بنات کی جانب سے جشن  نسائی ادب کا  انعقاد

 اچھی کہانیوں کا فقدان اردو ادب میں ایک خلا پیدا کر رہا ہے۔ اب سے بیس پچیس سال بعد   اندازہ ہوگا کہ کتنا نقصان ہو گیا۔ رتن سنگھ

عالمی  یوم  خواتین کے مو قعے پر  غالب اکیڈمی دہلی کے آڈیٹوریم میں اردو کی خواتین  قلمکاروں  کی تنظیم  بنات کی جانب سے جشن نسائی ادب کا شاندار اہتمام کیا گیا۔ اس موقع پر  بین الاقوامی نسائی ادبی تنظیم  بنات نے اردو کی سینئر قلمکاروں کی ادبی خدمات کے اعتراف  میں  مومینٹو اور شال پیش کئے  1.   ممتاز شیریں نیشنل  ایوارڈ  برائے  تنقید و تحقیق  محترمہ رضیہ حامد۔ 2۔ عصمت چغتائی  نیشنل ایوارڈ برائے  ادبی خدمات  محترمہ قمر جمالی۔ 3۔داراب بانو وفا  نیشنل ایوارڈ  برائے  شاعری  محترمہ  بلقیس ظفیر الحسن۔ 4۔خصوصی لیکچر  سیریز کے  آغاز  کے تحت   ڈاکٹر علی جاوید  کو انکے  خطبے بعنوان  رضیہ سجاد ظہیر  ایک عہد۔کے لئے شال اور مومینٹو پیش کیا گیا۔

اس یک روزہ  جشن  میں  پہلے اجلاس کی صدارت معروف ادیب مھترم رتن سنگھ اور دہلی اردو اکیڈمی کے وائس چیرمین  پروفیسر شہپر رسول نے کی۔ اس موقع پر بنات کی صدر محترمہ نگار عظیم نے کہا کہ بنات، ترقی پسند تحریک کا ایکسٹنشن ہے۔

 اپنے ادبی سفر کی روداد بیان کرتے ہوئے محترمہ قمر جمالی  نے کہا کہ  امید کا سرا تھامے  مدار زیست  پر صبح سے شام اور شام کی سحر  کرنا  شاید اسی تگ و دو کا نام سیتا ہے۔سیتا صرف والمیکی کی داستان نہیں اور نہ کسی عورت کا نام ہے بلکہ سیتا ہندوستان کی تہزیب ناوید کا نام ہے جو ہر عورت کے بطن میں سیل رواں بن کر موجزن رہتی ہے۔سیتا عورت کی اس بے بسی کا نام ہےجسے آنکھوں کی سفید جھیل میں اتھل پتھل ہوتا ہوا محسوس تو کیا جا سکتا ہےمگر پلکوں کی باڑھ توڑ کر سیلاب کی صورت بہتا نہیں دیکھا جا سکتا۔

پہلا اجلاس بنات کی  سرپرستوں کے نام تھا جسمیں محترمہ قمر جمالی  ( حیدرا آباد)۔محترمہ رضیہ حامد (بھوپال) اور محترمہ بلقیس ظفیر الحسن  (دہلی )نے  اپنا  ادبی سفر نامہ اپنی زبانی پیش کیا۔ اس اجلاس میں  مہمان خصوصی کی حیثیت سے معروف  افسانہ نگار    ڈاکٹر اسلم جمشید پوری ، اور  حیدرآباد سے تشریف لایئں کہانی نویس محترمہ شبینہ فرشوری نے شرکت کی  نظامت  کر رہی تھیں بنات کی جنرل سیکریٹری محترمہ تسنیم کوثر  اور اظہار تشکر   کیا اترا کھنڈ  وومن کمیشن کی ممبر  مشہور و معروف افسانہ نگار اور بنات کی زونل ہیڈ  محترمہ افشاں ملک  نے۔

 دوسرا اجلاس   رضیہ سجاد ظہیر  کے نام معنون تھا۔ دہلی یونورسٹی  سے ڈاکٹر علی جاوید نے  رضیہ سجاد ظہیر کی ادبی خدمات اور ترقی پسند تحریک کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی۔ اس  اجلاس میں اسٹیج  پہ جلوہ افروز  اہم  شخصیات تھیں محترمہ شمع افروز زیدی۔ شبانہ نزیر۔ جناب مولا بخش اسیر،  ڈاکٹر فارق بخشی ، محترم  ظہیر احمد برنی،  جناب حقانی القاسمی  جناب  ابو بکر عباد اور اردو ادب اور میڈیا کا جانا پہچانا نام محترم انجم  عثمانی اور  جانے مانے  شاعر  و ناظم جناب معین شاداب۔

اس اجلاس کی نظامت فرمائی  بنات کی نائب صدر اور  مقبول  شاعرہ محترمہ عذرا  نقوی نے شکریہ ادا کیا  محترمہ نگار عظیم نے۔ ان دونوں اجلاس  میں  دہلی سے باہر سے آئی  خواتین قلمکاروں نے اپنی لکھی کہانیاں پیش کیں ۔ جنمیں  شبینہ فرشوری  (حیدرآباد)  عرفانہ تزین ( تملناڈو)نصرت شمسی (مرادآباد) انجم بہار شمسی  (رامپور)آصف اظہار (علیگڑھ) رفیعہ نوشین (حیدرآباد)  سیدہ تبسم ناڈکر (ممبئی)  اس اجلاس میں معاون ناظم تھیں محترمہ قمر قدیر  ارم اور محترمہ ترنم جہاں شبنم۔شکریہ ادا کیا محترمہ چشمہ فاروقی  اور نعیمہ جعفری پاشانے۔

جشن نسائی ادب  کی حسین شام کو اور بھی خوبصورت بنایا  بناتی شاعرات نے استقبالیہ کلمات رضیہ حیدر خان نے ادا کئے، شعری نشست بنام داراب بانو وفا پہ کہکشاں تبسم کا لکھا تعارف شاداب تبسم نے  پڑھا۔ شاعرات  : گوری چُگ، سفینہ،  قمر قدیر ارم، محترمہ نفیس بانو،ثریا جبیں ،شازیہ عمیر، رضیہ حیدر خان  نے اپنے کلام سے سماں باندھ دیا۔

محفل سخن میں جہاں محترمہ سلمی شاہین نے اپنے مخصوص ترنم  سے  غزل سنائی وہیں محترمہ شبانہ سروش نے ایک زبردست نظم سنا کر سامعین کو زور دار داد دینے پر مجبور کر دیا  محترمہ عذرا  نقوی  اور محترمہ نگار عظیم کے کلام  پر سامعین  نے خوب داد دی۔ محترمہ مینا نقوی اور محترمہ بلقیس ظفیر الحسن نے صدارت کی  اور  اپنے کلام سے نوازہ۔ محترمہ وسیم راشد نے نظامت کی اور محترمہ سفینہ  نے شکریہ ادا کیا۔ دہلی اور بیرون دہلی سے آئے  سامعین صبح سے رات  تک۔

تبصرے بند ہیں۔