بھوکی آبادی اور کھانے کی بربادی

مظفر حسین غزالی

ڈگ ڈگ روٹی، پگ پگ نیر نے دنیا کو بھارت کی طرف متوجہ کیا تھا۔ دنیا بھر سے لوگ سیاح، حملہ آور یا تاجربن کر یہاں آئے۔ آریوں سے لے کر انگریزوں تک جو آیا وہ یہیں کا ہوکر رہ گیا۔ وجہ تھی کھانے پینے اور سستے مزدوروں کی افراط، گلوبل ہنگر انڈیکس کا آنکڑا ہماری تاریخ و ترقی کے تمام دعوئوں کو منہ چڑھانے والا ہے۔ اس کے مطابق 118دیشوں کی لسٹ میں بھارت 97ویں پائیدان پر ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ بھکمری کے شکار لوگ افریقہ اور بھارت میں ہی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 20کروڑ لوگ ملک میں بھکمری جھیل رہے ہیں۔ ہم اپنے لوگوں کا پیٹ بھرنے کے معاملے میں نیپال، بنگلہ دیش، سری لنکا، برما جیسے ملکوں سے بھی پیچھے ہیں۔ پڑوسی ملکوں میں صرف پاکستان بھارت سے نیچے 107ویں مقام پر ہے۔
ملک میں کھانے کی نہ پہلے کمی تھی نہ آج ہے۔ مسئلہ ہے کھانے کی اشیاء کی تقسیم، حفاظت اور بربادی، جہاں دیش میں لوگ بھوک سے مررہے ہیں۔ وہیں ہر سال 670لاکھ ٹن کھانے کی اشیاء برباد ہورہی ہیں۔ ایک سرکاری اسٹڈی کے مطابق برطانیہ کی کل پیداوار کے برابر بھارت میں اناج برباد ہورہا ہے۔ یعنی بانوے ہزار کروڑ روپے کی کھانے کی اشیاء ہر سال برباد ہورہی ہیں۔ کھانے کی اشیاء کی جتنی بربادی ہرسال ہورہی ہے اس سے پورے بہار کی آبادی کو ایک سال کھلایا جاسکتا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف پوسٹ ہارویسٹ انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کی رپورٹ کے مطابق مناسب رکھ رکھائو کی کمی نے ملک میں ان کی بربادی کو بڑھایا ہے۔ اس کا سیدھا اثر کسانوں پر پڑ رہا ہے۔ اس سے ملک کی معیشت کو بھی نقصان ہورہا ہے۔ اس سے جہاں ایک طرف مہنگائی بڑھ رہی ہے وہیں کسانوں کو اپنی سرمایہ کاری پر فائدہ تو کیا لاگت بھی وصول نہیں ہوپارہی ہے۔ ملک کے کئی صوبوں میں کسان گھاٹے کی کھیتی کی وجہ سے خودکشی کررہے ہیں۔ مہاراشٹر، گجرات، پنجاب اور دوسری ریاستوں سے کسانوں کی خودکشی کی خبریں آتی رہتی ہیں۔
مہنگائی بڑھانے میں پھل سبزیوں اور دالوں کا اہم رول ہے۔ ذخیرہ کرنے کا صحیح انتظام نہ ہونے کی وجہ سے پیاز، سبزیوں اور دالوں کی بربادی زیادہ ہورہی ہے۔ تحقیق پر بھروسہ کریں تو دس لاکھ ٹن پیاز اور بائس لاکھ ٹن ٹماٹر ہر سال کھیت سے بازار پہنچتے پہنچتے راستے میں برباد ہوجاتے ہیں۔ اس پریشانی سے نمٹنے کیلئے سرکار نے آج تک مناسب قدم نہیں اٹھائے۔ بربادی سے بچنے کیلئے ذخیرہ اندوزی کا معقول انتظام کرنا ہے۔ اس سے کسانوں کو ان کی فصل کا واجب دام مل سکتا ہے۔ اس سال کسانوں نے پیاز کی بمپر پیداوار کی۔ مہاراشٹر اور مدھیہ پردیش میں اتنی پیاز پیدا ہوئی کہ کسان اسے مفت بانٹنے کو محبور ہوگئے۔ کئی جگہ کسانوں نے پیاز کو پچاس پیسے کلو بیچا تو کئی جگہ جانوروں کو کھلانی پڑی۔ یہ کسانوں کیلئے فائدے کی جگہ نقصان کا سودا رہا۔ جبکہ پچھلے پندرہ سالوںمیں پیاز، آلو، ٹماٹر نے دیش کی عوام کو رلایا ہے۔ اب دوسالوں سے دالیں رلا رہی ہیں۔ اس کی وجہ جہاں ذخیرہ کرنے کا معقول انتظام نہ ہونا ہے وہیں کسانوں کو کھیتی کے لئے صحیح صلاح کا نہ ملنا بھی ہے، جس کی وجہ سے وہ کھیتی میں توازن قائم نہیں رکھ پاتے۔ وزیرزراعت رادھا موہن سنگھ کا دعویٰ ہے کہ سرکار جلد خراب ہونے والی خوردنی اشیاء کے ذخیرہ کرنے پر تیزی سے کام کررہی ہے۔ ملک میں کولڈ اسٹوروں کی صلاحیت تین کروڑ بیس لاکھ ٹن ہے۔ سرکار نے دو برس کے دوران دس لاکھ ٹن سے زیادہ ذخیرے کیلئے ڈھائی سو پروجیکٹ شروع کئے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اناج کی بربادی سے سرکارواقف ہے۔ لیکن سرکار اس طرف قدم اٹھانے کی بابت سنجیدہ نہیں ہے۔ 2008میں آرٹی آئی قانون کے تحت دیے گئے جواب میں سرکار نے مانا تھا کہ ہر سال لاکھوں ٹن اناج گوداموں میں سڑ جاتا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے ایک بیان میں سرکار سے کہا تھاکہ اگر اس کے پاس اناج رکھنے کی جگہ نہیں ہے تو کیوںنہیں وہ اسے غریبوں میں بانٹ دیتی۔بھوک کی وجہ سے مرنے والوں کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ بھوک سے بے چین بھیڑ کے ذریعہ راشن کی دوکانیں لوٹنے کی خبریں بھی آرہی ہیں۔ حال ہی میں اتر پردیش کے باندہ سے راشن کی دوکان لوٹنے کی خبر آئی تھی۔ پیٹ بھرنے کیلئے جتنے کھانے کی ضرورت ہے اس سے دس فیصد زیادہ ہی پیداوار ہوتی ہے۔ لیکن فوڈ ویسٹ کے چلتے ہر کسی تک کھانا نہیں پہنچ پاتا۔ دنیا بھر میں کل پیداوار کا ایک تہائی اناج برباد ہوجاتا ہے۔ تقریباً 1.3بلین ٹن، دنیا کی معیشت کا750ارب ڈالر۔2013میں اس وقت کے وزیرزراعت شرد پوار نے پارلیمنٹ میں ایک سوال کے جواب میں مانا تھا کہ سالانہ پچاس ہزار کروڑ روپے کی کھانے کی اشیاء برباد ہوجاتی ہیں۔شادی وپارٹیوں میں برباد ہونے والے کھانے کی مقدار بھی بہت بڑی ہے، جہاں کروڑوں لوگ بھوک سے مررہے ہوں وہاں خوردنی اشیاء کی اتنی بڑی بربادی تشویش ناک ہے۔
بھارت کے لوگوںکو پیٹ بھرنے کیلئے سالانہ 225-230ملین ٹن کھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر بڑھی ہوئی آبادی کو اور جوڑ لیں تب بھی پیداوار کی سطح پر کوئی کمی نہیں ہے۔ پچھلے سال بے موسم برسات کی وجہ سے کھیتی میں 12فیصد کا خسارہ رہا۔ پھر بھی ہماری پیداوار 2015-16میں 252.23ملین ریکارڈ کی گئی۔ مسئلہ ہے کھانے کی اشیاء کے سب تک پہنچنے کا۔ پچھلے کچھ سالوں میں بھکمری، غریبی اور تغذیہ کی کمی کے اعدادوشمار میں کچھ حد تک سدھار ہوا ہے۔ لیکن انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق بھارت میں اب بھی 15.2 فیصد لوگوںکو آدھا پیٹ کھاکر اطمینان کرنا پڑتا ہے۔ پانچ سال سے کم عمر کے 40فیصد بچے عدم غذائیت کا شکار ہیں۔ جبکہ 42.56 فیصد بچوں کا ان کی عمر کے لحاظ سے وزن کم ہے۔ سرکار ضرورت مندوں تک کھانا پہنچانے کیلئے مختلف اسکیموں میں تقریباً آٹھ ہزار کروڑ روپے خرچ کرتی ہے لیکن اس کے باوجود 25لاکھ بچے ہر سال تغذیہ کی کمی کی وجہ سے اپنی جان گنواں دیتے ہیں۔
تازہ خبر کے مطابق مہاراشٹر کے ضلع پال گھر میں سات ہزار بچے پوشن کے شکار پائے گئے جن میں سے 200کی موت ہوچکی ہے۔ ریاستی سرکاریں اصل وجہ پر پردہ ڈالنے میں لگی ہوئی ہیں۔ ہیومن رائٹ کمیشن اور سپریم کورٹ نے مہاراشٹر میں کوپوشن کو بہت سنجیدگی سے لیا۔ مدھیہ پردیش میں نیشنل ہیلتھ مشن کی دس ٹیموں نے محض پانچ دنوں میں 461تغذیہ کی کمی کے شکار بچے ڈھونڈ نکالے۔ اسی طرح مرکزی حکومت غریبی کی سطح ماپنے کیلئے طرح طرح کی قوائد کرتی رہتی ہے جس کا مقصد مسائل کی سنگینی کو کم کرکے دکھانا ہوتا ہے۔ لیکن بین الاقوامی ایجنسیاں سچائی کو اجاگر کرہی دیتی ہیں۔
اگلے چھ برسوں میں بھارت دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا۔ ایسی صورت میں اسے بھکمری، تغذیہ کی کمی اور بچوں کی نشوونما پر خصوصی توجہ دینی ہوگی۔ گوکہ سرکار یونیسیف کی تکنیکی مدد سے ملک میں بچوںکو کوپوشن سے بچانے کی کوشش کررہی ہے لیکن اس مسئلہ پر جنگی پیمانے پر کام کرنا ہوگا۔ نینی آیوگ کو میڈل کی فکر چھوڑ کر پوری آبادی کیلئے بھرپیٹ کھانے، صحت، تعلیم اور شہریوں کو عزت دارزندگی فراہم کرنے کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ کیوں کہ ہمارے یہاں 1674لوگوں کے علاج کیلئے صرف ایک ڈاکٹر ہے۔ اسی صورت میں دنیا کی طاقت بننے کا ہمارا خواب، خواب ہی رہے گا۔ تمام یوجنائیں سماج کے ایک چھوٹے سے طبقے کے ہت میں بن رہی ہیں اوروہ آگے بڑھ رہا ہے۔ جبکہ کمزور لوگ وہیں کے وہیں پڑے ہیں۔ ایسے میں سب کا وکاس کیسے ہوگا؟۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔