بے جابحث کے مضر اثرات

ریاض فردوسی

یہ ایک نصیحت ہے پس جو کوئی چاہے اپنے رب کی طرف جانے کا راستہ اختیار کرلے، اور تم کچھ نہیں چاہ سکتے مگر جو اللہ کو منظور ہو، بے شک اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔ (اللہ) جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرلیتا ہے، اور ظالموں کے لئے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔(سورۃالدھر،آیت۔۲۹تا ۳۱)

اس روزپروردگارہی کے پاس ٹھکانہ ہے۔اس دن انسان کو جو(عمل)اس نے آگے بھیجے اور پیچھے چھوڑے ہوں گے سب بتا دیا جائے گا،اگرچہ عذر و معذرت کرتا رہے(سورۃ القیامہ آیت ۔۱۳تا ۱۵)

نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجہ سے ارشاد فرمایا، اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ تیرے ذریعے سے ایک آدمی کو راہ راست پرچلنے کی توفیق دے۔تو یہ تیرے لئے بہتر ہے اس سے تجھے سرخ اونٹ ملے۔ (عن سہل ابن سعد صحیح البخاری )

نافع ؒ عبداللہ ابن عمرؓ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ہم ابوبکر رضی اللہ عنہ کے برابر کسی کو نہیں قرار دیتے تھے۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ کو پھر عثمان رضی اللہ عنہ کو۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ پر ہم کوئی بحث نہیں کرتے تھے اور کسی کو ایک دوسرے پر فضیلت نہیں دیتے تھے، اس حدیث کو عبداللہ بن صالح نے بھی عبدالعزیز سے روایت کیا ہے۔ اس کو اسماعیلی نے وصل کیا ہے۔(صحیح بخاری۔۔حدیث۔۔3698)

خالق کائنات نے تمام جن و انس کے لئے جو اصول وضوابط قائم کئے، حدود متعین فرمائے ہیں ان پر عمل کرکے دونوں عالم کی کامیابی اور کامرانی کاراز قران کریم کے احکامات کی فرماں برداری اوررسول کریم ﷺ کی اطاعت میں رکھا ہے۔ہماری اخلاقی پستی کا یہ عالم ہے کہ شاید ہی ہمارا رہن سہن، طور طریقے کا کوئی تعلق عہد رسول ﷺ کے مسلمانوں جیسا ہے۔(الا ماشاء اللہ) اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے۔’’ اس کے سوا نہیں کی سب مومن بھائی بھائی ہیں، پس تم اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کرادو، اللہ سے ڈرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے۔(پارہ۔۲۶،سورہ الحجرات۔آیت۔۱۰) رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے، (صحیح الابخاری،جلد۔۱) حجتہ الاسلامامام غزالی ؒ فرماتے ہیں، جہنمیوں پر ایک قسم کی خارش مسلط کر دی جائے گی جس کی وجہ سے وہ اپنے بدنوں کو کھجلائیں گے، یہاں تک کہ ان میں سے کسی کی ہڈی ظاہر ہو جائے گی تو ندا کی جا ئے گی، اے فلاں !کیا تجھے اس کی وجہ سے تکلیف ہو رہی ہے ؟ وہ کہے گا ۔ہاں ۔ منادی کہے گا ۔ یہ اس کا بدلہ ہے جو تم مسلمانوں کو تکلیف دیتے تھے۔(احیا ء العلوم، جلد، ۲ صفہ،۷۵۶) نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا’’جس شخص کے سامنے کسی مسلمان کی بے عزتی کی جائے اور طاقت کے باوجود اس کی امداد نہ کرے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے برملہ ذلیل اور رسوا کرے گا۔(مسند احمدابن حنبلؒ ) ۔سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ! ’’میں نے جنت میں ایک شخص کو دیکھا جو کیف و مستی میں جھومتا پھرتا تھا یہ مقام اسے محض اتنی سی بات سے حاصل ہوا کہ دنیا میں اس نے ایک راستے سے ایسا درخت کاٹ دیاتھا جس سے گزر نے والوں کو تکلیف ہوتی تھی‘‘۔(صحیح مسلم، کتاب البر و الصلتہ، باب فضل اذالتہ الاذیٰ عن الطریق)

بحث میں انسان حد سے تجاوز کرجاتا ہے۔ دو فریقین کے درمیان مناظرے میں دونوں فریق ایک دوسرے کو زیر کرنے کے لیے ہر وہ حربہ استعمال کرتے ہیں جو ادب کی مناسبت سے اچھا عمل نہیں کہا جاسکتا ہے۔ جب بھی حنفی، اہل حدیث، دیوبندی، بریلوی، سنی اور شیعہ کے درمیان مناظرہ ہوا ہے۔ اس وقت شعائر اسلام کی پامالی ہی ہوئی ہے۔ اس وقت نہ کسی فرقے کی مذمت ہوتی ہے اور نہ کسی فرقے کے عالم کی۔ رسوا صرف اس وقت مذہب اسلام ہوتا ہے۔ اور اسلامی تعلیمات ہوتی ہے کوئی فرقہ ہو، کوئی مسلک ہو۔ اس کے پیروکار چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر اس قدر بحث وتکرا ر کرتے ہیں ۔ جیسے یہ مسلکی لڑائی نہ ہوکر ذاتی نام ونمود کی لڑائی ہو۔ دونوں فریق کی تمام عقل، ساری فہم، اس بات کو ثابت کرنے میں صرف ہوتی ہے کہ ہمارا مسلک حق پر ہے۔

ہمارا نقطہ حیات ہی سیدھا راستہ ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس یہ صرف ہماری خود نمائی نہیں تو اور کیا ہے؟ ہمارے اکابرین کے درمیان بھی مباحثہ ہوا ہے۔ ان لوگوں نے بھی علمی بحث کی ہے۔ لیکن وہ لوگ علم کے تحت صرف مباحثہ کرتے تھے۔ انہوں نے کبھی بھی عقائد یا خدا ورسول ﷺ کے ذات اقدس کو لے کر کبھی کوئی مناظرہ نہیں کیا۔ وہ لوگ جن پر اللہ وحدہٗ لاشریک کی سلامتی ہو۔ وہ بحث کے درمیان ادب کے ہر پہلوؤں کو ملحوظ رکھتے تھے۔

حضرت امام باقر علیٰ جدہ وعلیہ السلام نے امام اعظم ابو حنیفہ (نعمان بن ثابت ) رحمتہ اللہ علیہ سے دریافت کیا۔ تم ہی قیاس کی بنیاد پر ہمارے دادا کی حدیثوں سے اختلاف کرتے ہو۔ امام اعظم ؒ نے نہایت ادب سے کہا معاذ اللہ حدیث کی کون مخالف کر سکتا ہے۔ آپؓ اگر اجازت دیں تو کچھ عرض کروں ۔ حضرت امام باقرؓ نے اپنی رضا مندی ظاہر کردی تو امام اعظم ابو حنیفہؒ نے سوال کیا۔

مرد ضعیف ہے یا عورت؟ حضرت امام باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ’’عورت‘‘ پھر امام اعظم ؒ نے دوسرا سوال کیا۔ وراثت میں مرد کا زیادہ حصہ ہے۔ یا عورت کا؟ امام باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا مرد کا۔ تب امام اعظم ابو حنیفہ ؒ نے فرمایا اگر میں اپنے قیاس کا سہارا لیتا تو یہ کہتا کہ عورت کو زیادہ حصہ ملنا چاہئے ۔ کیونکہ ظاہر قیاس کی بنیا د پر ضعیف اس رعایت کا زیادہ حقدار ہے۔ پھر امام اعظم ؒ نے ایک اور سوال کیا ۔ نماز افضل ہے یا روزہ۔

امام باقرؓ نے جواب دیا ’’نماز‘‘ امام اعظم ؒ نے فرمایا اس اعتبار سے حائضہ عورت پر نماز کی قضا ہونی چاہیے نہ کہ روزے کی۔ اور میں بھی روزے ہی کی قضاکا فتویٰ دیتاہوں ۔ امام ابو حنیفہ ؒ کا یہ جواب سن کر امام باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فر ط مسرت سے آپ رحمہ اللہ کو پیشانی کو بوسہ دیا اور آپؒ کو گلے سے لگالیا۔

امام محمد ابن حسن شیبانی رحمۃ اللہ اور ان کے شاگرد امام شافعی (محمد ابن ادریس) رحمۃ اللہ علیہ کے درمیان مسئلہ شادیمین کو لے کر مناظرہ ہوا۔ وہاں پر موجود امام محمد ابن حسن رحمۃ اللہ علیہ (آپ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کے شاگرد ہیں ) کے شاگردوں نے دیکھا کہ مباحثہ کے درمیان دونوں افراد نے ادب کو اولین ترجیح دی۔ دوران مباحثہ ایسی کوئی بات اپنی زبان سے نہ نکالی کے مقابل کی دل آزاری ہو۔ ایسی کوئی سند نہیں پیش کی کہ جس سے اسلامی شعار کے ساتھ کسی قسم کی نا انصافی ہو۔ آج در اصل ہمارا مناظرہ کسی شخص سے ہوتا ہے تو ہمارے دل میں اس بات کی شدید تمنا رہتی ہے کہ ہم اس شخص کو جو ہمارے مقابل ہوتا ہے کس طرح اپنے دلائل سے زیر کردیں ۔ چاہے ہماری بات حق ہو یا نہ ہو۔ ہمیں اس بات کا قطعا خیال ہی نہیں رہتا ہے کہ ہم جو باتیں مقابل کے سامنے پیش کر رہے ہیں اس میں کہاں تک سچائی ہے۔ صرف عزت نفس کی خاطر گناہ بے لذت بٹورتے ہیں۔

حضور ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا (ترجمہ) ہدایت پاجانے کے بعد وہی گمراہ ہوتے ہیں جنہیں بحث و جدال میں مبتلا کر دیا جاتاہے۔ (او کما قال ﷺ) اس کے بعد سرور کونین ﷺ نے قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت فرمائی (ترجمہ) انہوں نے یہ مثال کٹ حجتی سے پیش کی ہے یہ لوگ بڑے جھگڑالوں ہیں ۔ (القرآن)

حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ رسالت مآب ﷺ نے ٹھہر ٹھہر کر تین بار فرمایا۔ کرید نے والے ہلاک ہوگئے۔ کرید نے والے ہلاک ہو گئے کریدنے والے ہلاک ہوگئے(اوکما قالﷺ)

حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوتے حضرت عبد اللہ بن حسن رحمۃ اللہ فرمایا کرتے ہیں کہ بحث سے پرانی دوستیاں غارت ہوجاتی ہیں ۔ محبت کی گرہیں کھل کر بغض و عداوت کی گرہیں پڑجاتی ہیں ۔ مباحثے کا کم سے کم نقصان یہ ہے کہ ہر فریق غالب آنے کی خواہش رکھتا ہے اور اس سے بڑھ کر پھوٹ ڈالنے والا کوئی چیز نہیں ۔ حضرت امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کاتذکرہ ہوا تو آپ نے حاضرین سے مخاطب ہوکر فرمایا۔ تم انہیں جانتے ہو بھی ؟ امت میں سب سے بہتر لوگ تھے ۔ خدا نے انہیں اپنے نبی ﷺ کی صحبت ورقابت کے لیے منتخب کیا تھا۔ تم بھی ان کی طرح اپنے اخلاق سنواروں ان کے طریقوں پر چلنے کی کوشش کرو۔ یہ میں اس لئے کہتا ہوں کہ رب کعبہ کی قسم ! وہ سراسرہدایت پر گامزن تھے۔ ابراہیم ابن ادہم رحمۃ اللہ علیہ اہل مجلس سے فرمایا کرتے تھے کہ، تم ایسے کہاں بر گزیدہ ہو کہ اللہ نے اپنے رسول ﷺ کے ساتھیوں سے علم چھپا،اور تمہارے لئے عیاں رکھا ہے۔ ابو محمد رحمۃ اللہ کہتے ہیں کہ ہمارے اسلاف نے علم فقہ میں بحث ومناظرہ کیا ہے۔ لیکن عقائد کے سلسلے میں اس قسم کی گفتگو سے منع فرمایا ہے۔ وہ اس لئے کہ عقائد میں مباحثہ آدمی کو دین سے خارج کردیتا ہے۔ ایک شخص نے مناظرے کے دوران قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت کی (ترجمہ) تین آدمی راز کی باتیں کرتے ہیں تو چوتھا ان کے ساتھ اللہ ہوتاہے۔ (القرآن)

وہ شخص ہر جگہ اللہ کے موجود ہونے کی دلیل پیش کررہاتھا۔(مسئلہ وحدت الوجود۔ وحدت الشہود) جواب میں اس کے حریف نے کہنا شروع کردیا۔ اگر یہی بات ہے تو پھر اللہ تمہاری ٹوپی کے نیچے تمہارے باغ کی چار دیواری کے اندر اور تمہارے گدھے کی کھال کے پیچھے چھپاہوگا۔ (معاذ اللہ صد بار معاذ اللہ، استغفر اللہ ربی من کل ذنبی) وکیع ابن جراح رحمۃ اللہ علیہ (جو عراق کے مشہور محدث گزرے ہیں ) نے اس واقعہ کو بیان کیا ہے۔ حالانکہ اللہ کی قسم ! میرے نزدیک ان لوگوں کی گفتگو نقل کرنا بھی ناپسند یدہ فعل ہے۔ علماء نے اس قسم کی باتوں سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے۔

یحیٰ ابن سعیدؓ کی روایت ہے کہ حضرت عمر الثانی سیدنا عمر ابن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ جب تم لوگوں کو دیکھو کہ عوام سے چھپ کر دین کے معاملے میں سر گوشیاں کر رہے ہیں تو سمجھ لو کہ وہ گمراہی پھیلانے کی فکر میں ہے۔ فرازی سے روایت ہے کہ سید نا عمر ابن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ سے جنگ صففین کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ۔ جب اللہ نے صففین کے خون سے میرے ہاتھوں کو رنگین نہیں ہونے دیا تو پھر میں اپنی زبان کو اس خون سے کیوں رنگین کروں ۔ امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں میں نے بزرگوں سے سنا ہے کہ جب اللہ کسی قوم کی برائی چاہتا ہے تو اس میں بحث وجدل کی گرم بازاری ہوجاتی ہے۔ اور عمل کا ولولہ جاتا رہتاہے۔ معاویہ ابن عمر رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ بحث سے دور ہو،اس سے عمل گم ہوجاتاہے۔ محمد ابن حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دنیا اس وقت تک ختم نہ ہوگی جب تک لوگ اپنے اللہ کے بارے میں بحث نہ کرنے لگیں ۔ (یہی مفہوم ایک حدیث پاک ﷺ کا بھی ہے۔)

ہثیم ابن جمیل رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ جب میں نے ایک بار حضرت امام مالک ؒ سے پوچھا : کیا کسی محدث کو حمایت حدیث ﷺ میں مناظرہ کر نا چاہیے ۔جو اباً امام مدینہ رحمۃاللہ تعالیٰ نے فرمایا ہر گز نہیں محدث کو چاہیے کہ صرف حدیث پاک سنادے ۔ اگر لوگ قبول نہ کریں تو خاموش ہوجائے۔

مصعب ابن عبد اللہ رحمۃ اللہ سے روایت ہے کہ امام مالک ؒ فرمایا کرتے تھے دین کے اندر تجھے گفتگو پسند نہیں ۔ میں اس کلام کو پسند کرتاہوں جس کا نتیجہ عمل ہو۔ دین الٰہی اور ذات خداوندی میں مجھے بحث نہیں سکوت پسند ہے۔ میں نے اپنے شہر کے بزرگوں کو دیکھا ہے کہ دین الٰہی میں قیل وقال سے روکتے تھے۔ ایک جگہ حضرت امام مالک ؒ نے فرمایا،حجتی جب بھی بڑے بڑے حجتوں سے ہارتے جائیں گے تو کیا اپنا دین چھوڑ کر نئے نئے دین قبول کرتے رہیں گے۔ مغیرہ ابن ابراہیم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کہتے ہیں کہ اگلے بزرگ، دین کے معاملے میں تلون اضطراب وانتشار کو ناپسند کرتے تھے۔ مصعب ابن عبد اللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا بیان ہے کہ میں نے اسحاق ابن اسرائیل رحمۃ اللہ سے مباحثہ کرنا چا ہا تو فرمانے لگے مجھے اپنے مسلک میں کوئی شک نہیں ۔ لیکن وہی کہوں گا جو بزرگوں سے ثابت ہے اور جو ثابت نہیں اس پرسلف صالحین کی طرح خاموش رہوں گا۔ حضرت امام احمد ابن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ علم کلام والا کبھی فلاح نہیں پاسکتا، جس کسی کو علم کلام میں تھوڑا سا بھی دخل ہے۔ اس کے دل میں تم ضرور کھوٹ پاؤگے۔ ابو عبد اللہ محمد ابن اسحاق مصری رحمۃ اللہ نے اپنی کتاب ’’الاجارات‘‘ میں وضاحت کی ہے کہ حضرت امام مالک ؒ اور تمام اصحاب مالکیہ کے نزدیک اہل کلام بدعتی ہیں ۔ خواہ وہ اشعری ہو یا معتزلی یا کوئی اور ۔ اسلام میں ان کی شہادت مقبول نہیں ۔ حضرت امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں نہ اہل بدعت کی صحبت اختیار کرو اور نہ ان سے بحث کر اور نہ ان سے حدیث سنو۔ عظیم محدث مسعر ابن کرام رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے بیٹے کو اس طرح نصیحت فرمائی تھی۔ ’’فرزند میری نصیحت تیرے سامنے ہے اپنے باپ کی بات غور سے سن ۔ تمسخر اور بحث سے دور رہ یہ خصلتیں میں کسی کے لیے پسند نہیں کرتا۔ میں ان دونوں کو خوب آزما چکا ہوں، نہ یہ میرے ہمسائے کے لئے پسند یدہ ہیں اور نہ ساتھی کے لیے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے استاد سفیان ابن عینیہ رحمۃ اللہ علیہ ایک مناظرے کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ میں نے جابر جفعی رحمۃ اللہ علیہ کے زبان سے ایسی گفتگو سنی کہ میں لرزکر رہ گیا اور مجھے خوف پیدا ہوا کہ کہیں ہم پر چھت نہ ٹوٹ پڑے۔‘‘

امام شافعی (محمد ان ادریس) رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ( عقائد کی بحث )اور دیگر مذہبی عقائد کے سلسلے میں مناظرے سے سخت گریز کرتے تھے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک مناظرہ کوئی مستحسن فعل نہیں تھا۔

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور قول ہے۔ ’’اگر لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ علم کلام میں کیسی کیسی گمراہیں ہیں تو وہ اس سے اس طرح بھاگنے لگیں جیسے کوئی شیر کو دیکھ کر بھاگتاہے۔‘‘

امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور حفض الفرد میں مناظر ہ ہو ا تو امام نے وہاں پر موجود یونس بن عبد الاعلیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے کہا ’’یونس! شرک کے علاوہ بندہ کسی بھی گناہ میں مبتلا ہوجائے مگر کلام کے گناہ سے آلودہ ہوکر اپنے رب کے حضور نہ جائے۔ ‘‘

بحث کرنا ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کرنا منع نہیں ہے، لیکن عقائد اور ذات الٰہی کے بارے میں مناظرہ کرنا یہ قطعا جائز نہیں۔ سید نا عمر ابن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ جو شخص علم کے ساتھ مناظرہ کرتا ہے وہ اپنے علم میں اضافہ کرتاہے۔

کیا ہم اس قول کے مترادف بحث کرتے ہیں ؟ تاریخ شاہد ہے کہ جب بغداد پر تاتاریوں کا حملہ ہوا۔ اس وقت علماء بغداد اس بات پر مناظرہ کر رہے تھے کہ کو ا حرام ہے یا حلال۔۔۔ محمود غزنوی کے دور سلطنت میں حنفیوں اور شافعیوں کے درمیان مناظرہ ہو تا تھا۔ تب یہودی ربی (یہودی عالم) اس بات کا فیصلہ کرتا تھا کہ کون فریق حق پر ہے۔ آج مناظرہ میں اس قدر گم ہوگئے کہ ہمیں اس کا احساس ہی نہیں کہ ہر جگہ ہمارے تہذیب پر حملہ ہو رہا ہے۔ ہمارے ناموس کو پامال کیا جارہا ہے۔ ہمارے بھائیوں کو ظلم وستم کا نشانہ بنایا جا رہاہے، ہمارے بہنوں کی عصمتوں کو چاک۔چاک کیا جارہا ہے۔ ہم اس بات کو نہیں سمجھتے کہ دشمن ہم پر جب حملہ کرتا ہے تو اس وقت وہ ہمارامسلک ہمارے ذات برادری کے بارے میں نہیں پوچھتا بلکہ صرف اس لئے ہم پر ظلم کرتا ہے کہ ہم ایک اللہ کے دین کو مانتے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ کے لائے ہوئے قانون کے تحت زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں ۔58 ہم میں سے بہت ایسے ہیں کہ جب وہ سنتے ہیں کہ فلاں جگہ مسلمانوں پر یہ ظلم ہوا، فلاں جگہ یہ زیادتی ہوئی۔ سن کر افسوس کرتے ہیں یہ بھی ایک ایمانی فعل ہے۔ کچھ لوگ غمزدہ ہوجاتے ہیں ۔ لیکن میرے بھائی ستم رسیدہ انسانیت کے دامن، ظلم کی سیا ہی کے دھبے آنسوؤں سے نہیں خون سے دھلے جاتے ہیں ۔ لیکن ہم صرف داخلی معاملے میں اس قدر الجھے ہیں کہ ہمیں باہر کی خبر ہی نہں ۔ ہم میں مختلف قسم کے انتشار ہیں ۔ کہیں ذات برادری کی لڑائی، کہیں مسلکی اختلاف، کہیں امیر وغریب کا فرق کہیں عالم اور کم پڑھے لکھے لوگوں کی لڑائی۔ کیا اسی کا نام مسلمان ہے؟ کیا ان اختلافات سے عالم اسلام کو فروغ حاصل ہوجائیگا؟ کیا مسلکی بحث کرنے سے عراق، افغانستان، فلسطین اور شام کے بے گناہ مسلمانوں کا خون بہنا رک جائیگا۔ ذرا غور سے سننے کی کوشش کریں تو فضامیں بے گناہ بہنوں، بے قصور بھائیوں، معصوم بچوں، قابل احترام بزرگوں کی صدائیں سنائی دیں گی۔ وہ ہم سے یہی کہہ رہی ہونگی کہ میرے بھائیوں آپس میں اتحاد قائم کرلو۔ بحث اور مباحثہ سے کنارہ کش کرلو۔ زنجیر کی کڑیوں کی طرح ایک ہوجاؤ۔حضر ت نعمان ابن بشیر انصاریؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو ارشاد فرماتے سنا کہ ’’باہمی محبت اور رحم دلی مسلمانوں کی مثال ایک جسم کی طرح ہے،جب جسم کے کسی عضو کو تکلیف ہوتی ہے۔تو تمام جسم بخار اور بیداری کی تکلیف برداشت کرتا ہے۔(صحیح البخاری، جلد،۲،)

ذرا بڑھ کر کوئی منصور کو آواز دے دیتا
نہیں گونجا فضا میں نعرہ مستانہ برسوں سے

ایک عربی شاعر نے مناظرے کے متعلق عجیب وغریب اشعار کہتے ہیں ۔ (ترجمہ )

کریدتے کریدتے آخر کار لوگوں نے دین میں ایسی بدعتیں نکال دیں، جنہیں پیغمبرﷺ اپنے ساتھ نہیں لائے تھے۔ آخر میں دینی آیات مضحکہ خیز شئے بن کر رہ گی ۔حالانکہ حقیقی دین میں کافی اصلاحیت تھی۔

ابن اثیر لکھتا ہے کہ ہلاکو کی فوج نے جب بغداد پر حملہ کیا تھا، رمضان المبارک کا مہینہ تھا،اس نے سارے مسلمانوں کو (ذلیل کرنے کے لئے)مسجد میں جمع کرکے افطار کے وقت شراب سے روزہ کھولوایا اور خنزیر کا گوشت اللہ کے گھر میں کھلایا۔اس وقت ہمارے علماء حنفی اور شافعی کی بحثوں میں الجھے ہوئے تھے۔براق کے حرام وحلال پر بحثیں ہو رہی تھی۔ہلاکو کی فوج نے سارے بحثیں ہی ختم کر دی۔۔۔آہ کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے ؔ

بحث اور بے جا مناظرے کا یہ اثر ہوا کہ آج ہم کہیں بھی مسلمانوں پر ظلم کے متعلق خبر سنتے ہیں تو سونچتے ہیں کہ وہ کس مسلک کا ہے،ذات و برادری کیا ہے؟بھائیوں نبی اکرم ﷺ نے اسلامی اخوت کا درس دیا تھا،ہم کہاں اور کس ذلالت اور گمراہی کے راستے پر آگئے۔ افغانستان کے معصوم حفاظ کی شہادت پر ہماری آنکھیں نم بھی نہیں ہوئی۔ہم ان معصوم فرزند اسلام کو جلد ہی بھلا بیٹھے۔بیئر میعونہ میں 70 قاری اکرامؓ کی شہادت کے بعد نبی پاک ﷺ فجر اور عشاء کی نماز میں دعاقنوت نازلہ پڑھ کر ظالموں کے حق میں بد دعا ے کرتے رہیں ۔

شفق تھی یا شہیدوں کے لہو نے غل کھلائے تھے
زمین کے دا غ ابھرے تھے افق کے رخ پہ چھائے تھے
فلق نے دیکھ کر رنگ وفا نور آفریدوں کا 
جبین پہ مل لیا خون اسلامی شہیدوں کا 

۔۔۔’’ کہ جس نے (اپنے )نفس کو (یعنی روح)کو پاک رکھا وہ مراد کو پہنچا،اور جس نے اسے خاک میں ملا دیا وہ خسارے میں رہا۔(سورۃ الشمس۔آیت، ۹ تا ۱۰)

اے چشم اشک بار ذرا دیکھ تو لے 
یہ گھر جو بہ رہا ہے کہیں تیرا گھر نہ ہو 

تبصرے بند ہیں۔