بموں کی بارش میں امن کی جستجو

سیف ازہر

معلوم  کس کا فلسفہ ہے مگر معمولی لڑائی جھگڑا کے موقع پر اکثرلوگ کہتے ہیں کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے ۔جنگ کیسی بھی ہو وہ خود ایک مسئلہ ہوتی ہے ۔دنیا میں نہ جانے کتنی بڑی بڑی جنگیں لڑی گئی اور لوگ مارے گیے مگر مفکرین کا یہ فلسفہ ابھی تک دنیا کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکا ہے  ۔سچ تو یہی ہے کہ دنیا نے کہا ضرور مگر کبھی اس فلسفے پر عمل نہیں کیا ۔البتہ یہ فلسفہ اس سے کہیں زیادہ کامیاب رہا کہ

ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف

گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی

یہ سوال خود بخود پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ کون سی جنگ ہے جو باعث امن ثابت ہوگی ۔؟کیا اقدامی جنگ بھی امن کا باعث بن سکتی ہے ۔؟کس صورتحال میں امن کیلئے جنگ ضروری ہوجاتی ہے ۔؟جنگ کون کرے گا اور کس بنیاد پر کرے گا۔؟ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جن کا ہونا ضروری ہے ۔اگر اب نہیں ہوگا تو کب ہوگا ۔جب دنیا کے اکثر ممالک کسی نہ کسی طرح کی جنگ میں الجھے ہوئے ہیں ۔بہت سارے مفکرین کو شام ،یمن اور بحیرۂ چین میں تیسری عالمی جنگ نظر آرہی ہے ۔ٹرمپ نے بھی کہہ دیا ہے کہ یہ تیسری عالمی جنگ ہے ۔

پھر ایک سوال ابھرتا ہے کہ تیسری عالمی جنگ کیلئے راہ کیوں ہموار کی جارہی ہے ۔کو ن سی وہ چیز ہے ،کون سے وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے تیسری عالمی جنگ ناگزیر ہوگئی ہے ۔جب اس بات کا اندازہ ہے کہ دنیا تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر پھر بھی بم پر بم کیوں برسایا جا رہا ہے ۔یہ سوالکیسے نظر اندازکر سکتے ہیں کہ ان بموں کی بارش سے کس کی اور کون سی فصل تیار ہورہی ہے ۔اکیسوی صدی کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے ۔ورلڈ ٹریڈ سینٹرپر حملہ سے اس کی واضح شکل کو تعارف ملا ہے ۔

آج تک دنیا  متفق ہوسکی اورنہ ہی یہ واضح ہوسکا کہ اس کاذمہ دار کون ہے حالانکہ افغانستان پراب بھی بمباری جاری ہے ۔افغانستان پر کس اختیار نے حملہ کی اجازت دی ۔شام پر روس کو حملہ کی اجازت کس نے دی ۔عراق پر جس الزام کے تحت حملہ کیا گیا وہ آج تک ثابت نہیں ہوسکا مگر لاکھوں لوگوں کی جانوں کے ضیاع کی ذمہ داری کون لے گا۔اقوام متحدہ نے اگر ان سب کی اجازت دی تو کیوں دی ۔کیا یہ اجازت مسلم ممالک نہیں لے سکتے تھے ۔افغانستان میں ’’ مدرآف آل بم‘‘ایک ایسے وقت میں کیوں مارا گیا جب روس ،ایران ،ہندستان اور چند علاقائی ممالک طالبان کو امن عمل میں شامل کرنے کے لیے کانفرنس کر رہے تھے ۔امریکی صدر براک اوبامہ نے بھی پاکستان، امریکہ اور افغانستان پر مشتمل ایک گروپ تیار کیا تھا تاکہ طالبان کو امن عمل میں شامل کیا جا سکے مگر اوبامہ انتظامیہ پوری طرح ناکام رہا تھا۔ اسی طرح جب امریکہ اور اسکے اتحادی بشار الاسد کے خلاف جنگ میں کسی نتیجے پر پہنچنے والے تھے کہ اسی دوران میں روس نے چڑھائی کردی ۔اس کا نتیجہ حلب کی صورت میں ہمارے سامنے آیا اور ابھی تک شام اور بشار الاسد کا مستقبل طے نہیں کیا جاسکا ۔

کروڑوں شامی بے گھر ہوچکے ہیں اور لاکھوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا مگر روس بشارالاسد کی حمایت سے باز نہیں آتا۔سوال یہ بھی ہے کہ عراق ،افغانستان ،سیریا اور اسی طرح کے ممالک جہاں روز آنہ بمباری ہوتی ہے کیا وہاں سے دہشت گرد ختم ہوگیے ۔افغانستان میں 16؍سال کی مسلسل بمباری سے طالبان ختم ہوگیے ۔طالبان کیاختم ہوتے اور بہت سی تنظیمیں ظہور میں آگئیں ۔شام اور عراق میں داعش کو ختم کرنے کیلئے کتنی بمباری ہوئی مگر داعش ختم ہونے کے بجائے اپنے پاؤں پھیلاتی جارہی ہے ۔آئی ایس کی کارروائی جو صرف سیریا اور عراق تک محدود تھی وہ تمام اسلامی ممالک میں پھیل گئی ۔یورپی ممالک میں بھی انھوں نے کارروائیاں کی ،پھر بم برسانے کاکیا نتیجہ نکلا ۔امن کے پیامبر ممالک دہشت گردوں پر بم گراتے ہیں اور دہشت گرد معصوم عوام پر ،عمل اور ردعمل کئی سالوں سے جاری ہے مگر سوائے قتل وخون کے کوئی اور نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا۔ روس اس بشار الاسد کی حمایت کرتا ہے جس پر نہ جانے کتنے معصوم شہریوں کے خون کا الزام ہے ۔بشار کو ہٹانے کیلئے امریکہ ہر اس گروپ کی مدد کرتا ہے جو اس کے خلاف ہیں لیکن روس ان کو دہشت گرد سمجھتا ہے ۔دونوں ایک دوسرے کو دہشت گرد سمجھ کر مار رہے ہیں ۔دونوں کا دعوی ہے کہ ہم امن کیلئے یہ سب کچھ کر رہے ہیں ۔سوال یہ پید اہوتا ہے کہ اس میں کون دہشت گر د ہے ۔

ساتھ ساتھ یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب بم برساکر دہشت گرد دہشت پیدا کرتے ہیں تو بم برساکر امریکہ ،اور روس کس طرح امن پیدا کرسکتے ہیں ،یہ کیسے ممکن ہے ۔یہ سوال بھی رہ جاتا ہے کہ بم برسانے کا حاصل آج تک دنیا پر کیا ہوا۔کس ملک میں بم سے امن پیدا ہوا ۔پہلی اور دوسری عالمی جنگ سے لے کر اب تک کی تمام جنگوں میں دنیا کے اکثرممالک میں ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں بمباری ہوچکی ہے مگر کوئی ایک ملک ایسا نہیں ملے گا جہاں بمباری نے امن پید اکیا ہو البتہ دنیا ایک لمبے عرصہ تک دہشت کے حالت میں رہی ۔آج بھی فلسطین ،سیریا ،عراق ،لیبیا،افغانستان،پاکستان اور بہت سارے ممالک کے لوگ صرف آسمان میں اڑتا ہوئی جہاز بھی دیکھ کر صرف اس لیے ڈر کر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں کہ کہیں بم برسانے کیلئے نہ آرہا ہو۔بمباری صرف دہشت پھیلا سکتی ہے یہ چیزہم تمام لوگوں سے زیادہ وہ لوگ سمجھتے جو اس کے سایہ تلے زندگی گزار رہے ہیں ۔تمام سوالوں پر یہ سوال پید اہوتا ہے کہ آخر جب امن پیدا نہیں کرسکتی توکس لیے بمباری ہورہی ہے ؟۔پھر وہی سوال لوٹ کر آجاتا ہے کہ فائدہ کس کاہوتا ہے؟

۔اس تناظر میں دیکھنے سے بات خود بخود سمجھ میں آجاتی ہے ۔ساتھ ہی اس تناظر میں بھی دیکھنا ضروری ہے کہ روس اورامریکہ بالمقابل کیوں ہیں ۔اوبامہ انتظامیہ میں توسمجھ میں آتا تھامگر ٹرمپ انتظامیہ میں یہ بات ناقابل فہم ہے ۔ٹرمپ کو فتح یاب کرانے میں روس نے کردار بھی نبھایا ہے اور ٹرمپ نے بھی روس کی حمایت کی ،کئی بار اپنے ہی اداروں کو بے وقوف ،جھوٹا اور نہ  جانے کیا کیا کہہ دیامگر اچانک سیریا اورروس کو گیس چھوڑنے کا الزام دے کر فوجی کیمپ پر حملہ کردیا۔ادھر افغانستان میں بھی حملہ کردیا ۔یہ ہوسکتا ہے کہ اپنی اس ساکھ کو بہتر بنانے کیلئے ٹرمپ نے یہ قدم اٹھایا ہو جو کہ امریکہ میں خراب ہوچکی ہے مگر اس سے کیسے انکار کیا جاسکتا ہے کہ یہ روس کی خطہ میں بڑھتے اثرورسوخ پر وار ہو ۔

اس بات سے کیسے انکار کیا جاسکتا ہے کہ اگر یہ جنگ کسی نتیجہ سے ہمکنار ہوگئی تو ہتھیار کا فروخت بند ہوجائے گا۔اس سے نہ صرف امریکہ کی اقتصادی قوت کمزور ہوگی بلکہ امریکہ کے اثر ورسوخ پر روس اثر انداز ہوجائے گا۔افغانستان امن عمل میں طالبان کو جب شامل کرنے کیلئے روس کانفرنس کر رہا تھا عین اس سے ایک دن پہلے امریکہ نے دنیا کا سب سے خطرناک غیرجوہری بم گرا کر کون سے  امن کا کام کیاہے  ۔مانتا ہوں امن عمل کے اس گروپ میں روس نے امریکہ کو اسی طرح شامل نہیں کیا جس طرح امریکہ نے روس کو شامل نہیں کیا تھا۔امریکہ جس طرح اس عمل میں ناکام رہا ہے اگر اسی طر ح اس عمل میں روس کا میاب ہوجاتا تو امریکہ کیلئے نہ صرف ہتک آمیز تھا بلکہ اس کے اثر ورسوخ کاجنازہ نکل جاتا۔یہ بھی ایک سوال ہے کہ طالبان جنھوں نے سب سے زیادہ روس کو نقصان پہنچایا ہے روس ان کی حمایت میں کیوں کھڑا ہے ۔روس کیوں طالبان کو دہشت گردی کے لسٹ سے باہر کروانا چاہتاہے ۔

ظاہر ہے امریکہ جو کہ افغانستان میں امن کے نام پر 16؍سال سے جنگ لڑ رہا ہے وہ اس کی کامیابی کا سہرا روس کے سر کیسے بندھنے دے گا۔رہی بات شام کی  توبشار الاسد کی ناکامی روس کی ناکامی ہوگی اور الشعیرات پر حملہ نہ صرف جنگ کو مزید طویل کر دے گا بلکہ ہتھیاروں کے فروخت میں بھی اضافہ ہوجائے گاجس سے نہ صرف امریکہ کی اقتصادی ترقی ہوگی بلکہ روس کی قوت بھی کمزور ہوگی جو کہ امریکہ کے مفادمیں ہے ۔ ایک جملے میں کہہ سکتے ہیں کہ بموں کی بارش امن کیلئے نہیں مفادات کیلئے ہورہی ہے خواہ اس کی نوعیت کچھ بھی ہو۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔