شوکت پردیسی کی قابل رشک اولاد

حفیظ نعمانی

اُردو کے نہ جانے کتنے اچھے اچھے شاعر حالات کا شکار ہوکر دنیا سے چلے گئے اور جو کچھ انہوں نے کیا اس کا نہ صلہ پاسکے اور نہ انہیں وہ شہرت حاصل ہوئی جس کے وہ مستحق تھے۔ شیراز ہند کہے جانے والے جون پور کے موضع معروف پور سے نسبی تعلق رکھنے والے شوکتؔ پردیسی بھی ان میں سے ایک ہیں ۔ جن کے بزرگ ملیشیا چلے گئے تھے وہیں ان کی ولادت ہوئی اور 12  سال کی عمر تک وہ ہندوستان سے باہر ملیشیا میں ہی رہے۔ اور جب اپنا وطن دیکھنے کے قابل ہوئے اور جون پور آئے تو دوسری جنگ عظیم کے چھڑنے کی وجہ سے راستے بند ہوگئے اور پھر ملیشیا ایک خواب ہوگیا۔

شوکت پردیسی جب پیدا ہوئے تو ان کا نام محمد عرفان رکھا گیا ان کے والد صاحب علی نے ملیشیا کے راستے بند ہوجانے کی وجہ سے جون پور شہر میں سکونت اختیار کرلی۔ لیکن آمدنی کا معقول ذریعہ نہیں ہوسکا۔ ہمارے ملک کے الگ الگ خطوں کا تلاش معاش کے لئے ترک وطن کرنا عام طریقہ رہا ہے گجرات کے لوگ سائوتھ افریقہ اور یوروپ کا رُخ کرتے رہے، جون پور اعظم گڑھ وغیرہ کے لوگ ملیشیا جاتے رہے حیدر آباد اور لکھنؤ کے زیادہ تر لوگ سعودی عرب کی طرف گئے۔ غرض جس کا جدھر جانے کا ذریعہ بنا وہ چلا گیا اور پھر واپس آکر کم لوگ ایسے نکلے جنہوں نے ہندوستان میں بھی اپنی جگہ بنالی ورنہ اپنا ملک اور اس کے انداز و اطوار میں زیادہ تر لوگ فٹ نہ ہوسکے۔ شوکت پردیسی کے والد، صاحب علی صاحب بھی کچھ بنائے بغیر دنیا سے رخصت ہوگئے۔

محمد عرفان کو صاحب علی نے ندوہ میں داخل کیا۔ وہ حالات کی وجہ سے پوری تعلیم کئے بغیر ہی واپس آگئے۔ اور 19  سال کی عمر میں ان کی شادی ہوگئی۔ ابھی ان کی عمر 25  سال ہی ہوئی تھی کہ بزرگوں کا سایہ سر سے اٹھنے لگا اور والدہ والد ہمشیرہ کے رخصت ہوجانے کے بعد وہ غیرشادی شدہ بہن اہلیہ بیٹا اور یتیم بھانجیوں کے سرپرست بن گئے۔ خود شوکت پردیسی کے بیان کے مطابق انہوں نے 14  سال کی عمر میں ہی ایک غزل کہی جس کا ایک شعر تھا:

ہم نشیں ابتدائے اُلفت میں

نظر انجام پر نہیں جاتی

اس چھوٹی سی عمر میں شعر سے دلچسپی اور موزوں شعر کہنے کے لئے سب سے اہم چیز ماحول ہوتی ہے۔ اس کے بارے میں خود شوکت نے لکھا ہے کہ میرے والد شیخ صاحب علی کے پاس کتابوں کا اتنا بڑا ذخیرہ تھا کہ علامہ سید سلیمان ندوی بھی اکثر کسی کتاب کی تلاش میں تشریف لاتے تھے۔ اور ان کے آنے کے بعد ظاہر ہے کہ ماحول کتنا علمی ہوتا ہوگا؟

علامہ شبلی نعمانی کے دوسرے شاگرد علامہ اقبال سہیل بھی اکثر جو ن پور آتے تھے اور جب تشریف لاتے تھے تو شوکت پردیسی کے گھر قیام ہوتا تھا۔ کتابوں کے اس ذخیرہ سے شوکت پردیسی کہتے ہیں کہ میں نے خود بہت فائدہ اٹھایا اور پھر نظم غزل اور بچوں کی نظمیں کہنا شروع کیں ۔ اور 1945 ء میں رئیس امروہوی نے ان کی پہلی غزل نیرنگ خیال لاہور میں چھپوائی اس کے بعد ملک کے ہر بڑے رسالے جیسے شمع بیسویں صدی بانو گگن ممبئی شاعر ممبئی نیا دَور لکھنؤ شیراز کراچی اور مشرقی آنچل دہلی میں برابر چھپتی رہیں ۔

شوکت پردیسی نے پہلے عرفانؔ کو ہی تخلص بنایا پھر نشاطؔ اختیار کیا اس کے بعد وہ صرف شوکت پردیسی ہوگئے۔ انہوں نے فکر معاش میں ہومیوپیتھک علاج کرنا شروع کیا۔ ان کے سعادت مند فرزند ندیم احمد نے لکھا ہے کہ:

’’شاید وہ ایک معالج کی حیثیت سے مریضوں کا وہ اعتماد حاصل نہ کرسکے جو اس پیشہ کی کامیابی کے لئے ضروری تھا۔ شاعری کی تخیلاتی زندگی کے برعکس حقیقت کی یہ دنیا میرے والد کے لئے بہت مختلف اور دشوار تھی وقت کے ساتھ ساتھ ان کی خود دارانہ طبیعت، زندگی کی ضرورتوں کے آگے دم توڑنے لگی اور خسر کی مہربانیاں ان کی زندگی کا حصہ بنتی گئیں ۔‘‘

ندیم میاں نے وہ زمانہ نہیں دیکھا وہ جس وقت کی بات کررہے ہیں اس وقت علاج صرف یونانی اور ایلوپیتھک تھا ہومیو پیتھک نہ ہونے کے برابر تھا اور میٹھی گولیاں یا پانی کو لوگ دوا ہی نہیں سمجھتے تھے۔ اور آج کا دَور یہ ہے کہ دوا کی شیشی سو روپئے کی بھی ملتی ہے اور ہومیو پیتھک کے اچھے ڈاکٹر فیس لیتے ہیں ایک ڈاکٹر ایسے بھی ہیں جن کی فیس آٹھ سو روپئے ہے۔

شوکت پردیسی کے کوئی برادر نسبتی بھی نہیں تھے وہ اپنے سسر کے گھر چلے گئے جو ایک بڑے کاشتکار تھے اور تنہا ہونے کی وجہ سے انہیں خود ایک مددگار کی ضرورت تھی۔ لیکن ان کے خسر حافظ اختر علی صاحب نے یہ نہیں سوچا کہ ان کا جو داماد سوٹ اور شیروانی پہنتا ہے جس کے گھر میں کتابوں کا ذخیرہ ہے۔ جو عالموں اور شاعروں کی صحبت میں بڑا ہوکر آیا ہے وہ دھرتی کا سینہ چیرکر اس کے پیٹ سے اپنے اور خلق خدا کے لئے کیا سوٹ اور ٹائی پہن کر غلہ نکال لے گا؟ کاشتکار کے ہاتھ اور پائوں جب تک خود مٹی کے رنگ کے نہ ہوجائیں وہ زمین سے کچھ نہیں لے سکتا۔ یہ آزادی سے پہلے کی باتیں ہیں جب نہ ٹریکٹر ایجاد ہوا تھا اور نہ کھیت کھیت بورنگ، پانی کا صرف برسات اور ٹیوب ویل پر انحصار تھا یا بڑے کاشتکار اپنا رہٹ لگوا لیتے تھے۔ کھاد گوبر اور کوڑے کا ہوتا تھا اور ہر بڑے کاشتکار کو اتنے ہی بیل رکھنا پڑتے تھے جتنی زمین ہوتی تھی۔ بیوی کا مائیکہ خسر کی شفقت اور اپنی ضرورت ایک طرف اور ملیشیا میں زندگی کے 12  سال گذار کر علمی خاندان میں جوانی کو گلے لگانے والا فیشن ایبل نوجوان سے یہ توقع کہ وہ کاشتکار بن جائے ناتجربہ کاری تھی۔ اور نتیجہ وہی نکلا کہ پانچ سال میں ہی انہوں نے ممبئی کا رُخ کرلیا اور وہاں جاکر وہ سب کیا جو ہر شاعر کرتا ہے فلمی دنیا میں بھی جھانکا رفیع، طلعت محمود اور آشا بھونسلے نے گانے گائے۔ اسے قسمت کی خرابی کے علاوہ کیا کہا جاسکتا ہے کہ اس کے بعد تو فلمی دنیا کے پھاٹک کھل جانا چاہئے تھے اور خوش آمدید کے بینر لگ جانا چاہئے تھے۔ لیکن دل نے ساتھ دینے سے انکار کردیا اور وہ اختلاج قلب کے مستقل مریض ہوگئے جس کی وجہ سے انہیں واپس آکر پھر سسرال میں ہی ڈیرہ ڈالنا پڑا۔

ہمارے پاس نہ جانے کتنے دیوان آئے ہیں کہ اس پر لکھ دو اور ہم نے یہ کہہ کر معذرت کی ہے کہ شاعری کے بارے میں یا شاعر لکھے یا نقاد۔ ہم نہ شاعر ہیں نہ نقاد شوکت پردیسی کی تین کتابیں ان کے سعادت مند اور انتہائی لائق فرزندوں نے بہت پہلے دی تھیں ۔ اور لکھنے کا وعدہ اس لئے کیا تھا کہ یہ کتابیں اس کا ثبوت ہیں کہ شوکت پردیسی نے اپنے انتہائی کمزور حالات کے باوجود اپنے چاروں بیٹوں اور بیٹی کو اعلیٰ تعلیم کے زیور سے مالا مال کردیا تھا اور انہو نے اس کے باوجود کہ ان کے باپ نے کبھی کبھی حسرت کے ساتھ اپنے بچوں کے سامنے یہ نہیں کہا کہ کاش کہ جو میں نے کہا ہے وہ چھپ جائے؟ یہ بات ان کے سعادتمند اور احسان شناس بچوں نے سوچی کہ کون ہے جو شعر کہے یا مضامین لکھے اور یہ نہ چاہے کہ وہ چھپ جائیں ؟ انہوں نے خود یہ فیصلہ کیا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے ہر ممکن کوشش کرکے ملک بھر کے رسالوں سے اخباروں سے اور ان کے دوستوں سے ان کا کلام حاصل کیا اور اسے تین جلدوں میں شائع کردیا جن میں تحفۂ اطفال کے نام سے بچو کی نظمیں اور گیت بھی ہیں ۔

میرے دل پر تقاضہ صرف اسلئے تھا کہ ایسے بیٹے تو بہت دیکھے جنہوں نے اپنے باپ کے قلمی اور علمی سرمایہ کو ردّی میں فروخت کرکے اپنی الماریوں میں اپنے ذوق کی چیزیں رکھ لیں لیکن ایسے بیٹے بہت کم دیکھے جن کے باپ نے دولت اور کاروبار کے نام سے اولاد کو کچھ نہیں دیا لیکن بہتر سے بہتر تعلیم دلاکر اس قابل کردیا کہ وہ اپنے باپ کی طرح سوٹ ٹائی شیروانی ترکی ٹوپی سب اتارکر معمولی کرتہ پاجامہ پہنیں اور قلم کے بجائے کھرپی اور درانتی ہاتھ میں لیں اور ان کا کوئی بیٹا دل و دماغ کی کشمکش کے دبائو سے اختلاج قلب کا مریض ہو اور نہ وہ سسرال کے ٹکڑوں پر زندگی کا وہ حصہ گذارے جو زندگی کے تجربوں سے دنیا کو گلزار بنانے کا زمانہ ہوتا ہے۔

اپنی فطرت ذوق اور ماحول کے برعکس کام کرنا لوہے کے چنے چبانا اور تلوار کی دھار پر چلنا ہوتا ہے۔ شوکت پردیسی نے خدا انہیں اس کا بھرپور اجر دے دونوں کام کئے۔ صرف اس لئے کہ اولاد اپنے علم اور قلم کی بدولت باعزت زندگی گذارے۔ یہ ان کی قربانیوں کا ہی اثر ہے کہ بیٹے جب اس قابل ہوئے تو انہوں نے سیکڑوں صفحات پر مشتمل تین مجموعے چھاپ دیئے جن کی ہر چیز اعلیٰ ترین اور بہترین ہے ترتیب بہت اچھی قیمتی کاغذ خوبصورت کور بہت بھاری جلد گویا ہر اعتبار سے ایسی کہ ہاتھ میں لینے اور پڑھنے کو جی چاہے۔ میاں ندیم نے ان کا تعارف بھی لکھا ہے اور ان کے دوستوں سے بھی لکھوایا ہے۔ شوکت صاحب کے چاروں بیٹے ندیم احمد، شمیم احمد، وسیم احمد اور کلیم احمد اس میں پوری طرح شریک ہیں اور کتابیں چاروں بیٹوں کا خراج عقیدت و محبت ہے ۔ ناچیز حفیظ نعمانی کا اپنے بچوں جیسے سعادتمند بھتیجوں کو ایک مشورہ یہ ہے کہ ان کے باپ جب دنیا میں تھے تو انہیں داد و تحسین کی ضرورت تھی کیونکہ یہ ٹانک ہوتا ہے۔ لیکن وہ اب اپنے پیدا کرنے والے کے پاس ہیں انہیں  وہاں کتابوں کی نہیں ایصال ثواب کی ضرورت ہے  وہ جتنا جس سے ہوسکے کرکے ان کا حق ادا کرے۔

اپنے قریبی عزیزوں میں بہت کمزور لوگوں کی مدد، مریضوں کا علاج یتیموں کی پرورش اور تعلیم اور ہر نماز کے بعد ان کی مغفرت کی دعا خدا کرے جن بچوں نے اتنی قیمتی کتابیں چھاپی ہیں اب وہ اتنا ہی ایصال ثواب پر خرچ کریں ان کی طرف سے جتنے عمرے ہوسکتے ہیں وہ کریں خاص طو رپر ندیم میاں جو بحرین میں ہیں اور کلیم میاں جو دوبئی میں ہیں وہ ہر مہینہ ان کی طرف سے جاکر عمرہ کرلیا کریں ۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے آمین۔

رابطہ کے لئے شمیم احمد، وسیم احمد 154  ڈھالگر ٹولہ (مقابل باب شاہی قلعہ) جون پور یوپی موبائل: 09651568428

شوکت پردیسی کا صرف ایک شعر   ؎

اے جان انبساط اسے کیا جواب دوں

غربت یہ پوچھتی ہے کہ چھوڑ آئے گھر کہاں

ان کی زندگی کی تصویر ہے اور انہیں بڑا شاعر ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔