بلبلہ جیسے گریزاں رہے طغیانی سے
عبدالکریم شاد
بلبلہ جیسے گریزاں رہے طغیانی سے
ہچکچاتے ہیں سبھی جان کی قربانی سے
…
مسکرانے کا سبب کون اسے سمجھائے
دیکھتا ہے مرا قاتل مجھے حیرانی سے
…
جس کی چاہت میں سبھی جان گنوا بیٹھے ہیں
چاہتا ہوں مجھے مل جائے وہ آسانی سے
…
جس کو دیکھو وہی فرہاد بنا پھرتا ہے
عشق بد نام ہوا شیریں کی ارزانی سے
…
دھرم کے نام پہ نیتا کی سیاست دیکھیں
آگ کا کام لیا جائے گا اب پانی سے
…
سن کے ہر رات کہانی ہمیں نیند آتی تھی
وہ تعلق نہ رہا بچوں کا اب نانی سے
…
کس طرح تونے خطاؤں کو دیا ہے انجام
فخرِ ابلیس یا آدم کی پشیمانی سے
…
مجھ کو عادت یہ رلائے نہ کہیں اے بیٹی!
شاد ہوتا ہوں ابھی میں تری شیطانی سے
تبصرے بند ہیں۔