توہمات ،بد شگونیاں اور اسلامی تعلیمات

مفتی محمد صاد ق حسین قاسمی

اسلام نے اپنی آمد کے ساتھ ہی عقائد کی خرابیوں میں مبتلا انسانوں کو صاف ستھرا عقیدہ عطاکیا ،غیر اللہ کے خیر وشر اور نفع و نقصان کے مالک ہونے کی تردید فرمائی ، کفر و شرک اور توہمات کے دلدل میں پھنسی انسانیت کو پیاری تعلیمات سے نوازااور عقیدہ ٔ توحید کی عظمت کو دل و دماغ میں جاگزین کیا ،تمام سے ہٹا کر اللہ تعالی کی ذات سے جوڑا ۔اسلام کے آنے سے پہلے لوگ مختلف قسم کی بد عقید گیوں اور طرح طرح کے خرافات مین مبتلاتھے ،بد شگونی لینا ،پرندوں کے ذریعہ فال نکالنا،پتھروں اور چیزوں سے فائدہ ونقصا ن کو منسوب کرنا ،ستاروں کو دیکھ کر اچھائی اور برائی کے فیصلے کرنا ،جانوروں کے ذریعہ بدگمان ہونا ،اس طرح کی بے شمار خرابیاں اس معاشرہ میں پائی جاتی تھی اسلام نے ان تمام کا قلع قمع کیا اور اپنی پیاری اور نرالی تعلیمات دیں جس میں کسی قسم کی بھی بدگمانی اور وہم و بدشگونی کی کوئی گنجائش نہیں۔اسلام سے پہلے لوگ جن توہمات میں پڑے تھے اس پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں :
طیرۃ:
طیرۃ بدشگونی اور بدفالی کو کہتے ہیں کہ انسان کسی چیز کے بارے میں بد گمانی اختیار کرے اور اس بدفالی کاتصور لے ،زمانہ جاہلیت مین اس کا بڑا رواج تھا ،لوگ معمولی باتوں سے بد شگونی لیاکرتے تھے ،اگر انہیں کہیں جانا ہوتا تو پرندہ کو اڑاتے اگر وہ دائیں جانب جاتا تو اچھا سمجھتے اور اگر وہ بائیں رخ پر اڑے تو نامناسب تصور کرکے سفر سے گریز کرتے ،اسی طرح تیروں سے فال نکالتے اور خیر و شر کے فیصلے کرتے ۔
عدوی :
زمانہ جاہلیت کے توہمات میں ایک عدوی بھی تھا یعنی ایک کی بیماری کے دوسرے کو لگ جانے کا وہم ،اور یہ اس درجہ ان میں بیٹھا ہوا تھا کہ ان کے یہاں بیمار ایک اچھوت بن کر رہ جاتا ،لوگ اس سے کنارہ کشی اختیار کرتے ،اور انتہائی اس کو منحوس و نامبارک سمجھاجاتا ۔
ھامۃ:
ھامۃ پرندہ کو کہتے ہیں ،الو پرندہ کو منحوس سمجھنے کا مزاج بھی دور جاہلیت میں پایا جاتا تھا ،اور ان کا خیال تھا کہ جب کوئی آدمی قتل کردیا جاتا ہے تو اس کی کھوپڑی سے ایک جانور نکلتا ہے جس کو ھامۃ کہاجاتا اور وہ ان سے فریاد کرتا ہے کہ مجھے پانی دو ،اور جب تک قاتل کو قتل نہیں کیا جاتا ہے وہ اسی طرح فریاد کرتے رہتا ہے ۔
نوء:
زمانہ جاہلیت کی توہمات اور خرافات میں ایک نوء بھی ہے ،نوء ستارہ کی منزل کو کہتے ہیں ،زمانہ جاہلیت میں لوگوں کا اعتقاد تھاکہ ستارہ اگر فلاں منزل میں ہوگا تو بارش ہوگی اور اگرستارہ اس کے علاوہ منزل میں ہوتو بارش نہیں ہوگی ،گویا بارش کے ہونے یا نہ ہونے میں اصل کردار ان کے وہم کے مطابق ستارہ کی گردش تھی ۔
غول :
جاہلی دور کے توہمات میں ایک غول بھی ہے۔غول جنات و شیاطین کی جنس کو کہتے ہیں ،لوگوں کا اعتقاد تھا کہ شیطانی غو ل انسانوں کو جنگل میں مختلف صورتوں میں دکھائی دیتے ہیں ،اور ان کو راستہ بھلا دیتے ہیںا ور ہلاک کردیتے ہیں ۔( مستفاد از مرقاۃ شرح مشکوٰۃ:8/329)
صفر:
زمانۂ جاہلیت میں لوگ ماہ صفر کے متعلق بھی بہت ساری باتوں کو منسوب کر رکھے تھے ،اور مختلف وجوہ سے اس کو منحوس سمجھتے ،صفرپیٹ کے کیڑے کو قرار دیدتے،صفر کے بارے میں گمان تھا کہ پیٹ میں ایک سانپ ہے جو بھوک کے وقت ڈستا ہے۔اور بڑی بات یہ تھی کہ اکثر صفر کے معاملہ میں تقدیم و تاخیر کیا کرتے۔نبی ﷺ نے ان تمام توہمات کی تردیدکرتے ہوئے فرمایا ولا صفر( ۔(بذل المجہود 16/243 بیروت)
یہ تمام باطل ہیں:
نبی کریم ﷺ نے ان تمام توہمات کو باطل قرار دیا اور مختلف ارشادات میں ا س کی حقیقت کو واضح کیا اور فرمایا کہ: فرمایا کہ :ولا عدوی ولاطیرۃ ولاھامۃ ولا صفر(بخاری:5343)یعنی مرض کی تعدی کوئی چیز نہیں ہے ،نہ ہی بد فا لی کو ئی چیز ہے،نہ الو کی نحوست کو ئی چیز ہے، اور نہ صفر کے مہینہ کی نحوست کوئی چیز ہے۔آپ ﷺ نے بہت اہتمام کے سا تھ ان کے تمام باطل عقائد اور جاہلانہ تصورات کو ختم فرمایا اور توہمات کے دلدل میں پھنسی انسانیت کوپاک اور صاف تعلیمات سے نوازا۔قرآن کریم نے بدشگونی لینے کو فرعونی خصلت قرارد یا ہے،فرعون اور اس کے ماننے والوں نے جب حضرت موسی ٰ ؑ کے پیغام کو قبول نہیں کیا اور سرکشی و بغاوت پر آمادہ رہے تو اس کی وجہ ان پر جو عذاب و مصائب آتے وہ ان کو حضرت موسی کی طرف منسوب کرتے اور جوکچھ بھلائی اور اچھائی نصیب ہوتی اس کو اپنا کمال اوراپنی طرف نسبت کرتے ۔چناں چہ ارشاد ہے کہ:فاذا جاء تھم الحسنۃ قالوا لنا ھذہ وان تصبھم سیئۃ یطیروابموسی ومن معہ۔(الانفال : 131)( مگر) نتیجہ یہ ہوا کہ اگر ان پر خوش حالی آتی تو کہتے یہ تو ہمارا حق تھا اور ان پر کوئی مصیبت پڑ جاتی تو اس کو موسی اور ان کے ساتھیوں کی نحوست قرار دیتے ۔ارے (یہ تو) خود ان کی نحوست ( تھی جو) اللہ کے علم میں تھی ۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ : بدشگونی لینا شرک ہے ،یہ بات تین مرتبہ فرمائی ،اور ہم میں سے جو بھی شخص ایسا ہوتا ہے تو اللہ تعالی اس کو اس پر بھروسہ اور اعتماد کرنے سے روک دیتا ہے ۔( ترمذی :1537)
دور فاروقی ؓکا واقعہ :
اسلام نے توہم پرستی کا خاتمہ کیا اور جو چیزیں زمانہ جاہلیت کی پیداوار تھیں ان تما م کو باطل کردیا ۔حضرت عمر ؓ کے دور خلافت میں ایک واقعہ پیش آیا۔مصر میں زمانہ جاہلیت سے یہ تصور اور توہم پایا جاتا تھاکہ سال میں ایک مرتبہ دریا ئے نیل میں ایک کنواری خوبصورت لڑکی کو دریا میں ڈا ل دیا جاتا تھا ،اس عمل کو وہ اسی لئے انجام دیتے کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو دریا ئے نیل ٹھہر جاتا اور پانی ختم ہوجاتا ،اس وجہ سے ان کا اعتقاد بھی اس میں مضبوط ہو گیا ،جب اسلام اس سر زمین پر بھی پہنچا اورحضرت عمر وبن العاص گورنر مقرر کئے گئے تو یہی صورت حال پیش آئی ،لوگ آپ کے پاس جمع ہوگئی اور اپنی سابقہ روایات کوذکر کیا ،حضر ت عمر و بن العاص نے صاف کہہ دیا کہ یہ تو اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے ایسا نہیں کیا جائے گا ،پھر آپ نے امیر المؤمنین حضرت عمر ؓ کو ایک خط لکھا اور حالات سے واقف کروایا ۔حضرت عمر ؓ نے ایک چھٹی لکھی اور کہا کہ اسے دریا ئے نیل میں ڈال دیں۔حضرت عمر وبن العاص نے اس چھٹی کو دریا ئے نیل میں ڈال دیا ،پانی پوری روانی کے ساتھ بہنا شروع ہوگیا اور سارے لوگ حیران تھے ۔اس چھٹی میں حضرت عمر فاروق ؓ نے لکھا تھاکہ :یہ اللہ کے بندے عمر کی طرف سے دریائے نیل کے نام :امابعد! اگر تو (ائے دریا ئے نیل ) اپنے طرف سے جاری ہوتا تھا مت ہو اور اگر اللہ واحد قہار نے تجھ کو جاری کیا تو ہم اسی سے سوال کرتے ہیں کہ وہ تجھ کو جاکردے ۔( تاریخ الخلفاء للسیوطیؒ:114)زمانہ جاہلیت کے ایک غلط دستور اور رواج کا نہ صرف خاتمہ فرمایا بلکہ اسلام کی حقانیت اور اللہ تعالی کی فعالیت کو واضح فرمایا ۔
توہمات ِ ماہ صفر :
ماہ صفر کے بارے میں طرح طرح کے توہمات اور بدشگونیاں زمانہ جاہلیت میں پائی جاتی تھی اور موجودہ دور میں ایک بڑی تعداد مسلمانوں کی وہ ہے وہ ماہ صفر کو نامبارک اور منحوس سمجھتی ہے او ر مختلف قسم کی واہیات اور توہمات کو اس سے جوڑتی ہے۔نبی کریم ﷺ نے اسی وقت ماہ صفر سے متعلق لایعنی اور فضول چہ میگوئیوں کو غلط قرار دیا اور اس کی بھی عظمت و اہمیت کو اجاگر کیا ۔اور نبی کریم ﷺ نے ان تمام توہمات اور باطل خیالا ت کی زبردست تردید فرمائی،اور قرآن و حدیث میں نحوست کے تصور کو ختم کیا گیا،اور ماہ ِ صفراور دیگر توہمات کے بارے میں خاص کر فرمایا کہ :ولا عدوی ولاطیرۃ ولاھامۃ ولا صفر(بخاری:5343)یعنی مرض کی تعدی کوئی چیز نہیں ہے ،نہ ہی بد فا لی کو ئی چیز ہے،نہ الو کی نحوست کو ئی چیز ہے، اور نہ صفر کے مہینہ کی نحوست کوئی چیز ہے۔ موجودہ دور میں بھی مسلمان اس مہینہ کو نامبارک اور منحوس سمجھتے ہیں،اور بہت سارے خوشی کے کاموں او رمسرت کی تقریبوں سے گریز کرتے ہیںجب کہ یہ تمام خلاف ِ دین چیزیں ہیں۔نحوست تو در اصل انسان کے اعمال میں ہے ۔اگر عمل اچھا ہو تویہ بلا شبہ انسان کا بہت ہی خوشی و مسرت کا دن ہے اور اگر عمل دین اور تعلیمات ِ دین کے خلاف ہو تو یہ اس کے لئے نامبارک اور وبال کا سبب ہوگا۔قرآن میں اللہ تعالی نے قوم عادکو عذاب دیئے جانے والے دن کے بارے میں کہا کہ انا ارسلنا علیہم ریحا صرا صرا فی یوم نحس مستمر(القمر:19)( ہم نے ایک مسلسل نحوست کے دن میں ان پر تیز آندھی والی ہواچھوڑدی تھی)۔علامہ قرطبی نے اس کی تفسیر میں فرمایاکہ:جیسے وہ منحوس ایام جن کا ذکر قرآن میں آیا ہے وہ قوم عاد کے کفار پر منحوس تھے نہ کہ ان کے نبی کے حق میں نہ ان پر ایمان رکھنے والوں کے حق میں۔(قرطبی :20/ 88 بیروت)
علامہ آلوسی نے یہ وضاحت بھی فرمادی کہ جس پر اللہ کا انعام ہو گا وہ دن کے لئے مبارک ہوگا،اور جس پر عذاب ہو گا وہ اس کے حق میں منحوس ،اور یہ مبارک و منحوس ہونا اوقات کی خصوصیا ت کی وجہ سے نہیں ہوگا جیسا کے لوگوں نے گمان کر رکھا ہے۔(روح المعانی:24/112 بیروت مفتی عبد الرحیم لاجپوری ؒ فرماتے ہیں کہ :واقع میں دن ،مہینہ ،یا تاریخ منحوس نہیں ہوتے ،نحوست تو بندوں کے اعمال وافعال پر منحصر ہے۔۔۔۔ماہ ِ صفر اور اس کے ابتدائی تیرہ دنوں کو منحوس سمجھ کر شادی منگنی(خطبہ)سفر وغیر ہ کامو سے رک جا نا سخت گناہ کا کام ہے۔( فتاوی رحیمیہ :2/67)ماہِ صفر کے پورے مہینہ کوتو منحوس سمجھا ہی جاتا ہے لیکن خاص کر ابتدائی تیرہ دنوں کو نہا یت منحوس قرار دیا جا تا ہے ، اور ان تیرہ دنوں میں آفتوں اور مصیبتوں کے اترنے کا تصور ذہن و دماغ میں پیوست ہے ۔ تیرہ تیزی کے عنوان سے بہت سارے خلاف شریعت کاموں کو انجام دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ بہت سے گھرانوں میں تیرہویں تا ریخ کو مخصوص چیزیں فقراء میں صدقہ کی جا تی ہیں اور سمجھا جا تا ہے اب بلا ئیں ٹل جائیں گی ،اور مصیبتیں دور ہوجائیں گی۔جب کہ یہ بھی خالصۃ مشرکانہ تصور ہے،اسلام میں اس کی بالکل بھی گنجائش نہیں ہے۔اسی طرح ماہ صفر کے آخری چہارشنبہ کو بھی بہت زیادہ جوش وخروش سے منایا جاتا ہے اور خیال یہ ہے کہ صفر کے آخری چہارشنبہ کو نبی کریم ﷺ بیماری سے صحت یاب ہوئے اور تفریح کی غرض سے ہریالی پر قدم رنجہ ہوئے ۔جب کہ حقائق اور تاریخی حوالوں کی روشنی میں یہ سراسر غلط ہے کیوں کہ صفر کے آخری ایام ہی سے آپ ﷺ کومرض شروع ہوا اور بیماری لاحق ہوئی اور اسی بیماری میں آپ ﷺ اس جہاں سے پردہ فرماگئے۔چناں چہ علامہ ابن کثیرؒنے لکھا ہے کہ : ماہ صفر کی دو راتیں باقی تھیں یا ربیع الاول کی ابتدا ء کہ رسول اللہ ﷺ کی بیماری شروع ہوئی۔( البدایہ والنہا یہ:8/26)تاریخ طبری (3/184 مصر)میں بھی یہی لکھا ہے ۔ابن حبا نؒ نے لکھا ہے کہ :سب سے پہلے جو رسول اللہؐ کو بیما ری کی شکا یت پیدا ہوئی وہ چہارشنبہ کا دن تھا ،جب کہ صفر کے مہینہ کے صرف دو دن باقی تھے۔(ثقات ابن ِ حبان :2/13۰ بحوالہ جواہر ِ شریعت2/345)ابن ہشام ؒ نے لکھا ہے کہ :آخر صفر یا شروع ربیع الاول میں رسول اللہ ﷺ کی وہ علالت شروع ہوئی جس میںآپؐ جوار ِ رحمت ِپروردگار کی طرف رحلت فرمائی۔( سیرت ابن ہشام:2/414)
موجودہ دور کے بعض توہمات:
زمانہ جاہلیت کی ذکر کردہ توہمات آج بھی ہمارے معاشرہ میں کسی نہ کسی انداز میں پائی جارہی ہیں ،صحیح علم سے دور ی اور قرآن وسنت کی تعلیمات سے ناواقفیت کی وجہ سے عوام ان بد اعتقادیوں اور خرابیوں میں مبتلا ہیں،عجیب عجیب قسم کی وہم پرستیاں پائی جاتی ہیں اور لوگ علم و تحقیق کے اس دور میں بھی اس بے دینی میں مبتلا ہیں۔بد فالی لینا،بدشگونی کرنا،چاند تاروں کی منزلوں سے یقین وابستہ رکھنا ،مر ض کے متعدی ہونے کا گمان رکھنا ،دنوں ،مہینوں اور تاریخ کو منحو س و نامبارک سمجھنا ،جانوروں اور پرندوں کی بولیوں اور آمد و رفت سے فیصلوں اور ارادوں کوتبدیل کردینا یہ تما م اور اس کے علاوہ بہت ساری توہمات موجودہیں جن میں سے بعض کا ذکر کیا جاتا ہے :عورتیں بہت سی اچھی چیزوں کو برا سمجھتی ہیں ،مثلا دنوں کومنحوس کہنا ،چناں چہ اکثر عورتیںبدھ کے دن کو منحوس سمجھتی ہیں اور غضب ہے کہ بعض مرد بھی اس عقیدہ میں ا ن کے شریک ہیں۔ایسا ہی عورتوں کا عقیدہ ہے کہ کسی دن کوا گھر میں بولے تو اس دن مہمان ضرور آتے ہیں ۔بعض لوگوں کا خیا ل ہے کہ جھاڑوماردینے سے مضروب علیہ( جس کو جھاڑوماردی جائے ) اس کا جسم سوکھ جاتا ہے ،جھاڑو پر تھتکاردو ،سو یہ بات محض بے اصل ہے ۔صبح سویرے گالی دینے ،ٹھوکر لگ جانے یا اور کوئی ضرر پہونچ جانے پر شام تک اسی طرح ہوتے رہنے کا شگون لینا بھی بے اصل اور خلاف شرع ہے ۔( اغلاط العوام :99)اسی طرح لوگ نجومیوں اور فال کھولنے والوں کے پاس بھی جاتے ہیں اور ان کی کہی ہوئی باتوں کو سچ سمجھ لیتے ہیں اور اسی کے مطابق عمل بھی کرتے ہیں جب کہ نبی کریم ﷺ نے اس سے سختی کے سا تھ منع کیا ہے ۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ :جو شخص نجومی کے پاس آئے اور اس سے کسی چیز کے بارے میں سوال کرے تو اس کی چالیس دن کی نماز قبول نہیں ہوتی۔(مسلم:4144) ایک جگہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ :جو کاہن یا نجومی یا جادو گر کے پاس آیا اور اس کی باتوں کی تصدیق کیا تو اس نیاس دین کا انکار کیا جو محمد (ﷺ ) پر نازل ہوا۔(بیہقی :15162)اسی طرح آج کل گھر کی تعمیر میںبعض مسلمان بھی ہندوانہ ذہن کے مطابق واستو پر بھروسہ رکھتے ہیں اور خیا ل ہے کہ اگر دروازہ یا کوئی اور چیز کسی جانب ہو گی تو نحوست اترے گی ،جب کہ یہ خیال بھی باطل ہے ۔کیوں کہ کسی چیز کے کسی سمت میں ہونے خیر و شر کے نازل ہونے ذریعہ نہیں ہوتا ۔واستو سے متعلق فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب فرماتے ہیں :واستو ہندوانہ توہمات میں سے ہے ،جس کی طرف کچھ دنوں سے لوگوں کی توجہ بڑھ گئی ہے ،واستو کی رعایت کا مقصد مکان کا نحس اور مضر پہلو سے اپنے آپ کو بچاناہے اسلام کسی چیز میں نحس کا قائل نہیں ہے ۔۔۔واستوپر عقید ہ رکھنا عقیدہ ٔ توحید کے مغائر اور اسلامی تعلیمات کے برخلاف ہے،نیز یہ ایک مشرکانہ تصور ہے ،شرعی اعتبار سے مکان میں صرف اس کی رعایت مطلوب ہے کہ بیت الخلا ء ایسانہ ہو کہ بیٹھنے والے کا چہرہ یا پشت قبلہ کی طرف پڑجائے ۔( کتا ب الفتاوی :1/405)
اسلامی تعلیمات:
اسلام نے روز اول ہی توحید خالص کی تعلیم دی اور انسانوں کو بتایا کہ خیر وشر ،نفع و نقصان کا مالک صرف اللہ تعالی ہے ،اسی کے ہاتھ میں عزت و ذلت ،کامیابی و ناکامی ہے ،وہی فیصلوں کو نازل کرتا ہے اور اسی کے اجازت اور حکم سے دنیا میں واقعات اور حالات رونماں ہوتے ہیں ،وہی چاہے تو انسان کی مراد پوری ہوگی اور اسی کے منشے اور مرضی سے آسانیا ں اور سہولتیں انسان کو نصیب ہوتی ہے ،قرآن کریم میں اس عقیدہ کی تعلیم جابجا دی گئی ۔ارشاد ہے کہ:قل لن یصیبنا الا ماکتب اللہ لناھو مولناوعلی اللہ فلیتوکل المؤمنون۔( التوبۃ:51)کہہ دو کہ:اللہ نے ہمارے مقدر میں جو تکلیف لکھ دی ہے ہمیں اس کے علاوہ کوئی اور تکلیف ہر گز نہیں پہنچ سکتی۔وہ ہمارا رکھوالا ہے ،اور اللہ ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہیے۔ایک جگہ فرمایا :مااصاب من مصیبۃالا باذن اللہ ومن یومن باللہ یہدقلبہ۔(التغابن:11)نہیں پہنچتی کوئی مصیبت مگر اللہ کے حکم سے ،اور جو کوئی اللہ پر ایمان رکھتا ہے اللہ اس کے دل کی رہنمائی کرتا ہے ۔نبی کریم ﷺ نے ایک مرتبہ حضرت ابن عباس ؓ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ :اچھی طرح جان لو کہ اگر پوری امت مل کر بھی تم کو فائدہ پہنچانا چاہے تو اس سے بڑھ کر نہیں پہنچاسکتی جتنا کہ اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ،اور اگر پوری امت بھی تم کو نقصان پہنچانا چاہے تو اللہ نے جتنا لکھ دیا ااس سے زیادہ نہیں پہنچا سکتی ۔( ترمذی:2453)زمانہ کو برا بھلانا کہنااور دن ورات کو منحوس سمجھنے سے سلام نے منع کیا اور تمام کی نسبتوں کو اللہ تعالی سے جوڑا ،جودن کو اور مہینہ کو برا کہے گا اور منحوس و نامبارک مانے گویا وہ اللہ تعالی کے قدرت اور اس کی تخلیق میں عیب نکالنے کی جسارت کرنے والا بنے گا۔ہمارے معاشرہ میں ماہ صفر کو منحوس سمجھنے کا رواج ابھی بھی باقی ہے اور لوگ اس مہینہ کی آمد کے ساتھ غلط تصورات اور مختلف توہمات کے ساتھ غیر شرعی کاموں کو انجام دیتے ہیں ،خاص کر خواتین میں اس کا بہت اہتما م پایا جاتا ہے اور وہ نحوست کی بہت زیادہ قائل ہوتی ہیں اس لئے ان تما م باطل خیالات اور غیر دینی چیزوں کا خاتمہ کرنا ضروری ہے اور عقیدہ ٔ توحید کو مضبوط
سے مضبوط تر کرتے ہوئے اللہ تعالی کی قدرت اور اس کی حکمت پر بھروسہ رکھنا چاہیے ورنہ بدعقیدگی اور توہم پرستی ہماری ایمانی جڑوں کو کھوکھلا کرکے رکھ دے گی ۔

تبصرے بند ہیں۔