بزم ہم نوا کی جانب سےمشاعرہ کا انعقاد
ائے خاک نشیں کس کو مٹانے میں لگے ہو
ذروں کی طرف اڑ کے ہمالہ نہیں آتا
(اکبر حسین اکبر، کلکتہ)
چھپ چھپ کے کھرچتا ہوں ہتھیلی کی لکیریں
جو جیت چکا ہوں اسے کھونا نہیں آتا
(خورشید ملک، کلکتہ)
ہم اہلِ ہنر ہیں ہمیں کیا کیا نہیں آتا
سلطاں کا مگر لکھنا قصیدہ نہیں آتا
(فراغ روہوی، کلکتہ)
نئے روپ میں آئی ہے بے پناہی
چلو اس کے بھی پیچ و خم دیکھتے ہیں
(مرغوب اثر فاطمی، گیا)
یادیں بھی تو آجاتی ہیں ہمراہ اسی کے
پلکوں پہ مری اشک بھی تنہا نہیں آتا
(ڈاکٹر عادل حیات، دہلی)
انسان کا آغاز بھی انجام بھی یکساں
تنہا نہیں جاتا ہے کہ تنہا نہیں آتا
(نیاز نذر فاطمی، پٹنہ)
اترے ہیں اگر اس میں تو بس تیرتے رہیے
دریائے محبت میں کنارہ نہیں آتا
(شمشاد علی منظری، ٹانڈہ)
نظر تیزرکھتے ہیں، کم دیکھتے ہیں
جو رشتوں میں جاہ ہ حشم دیکھتے ہیں
(عظیم انصاری، کلکتہ)
دھاروں سے لگے پوچھنے کشتی کے مسافر
یہ کیسا سمندر ہے کنارہ نہیں آتا
(اشرف یعقوبی، کلکتہ)
بہت خوش گماں تھے ہم اہل وطن سے
شکستہ مگر ہر بھرم دیکھتے ہیں
(مظہر وسطوی، ویشالی)
یقیناًکوئی ساز ٹوٹا ہے دل کا
جبھی تیری آنکھوں کو نم دیکھتے ہیں
(جہانگیر نایاب، کشن گنج)
تم رات گئے کس کو پکارو ہو سرِ راہ
دن میں بھی یہاں کوئی مسیحا نہیں آتا
(کامران غنی صبا، پٹنہ)
دنیا کی ہر اک راہ چلی جاتی ہے تجھ تک
لیکن مرے گھر تک ترا رستہ نہیں آتا
(شگفتہ یاسمین غزل، کلکتہ)
عقیدت سے ہم چوم لیتے ہیں ان کو
جہاں اس کے نقشِ قدم دیکھتے ہیں
(بشریٰ سحر، کلکتہ)
محبوب مرے دل میں تلاطم ہے وفا کا
چڑھ جائے تو قابو میں یہ دریا نہیں رہتا
(شہناز رحمت، کلکتہ)
تبصرے بند ہیں۔