بدترین صورتحال اور ناکارہ اپوزیشن

وصیل خان

بابری مسجد کے انہدام کے بعدبھی کانگریس نے اپنی اصلاح کی کوئی کوشش نہیں کی کیونکہ اتنا بڑا سانحہ اسی کے دور حکومت میں ہوا تھا اور اس کے تحفظ کی مکمل ذمہ داری اسی پرتھی۔ یہ انہدام کوئی معمولی بات نہیں بلکہ یہ اس جمہوریت کا انہدام تھا جس کی بنیاد ۱۹۴۷میں انتہائی مستحکم طور پر رکھی گئی تھی۔ لیکن فرقہ پرست جماعتوں نے ان جمہوری اقدار کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور فوج و پولس کے ہوتے ہوئےنرسمہا راؤ کی حکومت صرف تماشا دیکھتی رہی۔ جن لوگوں کی یادداشت مضبوط ہےانہیں یاد ہوگا کہ انہدام کے فوری بعد وزیراعظم نرسمہاراؤنے اعلان کیا تھا کہ جو کچھ ہوا وہ غلط ہوا اوربابری مسجد جلد ہی اسی جگہ تعمیر ہوگی۔لوگ انتظار کرتے رہے لیکن وہ اعلان کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا یہاں تک کہ وہ خود ہی اقتدار سے باہر ہوگئےاور پورا وقت محض ٹال مٹول، تاویل اور بہانے بازیوں کی نذر ہوگیا۔

ہمیں یہ بھی یاد ہے کہ اس وقت کے ایک بڑے کانگریسی لیڈر اور کابینی وزیر ارجن سنگھ نے پارٹی کو بارہا مشورہ دیا کہ اس بھیانک غلطی پر پارٹی کو مسلمانوں سے نہ صرف معافی مانگنی چاہیئے بلکہ اس تعلق سے انصاف کا جو صحیح تقاضا ہے اسے فی الفور پورا کرنا ضروری ہے تاکہ اس جمہوری اقدار کو بحال کیا جاسکے جس کا شیرازہ ان فرقہ پرست جماعتوں نے بکھیر کررکھ دیا ہے لیکن پارٹی نے ان کے مشورے اور تجاویز کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا اور ان کی ایک نہیں سنی بلکہ اس کے جواب میں یہ کہا گیا کہ پارٹی کو معافی مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

اس کی وجہ صاف تھی کہ کانگریس کی نیت درست نہیں تھی اسے حق و انصاف اور جمہوریت کا تحفظ عزیز نہیں تھا وہ تو بس یہ سوچ رہی تھی کہ اگر اس نے سخت رویہ اپنا یاتو ہندوؤں کا ایک بہت بڑا طبقہ اس سے متنفر ہو جائے گا اور اس کا ووٹ بیلنس متاثر ہوگا یہی سبب ہے کہ کانگریس نے اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کیلئے ہندو کارڈ کھیلا اور راجیوگاندھی نے پارلیمانی انتخابی مہم کا آغاز اسی اجودھیا کی سرزمین سے شلا نیاس کرکے کیا لیکن وہ بری طرح سے ناکام ہوئےاور انہیں کوئی انتخابی فائدہ نہ پہنچ سکااور بالآخر وہی ہوا جو ہونا چاہیئے تھا یعنی فصل بونے والاہی فصل کاٹنے کا حقدار ہوتا ہے بی جے پی نےہندتو کی بنیاد پر جو فصل بوئی تھی کاٹ لے گئی۔

جواہر لال نہرو سے اندراگاندھی کے دور اقتدار تک وہی بی جے پی جو محض دو نشستوں پر سمٹ کر رہ جایا کرتی تھی اتنی زیادہ نشستیں حاصل کرلی کہ کانگریسی لیڈر ان انگشت بدنداں ہوگئے پھر بھی انہیں نہ اپنی غلطی کا احساس ہوا نہ ہی انہوں نے اس کی تلافی کی کوشش کی۔ اس وقت جو صورتحال ہے وہ سبھی کے سامنے ہے آج کانگریس کی پوزیشن اس گئی گزری جماعت کی سی ہوگئی ہے جو اپنے تحفظ و بقا کی بھی جنگ نہیں لڑپارہی ہے۔ سب سے زیادہ برا حال ۲۰۱۴ کے الیکشن میں ہوا جب بی جے پی نے نشانے سے کہیں زیادہ نشستیں حاصل کرکے ایسا ریکارڈ قائم کرلیا جو خود اس کے بھی وہم و گمان میں نہیں تھا، اس کے برعکس کانگریس کو ایسی ہزیمت ہوئی کہ اسے ایوان میں اپوزیشن کا درجہ بھی نہ مل سکا۔ آْج صورتحال یہ ہے کہ بی جے پی کے بڑےاور قدآور چہروں کے سامنے اس کے پاس کوئی متبادل چہرہ نظر نہیں آتا جو اس صورتحال کو بدل سکے۔ لے دے کے بس راہل گاندھی ہیں جن سے کچھ امید باندھی جاسکتی ہے۔

بی جے پی کی فرقہ پرستانہ دہشت گردیاں بڑھتی جارہی ہیں فی الوقت ملک ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں سے صرف دو ہی راستے نظر آرہے ہیں ایک یہ کہ ملک کو انہی فاشسٹوں کے حوالے کردیا جائے یا پھر کوئی دوسرا محاذ اس کے متبادل کے طور پر کھڑا ہو جائے جو ملک کی تیزی سے بگڑتی صورتحال پر قابو پاسکے۔ ایسےمیں امن پسند عوام کی نظریں بادل نخواستہ ایک بار پھر کانگریس کی طرف اٹھنے لگی ہیں ۔ حالات نے اسے ایک موقع پھر دیا ہےجس کا اسے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیئے۔ کانگریس کے موجودہ صدر راہل گاندھی بھلے ہی بہت اچھے مقرر نہ ہوں ، ان کا شمار ملک کےگھاگھ رہنماؤں میں نہ ہوتا ہو لیکن ان کے اندر عوام سے براہ راست رابطہ کرنے اور اپنا پیغام پہنچانے کی زبردست صلاحیت موجود ہے اس کا مظاہرہ گذشتہ دنوں گجرات الیکشن کے موقع پر سبھی دیکھ چکے ہیں انہوں نے سخت محنت سے کمزور کانگریس کو بی جے پی کے مد مقابل لاکھڑا کیا۔ بی جے پی پر تیکھے سوالات کی بارش کردی، مودی کے دس لاکھ کے سوٹ کا معاملہ اٹھایا اور انہیں پریشان کردیا اسی طرح کالے دھن کو سفید کرنے کی مودی اسکیم کو ’ فیئراینڈلولی ‘ اسکیم کہہ کر ہوا نکال اور اب پھر یہ سوال کہ پہلے وجے مالیا، للت مودی اور اب نیرومودی ہزاروں کروڑ روپئے لے کر ملک سےکس طرح فرار ہوگئے، یہ سب کیسے ہوا آخر مودی سرکارکیا کررہی ہے اور سب سے بڑھ کرملک کا عظیم ترین چوکیدار کہاں اونگھ رہا ہے۔ مودی کا دور حکومت عام آدمی کیلئے انتہائی مشکلوں اور تکلیفوں سے بھرا ہوا ہے۔

نوٹ بندی اور پھر جی ایس ٹی کی مار صرف غریب عوام کو جھیلنی پڑرہی ہے، نوٹ بندی کے دوران سو سے زائد افراد بینکوں کی طویل لائنوں میں کھڑے دم توڑ گئے۔ صنعت اور کاروباری حالت بری طرح سے متاثر ہے اور لاکھوں افراد روزی روٹی جیسی بنیادی ضرورتوں سے محروم ہوگئے۔ جی ایس ٹی کے نفاذ نے چھوٹے چھوٹے بیوپاریوں کو شدید نقصان میں ڈال دیا ہے ان کے کاروبار ختم ہونے کی کگار پر ہیں ۔ اب یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ یہ سرکار صرف بڑے بڑے سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں کو ہی فائدے پہنچارہی ہے، اس ملک کا عام آدمی پریشان ہے اور ان کی پریشانی دور کرنے کیلئے حکومت کے پاس کوئی تجویز نہیں وہ صرف بڑےتجارتی اور کاروباری اداروں اور گھرانوں کے مفادات کی تکمیل میں جٹی ہوئی ہے۔

ان حالات میں ایک مضبوط اپوزیشن ہی ان فرقہ پرست، سرمایہ دارانہ ذہن رکھنے والے حکمرانوں پر قابو پاسکتا ہے اور یہ بات تمام اپوزیشن جماعتوں کے بھی ذہنوں میں پختہ ہوتی جارہی ہے کہ ان کا اتحاد ہی اس صورتحال کو تبدیل کرسکتا ہے۔ ایسے میں کانگریس کو ایک بار پھر موقع ملا ہے کہ وہ تمام جماعتوں کو متحد کرکے ایک مضبوط محاذ بنائے اور اس فاشسٹ جماعت کو اقتدار سے بے دخل کردے۔ ۲۰۱۹کا الیکشن قریب ہے اگر تمام جماعتیں اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر سامنے نہیں آتیں تو موجودہ صورتحال میں ان کے لئے ممکن نہیں کہ وہ ملک اور عوام کو اس بدترین صورتحال سے نجات دلاسکیں ، اور اگر اس وقت بھی ایسا کرنے سے وہ قاصر رہیں تو ملک کی آئندہ تصویر کیا بنے گی اور اس کے نتائج کتنے ہولناک ہوسکتے ہیں اس کا اندازہ موجودہ حالات کی سنگینی کے تناظر میں بہ آسانی لگایا جاسکتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔