوب انٹرویو ہے..ایک خواب جس کی تعبیر کے لیے آپ کی ان تھک کوشش قابل ستایش ہے..

  2. اعجاز حیدر قطر کہتے ہیں

    خوش قسمتی سے میں بھی دوحہ قطر میں بسلسلہ روزگار قیام پذیر ہوں.شہاب الدین بھائی سے اردو کی مختلف محفلوں میں ملاقات رہتی ہے. علاوہ ازیں شہاب بھائی قطر کی قدیم ترین اردو تنظیم بزمِ اردو قطر کی سرپرست کمیٹی کے ممبر بھی ہیں
    اردو زبان زبان کی ترویج اور اردو شعراء و ادباء کی حوصلہ افزائی کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں بلکہ جذباتی حد تک محبت کرتے ہیں.
    بزمِ صدف کا قیام صدف پرچے کا اجرا بہت بلا شبہ عظیم کام ہیں.
    شہاب صاحب بہت مضبوط قوت ارادی کے مالک ہیں. انشاءاللہ اپنے تمام ارادوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کامیاب ہوں گے

    1. Naushad Momin کہتے ہیں

      کیا اعجاز صاحب بہار سے تعلق رکھتے ہیں…اگر ہاں تو سہ مژگاں اپنا کولڈن جوبلی شمارہ بہار کا معاصر ادب نمبر شایع کر رہا ہے….جس میں بہار سے متعلق شعرا وادبا کو علمی سطح پر شامل ہونے کی پر خلوص دعوت دی جا رہی ہے…[email protected]

تبصرے بند ہیں۔