قرآن کا پیغام والدین کے نام – تمہاری بیویوں اور اولاد۔۔۔۔۔۔ (9)

 ۔۔۔۔۔میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں

یَااَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِکُمْ وَ اَوْلَادِکُمْ عَدُوّاً لَکُمْ فَاحْذَرُوْھُمْ وَ اِنْ تَعْفُوْا وَ تَصْفَحُوْا وَ تَغْفِرُ وْا فَاِنَّ اﷲَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ (التغابن :14)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو بے شک تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں۔ ان سے ہوشیار رہواور اگر تم عفو ودرگذر سے کام لو اور پردہ پوشی کرو تو اللہ غفور رحیم ہے‘‘۔
ترمذی و حاکم میں صحیح سند کے ساتھ عبداللہ ابن عباسؓ سے منقول ہے کہ یہ آیت ان مسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئی جو مکہ میں ایمان لائے لیکن مدینہ کی طرف ہجرت کا تاکیدی حکم آجانے کے باوجود جلد ہجرت نہیں کی۔ جب بھی ہجرت کا ارادہ کرتے بیوی، بچے آڑے آجاتے۔ چنانچہ بعد میں جب وہ مدینہ آئے تو احساس ہوا کہ وہ دین کے معاملہ میں بہت پیچھے رہ گئے۔ راہ کا روڑا چونکہ بال بچے بنے تھے اس لئے انہیں بال بچوں پر شدید غصہ آیا اور انہیں سزا دینا چاہا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے صحیح رویّے کی طرف نشاندھی فرماتے ہوئے تلقین کی کہ انہیں معاف کردو، ان سے درگزر کرو اور ان کی پردہ پوشی کرو۔
اس سیاق میں اس آیت پر غور کریں تو اس کا مطلب بالکل واضح ہوجاتا ہے۔ جہاں فرمایا گیا ’’اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِکُمْ وَ اَوْلَادِکُمْ عَدُوّاً لَکُمْ‘‘۔بے شک تمہارے بال بچوں میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں‘‘۔وہاںیہ مطلب نہیں کہ وہ حقیقی دشمن ہیں جو بدخواہ ہوتے ہیں،نفرت کرتے ہیں ، اپنے دلوں میں کینہ پالتے ہیں اور نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ بلکہ اپنے اثرات ، نتائج اور انجام کے اعتبار سے بسا اوقات وہ دشمن کے مانند بن جاتے ہیں۔ جیسے کہا جائے کہ ’’علی شیر ہے‘‘ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ جانور بن گیا۔ اس کے ہاتھ پاؤں شیر کی طرح ہوگئے، وہ شیر کی طرح دہاڑتا ہے، بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ جس طرح شیر طاقت ور ہوتا ہے ویسے ہی علی بھی طاقت ور ہے۔
رہا یہ سوال کہ بال بچے کیسے دشمن کے مانند بن جاتے ہیں تو اس کے چند پہلو ملاحظہ فرمائیں:
(1) بال ،بچوں کی محبت، ان کی ضروریات کی تکمیل اور ان کا معیار زندگی بلند کرنے کی خواہش انسان کو زیادہ سے زیادہ مال کمانے پر مجبور کرتی ہے یا اکساتی ہے اور زیادہ سے زیادہ کے چکر میں انسان حلال و حرام کمائی کی تمیز کھودیتا ہے اور عاقبت خراب کرلیتا ہے۔
(2) بسا اوقات مال تو حلال ذرائع سے کماتا ہے لیکن بال بچوں کے آرام و آسائش اور اس کا مستقبل سنوارنے کیلئے حاجت مندوں اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے میں کوتاہی کرتا ہے۔ اسی لئے ایک حدیث میں رسول اللہﷺ نے اولاد کو ’’مَبْخَلَۃٌ‘‘ ’’بخل کا سبب بننے والی چیز ‘‘ قرار دیا ہے۔
(3) اسی طرح کبھی ضرورت ہوتی ہے کہ اللہ کے راستے میں جان کا نذرانہ اور قربانی پیش کی جائے لیکن فوراً یہ خیال ستاتا ہے کہ اگر میں اللہ کے راستے میں مارا گیا تو میرے بعد میرے بال بچوں کا کیا ہوگا۔ یہ سوچتے ہی اس کا قدم رک جاتا ہے اور بزدلی اس کے دلوں میں راہ پانے لگتی ہے۔ اس بات کی طرف بھی رسول اللہﷺ نے اشارہ فرمایا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اولاد کو ’’مَجْبَنَۃٌ‘‘ ’’بزدلی کا سبب بننے والی چیز ‘‘ بھی قرار دیا ہے ۔
(4) بال ، بچوں کی محبت اور ان کے تحفظ کا خیال تو انسان کو بسا اوقات انتہائی گھناؤنے گناہ تک پہنچادیتی ہے۔ یعنی انسان ایسا کام بھی کرگزرتا ہے جو دنیا میں اسے تو ذاتی طور پر فائدہ پہنچاتی ہے۔ لیکن دین و ایمان اور امت مسلمہ کیلئے انتہائی نقصان دہ ہوتی ہے یا بن سکتی ہے جیسا کہ رسول اللہﷺ کے زمانے میں حاطب بن ابی بلتعہؓ کر گزرے تھے۔ مختصراً واقعہ یہ ہے کہ جب سردارانِ قریش نے صلح حدیبیہ کی شرائط کوپامال کیا تو رسول اللہﷺ نے مکہ پر چڑھائی کی تیاری شروع کردی۔ یہ ایک راز تھا جس کی خبر دشمنوں کو نہیں ہونی چاہئے تھی لیکن حاطب بن ابی بلتعہؓ نے محض یہ سوچ کر کہ میں نے اگر انہیں اس کی خبر دے دی تو بطور احسان سردارانِ قریش مکہ میں موجود میرے بال ، بچوں کو تکلیف نہیں پہنچائیں گے۔ انہوں نے خبر دینے کے لئے ایک خط تحریر کیا اور مکہ جانے والی ایک عورت کے حوالے کردیا کہ سردارانِ قریش تک پہنچادے۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی رسول اللہﷺ کو ان کے اس حرکت کی خبردی اور آپﷺ نے علیؓ کو بھی بعض صحابہ کے ساتھ بھیج کر اس عورت سے وہ خط ضبط کرا کر منگوالیا ۔ یہ ساری حرکت حاطب بن ابی بلتعہؓ سے محض بال بچوں کی محبت میں سرزد ہوئی تھی۔ اگر یہ خبر دشمنوں تک پہنچ جاتی تو کتنا شدید نقصان ہوتا۔
یہ اور اس طرح کی بہت ساری شکلیں ہیں جن میں بال بچے دشمن کی مانند بن جاتے ہیں۔ اسی لئے ایک موقع سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا ’’تیرا اصل دشمن وہ نہیں ہے جسے اگر تو قتل کردے تو تیرے لئے کامیابی ہے اور وہ تجھے قتل کردے تو تیرے لئے جنت ہے بلکہ تیرا اصل دشمن ہوسکتا ہے کہ تیرا اپنا وہ بچہ ہو جو تیری ہی صلب سے پیدا ہوا ہے پھر تیرا سب سے بڑا دشمن تیرا وہ مال ہے جس کا تو مالک ہے ‘‘۔(طبرانی )
بال بچوں کے سلسلے میں یہ فرو گذاشتیں انسان کو کس انجام تک پہنچادیتی ہیں اس کا اندازہ درج ذیل حدیث سے بآسانی لگایا جاسکتا ہے ’’ایک شخص قیامت کے دن لایا جائے گا اور کہا جائے گا کہ اس کے بال بچے اس کی ساری نیکیاں کھاگئے ‘‘۔
’’ فَاحْذَرُوْھُمْ ‘‘ ’’یعنی ان سے چوکنّا رہو‘‘۔ میں دراصل بال بچوں کے حوالے سے مندرجہ بالا انداز کی فروگذاشتوں کے سلسلے میں چوکنا رہنے کی تلقین کی گئی ہے کیونکہ یہ انتہائی خسارے کا سودا ہے ۔ اس بات کی طرف دوسری جگہ بھی توجہ دلائی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ آمنُوْا لَا تُلْھِکُمْ اَمْوَالُکُمْ وَ لاَ اَوْلاَ دُکُمْ عَنْ ذِکْرِ اﷲِ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذَالِکَ فَاُؤلٰءِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ ‘‘ (المنافقون:9) ’’اے لوگوں جو ایمان لائے ہو تمہارے مال اور تمہاری اولادیں تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کردیں۔ جو لوگ ایسا کریں وہی خسارے میں رہنے والے ہیں‘‘۔
ایک مومن کے لئے اللہ کی رضا اور آخرت کی کامیابی سب سے اہم چیز ہے ۔ اس کی خاطر بال بچوں کی قربانی بھی ہیچ ہے۔ اس راہ میں انہیں روڑا بننے دینے کے بجائے اگر ضرورت ہو تو خود انہیں قربان کردینا چاہئے جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام کا اسوہ بتاتا ہے ۔ اللہ کا حکم ہوا تو اکلوتے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کے لئے تیار ہوگئے ۔ اللہ ہی کا حکم ہوا تو اسماعیل علیہ السلام اور ان کی والدہ ہاجرہ کو بے آب و گیاہ میدان میں چھوڑ آئے اور کچھ پرواہ نہ کی کہ میرے غائبانے میں ان کا کیا حال ہوگا۔ جب اللہ اور اس کے دین کا معاملہ ہو تو بال بچوں کے سلسلے میں ہماری روش بھی یہی ہونی چاہئے ۔
’’وَ اِنْ تَعْفُوْا وَ تَصْفَحُوْا وَ تَغْفِرُ وْا‘‘اس جملہ کے ذریعہ یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ تمہارے بال بچے بھی انسان ہیں۔ خطا و نسیان کا پتلا ہیں۔ ان سے اگر کوتاہی سرزد ہوتی ہے یا وہ جہالت، کم فہمی اور نافرمانی وغیرہ کے ذریعہ تمہاری عاقبت خراب کرنے کا سبب بنتے ہیں تو اس کا رد عمل ایسا نہیں سامنے آنا چاہئے کہ انہیں علاحدہ کردو یا ان کے ساتھ تشدد کا رویہ اپناؤ اور انہیں سخت سزائیں دینا شروع کردو بلکہ ان کے ساتھ عفو ودرگذر کا رویہ اپنانا چاہئے اورخود ان کے اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ وہ بھی اللہ اور دین کے معاملہ میں تمہارے معاون بن جائیں ۔
عفو ودرگذر کے لئے جو الفاظ استعمال کئے گئے ہیں بظاہر ایسا لگتا ہے کہ وہ سب ہم معنی ہیں اور ایک ہی بات مختلف الفاظ کے ذریعہ سمجھائی گئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تینوں الفاظ دراصل تین پہلوؤں اور مراحل کی طرف نشاندھی کرتے ہیں۔ کسی کے گرفت کی پہلی شکل تو ہے کہ اسے سزادی جائے ۔ ’’اِنْ تَعْفُوْا‘‘ کہہ کردراصل سزا معاف کرنے کی تلقین کی گئی ہے ۔ اس سے کم تر گرفت کی شکل یہ ہے کہ سزا تو نہ دی جائے صرف لعنت ملامت کرکے چھوڑدیا جائے۔ ’’وَتَصْفَحُوْا ‘‘ کہہ کر دراصل لعنت ملامت سے روکا گیا ہے گویا یہ پہلے درجہ سے اعلیٰ درجے کی روش کی طرف نشاندہی کی گئی ہے۔اسی طرح گرفت کی سب سے کم تر شکل یہ ہے کہ لعنت ملامت کے بجائے احساس دلا کر پردہ پوشی کی جائے ’’وَ تَغْفِرُ وْا‘ ‘ اور اس کے گناہ و جرم کو عام نہ ہونے دیا جائے ۔ اس صورت میں گنہ گار اپنی عزت کو محفوظ محسوس کرتا ہے، معاف کرنے والے کی توقیر اس کے نزدیک بڑھ جاتی ہے اور اصلاح کی طرف رغبت پیدا ہوجاتی ہے ۔ لہٰذا اس سب سے اعلیٰ روش کا نتیجہ سب سے بہتر برآمد ہوتا ہے ۔ چنانچہ تلقین کی گئی کہ درجہ بدرجہ یہ تینوں طریقے استعمال کرنا چاہئے ۔

تبصرے بند ہیں۔