بہار میں اردو صحافت ( پہلی قسط)

صفدر امام قادری

دنیا میں صحافت کی تاریخ آزادیِ اظہار اور ظلم و جبر سے نبرد آزمائی کے پہلو بہ پہلو اپنے مقاصد طے کرنے کی وجہ سے اعتبار حاصل کر سکی۔صحافت کے موّرخین نے بادشاہی نوشتہ جات اور مفادِ عامہ کے اعلان ناموں کو صحافت کا اوّلین نمونہ مانتے ہوئے قبل مسیح عہد ہی سے صحافت کا آغاز تسلیم کیا ہے۔ اس اعتبار سے یونان، قدیم ہندستان اور مصر میں تاریخی طور پر صحافت جیسی اوّلین شَے کی تلاش کی جاتی ہے لیکن جدید صحافت نے مفادِ عامّہ کی اُن تشہیری تحریروں کی اس شِق پر صحافت کی اصطلاح منطبق کی جس کی نقلیں عوام کو دستیاب کرائی جا سکیں۔ اسی سے صحافت کی کاروباری جہت بھی سامنے آئی اور کاغذ کے چند صفحات جن پر کچھ خبریں اور چند تاثرات مرقوم ہوں، انھیں دنیا اور ملک وقوم کے گوشے گوشے تک پہنچا دینے کی کوشش شروع ہوئی۔ اس سے صحافت کا دائرۂ کار تو بڑھا ہی، اُس کے حلقۂ اثر میں بھی گو ناگوں اضافے ہوئے۔
ہندستان میں صحافت کی تاریخ ایسٹ انڈیا کمپنی کے بعض اصحاب الراے ملازمین کی مرحونِ منّت رہی۔ ولیم بوٹس اور پھر جیمس آگسٹس ہکّی اس اعتبار سے محترم ہیں کیوں کہ انھوں نے ہندستان میں صحافت کے موضوعات، مضامین اور مواد پر نہ صرف یہ کہ غور کیا بلکہ اس کے عملی نمونے ظاہر کرکے اٹھارویں صدی کے اواخر میں باضابطہ اخباری نمونے بھی پیش کیے۔ انگریزی کے بعد بنگلہ اور فارسی کے اخبارات بھی فوراً انیسویں صدی کے آغاز میں سامنے آگئے۔ ’’جامِ جہاں نما‘‘ (1822) سے ’’دہلی اردو اخبار‘‘(1836) تک باضابطہ طور پر اردو صحافت نے خود کو واضح سماجی اورسیاسی نقطۂ نظر کے ساتھ جوڑلیا تھا۔ اس دوران انگریزی، بنگلہ، فارسی، گجراتی، اردو اور ہندی زبانوں کی صحافت نے اپناایک قومی منظر نامہ مرتب کرلیا۔ دیکھتے دیکھتے کلکتہ، مدراس، بمبئی اور دلّی سے باہر علاقائی صحافت کا آغاز بڑی سُرعت کے ساتھ نظر آتا ہے۔ انگریزی حکومت کے پھیلنے اور متعدّد سماجی و حکومتی جبرہی تھے جن کی وجہ سے ہندستان میں عموی طور پر علاقائی اور کثیر لسانی صحافت کا فروغ ممکن ہوا۔ 1857 سے کافی پہلے اگر علاقائی اور کثیر لسانی صحافت کا فروغ نہیں ہوا ہوتا تو یہ ممکن ہے کہ1857 کا انقلاب اور آزادی کی جنگ کا بہترین آغاز شاید ہی ہوپاتا۔ اردو اور ہندستانی صحافت کا یہُ رخ کم وبیش آج بھی اپنے واضح اور ہمہ گیر اثرات کے اعتبار سے قائم ہے اور انگریزی کے ساتھ ساتھ علاقائی زبانوں اور جغرافیائی خطّوں کی صحافت خوب پھل پھول رہی ہے۔
اخبارات کے مورّخین عام طور سے اردو صحافت کی جب تاریخ مرتّب کرتے ہیں تو پہلا دور 1857 سے قبل کا مانا جاتا ہے۔ صوبۂ بہار اس اعتبار سے نہایت اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ بہار میں انگریزی اور ہندی صحافت سے قبل اردو صحافت کی داغ بیل پڑ چکی تھی۔ دوسرے صوبوں میں بالعموم پہلے انگریزی صحافت نے اپنی بنیاد رکھی اور تب علاقائی یا دیسی صحافت کا آغاز ہو سکا۔ شاید یہ اس لیے بھی ممکن ہوا کیوں کہ بہار میں 1850ء میں شاہ کبیر الدین احمد نے سہسرام میں ایک پریس قائم کرلیا تھا۔ شہرِ آرا سے اردو کا پہلا اخبار جولائی 1853 میں ’’نو رالانوار‘‘ نام سے شایع ہوا۔ اس اخبار کے ایڈیٹر سیّد خورشید احمد تھے اور مالک سیّد محمد ہاشم بلگرامی تھے۔ آرا اُس وقت شاہ آباد ضلعے کا مرکز تھا۔ اس اخبار کے سلسلے سے جن محقّقین نے بنیادی نوعیت کی اطلاعات فراہم کی ہیں، اُن میں سیّد محمد اشرف (اختر شہنشاہی)، محمد عتیق صدیقی (ہندستانی اخبار نویسی کمپنی کے عہد میں)، سیّد مظفّر اقبال (بہار میں اردو نثر کا ارتقا 1857 سے 1914 تک)، رخشاں ابدالی (مقالۂ مطبوعہ رسالہ ’ندیم‘ گیا۔ 1940) وغیرہ اہمیت کے حامل ہیں۔ بہار ڈسٹرکٹ گزیٹیر کے صوبائی مدیر جناب این۔ کمار نے 1971 میں ’جرنلزم اِن بہار‘ نام سے جو کتاب شایع کی، اُس میں بھی ’نورالانوار‘ کو بہار کی تمام زبانوں کا پہلا اخبار تسلیم کیا گیاہے۔ این۔ کمار نے اسے ہفتہ وار اخبار تسلیم کیا ہے لیکن دیگر ذراع سے اس کی معیاد کا ٹھیک طریقے سے پتا نہیں چلتا۔ بد قسمتی سے ایسا کوئی محقّق اب تک سامنے نہیں آسکا جس نے یہ دعوا کیا ہو کہ اُس نے اِس اخبار کا مطالعہ کیا ہے۔ اکثر و بیش تر افراد کا ماخذ ’اخترِ شہنشاہی‘ مطبوعہ 1888 ہی ہے جہاں نہایت ہی مختصر اطلاع ملتی ہے جس کی نقل یا نقل درنقل سے اکثر محقّقین نے اپنے چراغ جلائے ہیں۔ ’اخترِ شہنشاہی‘ میں ’نورالانوار‘ کے بارے میں لکھا ہے: ’’نورالانوار : آرہ ضلع شاہ آباد محلہ پھاٹک سادات بلگرام، مالک سیّد محمد ہاشم بلگرامی اثنا عشری مہتمم سیّد خورشید احمد اثنا عشری اجراے جولائی 1853ء‘‘ (اخترِ شہنشاہی ص 275) ۔ یہاں یہ بھی معلومات حاصل نہیں ہو پاتیں کہ یہ اخبار کس نقطۂ نظر کا تھا اور اس کا مزاج کیا تھا یا اس کے مشتملات کی نوعیت کیا تھی؟ کسی لائبریری یا ذخیرۂ دستاویز میں اب تک اِس کا کوئی شمارہ کسی محقّق کو ہاتھ نہیں لگا جس کی وجہ سے خطّۂ بہار میں اردو صحافت کی پہلی کڑی اب بھی معلومات کے اعتبار سے تقریباً گم شدہ ہی ہے اور ہم ’نورالانوار‘ کے نام سے آگے نہیں بڑھ پاتے۔
صوبۂ بہار سے دوسرا اردواخبار ’’پٹنہ ہر کارا‘‘ تین شعبان 1271ھ بمطابق 21 اپریل 1855 کو شایع ہوا۔ یہ مہینے میں تین بار انگریزی کی پہلی، گیارویں اور اکیسویں تاریخوں کو شایع کیا جا تا تھا۔ اس اخبار کے مالک شاہ ابو تراب تھے جو پریس کے بھی مالک تھے۔ ایڈیٹر کا نام تو کہیں شایع نہیں ہوتا تھا لیکن سیّد مظفّر اقبال نے یہ قیاس کیا ہے کہ شاہ ابوتراب ہی اس کے ایڈیٹر تھے۔ 1855 کے 21 اپریل، یکم مئی، 21 مئی، یکم جون، گیارہ جون اور 21 جون کے شمارے خدا بخش لائبریری، پٹنہ میں موجود ہیں۔ مظفّر اقبال کی اطلاع یہ ہے کہ یہ اخبار یکم مارچ 1856 تک نکلتا رہا۔ 12 صفحات کے اس اخبار میں دو کالم ہوتے تھے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی اور انگریزی حکومت کی طرف داری میں یہ اخبار سرگرم معلوم ہوتا ہے۔ عیسائیت کی تبلیغ کے امور کی مخالفت میں اِس اخبار میں مضامین شایع ہوئے ہیں۔ اس اخبار میں معاصراخبارات سے خبریں اخذ کرنے کا خاص اہتمام ہے۔ کچھ خبریں اپنے مخصوص نمائندوں کی بھی شایع ہوتی تھیں۔ اس اخبار نے اپنے نمائندوں کو ’منحبر‘ نام سے یاد کیا ہے جو موجودہ مذاق کے اعتبار سے ایک علاحدہ مفہوم کا لفظ ہے اور عام طور سے منفی معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ’پٹنہ ہرکارا‘ نے اپنی پالیسی کچھ اس طرح سے پیش کی تھی :
(I) ’’جو خبر مثل ہجو کسی شخص کے جس میں تذلیل وہ تحقیر کسی کی ہو، ہرگز طبع نہ ہوگی۔ برخلاف اس کے کہ جو خبر ایسی صحیح کہ وقوع اس واقع کا بلا تشکیل و تمہید ہو، ہر چند وہ محمول ہو اوپر قدح یا مدح کے، چار وناچار طبع ہونا اُس کا ضرور ہوگا۔‘‘
(II) اسی سبب سے حرماں متوسطین مخوف رہے کہ حاکم، اخبار نویس سے پوچھ بیٹھے کہ یہ خبر تم کو کہاں سے ملی جو مندرجِ اخبار کیا تو اُس وقت ایسا نہ ہو کہ حاکم تصوّر کریں ہم بچّہ شتریت(؟) وحالاں کہ یہ تصوّر مخبر کا غلط ہے کیوں کہ جو واقعہ صحیح و بلا تمہید نسبتِ رعایا یا حُکّام کے ہو، اُس کے لکھنے میں کچھ قباحت نہیں ہے مگر ہم کو وہ بات نہیں لکھنا چاہیے جس میں کسی طرح کا نقصان سرکار یا ملک کے حاکم کے برخلاف وقوع کی ہو۔‘‘ (پٹنہ ہرکارا: 21 جون 1855)
اُس وقت کی عام روِش کے اعتبار سے یہ پالیسی کُچھ زیادہ قابلِ اعتراض نہیں ہے کیوں کہ اُس زمانے میں اخباروں کا خاص کام حکومت کی خبروں اور خاص طور پر سرکاری احکامات کی تشہیر تسلیم کیا جاتا تھا۔ قاضی عبدالودود نے اِس اخبار کے 14 شماروں کی تلخیص اپنے مضمون مطبوعہ معاصر (عہد جدید حصّہ 15) میں پیش کی ہے۔ خبروں کے جو نمونے سامنے آئے ہیں، اُن سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اِس اخبار میں پورے مُلک کی خبریں شایع ہوتی تھیں اور مختلف سماجی، سیاسی اور ادبی امور زیرِ بحث رہتے تھے۔ یہ اخبار ٹھیک غدر سے پہلے کی واقعی صورتِ حال کیا تھی، اِسے جاننے کے لیے بھی ایک اہم ذریعہ ہے۔ قاضی عبدالودود نے اس اخبار کے سلسلے سے جو یادداشتیں رقم کی ہیں، اُن میں 15 نمبر یادداشت سے لکھنؤ کے حالات کا اندازہ ہوتا ہے۔ دو خطوط کے حوالے سے قاضی عبدالودود نے یہ لکھا ہے:
’’ایک خط کا یہ خلاصہ ہے کہ شاہ اودھ نے تمام شہرِ لکھنؤ میں منادی کی ہے کہ کوئی فرد بشریہ لفظ زبان پر نہ لاوے کہ اب سرکار انگلشیہ……. اودھ کو اپنے تحت و تصرف میں لاوے گی ورنہ ناک کاٹ لی جاوے گی۔ چنانچہ دو آدمیوں کی ناک بہ علّت اسی جرم کے کاٹی گئی…… خلاصہ دوسرے خط کا مطابق خلاصہ قطعۂ اوّل کے ہے مگر اسی قدر اختلاف ہے جو کوئی ایسا لفظ زبان پر لاوے گا وہ بہ سواریِ خرشہر میں تشہیر کیا جاوے گا چنانچہ کوتوالِ شہر نے حضور میں وزیر اعظم کے عرض کی کہ یہ خبر…..ہر خاص وعام کی زبانوں پر جاری ہے، اس قدر گدھے کہاں سے میسّر آویں گے جو اس قدر عوام الناس سزا پاویں گے۔‘‘
[قاضی عبدالودود : چند اہم اخبارات ورسائل، ادارہ تحقیقاتِ اردو، پٹنہ۔ 1993ء ص۔60]
اس اقتباس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ٹھیک غدر سے پہلے لکھنؤ کے حالات کیا تھے اور آخری نواب اس سلسلے سے کِس سختی سے حالات پر قابو رکھنے کا ارادہ کر رہے تھے لیکن چند دنوں میں ہی صورتِ حال بالکل بدل گئی۔ یکم مئی 1855ء کے شمارے میں ’پٹنہ ہر کارا‘ میں یہ خبر شایع ہوئی :
’’ ناظرین اخبار ظاہر ہے کہ اس امر میں کوئی ….احکام….. صادر نہیں ہُوا۔ جیسا کہ زبان زدعوام ہے، بلکہ اکثر خواص بھی یہی اعتقاد رکھتے ہیں کہ سرکار بلند افتخار نے اب تک کوئی زبردستی بہ نسبت رعایا نہیں فرمائی بلکہ ہمیشہ عدل و انصاف ہی رہا….. اور یہی باعث تھا کہ قیام سلطنت تاہنوز باقی نہ بچا۔‘‘[ص۔11]
اس اقتباس سے یقین ہوتا ہے کہ یہ اخبار کم و بیش انگریزی حکومت کا طرف دار ہوتا تھا۔ ہر چند اس میں برطانوی حکومت کے خلاف پیدا ہورہی صورتِ حال سے متعلّق بھی کُچھ خبریں ضرور شایع ہوتی تھیں۔ قاضی عبدالودود نے اپنے تاثرات میں یہ جملہ درج کیا ہے : ’’پٹنہ ہرکارا کسی نقطۂ نظر سے اچھّے اخباروں میں شمار نہیں کیا جا سکتا‘‘ لیکن اُس عہد کی صحافت کے معیار کے پیشِ نظر اس کے مشتملات اسے معمولی اخبار قرار دینے سے گریز کرتے ہیں۔
’اخترِ شہنشاہی‘ سے بِہار کے تیسرے اخبار ’’ویکلی رپورٹ‘‘، گیا کے بارے میں یہ اطلاع ملتی ہے کہ یہ اخبار یکم مئی 1856ء کو شروع ہوا تھا۔ اس کی مدّت ماہانہ تھی اور 24 اوراق پر مشتمل تھا۔ اس کے مالک جے۔جے۔ رام تھے۔ ’اخترِ شہنشاہی‘ کی اطلاع کو ہی بنیاد بناکر عتیق صدّیقی اور سیّد مظفّر اقبال نے اپنی کتاب میں اس اخبار کا تذکرہ کیا ہے۔ سیّد احمد قادری [اُردو صحافت بہار میں، 2003]نے گیا ضلع کی مختلف لایبریریوں میں اس اخبار کی تلاش کی کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ملی۔ اس اخبار کے اقتباسات یا یادداشتیں بھی کہیں دستیاب نہیں جس کی وجہ سے اس کے طرز تحریراور صحافتی معیار پر گفتگو کی جا سکے۔
شاہ ابو تراب کے مطبع سے لالہ بِندا پر ساد حسرتی کی ادارت میں یکم ستمبر 1856ء کو ’’اخبارِ بہار‘‘ جاری ہُوا۔ اس کے کاتب کا نام فتح بہادر تھا۔ اس کے بیش تر شمارے 8 صفحات پر مشتمل ہیں مگر چند شماروں میں 10 سے لے کر 14 صفحات تک ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔ ’پٹنہ ہرکارا‘ کی طرح ہی یہ اخبار بھی مہینے میں 3 بار یکم، گیارویں اور اکیسویں تاریخ کو شایع ہوتا تھا۔ 1856ء اور 1857ء کے 33 شمارے منیرشریف کی خانقاہ میں محفوظ تھے جن کے مطالعے کے بعد سیّد مظفّر اقبال نے یہ مشاہدہ درج کیا : ’’پٹنہ ہرکارا کی طرح یہ اخبار بھی کمپنی کی حکومت کا خیر خواہ تھا۔‘‘ سیّد احمد قادری نے اس اخبار کے جو چند اقتباسات پیش کیے ہیں، اُن سے بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے حالاں کہ اُنھوں نے قدیم خط پڑھنے اور نقل کرنے کے سلسلے سے فاش غلطیاں کی ہیں۔ اصل اقتباسات ملاحظہ ہوں :
(1) ’’عنایات سرکار : ۔ سرکار دولتمدار نے حُکم دیا ہے کہ جس وقت کسی شاہزادہ کی یا کسی اور تنخواہ دار گورنمنٹ کی وفات کی خبر حکام مفصل کو معلوم ہو، فوراً دوسوروپے خزانۂ سرکاری سے بلا انتظار اجازت ومنظوری گورنمنٹ، تجہیز و تکفین کے واسطے دیا کریں۔ سبحان اﷲ کیا عنایات بے پایاں والطاف بے کراں ہے‘‘
[’’اخبار بہار‘‘ بتاریخ یکم فروری 1857ء ص ۔10]
(2) ’’29مئی کو کلکتہ سے یہ خبر پہنچی کہ الہٰ آباد و لکھنؤ میں کُچھ فساد نہیں ہے اور لاہور سے یہ خبر آئی ہے کہ چاروں طرف سے فوج سرکاری پہنچ گئی اور دہلی کا محاصرہ ہوگیا اور اس مہینے کی 8 تاریخ سپاہیان باغی کی سزادہی کے واسطے مقرر ہوئی، یقین ہے کہ باغیوں کو سزاے اعمال مل گئی ہو۔‘‘
[’’اخبار بہار‘‘ بتاریخ 11 ؍جون 1857ء ص۔ 5]
مذکورہ اقتباسات اس بات کا واضح اشارہ کرتے ہیں کہ یہ اخبار پورے طور پر ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی سامراج کی طرف داری پر قائم تھا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انقلاب جیسے جیسے قریب آتا گیا، انگریزی حکومت نے ذرائع ترسیل بالخصوص اخبارات پر اپنی مضبوط گرفت قائم کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ ایک طرح سے یہ اخبارات بھی بلاواسطہ طور پر عوام اور ہندستانی مجاہدین کے واضح مخالف ہو چکے تھے۔ بعض دوسرے اخبارات کی طرح ’’اخبارِ بہار‘‘ اس کی ایک نمایاں مثال ہے۔
بہار کے قدیم اخبارات میں ’عظیم الاخبار‘ پٹنہ بھی خاص اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ غدر کے فوراً بعد جولائی 1859ء مطابق 1275ھ میں یہ شایع ہونا شروع ہوا۔ اس کی اشاعت عبدالجلیل اور سیّد محمد اسمٰعیل کے پریس سے ہوئی۔ مظفر اقبال نے 4 ستمبر 1859 سے 5 مئی 1860ء کے درمیان کے 16شمارے ملاحظہ کیے تھے اور اس پر اپنی کتاب میں تاثرات درج کیے ہیں۔ اس اخبار کے زیادہ تر شمارے 12 صفحات پر مشتمل ہیں۔ یہ ہفتہ وار اخبار تھا اور اتوار کو شایع ہوتا تھا۔ غدر کے بعد بہار سے شایع ہونے والا یہ پہلا اخبار تھا۔ اس کے بارے میں مظفر اقبال نے مزید تفصیلات یوں پیش کی ہیں:
’’اس اخبار میں زیادہ تر قوانین وضوابطِ عدالت اور مختلف دیار و امصار کی خبریں درج ہوتی تھیں۔ یہ خبریں ہم عصر اخبارات سے نقل کی جاتی تھیں اور ان کا حوالہ بھی دیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ اخبار کے نامہ نگار بھی تھے اور ان کی بھیجی ہوئی خبریں بھی چھپتی تھیں۔ خبروں کے علاوہ اخبار میں مختلف موضوعات پر مضامین بھی چھپتے تھے۔‘‘
(سیّد مظفر اقبال : بہار میں اردو نثر کا ارتقا، ص 147)
بہار کے قدیم اخبارات میں ’اخبار الاخیار‘مظفرپور کی واضح اہمیت تسلیم کی جاتی ہے کیوں کہ یہ اخبار سرسیّد کی تحریک سے متعلّق تھا اور اس کا ایک قومی تناظر دکھائی دیتا ہے۔ 15ستمبر 1868 ء کو مطبع چشمہ نور، مظفر پورسے یہ جاری ہوا تھا۔ عام طور پر ہر شمارے میں 16 صفحات شامل ہوتے تھے۔ یہ اخبار 15 روزہ تھا اور اس کے صفحات بائیں سے دائیں جانب لکھے جاتے تھے۔ اس سلسلے سے اخبار میں کسی نے سوال کیا تو جواب میں ایڈیٹر نے 15 اپریل 1869ء کے شمارے میں یہ وضاحت کی کہ جلد ہی اس اخبار کو انگریزی میں بھی شایع کیا جائے گا۔ اس لیے پہلے سے ہی اس کے صفحات بائیں سے دائیں جانب کھُلیں گے۔ اس کے پہلے ایڈیٹر بابو اجودھیا پرشاد منیری تھے۔ آغاز سے 15 ستمبر 1870ء تک کے شمارے میں اجودھیا پرشاد کا ہی نام ملتا ہے۔ یکم ستمبر 1870ء سے دسمبر 1870 سے جو شمارے ملے، ان پر ایڈیٹر کی حیثیت سے منشی قربان علی خاں صاحب کا نام درج ہے۔  (جاری)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔