بھارت میں’’یکساں سول کوڈ ‘‘کا نفاذ: سیاسی سازش یا آمریت؟

رافد اُویس بٹ

بھارت کی سیاسی جدوجہد کی تاریخ اُٹھا کر دیکھیں تو جہد آزادی میں مسلمانوں کا بھی اُتنا ہی رول رہا ہے جتنا غیر مسلموں کارہا ہے۔مسلمانان ہند جہاں ایک طرف بھارت کی یکجہتی و سا لمیت کو برقرار رکھنے میں پیش پیش رہے وہیں دوسری طرف دین، شریعت، اسلامی تہذیب و ثقافت کو محفو ظ رکھنے کے لیے بھی کوشاں رہے ہیں۔اس ضمن میں مسلم رہنماوں نے مسلمانوں کے لیے قانون شریعت پر عمل کرنے کی آزادی کی خواہش ظاہر کی۔ علما دین کی جدو جہد سے 1937ء میں’’ شریعت ایپلی کیشن ایکٹ‘‘ بنا۔جس میں یہ بات تسلیم کی گئی کہ اگر ملک کی کسی بھی عدالت میں پرسنل لا سے متعلق کو ئی بھی مقدمہ دائر ہو جائے اور مقدمہ کے دونوں فریق مسلمان ہوں تو اُن پر شرعی قوانین کا اطلاق کیا جائے گا۔لیکن آزادی کے بعد ہی حکومت ہند نے مذکورہ ایکٹ کو کُریدنے کی کوششیں شروع کیں اور ’’یکساں سول کوڈ‘‘(Uniform Civil Code) کو نافذ کرنے کی کوششیں شروع ہوئیں۔ مگرمسلمانان ہند کی مجبوریاں رہی ہوں گی کہ فوری طور پراُس وقت حکومت کے اس ارادے کے خلاف کھل کرمخالفت نہ ہوسکی۔لیکن جب 1950ء میں ’’ہندوکوڈبل‘‘ پیش کیا گیا جس میں کہا گیا کہ ہندو قوانین میں جو ترمیم و اضافہ کیا جارہا ہے وہ عنقریب ہی ہندوستان کی پوری آبادی پر نافذ کیے جائیں گے۔مسلم پرسنل لا کے خلاف حکومت ہند کا رویہ اُس وقت صاف ظاہر ہوا جب 1963ء میں ’’مسلم پرسنل لا‘‘ میں اصلاح کے لیے ایک ’’کمیشن‘‘ تشکیل دیا گیااور عملی ثبوت کے طور پر 1972ء میں ’’متبنی بل‘‘(Adoption of Child Bill.1972)پیش کیا گیا۔اسی دوران مارچ 1973ء میں بنگلور میں لاکمیشن کے چیر مین مسٹر گجندر گڈکر(سابق جسٹس آف انڈیا) نے ’’یکساں سول کوڈ‘‘ پر تقریر کی جس میں کہا تھا’’اگر انھوں (مسلمان) نے خوش دلی کے ساتھ یہ تجویز منظور نہیں کی تو قوت کے ذریعہ یہ قانون نافذ کیا جائے گا‘‘۔حکومت کے اس منفی رویے کے ردعمل کے طور پر 7؍ اپریل 1973ء میں ’’مسلم پرسنل لا بورڈ‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ بورڈ کے قیام سے لے کر اب تک کسی نہ کسی نوع کا حملہ ’’پرسنل لا بورڈ‘‘ پر ہوتے رہے ہیں۔شروع سے ہی حکومت ہند کے خیر خواہ مسلم پرسنل لا کے خلاف اپنا رویہ ظاہر کرتے رہے اور’ مسلم پرسنل لا‘ میں ترمیم و اضافہ کے خواہاں رہے اور حتی المقدور کوششوں کے ذریعہ مسلم پرسنل لا کی شکل کو مسخ کرنے کی کوششیں کی گئیں۔
دستور ہند میں دو طرح کے قوانین ہیں۔ (1) کریمنل کوڈ/کریمنل لاز(/Criminal Laws Criminal Code) جس میں جرائم کی سزائیں مقرر ہیں اور قوانین بھارت کی پوری آبادی کے لیے یکساں ہیں۔ اس کو عملانے کے لیے رنگ و نسل اور مذہب کی بنیاد پر کسی بھی نوع کی تفریق نہیں برتی جاتی ہے۔(2) سول کوڈ/پرسنل لاز(Civil Code/Personal Laws) ۔اس قانون کے تحت وہ قوانین آتے ہیں جن کا تعلق معاشرتی، تمدنی اور معاملاتی مسائل سے ہوتا ہے۔اسی کا ایک حصہ جسے ’’پرسنل لا‘‘ کہتے ہیں۔جس کے تحت ہندوستان کی بعض اقلیتوں( جن میں مسلمان بھی شامل ہیں ) کو اُن کے مذاہب کے حوالے سے کئی اہم شعبوں میں مذہبی قوانین پر عمل کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ اس پرسنل لا کے تحت مسلمانوں کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ نکاح، طلاق، خلع مبارات، فسخ نکاح، عدت، نفقہ، وراثت، وصیت، ہبہ، ولایت، رضاعت، حضانت سے متعلق مقدمات اگر ہندوستان کی کسی سرکاری عدالت میں دائر کیے جائیں اور دونوں تفریق مسلمان ہوں تو سرکاری عدالتیں اسلامی شریعت کے مطابق ہی مذکورہ معاملات میں فیصلہ لے گی۔
بھارت کے آئین میں بنیادی حقوق کے زمرے میں دفعہ25اور 29شامل ہے جس کے تحت ہر مذہب کے ماننے والوں کو اُن کے ضمیر اور عقیدہ کی بنیاد پر آزادی مذہب کا حق حاصل ہے۔ نیز زبان، رسم الخط اور ثقافت کو محفوظ رکھنے کا حق بھی دیا گیا ہے۔ لیکن مذکورہ دفعہ کے ساتھ دفعہ44بھی جوڑ دیا گیا ہے، جس میں یکساں سول کوڈ کی بات کہی گئی ہے اور حکومت اس دفعہ کا سہارا لے کر ہمیشہ مسلم پرسنل لا کو مخدوش کرنے اور اس کو کریدنے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔
آج بھارت کی وہ زمین مسلمانوں کے لیے تنگ ہوتی جارہی ہے جس کی قربانیوں سے بھارت کی تاریخ بھری پڑی ہے۔ اُسی بھارت کو ہندو راشٹر بنانے کا خواب دیکھنے والے اپنی اپنی تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اذانوں پر پابندی، مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو منہدم کرنے کی سازشیں،مسلمانوں کے مذہبی رسومات پر پابندیاں عائد کرنے کی کوششیں،مسلمانوں سے بھارت ماتا کی جے بلوانے اور سوریہ نمسکار کرنے پر مجبور کرنا، پاکستان جانے کی دھمکیاں، مدارس کو دہشت گردی کی آماجگاہ بتانا، کسی لمبی داڑھی وا لے کو دہشت گرد سمجھنا، دعوت دین و حق کی تبلیغ و اشاعت کو شک کی نگاہوں سے دیکھنابی جے پی سرکار کے اہم خصائص میں شامل ہے۔لیکن اب صورتحال اس قدر سنگین ہوچکی ہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ پر حملہ کیا گیا ہے۔سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ اگر بھارت میں فرقہ پرستی اور قومی نفاق کو ہی ہوا دینا مقصود ہے تو پھر Communal Harmonyپر مہم چلانے کا کیا فائدہ ہے؟ مسلم پرسنل لا کا مسئلہ ہو یا پھر کوئی اور مسلمان اپنے مذہب، اپنی اسلامی تہذیب ، شریعہ اور اپنی زبان و تعلیم سے کسی بھی قیمت پر سمجھوتہ کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔اب نا ہی یہ کوئی فرقہ پرستی ہے اور نا ہی کوئی Antinational Activity ۔۔۔بھارت مسلمانان ہند کی جہد آزادی کے لیے دی گئی قربانیوں سے چشم پوشی تو کرتا ہی ہے لیکن ساتھ ہی اُنھیں قوم دشمن ، ملکی سا لمیت کے لیے خطرہ اور ملکی ترقی میں روکاوٹ ڈالنے تک کے لیے ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مودی حکومت کو مسلمانوں کی ملکی دوستی، آپسی بھائی چارے اور Communal Harmonyکا ثبوت دینے کے لیے نئے نئے پیمانے ترشنا پڑتے ہیں۔نتیجتاً اب کی بار’’یکساں سول کوڈ‘‘ کا پینترا آزمایا جائے گا۔
لا کمیشن کے ذریعے ’’یکساں سول کوڈ‘‘ کے مسئلہ پر 16 سوالات پر مشتمل ایک سوالنامہ جاری کیا گیا ہے۔ جس میں بھارت کے تمام مذہبی طبقات اور ثقافتی گروہوں سے رائے طلب کی گئی ہے۔ لاکمیشن کی طرف سے ایک اپیل بھی کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس کاروائی کامقصد سماج کے اُن کمزور طبقوں(خصوصاً عورتوں کو) کو انصاف دلوانا ہے جو تعصب کا شکار ہیں۔ جس میں تین طلاق، تعداد ازدواج اور نفقہ مطلقہ کا مسئلہ شامل ہے۔ اس سوالنامہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پر سنل لا سماجی نا انصافی اور صنفی امتیازات پیدا کرتے ہیں اور انھوں نے عورتوں کے ساتھ ناانصافی برت کر اُن سے اُن کے حقوق چھین لیے ہیں۔ اور اب لاکمیشن پرسنل لاز پر نظر ثانی کرنا چاہتا ہے۔
بھارت عورتوں کے کن حقوق کی بات کرتا ہے؟ کس نوع کی ناانصافی کی بات کرتا ہے؟کس طرح کے صنفی امتیازات پیدا کرنے کی بات کرتا ہے؟ بھارت ایک ایسا ملک ہے جہاںرحم مادر میں لڑکیوں کے قتل نے کئی دہائیوں سے بھارتی سماج اور ثقافتی تانے بانے کا شیرازہ بکھر کر رکھ دیا ہے۔امریکی اخبار’’ہفنگٹن پوسٹ‘‘ میں شائع ہوئے ایک تحقیقاتی مضمون سے پتا چلتا ہے کہ گذشتہ 30سے 40سالوں میں لاکھوں لڑکیاں بھارتی سماج سے غائب کر دی گئیں۔ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق 6سال سے کم عمر لڑکیوں کی تعداد انتہائی کم ہو گئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت میںگذشتہ ایک عشرے میں 80لاکھ لڑکیوں کو دنیا میں آنے سے قبل ہی قتل کر دیا گیا ہے۔ماہرین کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میںگذشتہ صدی میں 5کروڑ لڑکیوں کو رحم مادر میں ہی قتل کر دیا گیا ہے۔UNESCOکی ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ 20سالوں کے درمیان مختلف طریقوں سے 10ملین بیٹیوں کو قبل از پیدائش یا بعد از پیدائش قتل کیا گیا ہے۔حال ہی میں یہ انکشاف سامنے آیا کہ بھارت میں جنس کے تعئین کے بعد روزانہ 2000بیٹیاں پیدا ہونے سے پہلے اسقاط حمل کے ذریعے ضائع کر دی جاتی ہیں۔ کیا یہ عورت ذات سے نا انصافی نہیں ہے؟ کیا اسے صنفی امتیاز نہیں کہہ سکتے؟کیا یہ عورتوں کے حقوق کی پائمالی نہیں ہے؟ اگر بھارت ’’یکساں سول کوڈ‘‘ کو ملکی ترقی کا نام دیتا ہے تو 2011ء کی مردم شماری کے مطابق 6 تا 8سال تک کی لڑکیوں کی آبادی میں غیر ملکی اعتبار سے 72لاکھ کا فرق کیوں بتایا جارہا ہے۔کیا رحم مادر میں لڑکیوں کے قتل کو روکنا ملکی ترقی میں شامل نہیں ہے؟ اب اگر بھارت میں عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی، ناانصافی، حقوق کی پائمالی کاکچا چٹھا کھولا جائے تونیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی ایک مطالعاتی رپورٹ کے مطابق بھارت میں ہونے والی جنسی زیادتیوں کی 86فی صد وارداتوں میں متاثرہ خواتین کے رشتے دار، پڑوسی، دفاتر میں کام کرنے والے یا پھر اُن کے افسران ملوث ہوتے ہیں۔ کیا ایسے افراد کی اس ذہنی گندگی کو دور کرنا ملکی ترقی میں شامل نہیں ہے؟ گذشتہ ایک ڈیڑھ دہائی کے دوران بھارت میں خواتین پر تشدد، زیادتی، اغوا اور شوہروں کے ظلم کا نشانہ بنانے کی3 لاکھ 70ہزار سے زائد شکایتیں درج کرائی گئی ہیں۔ جس میںاب 9فی صد اضافہ بھی ہوا ہے۔ اگر ملکی ترقی مقصود ہے تو اس طرح کی شکایات میں 9فی صد کا اضافہ کیسے ہوا؟سرکاری ریکارڈ کے مطابق سال 2014ء میںبھارت میںزنا بالجبر کی 33707شکایتیں درج کرائی گئیں۔ بھارت کے دارلحکومت نئی دہلی میں سب سے زیادہ 1813 واقعات درج ہوئے اور ممبئی 607 واقعات کے ساتھ دوسرے نمبر پر تھا۔ تحقیق کے مطابق بھارت میں جنسی زیادتیوں کا نشانہ بننے والی 14102(تقریبا 38فی صد) خواتین ایسی تھیں جن کی عمر واردات کے وقت 18سال سے بھی کم تھی۔ دہلی میں خواتین کی تعداد 90لاکھ 80ہزار ہے اور اس حساب سے 2015ء میں یہاں عصمت دری کے مقدمات کی شرح 24فی صد رہی۔ مدھیہ پردیش میں 2015ء میں سب سے زیادہ 4335مقدمات درج ہوئے ہیں۔کیا اس سب کے لیے بھی مسلم پرسنل لا بورڈ ذمہ دار ہے؟ مسلم پرسنل لاپر نظر ثانی کرنے سے قبل اُن معصوم لڑکیوں کو انصاف دلانے کی بات کیجیے جن کے مقدمات دھول چاٹ رہے ہیں۔مسلم پرسنل لا میں اصلاح کرنے سے پہلے بھارت میں عورت پر ہوئے تشدد،زیادتی، عصمت دری اور رحم مادر میں پلنے والی بیٹی کے قتل کے خلاف ٹھوس اقدامات اور بنے بنائے قوانین کو نافذ کیا جائے۔
یکساں سول کوڈ بھارتی سا لمیت کے پیروں پر کلہاڑی کے مترادف ہے۔ حکومت اس طرح کے اختلافی مسائل کو اُبھار کر ایک طرف سماج میں انتشار پیدا کر تی ہے اور دوسری طرف اُ ن مسائل سے توجہ ہٹا دینا چاہتی ہے جن کی طرف دھیان وقت کی ضرورت بھی ہے اور اصل مقصد بھی۔ یکساںسول کوڈ کے نفاذ سے نہ صرف فرقہ وارانہ فسادات، امن دشمنی اور تہذیبی و ثقافتی انتشار پیدا ہوگا بلکہ ملکی سا لمیت و یکجہتی کو بھی ٹھیس پہنچے گی۔
پرسنل لا بورڈ اُس وقت قائم ہوا جب آئین ہند تیار کرتے وقت ملک کے عظیم رہنماوں نے ملک کی تمام عوام کو مکمل مذہبی آزادی کا حق دیا ہے۔ جس کی بنیاد پر تمام مذاہب کے لوگوں کو اپنے مذہبی عقائد اور رسم و رواج کے مطابق عمل کرنے اور زندگی گذارنے کا مکمل اختیار دیا گیا ہے۔ یکساں سول کو ڈکا نفاذ ملک کی اقلیتوں کو اُن کے آئینی حقوق سے محروم کر دینے کے مترادف ہے ۔ یہ بھی ایک طرح کا مزاق ہی ہے کہ پہلے مذہب اور عقائد کی آزادی دے دی جائے پھر یکساں سول کوڈ کے ذریعے وہ آزادی چھین لی جائے۔مودی سرکار بھارت میں یکساں سول کوڈ کو نافذ کر کے ملکی اتحاد کو ختم کر دینا چاہتی ہے۔
اب وقت آیا ہے کہ مسلمانان ہند اپنے سچے مسلمان ہونے کا ثبوت دیں۔ بھائی چارے، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کے ثبوت بہت دیئے۔ اب دین و شریعت ، اسلامی تہذیب و ثقافت اور اسلامی قوانین کے تحفظ کے لیے اُٹھ کھڑا ہونا ہے۔کیوں چند مذہبی رسومات کا پابند ہونے کا نام مسلمان نہیں ہے۔ بلکہ زندگی کے تمام معاملات میں قانون الہی نافذ کرنا اصل مقصد ہے ۔اگر یکساں سول کوڈ نافذ ہو گیا تو شرعی قوانین کے عمل دخل کا سلسلہ بند ہوگا ۔لہٰذا اس کے لیے جدوجہد کرنامسلمانوں کا دینی فریضہ بھی ہے اور اپنے مذہب کی حفاظت کرنا ہمارا آئینی حق بھی ہے۔اس کے لیے پوری اُمت مسلمہ اپنے تما تر مسلکی و جماعتی اختلافات بھلا کر متحد ہوکر حکومت کے اس ارادے کی بھر پور مزمت کرے۔
اس وقت مودی حکومت کے سرپریکساں سول کوڈکا بھوت سوار ہو چکا ہے۔جس کو میڈیا کے ذریعے بڑھا چڑھا کر مزید اُچھالا جا رہا ہے۔مودی حکومت اس بات سے با خبر ہے کہ یکساں سول کوڈ کا مسئلہ چھیڑ کر مسلمان اس کے خلاف متحد ہوکر جم کر اس کی مخالفت کریں گے اور بی جے پی کو ہندوؤں کی پارٹی کا Tagمل جائے گا۔ ساتھ ہی ہندوں بی جے پی کو ہندوؤں کی خیر خواہ سمجھے گے ۔ کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ ملک میں اکثریت ہندوؤں کی ہے۔رہی سہی کسر سرجیکل اسٹرائیک کے اعلان نامے نے پوری کر دی ۔اس اعلان نامے میں بھی مودی حکومت نے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی ہے۔اول یہ کہ بھارتی عوام کو پاکستان کے خلاف بھڑکایااور ساری ہمدردی اپنے بخیے میں ڈالتی گئی۔ دوم یہ کہ سرجیکل اسٹرائیک کے اعلان نامے پر جس Nationalistنے ثبوت مانگے تو اُنھیں Anti-Nationalقرار دے کر اس واقعے کو پوری طرح سیاسی رنگ میں رنگ دیا گیا۔یہ سارا کھیل اس لیے کھیلا گیا کہ ہندوؤں کے جذبات مودی حکومت کا ساتھ دیں کیوں ہندوں اکثریت میں ہیں اور ووٹ بھی اُسی طبقے کے پاس زیادہ ہوتے ہیں جس کی اکثریت ہوتی ہے۔ اب شاید اس کھیل میں مودی حکومت کو کہیں جھول نظر آیا تو اس میں مزید تڑکا لگانے کے لیے یکساں سول کوڈ کا مسئلہ کھڑا کر کے مسلم عورتوں کو انصاف دلانے کا دعوا کر دیا گیا۔ جس کا مقصد صرف اور صرف یہی ہے کہ مسلمان مودی حکومت کے خلاف صف آرا ہو جائیں گے اور رد عمل میں ہندو خود ہی مودی حکومت کی طرف چلے جائیں گے۔
اب یکساں سول کوڈ کی مخالفت کرتے ہوئے مسلم پر سنل لا بورڈ نے ایک دستخطی مہم شروع کی جو کہ تین نکات پر مشتمل ہے۔ اس میں جوتین نکات شامل ہیں وہ ہیں:
(1) ہم اسلامی شریعت کے تمام احکام سے خصوصاً نکاح، طلاق، خلع، فسخ نکاح،وراثت کے دینی احکام سے پوری طرح مطمئن ہیں اور ان میں کسی طرح کی تبدیلی کی ضرورت یا گنجائش سے انکار ہے۔
(2) بھارت میں ہر مذہب کے ماننے والے کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی پوری آزادی آئین ہند نے دی ہے اس لیے ہمیں کسی بھی صورت میں یکساں سول کوڈ قبول نہیں ہے۔
(3) ہم قانون شریعت کی حفاظت میں آل انڈیا مسلم پر سنل لا بورڈ کے ساتھ ہیں۔
لاکمیشن نے یہ سولنامہ اس لیے جاری کیا کیوں کہ ملک میں ہندووں کی تعداد زیادہ ہے ۔لہٰذا زیادہ جواب یکساں سول کوڈ کے حق میں ہی ہوں گے۔پھر حکومت اسے اکثریت کی رائے بتا کر یکساں سول کوڈ نافذ کر دے گی۔لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ بہ شمول پرسنل لا بورڈ تمام مسلم جماعتیں، جمعیت علمائے ہند، جماعت اسلامیہ ہند، مسلم مجلس مشاورت، ملی کونسل، مرکزی جمعیت اہل حدیث نیز تمام مسالک نے لا کمیشن کے اس سوالنامے کو مسترد کیا۔قانونِ شریعت انسانی ذہنوں کی ایجاد نہیں ہے جس میں اضافہ یا ترمیم کا امکان یا گنجائش باقی رہے۔اسلام نام ہے اللہ و رسولﷺکے ارشادات پرسر خم تسلیم کرنے کا۔لہٰذا اس میںکسی اضافے یا ترمیم یا پھر اصلاح و نظر ثانی کی گنجائش باقی نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ بھارت میں موجود تمام جماعتوں اور اُن کے رہنماوںنے یک زبان ہو کرمودی حکومت کے اس ارادے کی مخالفت کی ہے۔جس میں شیعہ و سنی، دیوبندی و بریلوی، اہل حدیث و جماعت اسلامیہ اور جمعیت علماہند وغیرہ سب شامل ہیں۔وقت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ مسلمانان ہندبغیر کسی مسلکی تعصب کے اپنے وجود کی بقا کی حفاظت کے لیے متحد ہو جائیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔