بھگوا دہشت گردوں كو كلین چیٹ

(این آئی اے کا اعتبار خطرے میں)

قومی تفتیشی ایجنسی این آئی اے كی جانب سے سادھوی پراگیا سنگھ ٹھاكر سمیت چھ لوگوں كو كلین چٹ دئے جانے كا معاملہ طول پكڑتا جا رہا ہے، كانگریس سمیت تمام سیكولر پارٹیوں نے مركزی ایجنسی كے اس جانب دارانہ قدم كی سخت الفاظ میں مذمت كی ہےاور اسے ملك كی سیكولر اور منصفانہ شبیہ پر بدنما داغ سے تعبیر كیا ہے۔معاملہ صرف ان لوگوں كو الزام سے بری كئے جانے كا ہی نہیں ہے بلكہ ایك ایسے ایماندار ، فرض شناس اورشہید پولیس آفیسر كی حب الوطنی كو شك كے دائرے میں لائے جانے كا بھی ہے،جس نے اپنی باریك بیں تفتیش اور جدوجہد سے صرف مالیگاؤوں بلاسٹ كی گتھی كو ہی نہیں سلجھایا بلكہ 2006ء میں پربھنی اور گوا بم دھماكہ اور ناندیڑ میں بم بناتے وقت ہونے والے بلاسٹ (جس میں بم بنانے والے دولوگوں كی موت كے ساتھ نقلی داڑھیاں اور ٹوپی بھی برآمد ہوئی تھی)سے پردہ اٹھانے كی بھی جسارت كی ۔
مركز میں مودی حكومت كی تشكیل كے بعد سے ہی ان لوگوں كی رہائی كی قیاس آرائياں ہونے لگیں تھیں ، كیونكہ 2008ء میں سادھوی كی گرفتاری كے بعد جس طرح سے لال كرشن اڈوانی اس سے ملنے جیل گئے اور وزیر اعظم ڈاكٹر منموہن سنگھ سے اس كی رہائی كی اپیل كی تھی ، اس سے بہر كیف كہیں نہ كہیں یہ ظاہر ہوتا ہے كہ سنگھ پریوار اپنے كاركنوں كے پكڑے جانے سے گہرے صدمے میں تھا، چنانچہ سنگھ اور بی جے پی نے اپنے طور پر ان لوگوں كی رہائی كی جتنی بھی كوششیں ہو سكتی تھیں، كر ڈالی ۔ ملك كے مایہ ناز وكیلوں كی مدد سے سپریم كورٹ تك ان كی ضمانت كی اپیل دائر كی گئی ، لیكن عدالت عالیہ نے جرم كی سنگینی اور دلائل وشواہد كی پختگی كو دیكھتے ہوئے ان كو ضمانت دینے سے انكار ہی نہیں كیا بلكہ این آئی اے كو یہ حكم صادر كیا كہ جلد سے جلدان لوگوں كے خلاف چارج شیٹ داخل كیا جائے تاكہ ان مجرموں كو كیفر كردار تك پہنچایا جا سكے ۔
حكومت اور این آئی اے كی جانب سے ان لوگوں كی رہائی كا عندیہ اس وقت ملاجب اس كیس كی سركاری وكیل روہنی سالیان نے دعوی كیا كہ این آئی اے كے ایك بڑے افسر نے ان پر دباؤ ڈالا ہے كہ اس مقدمہ كی رفتار كو دھیما كر دیا جائے،حالانكہ روہنی سالیان نے اس تعلق سے عدالت كو جانكاری بھی دی ،لیكن جلد ہی انھیں سركاری وكیل كے پینل سےہی ہٹا دیا گیا ۔ اور پھر 13 مئی كو داخل كی گئی اپنی چارج شیٹ میں این آئی نے یہ ثابت كر دیا كہ وہ واقعتا ان لوگوں كی رہائی چاہ رہی ہے، چنانچہ جہاں ایك طرف اس نے سادھوی سمیت چھ لوگوں كو الزام سے بری كر دیا وہیں بقیہ دوسرے ملزمین كے اوپر سے مكوكا ہٹائے جانے كی سفارش كے ساتھ ساتھ ان كے كیس كو بھی كمزور كر دیا ۔مثلا ممنوعہ دہشت گرد تنظیم” ابھینو بھارت” كا سرغنہ اوردھماكہ كا اہم ملزم كرنل پروہت كے بارے میں چارج شیٹ كے اندر اے ٹی ایس كےایك اہل كار كا یہ بیان درج كیا گیا ہے كہ "اے ٹی ایس نے ہی پروہت كے گھر میں گرفتاری سے قبل آرڈی ایكس ركھوائے تھے "اسی طرح فوج كے سات ساتھیوں نے جو كرنل پروہت كے خلاف گواہی دی تھی اس كا بھی ذكر چارج شیٹ كے اندر موجود نہیں ہے۔
این آئی اے كے مذكورہ قدم سے ہندوستان كاہر انصاف پسند شہری سكتہ كے عالم میں ہے، بی جے پی كے اقتدار میں آنےكے بعد اس بات كی توقع تو ہر كسی كو تھی كہ بھگوا دہشت گردوں اور ان كے خلاف ثبوتوں كے ساتھ چھیڑ چھاڑ یا اس ذہنیت كے ملزموں كو بچانے كی ہر ممكنہ كوشش كی جائے گی، لیكن كوئی حكومت یا مركزی ایجنسی اس حد تك جا سكتی ہے كہ وہ دفاعی فریق كی طرح كام كرنے لگے گی، ایسی امید كسی كو نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے كہ چوطرفہ سوالات میں گھرنے كے بعد این آئی اے كو صفائی دینے كی نوبت آگئی ہے ،چنانچہ اس كے ایك عہدہ دار نے بات كی لیپا پوتی كرتے ہوئے كہا ہے كہ” ہماری چارج شیٹ اے ٹی ایس كی چارج شیٹ سے زیادہ مختلف نہیں ہے "پورے معاملے كا بنظر غائر جائزہ لینےكے بعد یہی بات سمجھ میں آتی ہے كہ كہیں نہ كہیں حكومت اور این آی اے اس معاملہ كو بڑی عجلت كے ساتھ اپنے من موافق انجام تك پہنچاناچاہتی ہے ۔
جہاں تك اس كیس كے قانونی چارہ جوئی كی بات ہے تو اب پوری طرح معاملہ عدالت كے ہاتھ میں ہے كہ وہ پرانی یا نئی كس چارج شیٹ كے مطابق مقدمہ چلاتی ہے ؟رہی بات اس طرح كے معاملہ میں قانونی روایت كی تو عدالتیں عام طورسے نئی چارج شیٹ كو ہی قبول كرتی ہیں، لیكن كہیں نہ كہیں مالیگاؤں بم دھماكہ كو دیكھ رہی خصوصی عدالت پر ایك اخلاقی دباؤ بڑھ گیا ہے كہ وہ روایت سے ہٹ كر انصاف كو زندہ ركھنے كے لئے پرانی چارج شیٹ كو ہی تسلیم كرے اور دونوں چارج شیٹ كاخوب اچھی طرح مقارنہ كرنے كےبعد ہی كوئی نتیجہ اخذ كرے ۔كیونكہ داخل كی گئی نئی چارج شیٹ كا سب سے بڑا نقص این آئی اے كے ذریعہ لی گئی گواہی ہے،اس لئے كہ پنچ نامہ میں گواہی صرف جائے واردات پہ موجود گواہوں سے ہی لی جاتی ہے بعد میں كیس كسی بھی ایجنسی كو سونپا جائے، پنچ نامہ میں موجود گواہی ہی حرف آخر ہوتی ہے ، لیكن این آئی اے نے ان گواہوں سے دوبارہ گواہی لی ہے جس كا اختیار اس كو نہیں ہے ،ممكن ہے عدالت ان تمام نقص كو مد نظر ركھتے ہوئے كوئی حتمی نتیجہ پر پہنچے ۔ اس معاملہ كے تعلق سے ایك قانونی چارہ جوئی یہ بھی ہے كہ سپریم كورٹ یا ہائی كورٹ سے یہ التماس كیا جا ئے كہ وہ انصاف كا خون ہونے سے بچانے كے لئے اس كیس كی نگرانی كرے ۔
قابل غور پہلو یہ ہے كہ ہندو تنظیموں كے اوپر لگے دہشت گردی كے داغ كو دھلنے میں اگر بھگوا ٹولہ ایك بار كامیاب ہو گیاتو وہ دن دور نہیں كہ یكے بعد دیگرے دہشت گردی كے تمام معاملہ سے ان كو بری كر دیا جائے گا(اكثر معاملوں میں تو انھیں بری كر بھی دیاگیا ہے ) ۔پھر بی جے پی كے لیڈران كانگریس كے اوپر ہندؤوں كو بدنام كرنےاور ان كو پھنسانے كا الزام ڈال كر عوام كے جذبات سے كھیلنےكی بھر پور كوشش كریں گے ۔اس كے بعد ملك میں ایسا ماحول بنانے كی كوشش كی جائے گی كہ یا تو تمام سیاسی پارٹیاں اور تھوڑے بہت جو بھی ایماندار آفیسرس ہیں وہ ان كے جرائم اور كرتوتوں سے آنكھ بند كر لیں گے یا پھر اسی پرانے ڈھرے پر سوچ كا محور مركوز ہو جائے گاكہ دہشت گردی كا خواہ كوئی بھی معاملہ ہو الزام مسلمانوں پر آئے ۔
بی جے پی كو یہ نہیں بھولناچاہیے كہ اس معاملہ میں ذرہ برابر بھی جانبداری ملك كی ساكھ كو عالمی پیمانہ پر مشتبہ بنا دے گی۔پوری دنیاعدلیہ كی آزادی اور سیكولر نظام وروایات كا پاس ولحاظ ركھنے كی وجہ سے ہی تو ہماری عزت كرتی ہے۔ اس جانب داری كی وجہ سےتو ہندوستان اور پاكستان ان كو ایك ہی تھالی كے چٹے بٹے نظر آئیں گے ، اپنے ملك نے ان گرفتاریوں كی وجہ سے پوری دنیا كو ایك میسج دیا تھا كہ” دہشت گردی كا كوئی مذہب نہیں ہوتا ” اورتمام دہشت گردانہ معاملات كو اسی عینك سے دیكھنے كی ضرورت ہے ۔ قابل ذکر ہے کہ بی جے پی كے موجودہ ایم پی اور اس وقت كے داخلہ سكریٹری آر كے سنگھ نے باضابطہ طور پر ایك پریس كانفرنس میں آر ایس ایس كے كاركن رہ چكے دہشت گردی كے معاملہ میں گرفتار لوگوں كا ایك ایك كركے نام گنایاتھا ۔
ان تمام كے باوجود اپنےملك كی شروع سے یہ خصوصیت رہی ہے كہ ظلم اور نا انصافی كے خلاف بلا اختلاف مذہب وملت سماج كا ہر طبقہ آواز ہی نہیں اٹھاتا ہے بلكہ قدم سےقدم ملاكر ظلم اور نا انصافی كو اس كے منطقی انجام تك بھی پہنچانا چاہتا ہے۔یہی وجہ ہے كہ اس معاملہ پر صرف مسلمان ہی نہیں بلكہ سیكولر سوچ كا ہر فرد اپنی تشویش كا اظہار كررہا ہے۔اور یہ تشویش بجا بھی ہے كیوں كہ پوری انسانی تاریخ كامطالعہ بتاتا ہے كہ جب جب بنی نوع انسان نے ظلم كا دامن تھام كر انصاف كی ڈگر سے منہ موڑا ہے دہشت گردی كا جنم ہوا ہے۔ دہشت گردی خواہ كسی بھی گروہ یاٹولے كی طرف سےہو اس كی مذمت ہی نہیں كرنی ہے بلكہ اس كے مجرمین كو جتنی جلدی ہو سكے سزا دلانے كی کوشش کرنی ہے ،اس تناظر میں لندن دھماكہ كی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں كی سیكوریٹی ایجنسیاں اور عدالت نےملكراس دھماكہ كے مجرمین كو صرف چھ مہینہ میں ہی كیفر كردار تك پہنچا دیا۔ اپنے ملك میں اسی نہج پر كام كرنے كی ضرورت ہے تاكہ كوئی بے قصور بلا وجہ پریشان نہ ہو اور مجرمین كی سزا دوسرے كے لئے نشان عبرت بن جائے۔ سیکولر ، عدم تشدد کے فلسفے کا علمبردار اور ستیہ( سچائی ) کے پرچارک مہان دیش بھارت کے لیے انصاف اور ایمانداری کے علاوہ کوئی اور پالیسی اسے ہر اعتبار سے کمزور کرے گی ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔