بلبلہ جیسے گریزاں رہے طغیانی سے

عبدالکریم شاد

بلبلہ جیسے گریزاں رہے طغیانی سے

ہچکچاتے ہیں سبھی جان کی قربانی سے

مسکرانے کا سبب کون اسے سمجھائے

دیکھتا ہے مرا قاتل مجھے حیرانی سے

جس کی چاہت میں سبھی جان گنوا بیٹھے ہیں

چاہتا ہوں مجھے مل جائے وہ آسانی سے

جس کو دیکھو وہی فرہاد بنا پھرتا ہے

عشق بد نام ہوا شیریں کی ارزانی سے

دھرم کے نام پہ نیتا کی سیاست دیکھیں

آگ کا کام لیا جائے گا اب پانی سے

سن کے ہر رات کہانی ہمیں نیند آتی تھی

وہ تعلق نہ رہا بچوں کا اب نانی سے

کس طرح تونے خطاؤں کو دیا ہے انجام

فخرِ ابلیس یا آدم کی پشیمانی سے

مجھ کو عادت یہ رلائے نہ کہیں اے بیٹی!

شاد ہوتا ہوں ابھی میں تری شیطانی سے

تبصرے بند ہیں۔