بزم ہم نوا کی جانب سےمشاعرہ کا انعقاد

 رپورٹ: کامران غنی صبا
کولکاتا21 نومبر واٹس ایپ گروپ ’بزم ہم نوا‘ کی طرف سے گزشتہ شام ایک شاندار آن لائن طرحی مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا۔ مشاعرہ کی صدارت اکبر حسین اکبر نے فرمائی جبکہ نظامت کا فریضہ معروف شاعر اور بزم ہم نوا کے بانی و ایڈمن فراغ روہوی نے بحسن و خوبی انجام دیا۔ مہمان خصوصی کی حیثیت سے خورشید ملک (نیوز ڈائرکٹر کولکاتا دوردرشن) نے بھی شرکت فرمائی۔ مشاعرہ میں جن شعرا و شاعرات نے اپنا کلام پیش کیا ان کے اسمائے گرامی ہیں: اکبر حسین اکبر، خورشید ملک، فراغ روہوی، مرغوب اثر فاطمی، ڈاکٹر عادل حیات، نیاز نذر فاطمی، شمشاد علی منظری، عظیم انصاری، اشرف یعقوبی، مظہر وسطوی، جہانگیر نایاب، کامران غنی صبا، شگفتہ یاسمین غزل، بشریٰ سحر، شہناز رحمت۔ پیش کیے گئے کلام کا منتخب حصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے:

ائے خاک نشیں کس کو مٹانے میں لگے ہو
ذروں کی طرف اڑ کے ہمالہ نہیں آتا
(اکبر حسین اکبر، کلکتہ)
چھپ چھپ کے کھرچتا ہوں ہتھیلی کی لکیریں
جو جیت چکا ہوں اسے کھونا نہیں آتا
(خورشید ملک، کلکتہ)
ہم اہلِ ہنر ہیں ہمیں کیا کیا نہیں آتا
سلطاں کا مگر لکھنا قصیدہ نہیں آتا
(فراغ روہوی، کلکتہ)
نئے روپ میں آئی ہے بے پناہی
چلو اس کے بھی پیچ و خم دیکھتے ہیں
(مرغوب اثر فاطمی، گیا)
یادیں بھی تو آجاتی ہیں ہمراہ اسی کے
پلکوں پہ مری اشک بھی تنہا نہیں آتا
(ڈاکٹر عادل حیات، دہلی)
انسان کا آغاز بھی انجام بھی یکساں
تنہا نہیں جاتا ہے کہ تنہا نہیں آتا
(نیاز نذر فاطمی، پٹنہ)
اترے ہیں اگر اس میں تو بس تیرتے رہیے
دریائے محبت میں کنارہ نہیں آتا
(شمشاد علی منظری، ٹانڈہ)
نظر تیزرکھتے ہیں، کم دیکھتے ہیں
جو رشتوں میں جاہ ہ حشم دیکھتے ہیں
(عظیم انصاری، کلکتہ)
دھاروں سے لگے پوچھنے کشتی کے مسافر
یہ کیسا سمندر ہے کنارہ نہیں آتا
(اشرف یعقوبی، کلکتہ)
بہت خوش گماں تھے ہم اہل وطن سے
شکستہ مگر ہر بھرم دیکھتے ہیں
(مظہر وسطوی، ویشالی)
یقیناًکوئی ساز ٹوٹا ہے دل کا
جبھی تیری آنکھوں کو نم دیکھتے ہیں
(جہانگیر نایاب، کشن گنج)
تم رات گئے کس کو پکارو ہو سرِ راہ
دن میں بھی یہاں کوئی مسیحا نہیں آتا
(کامران غنی صبا، پٹنہ)
دنیا کی ہر اک راہ چلی جاتی ہے تجھ تک
لیکن مرے گھر تک ترا رستہ نہیں آتا
(شگفتہ یاسمین غزل، کلکتہ)
عقیدت سے ہم چوم لیتے ہیں ان کو
جہاں اس کے نقشِ قدم دیکھتے ہیں
(بشریٰ سحر، کلکتہ)
محبوب مرے دل میں تلاطم ہے وفا کا
چڑھ جائے تو قابو میں یہ دریا نہیں رہتا
(شہناز رحمت، کلکتہ)

تبصرے بند ہیں۔