ہندوستانی معیشت پر نوٹ بندی کے اثرات

سراج الدین 

نوٹ بندی کے تعلق سے مودی حکومت کا حالیہ فیصلہ ملک کی معیشت کے لیے بحران کا باعث بنتا جا رہا ہے۔ آر بی آئی کے اعداد و شمار کے مطابق ہندوستانی معیشت میں تقریباً ساڑھے سترہ لاکھ کروڑ روپے کی کرنسی سرکولیشن میں ہے جس میں 86 فیصد کرنسی 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں پر مشتمل تھی۔ جس کی قانونی حیثیت مودی حکومت نے اچانک ختم کر دی، نتیجے میں دس روز سے کرنسی کے بحران سے پورا ملک شدید پریشانیوں کا سامنا کر رہا ہے، آئیے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ نوٹ بندی سے ہمارے ملک کی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے.

ہندوستانی معیشت کا تقریباً چالیس فیصد روزگار غیر رسمی کاروبار سے جڑا ہے جس میں بے زمین کسان، یومیہ اجرت پر کام کرنے والے، پھیری والے، اتفاقی اجرتی مزدور اور چھوٹے تاجر وغیرہ شامل ہیں جن کی زندگی کا مکمل انحصار کیش پر ہے نوٹ بندی کی مار سب سے زیادہ  انہیں لوگوں پر پڑی ہے اور کیش کی کمی نےان غریب مزدوروں کی اجرت کے کم ہوجانے کویقینی بنادیا ہے.

مجموعی طور پر نوٹ بندی کا اثر مجموعی ڈمانڈ پر دیکھنے میں آ رہا ہے معیشت میں اشیاء و خدمات کی کل طلب کو مجموعی ڈمانڈ کہتے ہیں اس کی پیمائش کل اخراجات کی شکل سے کی جاتی ہے چونکہ نوٹ بندی نے عوام کی قوت خرید کو بری طرح متاثر کیا ہے جس کی وجہ سے اخراجات میں کمی واقع ہونے کا قوی امکان ہے نتیجتاً مجموعی طلب میں کمی واقع ہو گی جس کا اثر پیداوار پر ہو گا اور پیداکاروں کے پاس اشیاء و خدمات کا غیر فروخت شدہ ذخیرہ ہو جائے گا بالآخر معیشت مزید پیداوار کی حامل نہیں ہو سکے گی، چونکہ مجموعی ڈمانڈ مجموعی سپلائی سے کم ہو جائے گی جو روزگار میں کمی کا سبب بن جائے گا جس کی وجہ سے آمدنی میں کمی ہو گی اور معیشت بے روزگاری اور کم پیداوار کا شکار ہو جائے گی جہاں آمدنی کم ہوتی ہے کیونکہ ڈمانڈ کم ہوتی ہے اور ڈمانڈ کم ہوتی ہے کیونکہ آمدنی کم ہوتی ہے.
ایک اندازے کے مطابق پیسوں کی سپلائی میں کمی کے باعث ملک کی کل آمدنی کی شرح نمو میں زبردست کمی واقع ہو جائے گی. ایکویٹی پر ریسرچ کرنے والے ممبئی کےایک معتبر ادارے، Ambit Capital کے مطابق ملک کی کل گھریلو پیداوار کی شرح نمو جو کہ تقریباً سات فیصد ہے اس میں عنقریب تین فیصد تک کمی ہو سکتی ہے۔
مودی حکومت کے اس فیصلے کو بلیک منی اور نقلی کرنسی کے خاتمے کے طور پر دکھایا جا رہا ہے جبکہ قابل غور بات یہ ہے کہ خود وزیراعظم مودی کے مطابق نوے فیصد بلیک منی زمینوں، بلڈنگوں اور سونے وغیرہ کی شکل میں بیرون ممالک میں ہے ہاں چار سے چھ فیصد بلیک منی کیش کی شکل میں ملک کے اندر موجود ہے جس پر ٹیکس ادا نہیں کیا گیا ہے. چار فیصد بلیک منی کے لیے( بعض ذرائع کے مطابق ان میں ایک بڑی مقدار کو وائٹ کر لیا گیا ہے ) پوری معیشت کو داؤ پر لگانا عقل سے پرے ہے.

امریکہ کا ایک معروف اخبار "دی گارجین” حکومت ہند کو آئینہ دیکھاتے ہوئے اپنے اداریہ میں لکھتا ہے کہ نوٹ بندی سے ملک کے امیروں کو کچھ فرق نہیں پڑے گا ملک کی بڑی آبادی جس میں غریبوں کی اکثریت ہے وہ اس فیصلے سے سب سے زیادہ متاثر ہو گی . ایک دوسرے امریکی خبر رساں ایجنسی "بلومبرگ” کے مطابق پہلی نظر میں یہ فیصلہ مودی کا ماسٹر اسٹروک لگتا تھا لیکن بعد میں یہ فیصلہ غلطیوں کا مجموعہ نظر آ رہا ہے جس نے ہندوستان کی معیشت کو کافی پیچھے ڈھکیل دیا.

حقیقت یہ ہے کہ مودی حکومت کا مقصد نہ تو بلیک منی کو حاصل کرنا ہے اور نہ ہی اس کا تعلق جعلی کرنسی کا خاتمہ یا عوامی فلاح و بہبود سے ہے بلکہ یہ بڑی کمپنیوں اور بینکوں کو بچانے کی ایک کوشش ہے.

دراصل بینکوں کا استعمال نہ ہونے والا سرمایہ بہت زیادہ بڑھ چکا تھا اور ابھی حال ہی میں تقریباً سوا لاکھ کروڑ روپے کو رائٹ آف کیا گیا تھاجس کی وجہ سے بینک کافی خسارے میں چل رہے تھے نوٹ بندی کے اس فیصلے سے بینکوں کو بڑی راحت ملی ہے اور وہ بحران کا شکار ہونے سے بچ گئے ہیں.

جہاں تک بینکوں کی بات ہے تو بینکوں میں وقتی ڈپازٹ بڑھتی جا رہی ہے لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ نوٹ بندی کی وجہ سے عوام جو پیسہ بینکوں میں جمع کر رہے ہیں وہ لمبے عرصےتک بینکوں میں چھوڑیں گے چونکہ یہ رضاکارانہ بچت نہیں ہے جس پر کہ سود مقصود ہو بلکہ عوام بینکوں میں پیسہ صرف اس لئے جمع کر رہے ہیں تاکہ وہ پرانی کرنسی کو نئی کرنسی میں تبدیل کر سکیں. اس کا مطلب یہ ہے کہ عوام نے مختصر مدت کے لئے بینکوں میں نئی کرنسی حاصل کرنے کے لیے پرانے نوٹوں کو جمع کیا ہے اس لیے بینک لمبی مدت کے لیے قرض دینے سے قاصر ہوں گے اور اس نمو کی امید نہیں کی جا سکتی جس کا اندازہ لگایا جا رہا ہے.

خلاصہ کلام یہ ہے کہ حکومت کا یہ فیصلہ چند بڑی کمپنیوں اور بینکوں کو بچانے کی ایک کوشش ہے جس کے لیے معیشت اور عوام قیمت چکا رہے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔