بہار اردو اکادمی کا ریسرچ اسکالرز سمینار اگست میں

کامران غنی صبا

المنصور ایجوکیشنل ٹرسٹ (دربھنگہ) نے فیس بک لائیو کی مدد سے اردو کی مشہور و معروف شخصیات کے انٹرویو کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا ہے۔ یہ انٹرویو فیس بک اور یوٹیوب کی مدد سے پوری دنیا میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس سلسلہ کی پہلی کڑی کے طور پر آج سہ ماہی دربھنگہ ٹائمز کے معاون مدیر کامران غنی صبا نے اردد اکادمی کے سکریٹری اور معروف افسانہ نگار مشتاق احمد نوری سے بات چیت کی۔ مشتاق احمد نوری نے المنصور ایجوکیشنل ٹرسٹ کی ادبی خدمات کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر منصور خوشتر اور ان کی ٹیم اچھا کام کر رہی ہے۔

 انہوں نے کہا ’دربھنگہ ٹائمز‘ کی مقبولیت یہ ثابت کرتی ہے کہ دنیا بھر میں پھیلے شائقین اردو نے رسالہ کے معیار کو تسلیم کیا ہے۔ ’ناول نمبر‘ کی دوبارا اشاعت بڑی کامیابی ہے۔تازہ شمارہ ’اکیسویں صدی میں اردو غزل نمبر ‘ بھی ہاتھوں ہاتھ لیا جا رہا ہے۔ مشتاق احمد نوری نے کہا کہ ’دربھنگہ ٹائمز‘ نے ادبی رسائل کے مدیران کو مارکٹنگ کا نیا ’کانسپٹ‘ دیا ہے۔ اردو رسائل کی اشاعت جتنا مشکل کام ہے اس سے کہیں زیادہ مشکل رسالہ کے خریدار پیدا کرنا ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ بہار اردو اکادمی نے اعلان کے باوجود ریسرچ اسکالرز سمینار کا انعقاد کیوں نہیں کیا ،جناب نوری نے کہا کہ اکادمی کی طرف سے آئندہ ماہ اگست میں قومی سطح کا ریسرچ اسکالرز سمینار منعقد کیا جائے گا۔ جس میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی یونیورسٹی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سمیت ملک کی تمام بڑی یونیورسٹیز کے ریسرچ اسکالرز کو مدعو کیا جائے گا۔

 اس کے علاوہ اکادمی کی طرف سے نوجوان تخلیق کاروں کے لیے الگ سے ایک پروگرام بھی کیا جائے گا جس میں نئی نسل کے شاعر، افسانہ نگار اور تخلیق کاراپنے تخلیقی جوہر دکھائیں گے۔ مشتاق احمد نوری نے اس بات کا بھی اعلان کیا کہ اکادمی کی طرف سے ہر سال کسی ایک نوجوان ادیب کو اعزاز سے نوازا جائے گا۔ مشتاق احمد نوری نے کہا نئی نسل کو زبان و ادب سے قریب لانا بہار اردو اکادمی کی ترجیحات میں شامل ہے ساتھ ہی انہوں نے اس بات پر افسوس کا بھی اظہار کیا کہ نئی نسل میں لکھنے پڑھنے کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے، کچھ نوجوان واقعی باصلاحیت اور سرگرم ہیں لیکن نثری اصناف میں نوجوانوں کی نمائندگی بہت ہی کم ہے۔ جناب نوری نے کہا میں نے اپنے پہلے انٹرویو میں ریسرچ اسکالرز سمینار کے ساتھ ساتھ صحافتی سمینار اور ورک شاپ کرانے کا بھی وعدہ کیا تھا۔ صحافتی سمینار کرایا جا چکاہے۔

 صحافتی ورک شاپ اسی ماہ 21-22 جولائی 2017 کو کیا جا رہا ہے۔اسکولی سطح پر اردو کے مسائل پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے جناب نوری نے کہا کہ ہمیں سرکار یا اردو کے اداروں سے شکایت کرنے کے بجائے اپنی اپنی سطح سے اردو کے نفاذ کی کوششیں کرنی چاہئیں ۔ انہوں نے کہا جن اسکولوں میں اردو درس و تدریس کا انتظام نہیں ہے وہاں پڑھنے والے بچوں کے والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ الگ سے اپنے بچوں کو اردو پڑھوانے کا نظم کریں ۔

 انہوں نے کہا کہ اردو صرف ہماری تہذیبی نہیں بلکہ مذہبی شناخت بھی ہے۔ عربی کے بعد سب سے بڑا دینی سرمایہ اردو میں ہی ہے۔ لہٰذا اس کے تحفظ و بقا کی ذمہ داری صرف سرکار یا اداروں پر لاد دینا کسی بھی طرح درست نہیں ۔ مشتاق احمد نوری سے کامران غنی صبا کا یہ انٹرویو ’المنصور ایجوکیشنل ٹرسٹ‘ کی فیس بک ٹائم لائن پر دیکھا جا سکتا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔