بول، یہ تھوڑاوقت بہت ہے!

نایاب حسن

(1)
حالیہ دنوں میں لگاتارحالات اس تیزی سے بدل رہے ہیں کہ ذہن و دماغ پرحیرانی سی طاری ہوئی جاتی ہے،ایک مسئلے کو دبانے کے لیے دوسرامسئلہ پیدا کیا جا رہاہے،ایک حادثہ ٹل نہیں پاتاکہ دوسراحادثہ رونماہوجاتاہے۔یکساںسول کوڈکے شورشرابوںاوران کے جواب میں نمایندہ مسلم اداروںکی’’تحفظِ شریعت کانفرنسوں‘‘کے دوران اچانک بھوپال میں ایک اندوہ ناک واقعہ رونماہوا،فرضی انکاؤنٹرکا،جس میں مدھیہ پردیش کی حکومت،وہاں کی پولیس سب راست طورپر شریک رہی۔آٹھ مسلم قیدیوںکومنظم منصوبہ بندی کے ساتھ پہلے جیل سے نکالاگیا،پھرایک مقام پر لے جاکر سب کاانکاؤنٹرکردیاگیا،ابتداء اً اس خبرکی پیش کش میںقومی ہندی میڈیانے نہایت ہی گھناؤنااور غیر اخلاقی رویہ اختیار کرتے ہوئے پورے زوروشورسے یہ باورکرانے کی کوشش کی کہ مدھیہ پردیش کی پولیس نے آٹھ دہشت گردوںکومارگرایا،حالاں کہ گوان پرمتعددکیسز چل رہے تھے اوران میں دہشت گردی کابھی کیس تھا؛لیکن اب تک کوئی بھی الزام ثابت نہیں کیاجاسکاتھا،جمعیۃ علماے مہاراشٹر،جوان نوجوانوںمیں سے کئی کامقدمہ لڑرہی تھی،اس نے اپنے بیان میں واضح کیاکہ وہ جلد ہی بری ہونے والے تھے اوران کے خلاف کوئی متعلقہ الزام ثابت نہیں کیاجاسکاتھا۔اس واقعے پر ملک کے تمام باشعور اور سنجیدہ سیاست دانوں،دانشوروں ، صحافیوںاور سیاسی تجزیہ کاروںنے سخت تشویش کا اظہارکیا؛بلکہ سابق جج مارکنڈے کاٹجونے توان پولیس والوںکوسزاے موت دیے جانے کی بات کی، جو اس فرضی انکاؤنٹرمیں شامل تھے،پھراس واقعے کی ویڈیوزاور بعدمیں پولیس کنٹرول روم کی آڈیو(جس کوجانچ کے لیے سی آئی ڈی کے سپردکیاگیاہے)کے سامنے آنے کے بعدتواور بھی واضح ہوگیاکہ وہ انکاؤنٹرسراسرجعلی تھا،اس کے علاوہ مقتولین کے لباسوں،ایک ہی مقام پر سب کے نشان زدہونے اور ان کی جانب سے کیے جانے والے حملوںپرپولیس کے متضادبیانات نے بھی ایم پی پولیس کی ناکامی اور ساتھ ہی درندگی کی پول کھول کر رکھ دی ۔قومی سطح کے بیشتر سیاسی لیڈران نہ صرف اس فرضی تصادم کی مذمت کررہے ہیں؛بلکہ پورے واقعے کی عدالتی تفتیش کابھی مطالبہ کررہے ہیں،بوکھلاہٹ میں بی جے پی نے عجیب عجیب لطیفے بھی گڑھے،جن کا سوشل میڈیاپرجم کر مذاق اڑایاگیا،مثلاً یہ کہ ان قیدیوںنے لکڑی کی چابی سے سینٹرل جیل کاتالا کھول لیاتھااوریہ کہ انھوںنے چمچے،گلاس وغیرہ سے سیکورٹی گارڈپرحملہ کیاوغیرہ۔شروع میں توایم پی حکومت واقعے کے صرف اس پہلوکی جانچ کوتیارتھی کہ وہ قیدی کیسے فرار ہوئے؛لیکن متعددصوتی و مشاہداتی شواہدکے سامنے آنے کی وجہ سے چہارطرفہ مطالبوںکے بعداب اس نے انکاؤنٹرکی جانچ کابھی فیصلہ کیاہے اورخبرآرہی ہے کہ ہائی کورٹ کے سابق جج ایس کے پانڈے اس پورے معاملے کی تفتیش کریںگے۔
ویسے فرضی انکاؤنٹرآزادہندوستان میں کوئی انوکھاواقعہ نہیں ہے،ماضی میں گجرات،یوپی اور دہلی میں ایسے کئی فرضی انکاؤنٹرکانگریس اور بی جے پی دونوں سرکاروںمیں ہوچکے ہیں۔اب حالیہ واقعے کے رونماہونے کے بعدپھرسے فرضی انکاؤنٹراور پولیس کے کردارپر بحث مباحثہ شروع ہوگیاہے۔اس سے انکارنہیں کیاجاسکتاکہ بعض دفعہ پولیس کے پاس مجرم پر قابوپانے کے لیے ایک آخری چوائس انکاؤنٹرہی ہوتاہے؛لیکن اس سے زیادہ روشن حقیقت یہ ہے کہ عموماً پولیس انکاؤنٹرکے آپشن کواپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے وسیلے کے طورپراستعمال کرتی ہے،وہ توبھلاہوان گاؤںوالوںکا،جنھوںنے مذکورہ واقعے کی ویڈیوبنالی اور ایم پی پولیس کی سفاکیت کاکھیل سرعت کے ساتھ پورے ملک کے سامنے آگیا،ورنہ ملک کے مین اسٹریم میڈیانے توپولیس کی شاباشی اورتحسین و آفرین کاہی سلسلہ شروع کردیاتھااورچوںکہ وہ آٹھوںکے آٹھوںمسلمان تھے اور ان پر سیمی کے ارکان ہونے کابھی الزام تھا؛اس لیے لوگوںنے پولیس کی کہانی کوقبول کرنابھی شروع کردیاتھا۔معروف صحافی روش کمارنے این ڈی ٹی وی پراپنے’’پرائم ٹائم‘‘میں بھوپال کے فرضی انکاؤنٹرپر گفتگوکرتے ہوئے ایک معقول بات کہی کہ یہ مسئلہ مسلمان یاہندوکانہیں ہے،مسئلہ یہ ہے کہ کیااس طرح کے فرضی انکاؤنٹرپرپولیس کابروقت مؤاخذہ ہوناچاہیے یا نہیں؛ کیوںکہ بہت سے فرضی انکاؤنٹرمیںمسلمانوںکے علاوہ دوسرے لوگ بھی مارے جاتے رہے ہیں،پھرانھوںنے کئی مثالیں بھی پیش کیں۔البتہ اس زمینی حقیقت سے انکاربھی نہیں کیاجاسکتاکہ بہت بارپولیس تعصب کے تحت بھی ایساکرتی رہی ہے۔دراصل مسلمانوںکے تئیں ایک ایسی فضاتیارکرنے کی مسلسل کوشش کی جارہی ہے ،جس میں ان کاپولیس کے ذریعے پکڑاجانا،قیدکیاجا نااور پھر فرضی تصادم میں ماردیاجاناایک معمولی واقعہ بنتا جا رہاہے۔ایسالگتاہے کہ بیس سال پچیس سال تک دہشت گردی جیسے سنگین ترین الزام میںجیل میں بند رہنے کے بعدسپریم کورٹ کے ذریعے مسلم نوجوانوںکابری کیاجانابھی ہندوستانی حکومت کوکھٹکنے لگاہے؛اس لیے ایک مخصوص منصوبہ بندی کے تحت ایسے مسلم نوجوانوںکوجیل میں ہی ماردینے کاسلسلہ شروع کردیاگیاہے۔

(2)
ایک دوسراواقعہ قومی دارالسلطنت دہلی کی معروف ترین دانش گاہ جواہرلال یونیورسٹی کاہے،جہاں سے ایک طالب علم نجیب احمد22 دنوںسے لاپتا ہے، اس کی دستیابی کے تئیں جہاں یونیورسٹی انتظامیہ نے نہایت ہی غیر ذمے دارانہ اور شرمناک رویہ اختیارکیا،وہیں دہلی پولیس نے بھی اپنی فرض شناسی کا ثبوت نہیں دیا،جب جے این یوسمیت مختلف یونیورسٹیوںکے طلبہ کی جماعتیں اکٹھاہوئیں،انھوںنے پرزورطریقے سے احتجاج کیااور مغوی طالب علم کی بازیابی کے لیے حکومتِ ہنداور دہلی پولیس کوباربارکچوکے لگائے،تب جاکروزارتِ داخلہ کچھ حرکت میں آئی اور دہلی پولیس نے بھی معاملے کوسنجیدگی سے لیا۔ویسے اتنے دن گزرنے اورمختلف سطحوںپرکوششوںکے باوجوداس طالب علم کاتاہنوزکوئی سراغ نہ لگ پانابذاتِ خودایک تشویش ناک امرہے،حیرت ہے کہ اس سلسلے میں پولیس نے ان طلبہ سے پوچھ تاچھ تک نہیں کی،جن کے ساتھ غائب ہونے سے پہلے نجیب کی کہاسنی ہوئی تھی،انھوںنے اس وقت بھی اسے مارا تھا؛ بلکہ جان سے مارنے کی بھی دھمکی دی تھی،یہ بھی ذہن میں رہناچاہیے کہ وہ سارے طلبہ آرایس ایس-بی جے پی کے طلبہ ونگ اے بی وی پی سے تعلق رکھنے والے تھے۔جے این یواسٹوڈینڈ یونین اوروہاں کے طلبہ کی مسلسل کوششوںکے بعداب چوٹی کے سیاست داں بھی اس معاملے سے دلچسپی لے رہے ہیں، نجیب احمدکی والدہ نے دہلی کے وزیر اعلیٰ اروندکیجریوال سے ملاقات کرکے بھی اپنے بیٹے کی بازیابی کی اپیل کی تھی،اس کے بعد جمعرات کوکیجریوال اوران کے علاوہ کانگریس کے بڑے لیڈران ششی تھرور،منی شنکرایئراورسی پی ایم کے لیڈران بھی جے این یوکیمپس پہنچے ،کیجریوال نے وہاں اپنی گفتگومیں مددکی یقین دہانی کراتے ہوئے طلبہ سے کہاکہ آپ اس احتجاج کوباہرلے کر چلیے،بی جے پی پرانھوںنے کٹیلے طنزبھی کیے۔سیاست داں کیاکہہ رہے ہیں،اس سے قطعِ نظراصل چیزیہ ہے کہ مذکورہ طالبِ علم کی دستیابی کویقینی بنایاجائے،یونیورسٹیوںکے طلبہ تواس معاملے میں اپنی ساری کوششیں صرف کررہے ہیں، مگراس کے ساتھ ساتھ سماجی تنظیموںکواورخاص طورسے مسلمانوںکے نمایندہ اداروںکوبھی ایک دردکی ماری ہوئی ماںکی مددکے کے لیے آگے بڑھناچاہیے ، اس سلسلے میں ایک خبر پر نظرپڑی کہ نجیب کے اہلِ خانہ موجودہ حکومت اور دہلی پولیس کی غیرسنجیدگی اوربے رخی سے تونالاںہیں ہی،مگرانھیں اس بات کابھی قلق ہے کہ مسلم تنظیمیں ان کی ہم آوازنہیں ہورہیں۔بظاہریہ ایک طالبِ علم کاواقعہ ہے؛لیکن اگر اس معاملے میں سنجیدہ اور مطلوبہ اقدامات نہ کیے گئے، تو پھر آیندہ کسی بھی تعلیمی ادارے کاکوئی بھی طالب علم محفوظ نہیں ہوگا،یہ حادثہ آیندہ پیش آنے والے ممکنہ حادثوںکاپیش خیمہ ثابت ہوگا۔پھریہ کہ جس فکراورنظریاتی نرگسیت کے تحت اسے انجام دیاگیاہے،اس کی وجہ سے بھی اس طالب علم کی بازیابی کے لیے ہر باشعور،جمہوریت پسندانسان کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، ایک ماںکادرداور اس کی آنکھوںسے جاری سیلِ اشک بھی انسانی ہمدردی کا تقاضاکرتے ہیں۔حکومت اور پولیس پرجب تک مؤثردباؤنہیں ڈالاجائے گا، ان کومعاملے کی حساسیت کی سمجھ نہیں آئے گی۔
(3)
تیسراواقعہ معروف نیوزچینل این ڈی ٹی وی پرسرکاری عتاب کانازل ہوناہے،اسی سال جنوری میں رونماہوئے پٹھان کوٹ حادثے کی کوریج میں غیر سنجیدگی کامظاہرہ کرنے اور بعض حساس معلومات کونشرکرنے کے الزام میں چینل کوایک دن کے لیے(9نومبرکو) اپنی نشریات بندکرنے کاحکم دیاگیاہے،اس سے بھی قومی سطح پراُبال ساپیداہوگیاہے،انفارمیشن اینڈبراڈکاسٹنگ منسٹری کی جانب سے بھیجی گئی نوٹس کے جواب میں این ڈی ٹی وی کی جانب سے حیرت کااظہار کرتے ہوئے کہاگیاہے کہ مذکورہ حادثے پرہمارے چینل کی کوریج بھی دیگر چینلوںہی کی طرح تھی؛بلکہ بہت حد تک ان سے بھی متوازن اور معتدل تھی ،اس کے باوجودایک دن نشریات روکنے کافرمان ایمرجنسی کے دنوںکی یادتازہ کراتا ہے،جب پریس کوبیڑیوںمیں جکڑدیاگیاتھا۔جمعہ کوروش کمارنے اپناپرائم ٹائم بھی غیر روایتی اندازمیں پیش کیا،انھوںنے خاموش اداکاروںکوبلاکرعلامتی اندازمیں نہ صرف یہ کہ حکومت کے نوٹس پرطنزکیا؛بلکہ ساتھ ہی یہ سوال بھی کیاکہ اگر میڈیاحکومت سے سوال نہ کرے،اس کی حصول یابیوںکی کھوج اور خامیوںکی نشان دہی نہ کرے تووہ کیاکرے۔ایسااندازہ لگایا جا رہا ہے کہ چوںکہ این ڈی ٹی وی واحد ایسا چینل ہے،جودوسرے نیوزچینلوںکے برخلاف مودی حکومت اور اس کی خامیوںکی نشان دہی کرتا رہا ہے، خاص طورسے اس کے اینکرروش کمارکی غیر جانب دارانہ و بے باکانہ روش سے حکومت کوخطرہ محسوس ہورہاہے،اسی لیے اس چینل پرلگام کسنے کے لیے ایک حربہ اختیارکیاگیاہے،دوسری طرف اس فیصلے کی نیشنل پیمانے پر پر زور مخالفت ہورہی ہے،جتنے بڑے بڑے صحافی ہیں،سبھوںنے اس فیصلے کوغیر منصفانہ اور جابرانہ قراردیاہے،ایڈیٹرزگلڈاین ڈی ٹی وی کی حمایت میں ہے،اروندکیجریوال نے تمام چینلوںسے اپیل کی ہے کہ وہ این ڈی ٹی وی اظہارِ یکجہتی کریں اور آنے والی9تاریخ کواپنے چینلوںکی نشریات بھی ملتوی کردیں؛کیوںکہ ہوسکتاہے آیندہ ان کے ساتھ بھی یہ حادثہ پیش آجائے،ممتابنرجی اور لالو پرشاد وغیرہ نے بھی اس فیصلے کوجابرانہ قراردیاہے۔ابھی دوتین دن پہلے روزنامہ انڈین ایکسپریس کے ذریعے منعقدکیے گئے ایک تقسیم انعامات کی تقریب میں خودمودی کی موجودگی میںاخبارکے چیف ایڈیٹرراج کمل جھانے بھی حکومت کوبہت ہی خوب صورت اندازمیں آئینہ دکھایاتھا،چھ سات منٹ کی اس تقریر کے دوران اسٹیج پرموجودمودی جی کے چہرے پر کئی رنگ آتے اور اڑتے ہوئے صاف دیکھے گئے۔
دراصل میڈیاہی مودی کی طاقت ہے،انھوں نے حکومت میں آنے کے بعدفوراًہی میڈیاکی لگام اپنے ہاتھ میں لینے کاسلسلہ شروع کیااورانھیں اب تک خاطرخواہ کامیابی بھی ملی ہے؛چنانچہ زیادہ ترنیوزچینل وہی دکھاتے ہیں،جوحکومت کی منشاہے؛لیکن اب بھی کچھ چینلز،کچھ اخبارایسے ہیںجواپنے پیشہ ورانہ رویے سے سمجھوتاکرنے کوتیارنہیں،توان کوخاموش کرنے کے وسائل بھی حکومت نے تلاش کرلیے ہیں۔
اس وقت ہندوستانی جمہوریت واقعی ایک عجیب و غریب دوراہے پر کھڑی ہے،حالات کی نزاکت متقاضی ہے کہ ہرہندوستانی جہاں تک ہوسکے اس کے دامن کودریدہ ہونے سے بچانے کی فکرکرے،اس کے لیے ایک راستہ وہ ہوسکتاہے،جسے ٹائمس آف انڈیاکے اکشے مکل نے اختیار کیا، انھوں نے مودی کے ہاتھ سے ایوارڈلینے سے منع کردیااوران کے آنے کی وجہ سے ’’رام ناتھ گوئنکاایوارڈفنکشن‘‘میں شریک نہیں ہوئے؛لیکن راج کمل جھااورروش کمارکاطریقہ زیادہ لائقِ تقلیدوتحسین ہے:
بول کہ لب آزادہیں تیرے
بول زباں اب تک تیری ہے
دیکھ کہ آہن گرکی دکاںمیں
تندہیں شعلے،سرخ ہے آہن
کھلنے لگے قفلوںکے دہانے
پھیلاہر اِک زنجیر کادامن
بول،یہ تھوڑاوقت بہت ہے
جسم و زباں کی موت سے پہلے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول،جوکچھ کہناہے کہہ لے!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔