عہدِ سرسیّد کی نثر کے نقوش اور سیّد حامد کی علمی وراثت ( آخری قسط)

صفدر امام قادری

سید حامد نے شاعرانہ کیفیت کی دو سطحیں تلاش کی ہیں، جن کا سلیقے سے ان کی نثر میں استعمال ہوا ہے۔ جہاں جہاں صراحت اور وضاحت کا معاملہ ہوتاہے، سید حامدقریب المعنی فقرے ، تراکیب اور کبھی کبھی مکمّل جملے تکرار کے ساتھ کچھ یوں پیش کرتے ہیں جس سے وضاحت کے ساتھ ساتھ تاکید اور زور آوری دونوں کیفیتیں ابھر کر سامنے آجاتی ہیں۔ شعری کیفیت کا ایک با سلیقہ استعمال، ان تمام مضامین میں دیکھنے کو ملتا ہے جہاں مسلمانوں کی تاریخ، زوال کے اسباب و عَلَل پر گفتگو اور نئی امید کے ساتھ قوم میں تازگی بھرنے کا مقصد پنہاں ہوتا ہے وہاں سید حامد ایک داخلی سطح کی سنجیدہ جذباتیت اور حقائق کی بنیادوں پر کھڑا ہونے والا انداز پیدا کرنے کے لیے شاعرانہ فضا قائم کرتے ہیں۔ ایسے مواقع کے لیے ہمارے اسلاف نے یہ رنگ ابھارا تھا۔ سید حامد بہترین جانشیں ہیں اور اس بات سے واقف ہیں کہ علی گڑھ تحریک کی وراثت کی لسانی ذمے داری بھی ان کے کاندھوں پر آچلی ہے۔
سید حامد کی ہر تحریر رواں اور شگفتہ معلوم ہوتی ہے۔ سر سید کی زبان کی سادگی کے باوجود ان کی نثر میں سلسلہ در سلسلہ خیالات کا اظہار معقول روانی کے ساتھ دکھائی دیتا ہے۔ تمام کلاسیکی نقادوں نے شعریت کو اکثر و بیشتر روانی کے مماثل اورمتراد ف جاناہے۔ نثر کی یہ روانی اولاً طبیعت کی موزونی اور سلسلہ ء خیال کا قائم ہونا لازمی عناصر کی طرح سے موجود ہوتے ہیں۔ سید حامد نے برجستگی کا ہنر بھی اسی شاعرانہ فضا سے اخذ کیا تھا۔ دبستانِ سرسید کا ایک خاص ذہنی سانچہ ہے جس میں کہنے والے کے پاس بہت ساری باتیں ہیں اور جب خلوص کے قوام سے اسے وہ مستحکم کرتا ہے تو لفظوں کی رگوں میں رواں دواں کیفیت اپنے آپ پیدا ہو جاتی ہے۔ سید حامد نے اپنے اسلاف کا یہ ہنر بھی بڑے سلیقے سے برتا۔
سید حامدنے ایک مختصر مدت تک تدریس کا پیشہ اپنایا تھالیکن مزاج میں مدرّسانہ کیفیت تا عمر قائم رہی ۔ اس لیے وہ اپنی ہر بات کو معقول مثالوں کے ساتھ سجانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اچھے خاصے خطیب بھی تھے اور تحریری خطابت کا بھی انھوں نے چلن عام کیا تھا۔ ان تمام کاموں کے لیے انھوں نے اپنی تحریر میں ذراسی تقریر کی لذّت شامل کرکے ایک الگ قسم کی روشنی پیدا کی۔ یہاں نثر کو بلد آہنگی سے مقدور بھر دور رکھ کر تقریر کے لہجے اور کیفیات کو نثر میں اُتارنے کی نہایت خوبصورت کوششیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ یہ ہنر اُن کے ہر مضمون میں موجودہے۔ ہر بار یہ محسوس ہوتا ہے کہ تحریر میں ضبط اور ٹھہراو تو ہے لیکن مخاطبت وسیع حلقے سے ہے۔ یہ بھی وہ خاص اصول ہے جو عہد ِ سر سید میں وضع ہوا تھا اور مختلف جانشینانِ سرسید نے اسے سکۂ رائج الوقت بنایا۔
سید حامد کی نثر کی تان قوم کو نیا حوصلہ بخشنے میں آخری طَور پر ٹوٹتی ہے۔ ’تہذیب الاخلاق‘ کو انھوں نے جب’ توسیعی ‘رسالہ قرار دیا اور وضاحت کی کہ ’افق وسیع کرنا‘اس کا مقصد ہے۔ یہاں سیّد حامد نے سر سید اور’ تہذیب الاخلاق‘ کے پَرے جاکر اس اصول کو اپنے لیے رہنما جانا۔ وہ بات کسی موضوع یا کسی موقعے کی کر رہے ہوں لیکن آخری نشانہ مسلمانوں کے مسائل اور نئے ماحول میں اس قوم کی کار کردگی کی طرف ہوتا ہے۔ وہ ہمیشہ توسیعی معنی اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کوئی واقعہ یا فیصلہ سامنے آئے لیکن سید حامد کی نگاہ وہاںسے بہت دور تک جاتی ہے۔ اپنے تجربات اور جہاں دیدنی سے اس موضوع کا نیا بُعد عطا کر دیتے ہیں۔ Extended Meaningکا آخری ہنر سید حامد ہمارے زمانے میں آزما رہے تھے۔ اسی لیے ان کی نثر مشکل مسائل پر غور و فکر کے مرحلے میں اصولی اور عملی دنوں جہات سے تشکیل پاتی ہے۔ ایک ساتھ شکست اور فتح، خواب اور حقیقت کی جنگیںمخصوص شاعرانہ ماحول میں چلتی رہتی ہیں۔ مقاصد کے ہر پہلو پر نظر رکھ کر گفتگو کا ڈھب اختیار کرنا بھی سید حامد نے علی گڑھ تحریک کے اسلاف سے لی سیکھا تھا۔
عہدِ سر سید کی نثر کے وہ کس قدر گہرے رمزشناس ہیں، اس بات کا ثبوت حاصل کرنے کے لیے ہمیں ان کے بعض مضامین کی تمثیلی شان پر غور کرنا چاہیے۔ سید حامد کا ایک مضمون ہے:’’ہری پتلیوں والا عفریت‘‘۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سید احمد خاں اور محمد حسین آزاد کی روح سید حامد میں حلول کر گئی ہے۔ اس مضمون کے تمثیلی حصوں پر غور کرتے ہوئے یہ یقین ہو جاتا ہے کہ سید حامد فکشن کی روایت کے گہرے واقف کار ہیں اور مقدور بھر ڈرامے کو بھی گہرائی سے سمجھتے ہیں، ورنہ ان کے قلم سے ایسے اجزا کیوں کر بر آمد ہوتے:
٭ بخل کے شکنجے سے خدا بچائے۔ اس کی بہن حرص اس کا برابر ساتھ دیتی ہے۔اس کا دستور ہے کہ جو کچھ نظر آئے، جہاں تک ہاتھ پہنچے، سب کچھ سمیٹ لو اور کسی دوسرے کو اس کی ہوا بھی نہ لگنے دو۔ کنجوس جو کچھ کماتا ہے یا بٹورتا ہے، اس کا فائدہ خدا کی مخلوق تک پہنچنا تو درکنار، خود اس تک بھی نہیں پہنچتا۔ وہ خزانے پر سانپ کی طرح کنڈلی مار کر بیٹھ جاتا ہے۔بخل اور تنگ نظری میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ بخیل آدمی کسی کی تعریف بھی نہیں کر سکتا۔ اگر وہ ممتحن ہے تو اچھے نمبر دیتے وئے اس کی جان پر بن آتی ہے۔ اس کے سامنے کسی کی تعریف کی جائے تو اس کی جبیں پر شکن آجاتی ہے۔[ہر ی پتلیوں والا عفریت][ص: 28-127]
٭ گھمنڈی انسان اس مرغ کی طرح ہے جو پھڑ پھڑ ا کر سینہ تان کر ، گردن اٹھا کر ساری دنیا کی طرف چیلنج پھینک کر بانگ دیتا ہے۔ اس سے غافل کہ بلّی اس کی گھات میں ہے اور اس کی اکڑی ہوئی گردن کے لیے دانت تیز کر رہی ہے۔[ص128]
٭ ریاکاری مرض بہت عام ہے۔ اس کا روگی گیہوں دکھاتا ہے اور جَو بیچتا ہے۔ اس کے دل میں زہر اور زبان پر امرت ہوتا ہے۔[ص:129]
٭ ہمارے دَور نے ریا کاری کو قبولِ عام کی خلعت دے دی ہے۔[ص:130]
٭ ریاکاری فریب کی ہی ایک شکل ہے۔ فریب کا بھانڈا چوراہے پر پھوٹتا ہے یا زنداں میں۔ ’ریاکاری، مکرو فریب سب دروغ گھرانے کے افراد ہیں، جھوٹ کی سرزمین میں یہ پیدا ہوتے اور پھلتے پھولتے ہیں۔ سچ کی ’سموم‘کے ایک جھونکے سے مرجھا جاتے ہیں۔ [ص:130]
٭ غصہ اچانگ آتا ہے سیلاب کی طرح اور ہوش و حواس کو بہا لے جاتا ہے۔ گھمنڈ میں انسان اپنی خوبیوں سے متاثر ہو کر غبارے کی طرح پھولنے لگتا ہے۔[ص:130]
یہ تمثیلیں صرف ادبی مہارت پیش کرنے کے لیے نہیں قائم کی گئی ہیں۔ انھیں پڑھتے ہوئے ہم عہد قدیم میں نہیں پہنچ جاتے۔ سید حامد کی تعبیرات نفسیاتی اور سماجی ہیں جن سے تمثیلی ہنر اواخر بیسویں صدی اور اوائل اکیسویں صدی کا نفس ِ مضمون اختیار کر لیتی ہیں۔ ہمارے عہد میں ایسا کوئی دوسرا دکھائی نہیں دیتا جو نثر کے اس آزمائے ہوئے کام کو ایسے سلیقے سے کر پایا ہو۔ سید حامدکے کئی مضامین اور ہیں جن میں ان کی تمثیلی قوت مزید اجا گر ہوتی ہے۔ ’اناولا غیری‘بھی اس انداز کی ایک عجیب تحریر ہے۔’ سامری پھر کوئی سرگرمِ فسوں ہے شاید‘ کا بھی انداز تمثیلی ہے۔ سید حامدنے اپنی تمثیلی تحریروں کو نفسیات ِ انسانی کی سمجھ بوجھ سے مستحکم کیا ہے لیکن تمثیلی مضامین میں بھی کہیں علمی رخ کو کم ہونے دینے کا خطرہ نہیں اٹھایا۔ ان میں نفسیات کے مطالعے سے ایک آفاقیت اور عمومیت پیدا کرنے میں کامیابی ملی ہے۔
سید حامدنے سیاسی اور سماجی نیز تعلیمی موضوعات پر سینکڑوں تعداد میں مضامین لکھے۔ بابری مسجد کے تنازعے کے دوران انھوں نے اپنے قلم سے سماجی جنگ لڑنے کی بھی کوشش کی۔ ان کی کتاب ’ آزمائش کی گھڑی‘ میں ایسے مضامین بڑی تعد اد میں شامل ہیں۔ مدھیہ پردیش اردو اکیڈمی نے ان کے مضامین کی دو جلد یں شائع کیں۔ ان سب میں سید حامد کا دانشورانہ طور اور وقار ابھر کر سامنے آتا ہے۔ عوامی اپیل پیدا کرنے کے لیے سید حامد نے اپنی زبان میں ہندی کے چلتے پھرتے اور کبھی کبھی مشکل الفاظ کے استعمال کی ایک خُو اختیار کی تھی۔ وہ رفتہ رفتہ بڑھتی گئی لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان کے سب سے اچھے مضامین’ کربِ آگہی ‘ میں شامل ہیں اور وہاں بھی جہاں عمومی سیاسی موضوعات سے ذرا دوری اختیار کی گئی ہے۔ یہ سچائی ہے کہ سید حامدکی نثر نگاری کا وہی دور سب سے بہتر ہے جو انھوں نے 1980سے 1985کے دوران لکھے ، جب وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر یعنی ’جانشین ِ سرسید ‘ کے معزز فرائض انجام دے رہے تھے۔ انھوں نے خود لکھا ہے :’یہ مضامین اس وقت لکھے گئے ہیں جب فرائض منصبی کی یورش میں کسی دوسرے کام کے لیے ایک لمحہ بھی نکالنا دشوار تھا، عہد سرسید کے عظیم نثر نگاروں نے بھی حالات کے جبر، دوڑ بھاگ اور مصروفیات کی انتہائی کیفیت میں اپنے نوشتہ جات مکمل کیے تھے۔ سید حامد نے بھی اپنے سب سے بہتر نثری صحیفے اسی عالم میں قلم بند کیے اور’کربِ آگہی‘ کے مضامین نے انھیں مستند نثر نگاروں کی فہرست میں شامل ہونے کا موقع عنایت کیا۔ ایک وقت آئے گا جب سید حامد کی ماہر تعلیم یا تعلیمی انتظام کارکی حیثیت سے الگ انھیں خالص نثر نگار اور انشا پرداز کے طور پر پہچانا جائے گا۔ اس وقت انھیں سب دبستان ِ سرسید کی نثر نگاری کا نیا نقش قائم کرنے والا تسلیم کریں گے۔

تبصرے بند ہیں۔