بسنت اور پتنگ بازی، ایک غیر شرعی عمل

  مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

جب موسم بہار آتی ہے تو ہر سمت قدرت کے حسین نظاروں کا تاحد نگاہ ایک دلفریت منظر ہوتا ہم، پودے نر م وناز کونپلوں اور خوش رنگ پھولوں سے مزین ہونے لگتے ہیں ،، ویرانوں میں بھی سبزہ لہلہانے لگتا ہے، پوری زمین قدرت کے عطا کردہ حسن سے بھر جاتی ہے، ایسے میں اگر کوئی شخص جنگلوں یا دیہاتوں کا رخ کرلے تو فضا میں بھینی بھینی خوشبوانسان کی روح کوتازگی اور ذہن کو بالیدگی عطا کرتی ہے، قدم قدم پر رنگ برنگے بکھرے ہوئے نظارے ذات حق تعالی کی عظمت وکبریائی اور ربوبیت کا زبان حال سے اعلان کرتے ہیں ، عقل وفطرت اگر سلیم ہو، ضمیر ووجدان شیطانی آلائشوں سے آلودہ نہ ہو گئے ہوں تو یہ نشانیاں رب تعالی کی عظمت وکبریائی کا اقرار کرنے والوں کے لئے کافی ہوتی ہیں ، ان مظاہر قدرت کے مطالعہ ومشاہدہ سے ایمانی کیفیت میں اضافہ ہوتا ہے، اور سلیم الفطرت انسان اپنی شان عبدیت کے اظہار کے بے کل وبے قرار ہوجاتا ہے۔

لیکن اگر یہی انسان ان اعلی صفات سے تہی دامن ہو کر گمراہی کی تاریکیوں اور بھو ل بھلیوں میں گم کردہ راہ ہوجائے اور گناہوں کی پرخطر وادیوں کا مسافر بن جائے، اس کی نہ کوئی منزل ہوتی ہے اور نہ نشان منزل، وہ خود بھی بھٹکتا ہے اور دوسروں کے بھٹکانے کا سبب بنتا ہے، تب اسے اپنے دینی عقائد ( نعوذ باللہ ) بوسیدہ، فرسودہ، اپنی نبی کی عطا کردہ شریعت وتہذیب معاذ اللہ دقیانوی اور وعظ ونصیحت کی ہر آواز اس کے لئے سوہان روح ہوجاتی ہے۔

 بسنت اور بہار:

انسان نے اپنی تفریح طبع کے لئے مختلف کھیل ایجاد کئے اور اپن یخوشی کے اظہار کے لئے مختلف دن مقر کئے، ہر قوم میں ایسے تہوار موجود ہیں ، اللہ عزو جل نے بھی مسلمانوں کو دو مواقع ایسے ہیں جس میں وہ شریعت کے دائرہ میں رہ کر اپنی خوشی کا اظہار کرسکتے ہیں ، جن میں عید الفطر اور عید الاضحی کا موقع ہے، برصغیر ہند وپاک میں موسم بہار کے شروع میں ایک تہوار منایا جاتا ہے جس کو بسنت کہتے ہیں ، فرہنگ آصفیہ میں بسنت کے لفظ کے تحت لکھا ہے :

’’ یہ سنسکرت کا لفظ ہے، گل عصفر، کل کاجیر، نعمات جوش افزا تعشق انگیز کا موسم، موسم بہار، ہندی چھ رتوں میں پہلی رُت کا نام، وہ گیت جو بسنت میلہ میں گاتے ہیں ‘‘’’بسنت پنچمی : ہندوؤں کے تہوار کا نام، بسنتی پوش، : زرہ پوش بسنتی، زر، پیلا، بست کے میلے میں جانے والے وغیرہ وغیرہ ‘‘  اس پوری تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا اس تہوار سے کوئی تعلق نہیں ، یہ خالصتا ایک ہندوانہ تہوار ہ، زرد رنگ ہندوؤں کا خاص شعار ہے، اور ان کے یہاں بسنت کے موقع پر خاص رنگ کے کپڑے پہنے جاتے ہیں ، معروف سیاح ابو ریحان البیرونی اپنے سفر نامے میں لکھتے ہیں : اس میں مہینے میں استواء ربیعی ہوتا ہے، جس کا نام بسنت ہے، ہندو لوگ حساب سے اس وقت کا پتا لگا کر اس دن عید کرتے ہیں ارو برہمنوں کو کھانا کھلاتے ہیں اور نیا غلہ تبرکا پانی میں ڈالتے ہیں ( کتاب الہند للبیرونی)

’’بسنت پنچمی در حقیقت ایک ہندو تہوار ہے جو کہ ہندو بڑے جو ش وخروس سے مناتے، جب کھیت میں چاروں طرف پیلے پھول لہرانے لگتے ہیں تو سمجھ لیجئے کہ تہوار کا وقت آلیا ہے، موسم بہار کا تہوار صحیح معنوں میں ہندو اپنی دیوی سرسوتی کی تعظیم میں مناتے ہیں ، جب بیر پک پیلے ہوجاتے ہیں ، ڈھاک اور اشکوکا اپنے عروج پر ہوتے ہیں ، پھر خاص طو رپر طالب ان کے علم کی دیوی سرسوتی کو او ر دوسری دیوں یعنی ذہن کی دیوی، آزادی کی دیوی او رتما م دیوتاؤوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں ‘‘

بسنت مذہبی تہوار کیسے بنا؟

اورنگ زیب عالمگیر کے دور میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا، اس واقعے نے بسنت کو تاریخ میں پہلی بار ثقافتی سے مذہبی تہوار میں تبدیل کردیا، اور نگ زیب کے دور میں حقیقت رائے نام کے ایک لڑکے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے سلسلے میں ایک رکیک حملہ کیا، مسلمانوں نے اسے مغلظات بکتے ہوئے پکڑ لیا، ملزم کو عدالت میں پیش کیا گیا، قاضی نے جرم ثابت ہونے پر حقیقت رائے کو سزائے موت دی سنادی، حقیقت رائے پھانسی کی سزا پا کر ہندؤوں کا مذہبی ہیرو بن گیا، جس دن حقیقت رائے کو پھانسی دی گئی ہندؤوں نے پیلے رنگ کے کپڑے پنے، حقیقت رائے کی لاش اٹھائی اور گاتے بجاتے اسے شمشان گھاٹ تک لے گئے، مسلمانوں نے اسے توہین آمیز قرار دیا، لیکن ہندوؤں نے پیلے کپڑے اور رقص وسرور کو بسنت کہہ جان بچائی، اگلے سال ہندؤں نے حقیقت رائے کی برسی منائی اوراس برسی پر پیلے کپڑے بہن کر اور ناچ گا کر حقیقت رائے سے اپنی وابستگی اور عقیدت کا اظہار کیا، بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ بسنت کے تہوار پہلی پہلی بتنگ بھی حقیقت رائے کی سمادھی پرہی اڑائی گئی۔

پتنگ بازی کی تاریخ :

جہاں تک پتنگ بازی کا تعلق ہندوستان میں پتنگ بازی کا فن صدیوں سے موجود تھا، پتنگ کی ایجاد کا سہرا دو قوم لیتی ہیں ، چینی ار مصری، چینیوں کا دعوی ہے کہ پہلی پتنگ 400سال قبل مسیح چین میں بنائی اور اڑائی گئی، اس کے بعد چین کے اشرافیہ اپنے اکثر تہواروں اور تقریبات میں پتنگیں اڑاتی تھی، شاہی خاندان پتنگ سازوں کی باقاعدہ حوصلہ افزائی کرتاتھا، اس دور میں پتنگ سازی کے ماہرین کو دربار میں میں عہدہ دیا جاتا تھا، چینیوں کے برعکس مصریوں کا دعوی ہے کہ پتنگ سازی فراعین کے دور میں موجود تھی، اس ضمن میں وہ اہراموں سے بر آمد ہونے والی تصاویر اور بت بطور ثبوت پیش کرتے ہیں ، ان تصاویر میں فرعون کو پتنگیں اڑاتے دکھایا گیا ہم، مصریوں کا کہنا ہے کہ یہ فن مصری جہاز رانوں یا تاجروں کے ذریعے چین پہنچا، چینی بادشاہوں نے اسے شرف قبولیت بخشا اور یوں پتنگیں چین میں رائج ہوگئیں ، مصر میں چونکہ پتنگ بازی صرف شاہی خاندان تک محدود تھی ؛ لہٰذا اسے شاہی کھیل سمجھا جاتا تھا، اور عام آدمی کو یہ کھیل کھیلنے کی اجازت نہیں تھی، چنانچہ وہاں یہ کھیل کھل کر سامنے نہ آسکا، جبکہ چین میں بادشاہوں نے اسے عام کردای، یوں پتنگ چینوں کی ایجاد محسوس ہونے لگی، اگر ہم مصریوں کے دلائل تسلیم کرلیں تو پھر پتنگ بازی کی تاریخ ۵ہزار سال قبل مسیح ہے، لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ پتنگ چین سے ہو کر برصغیر اور پھر یورپ پہنچی، برصغیر میں پتنگ بازی، پتنگ سازی اورپتنگ کو بطور صنعت قائم کرنے کا اعزاز بودھ مت کے پیروں کو حاصل ہے، بودھ بھکشو پہلی پتنگ ہندوستان لے کر آئے، ہندوستان کے باسیوں کے لئے ایک بالکل نئی اور حیران کن چیز تھی؛ اس لئے یہ بڑی تیزی سے سارے ہندوستان میں پھیل گئی، ہندو راجوں اور مہاراجوں نے اس کی پذیرائی کی، اپنی نگرانی میں پتنگیں تیارکرائیں ، پتنگیں اڑانے کے لئے ٹیمیں بنائیں اور پھر عوام کو یہ ’’میچ ‘‘ دیکھنے کی دعوت دی۔

پتنگ پازی موسمی کھیل:

شروع شروع میں پتنگیں ہر موسم میں اڑائی جاتی تھیں ، لیکن پھر تجربے سے معلوام ہوا یہ بھی ایک موسمی کھیل ہے، یہ کھیل موسم سرما میں ہوا کی کمی، برسات میں ہوا میں موجود نمی اور موسم گرما تیز دھوپ اور آندھی کے باعث نہیں کھیلا جاسکتا، اس لئے اس کے لئے مناسب ترین موسم بہار ہے، اس موسم میں کیوں کہ ہوا میں ن تو حدسے زیادہ نمی ہوتی ہے اور نہ ہی تیزی، یہ کھیل کھیلنے والے بھی موسم کی شدت سے بڑ ی حد تک محظوظ ہوتے ہیں ، چنانچہ پتنگ بازی بھی موسم بہار میں شروع ہوگئی، اب بہار میں کھیل ہونے لگے، ایک بسنت اور دوسرے پتنگ بازی، گویا یہ دونوں کھیل بہار میں کھیلے جاتے تھے، لیکن ایک طویل طویل عرصے تک الگ الگ رہے، پھر حقیقت رائے کا معاملہ ہوا اورتاریخ میں پہلی بار بسنت اور پتنگ ایک ہی شخص کی سمادھی پر منائی گئی اور شخص بھی وہ جس نے گستاخی رسول میں موت کی سزا پائی تھی ( بسنت کیا ہے، مفتی ابو لبابہ شاہ منصور : ۵۳)

پتنگ بازی کے نقصانات:

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب اصلاح الرسوم میں پتنگ بازی کی جو خرابیاں درج ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں :

اب   پتنگ بازی  کے نسبت بھی سن لیجئے، جس قدر خرابیاں کبوتر بازی میں ہیں قریب قریب اس میں بھی موجو د ہیں :

  پتنگ کے پیچھے دوڑنا جس میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے کبوتر کے پیچھے دوڑنے والے کو شیطان قرار دیا۔

دوسرے   پتنگ کو لوٹ لینا جس کی ممانعت حدیث شریف میں صراحۃ وارد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نہیں لوٹتا کوئی شخص ایسا لوٹنا جس کی طرف لوگ نگاہ اٹھا کر دیکھتے ہوں او ربھر وہ مومن رہے ( بخاری ومسلم ) یعنی یہ خصلت ایمان کے خلاف ہے، اس حدیث ی تاویلی معنی خواہ کچھ ہوں ؛ لیکن ظاہرا تو اس شخص کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے خارج ا ز ایمان قرار دیا ہے، اگر کوئی یہ کہے کہ لوٹنے میں تو مالک کی اجازت ہوتی ہے، اس لئے اس کو لوٹنا جائز ہے تو یہ بالکل غلط ہے، مالک کی اجازت ہر گز نہیں ہوتی ؛چونکہ عام رواج بن گیا ہے، اس لئے مالک خاموش رہتا ہے ؛ حالانکہ وہ اس سے خوش نہیں ہوتا، اگر اس کا بس چلے تو یہ بالطل غلط ہے، مالک کی اجازت ہر گز نہیں ہوتی ؛ چونکہ عام رواج بن گیا ہے، اس لئے مالک خاموش رہتا ہے، حالانکہ وہ اس سے خوش نہیں ہوتا، اگر اس کا بس چلے تو خو دوڑے اور کسی کو بھی پتنگ نہ لینے دے۔

 ڈور کو لوٹ لینا، اس میں ایک اعتبار سے پتنگ لوٹنے سے بھی زیادہ قباحت ہے، کیوں کہ پتنگ تو ایک ہی ہاتھ میں لگتی ہے، اور وہی گناہ گار ہوتا ہے، جب کہ ڈور تو بیسیوں آدمیوں کے ہاتھ میں آتی ہے، اور سب کے سب گناہ گاہر ہوتے ہیں اور اس کا سبب وہی پتنگ باز ہے۔ اور تمام آدمیوں کے گناہ گار ہونے کا باعث وہی پتنگ اڑانے والا ہوتا ہے، اور مسلم شریف کی ایک حدث کے مطابق ان سب کے برابر اس کے اڑانے والے کو بھی گناہ ہوتا ہے

  ہر شخص کی یہ نیت ہوتی ہے کہ دوسرے کی پتنگ کو کاٹوں اور اس کا نقصان کروں تو مسلمان کو نقصان پہنچانا حرام کام ہے۔ ، حالانکہ مسلمان کو نقصان پہنچانا حرام اوراس حرام فعل کی نیت سے دونوں ( یعنی کاٹنے والا کٹوانے والا ) گناہ گار ہوتے ہیں ۔

   نماز سے غافل ہوجانا جس کو اللہ تعالیٰ نے شراب اور جوے کے حرام ہونے کی علت بتلایا ہے۔ (دیکھئے سورۃ المائدہ : آیت ۹۱)

  اکثر کوٹھیوں کی چھتوں پر پتنگ اڑانے سے آس پاس والوں کی بے پردگی ہوتی ہے۔

 جانی نقصان : بعض اوقات پتنگ چڑھاتے ہوئے پیچھے کوہٹتے جاتے ہیں اور کوٹھے سے نیچے گرپڑتے ہیں ۔ پتنگ بازی کے دوران چھت سے گر کر مرنے یا ہاتھ پاؤں ٹوٹنے کی خبری، اخبارات میں چھتی ہیں ، اس طرح پتنگ یا ڈورلوٹنے کے دروان ٹریفک کے حادثات بھی اب بکثرت ہونے لگے ہیں ، بعض کی خبریں اخبارات میں چھپتی ہیں ، اور بہت سے واقعات نامہ نگاروں تک نہیں پہنچ پاتے، جس کھیل میں انسان جان ضائع ہونے لگے اسے کھیل کہنا عقل کے خلاق ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر مہر بان ہیں کہ جس چھت پر منڈیر نہ ہو اس چھت پر سونے سے منع فرمایا کہ مبادا اچانک اٹھ کر چلنے سے نیچے گڑپڑے، اور جانی نقصان ہوجائے تو اس کھیل کی کیوں ممانعت نہ ہوگی جس میں اب آئے دن جانی نقصان ہوتا رہتا ہے۔ پورے ملک میں بسنت کے موقع پر چھتوں سے گر کر گاڑیوں سے ٹکراکر اور دیگروجوہات سے زخمی ہونے والوں تعدا د بے شمار ہوتی ہے۔

مالی نقصان : پتنگ بازی میں قوم کا لاکھوں کا روپیہ بلا وجہ ضائع ہوجاتاہے۔ ، ناچ گانا، عریانیت وفحاشیت، ہڑبونگ، وقت کا ضیاع تو رہا ہی، ساتھ ہی قومی املاک بھی اس پتنگ بازی کے نظر ہوجاتے ہیں ، اس پتنگ بازی کے وجہ سے کئی ایک ٹرانسفار تباہ ہوجاتے ہیں ، جس سے کروڑوں کا نقصان ہوتا ہے۔

 ان سب کھیلوں میں مال مفت ضائع ہوتا ہے، اور فضول خرچی کا حرام ہونا قرآن سے ثابت ہے۔ اس کھیل میں تفریح کم اور فضول خرچی زیادہ ہوتی ہے قومی اخبارات کا جائز ہ لیاجائے تو پتہ چلتا ہے ہر سال ملک میں کرڑوں روپیئے کی پتنگیں تیار کی جاتیں ہیں ، جن میں سے نوے فیصد پہلی بار اڑانے سے ہی ناکارہ ہوجاتی ہیں ، اگر کچھ صحیح سلامت ہو بھی تو وہ بھی دوسری دفعہ ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتی ہیں ، یہ تمام پتنگیں ضائع ہوجاتی ہیں ، جس سے اسراف اور فضول خرچی کے علاوہ کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ ، اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے : ’’ اے بنی آدم کھاؤ پیو اور حدسے تجاوز نہ کرو، اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند نہیں فرماتا جو حد سے تجاوز کرتے ہیں ۔ ‘‘۔

اس لئے ضروری ہے خصوصا ہمارا نوجوان معاشرہ ملک کی باسیوں کی طرح اس کی فضولیات اور لغویات اور ہندوانہ رسوم ورواج کی ادائیگی میں مبتلا نہ ہو، اپنے وقت کو قیمتی جانیں ، اس کو طاعت عبادت، حصول علم میں صرف کرے، اللہ اوراس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کو دعوت دینے والے امور کی انجام دہی اور اپنے عمر عزیز کے لمحات کو ضیاع اور نقصان سے بچائے جس کے حوالے سے سوال ہوگا۔

تبصرے بند ہیں۔