بہادری کا تمغہ

سالک جمیل براڑ

رات کے تقریباً نو بج رہے تھے پورا شہر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ ایسے میں مرزا عنایت اللہ جنھیں لوگ صرف مرزا صاحب کے نام سے پکارتے تھے۔ بلیک ٹریک سوٹ پہنے ہوئے اسٹیشن کی طرف جارہے تھے۔

’’چچا جان!…السلام علیکم‘‘ارشد نام کے ایک لڑکے نے مرزاجی کو سلام کیا۔

’’میری گھڑی میں تو رات کے نوبج رہے ہیں ۔ ‘‘

مرزاجی کو ٹریک سوٹ پہنے ہوئے دیکھ کر ارشد نے طنزیہ انداز میں کہا۔

’’ہاں برخوردار!…گھڑی میرے پاس بھی ہے…ارے بیوقوف! اگر رات کا کھانا کھانے کے بعد کچھ چہل قدمی کرلی جائے تو صحت اچھی رہتی ہے اور آدمی ایک دم فٹ رہتا ہے‘‘مرزا جی نے محبت بھرے غصے میں کہا۔

’’چچا جان!…تبھی تو آپ کی فٹنس لاجواب ہے‘‘ارشد نے مرزا جی کے گودام جیسے پیٹ پر ہلکی سی چیت مار کر کہا۔

’’ہوں …‘‘ان کے منہ سے بے ساختہ نکلا اور وہ گردن مارتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ ابھی وہ چند قدم ہی چلے تھے کہ ایک اور آواز نے ان کے قدم روک دیے۔

’’السلام علیکم…چچاجان! ‘‘ایک نوجوان نے مرزاجی کو سلام کیا۔

’’وعلیکم السلام…‘‘مرزاجی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

’’چچا جان!…کہیں ڈاکہ ڈالنے کا ارادہ ہے؟‘‘

نوجوان نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔

’’کیا …میں تمہیں شکل سے ڈاکو نظر آتا ہوں ؟‘‘مرزا جی مسخرانہ انداز میں اپنا جائزہ لیتے ہوئے بولے۔

’’کسی کے منہ پرتھوڑی لکھا ہوتا ہے کہ وہ ڈاکو ہے ویسے بھی آپ نے کالا ٹریک سوٹ پہن رکھا ہے اور ماشاء اللہ آپ کی رنگت کا بھی جواب نہیں ۔ ‘‘نوجوان نے اپنی مسکراہٹ پر قابو پاتے ہوئے کہا۔

مرزاجی نے اسے ترچھی نگاہوں سے گھورا اوربغیر جواب دیے آگے بڑھ گئے۔ مرزا جی کے ان سے بڑے سات بھائی تھے۔ سب سے چھوٹے ہونے کی وجہ سے پورے محلّے میں کیا،پورے علاقے میں چچا جان کے نام سے مشہور ہوگئے تھے۔ ہر کوئی انہیں چچا جان کہہ کر پکارتا۔ بڑھتے ہوئے پیٹ اور وزن کی وجہ سے وہ اکثر بیمار رہتے تھے۔ آج صبح ہی ڈاکٹر نے ان کی دوائیاں بند کرتے ہوئے سیر کرنے کی صلاح دی تھی اور ساتھ ہی وراننگ بھی دی تھی کہ اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو وہ زیادہ دن جی نہ پائیں گے۔ بس پھرکیا تھا۔ مرزا جی رات کا کھانا کھاتے ہی سیر کے لیے نکل پڑے۔ انہوں نے شہرسے باہر ریلوے اسٹیشن تک جانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اب مرزاجی سنسان بازاروں سے ہوتے ہوئے شہر سے باہر ریلوے روڈ پر پہنچ چکے تھے۔ یہ علاقہ کافی ویران تھا۔ سڑک کے دونوں اطراف کھیت تھے یا پھر بڑی بڑی فیکٹریوں کی اندھیرے میں ڈوبی ہوئی عمارتیں ۔ وہاں پر لگی اکادُکااسٹریٹ لائٹیں اندھیرے کو ہٹانے کی ناکام سی کوششیں کررہی تھیں ۔ وہاں کا پر سکون ماحول اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہواکے جھونکے مرزاجی کو راحت پہنچا رہے تھے۔ اسی دوران انہیں یہ آوازیں سنائی دیں ۔

’’چور !چور!… پکڑو پکڑو … چور چور…!!‘‘

مرزاجی نے اندازہ لگایا کہ آوازیں اسٹیشن کی طرف سے آرہی ہیں ۔ وہ کچھ قدم اور آگے بڑھے تو آوازیں اور زیادہ صاف سنائی دینے لگیں ۔ اگلے ہی لمحے انہیں اپنے سامنے ایک آدمی بھاگتا ہوا آتا نظر آیا۔ جس نے اپنے ہاتھوں میں کوئی چیز اٹھائی ہوئی تھی۔ شاید وہ چور تھا۔ اس کے پیچھے کچھ فاصلے پر کئی آدمی شور مچاتے ہوئے دوڑے آرہے تھے۔ اندھیرے کی وجہ سے مرزاجی کو چور کا چہرہ صاف دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ چور کو پکڑنے کے لیے بھاگ کھڑے ہوئے،لیکن اچانک چور دائیں طرف کو مڑ گیا۔ اس نے مرزا جی کو دیکھ لیا تھا۔ مرزاجی رک گئے اور سوچنے لگے کہ اب کیا کیا جائے؟فوراً ان کے ذہن میں خیال کا ایک کوندا لپکااور وہ چور کے پیچھے ہولیے۔ وہاں پر اسٹریٹ لائٹ نہ ہونے کی وجہ سے مرزاجی نے گہری نظر سے دیکھا کہ کھیت کے اردگرد باڑھ کے طور پر لوہے کی تارلگی ہوئی ہے۔ یہ دیکھتے ہی انہوں نے اپنے دوڑنے کی رفتار تیز کردی تاکہ تارے کے اوپر سے کھیت کے اندر کودا جاسکے۔ جیسے ہی وہ کھیت کے اندرکودے،سیدھے دھڑام سے کیچڑ میں جاگرے اور بری طرح کیچڑ سے لت پت ہوگئے۔

کھیت میں بوئی ہوئی فصل کو پانی دیا ہوا تھا۔

’’نہیں مرزا…اُٹھ…اُٹھ مرزا…تمھیں اس چور کو پکڑنا ہے…اگر تم نے یہ کارنامہ انجام دے دیا تو بس! پھر تو تمہارے وارے نیارے ہیں …سبھی اخباروں میں تمھارے فوٹو چھپیں گے۔ بڑے بڑے لیڈروں سے انعامات اور شاباشی ملے گی …اور پھر پورے علاقے میں کیا پورے شہر میں تمھاری بہادری کے ڈنکے بجیں گے …یہ وقت سوچنے کا نہیں …چل جلدی اُٹھ۔ ‘‘

وہ ایک نئے عزم و حوصلے سے اُٹھے اور کیچڑ بنی مٹی میں گرتے پڑتے دوڑنے لگے۔

چور کو بھی کیچڑ میں چلنے میں مشکل پیش آرہی تھی۔ اس لیے وہ مرزاجی سے زیادہ دور نہ جاسکا تھا۔ چند لمحوں بعد دوسرے لوگ بھی کھیت تک پہنچ چکے تھے۔ کھیت کے آخر میں ایک آٹھ فٹ اونچی دیوار تھی اور چور دیوار تک پہنچ چکا تھا۔

مرزا جی مشکل سے اس سے بیس قدم پیچھے تھے۔ چور کو چوری کا سامان لے کر دیوار پرچڑھنے میں مشکل پیش آرہی تھی اور مرزاجی کو قریب آتے ہوئے دیکھ کر اُسے ڈر بھی لگ رہا تھا۔

چند لمحوں کی کوشش کے بعد اس نے مرزاجی کو غصے بھری نگاہوں سے گھورا اور سامان پھینک کر دیوار پھلانگ کر دوسری طرف کود گیا۔ لیکن بدقسمتی مرزا جی آٹھ فٹ اونچی دیوار پر چڑھ نہ سکے۔

آخر چور کا پیچھا کرنے والے بھی وہاں تک پہنچ گئے۔ وہ مرزاجی کو دیوار پر چڑھنے کی مسلسل کوشش کرتا ہوا دیکھ کر چور سمجھ بیٹھے کیونکہ چور کا سامان بھی قریب ہی پڑا تھا بس پھر کیا تھا۔

مرزاجی پر لاتوں گھونسوں اور لاٹھیوں کی برسات شروع ہوگئی۔

وہ چلّا رہے تھے’’ارے مجھے بہادری کا تمغہ دو…میری عزت کرو…تم مجھے مارکیوں رہے ہوں ؟‘‘

تبصرے بند ہیں۔