بڑھتی جاتی ہے بے کلی کچھ سوچ

فوزیہ ربابؔ

بڑھتی جاتی ہے بے کلی کچھ سوچ

ہو گئی کیسی زندگی کچھ سوچ

چہرہ اتنا اداس کیوں کر ہے

کھو گئی کیوں شگفتگی کچھ سوچ

اس قدر نعمتوں کے بدلے میں

اتنی تھوڑی سی بندگی؟ کچھ سوچ

اے مرے جلد باز ٹھیر ذرا

آ یہاں بیٹھ دو گھڑی کچھ سوچ

جیل میں قید میرے سارے سکھ

ہو گئے دکھ سبھی بری کچھ سوچ

کیا یہی بات تھی ترے دل میں؟

کون کرتا ہے مخبری؟ کچھ سوچ

مل بھی جائیں یہاں تو حاصل کیا

زندگی تو ہے عارضی کچھ سوچ

میں کہاں تک تجھے مناؤں گی

ٹوٹ جاؤں نہ میں کبھی کچھ سوچ

میرے گھر میں نہیں ہے تو جب سے

کیوں ہے آباد بے گھری! کچھ سوچ

بن سنور کر بھی پھیکا پھیکا ہے

کتنی دل کش تھی سادگی کچھ سوچ

کچھ یقیناً سراغ پا لے گا

سوچ لے چاہے سرسری، کچھ سوچ

 شوق سے ساتھ چھوڑ دے لیکن

کیسے گزرے گی زندگی کچھ سوچ

 عشق کہتا ہے سوچنا کیسا

زور دیتی ہے آگہی کچھ سوچ

 اس طرح سے نہ کر نظر انداز

شاعری ہے ربابؔ کی کچھ سوچ

تبصرے بند ہیں۔