بے حیائی کی حمایت کرنے والوں سے دو باتیں

ایک صاحب نے جو کئی شہروں  سے شائع ہونے والے ایک اخبار کے گروپ ایڈیٹر ہیں  ایک کرکٹر کی بیوی کی بے حیائی کو نہ صرف داد دی ہے بلکہ اسے حق بجانب ٹھہرایا ہے اور جن لوگوں  نے بے حیائی کی مذمت کی ہے یا حیاداری کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے انھیں  لعن طعن کی ہے اور ان کی توجہ ترقیاتی کاموں  کی طرف دلائی ہے، جیسے موصوف ہی یہ توجہ مسلمانوں  کو دلاتے ہیں  کوئی اور اس صف میں  شامل نہیں  ہے۔

 اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں  فرماتا ہے: ’’جو لوگ چاہتے ہیں  کہ مسلمانوں  کے گروہ میں  بے حیائی کی اشاعت ہو ان کیلئے دنیا میں  بھی دردناک عذاب ہے اور آخرت میں  بھی‘‘ (النور:19)۔

جذبۂ نمائش حسن: اسی فتنۂ نظر کا ایک شاخسانہ وہ بھی ہے جو عورت کے دل میں  یہ خواہش پیدا کرتا ہے کہ اس کا حسن دیکھا جائے۔ یہ خواہش ہمیشہ جلی اور نمایاں  ہی نہیں  ہوتی۔ دل کے پردوں  میں  کہیں  نہ کہیں  نمائشِ حسن کا جذبہ چھپا ہوا ہوتا ہے اور وہی لباس کی زینت میں  بالوں  کی آرائش، باریک اور شوخ کپڑوں  کے انتخاب میں  اور ایسے ایسے خفیف جزئیات تک میں  اپنا اثر ظاہر کرتا ہے جن کا حاطہ ممکن نہیں۔  قرآن نے ان سب کیلئے ایک جامع اصطلاح ’’تَبَرُّجَ الْجَاہِلَیَّۃِ‘‘ استعمال کی ہے۔ ہر وہ زینت اور ہر وہ آرائش جس کا مقصد شوہر کے سوا دوسروں  کیلئے لذت نظر بننا ہو، تبرج ِ جاہلیت کی تعریف میں  آجاتی ہے۔ اگر برقع بھی اس غرض کیلئے خوبصورت اور خوش رنگ انتخاب کیا جائے کہ نگاہیں  اس سے لذت یاب ہوں  تو بھی تبرجِ جاہلیت ہے۔ اس کیلئے کوئی قانون نہیں  بنایا جاسکتا۔ اس کا تعلق عورت کے اپنے ضمیر سے ہے۔ اس کو خود ہی اپنے دل کا حساب لینا چاہئے کہ کہیں  یہ ناپاک جذبہ تو چھپا ہوا نہیں  ہے۔ اگر ہے تو وہ اس حکم خداوندی کی مخاطب ہے کہ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلَیَّۃِ الْاُوْلٰی’’اسلام سے پہلے جاہلیت کے زمانہ میں  جس بناؤ سنگار کی نمائش تم کرتی پھرتی تھیں  وہ اب نہ کرو‘‘ (الاحزاب:33)۔ جو آرائش ہر بری نیت سے پاک ہو وہ اسلام کی آرائش ہے اور جس میں  ذرہ برابر بھی بری نیت شامل ہو وہ جاہلیت کی آرائش ہے۔

            اکبر الہ آبادی فرماتے ہیں  ؎

وہ زنِ لطیف رہ نہیں  سکتی جو ہے بے پردہ … سبب ہے کہ نگاہوں  کی مار پڑتی ہے

            ایسے لوگ جو بے حیائی کے حق میں  ہیں  وہ شاید بے حیائی کو بالکل معمولی چیز سمجھتے ہیں۔  وہ دل کے چور، نظر کے فتنے، نمائش حسن کے جذبے، زبان کے فتنہ، فتنہ آوز، فتنہ عریانی جیسی چیزوں  کو معمولی سمجھتے ہیں  جبکہ اسلام نے حیا کو ایمان کا نصف حصہ قرار دیا ہے۔

            حیا کے معنی شرم کے ہیں۔  اسلام کی مخصوص اصطلاح میں  حیا سے مراد وہ ’’شرم‘‘ ہے جو کسی امر منکر کی طرف مائل ہونے والا انسان خود اپنی فطرت کے سامنے اور اپنے خدا کے سامنے محسوس کرتا ہے۔ یہی حیا وہ قوت ہے جو انسان کے فحشاء اور منکر کا اقدام کرنے سے روکتی ہے۔ اور اگر وہ جبلت حیوانی کے غلبہ سے کوئی برا فعل کر گزرتا ہے تو یہی چیز اس کے دل میں  چٹکیاں  لیتی ہے۔ اسلام کی اخلاقی تعلیم و تربیت کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ حیا کے اسی چھپے ہوئے مادّے کو فطرتِ انسانی کی گہرائیوں  سے نکال کر علم و فہم اور شعور کی غذا سے ا س کی پرورش کرتی ہے اور ایک مضبوط حاسّۂ اخلاقی بناکر اس کو نفس انسانی میں  ایک کوتوال کی حیثیت سے متعین کردیتی ہے۔ یہ ٹھیک ٹھیک اسی حدیث نبویؐ کی تفسیر ہے جس میں  ارشاد ہوا ہے کہ ’’ہر دین کا ایک اخلاق ہوتا ہے اور اسلام کا اخلاق حیا ہے‘‘۔ اور وہ حدیث بھی اسی مضمون پر روشنی ڈالتی ہے جس میں  سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جب تجھ میں  حیا نہیں  تو جو تیرا جی چاہے کر‘‘۔ کیونکہ جب حیا نہ ہوگی تو وہ خواہش جس کا مبداء جبلت حیوانی ہے اس پر غالب آجائے گی، کوئی منکر یا برائی اس کیلئے نہ منکر رہے گا نہ کوئی برائی برائی رہے گی۔

            قرآن و حدیث میں  پردے کے احکام اس لئے نہیں  بتائے گئے ہیں  کہ ان کے احکامات کو رد کرکے ہر کی تہذیب و تمدن میں  اپنے آپ کو رنگ دیا جائے اور قرآن و حدیث کے احکام اور مغربی تمدن و معاشرت کے نظریات و نتائج ایک دوسرے سے بالکل متصادم ہیں  جو لوگ دونوں  کو اچھی طرح سمجھ لیتے ہیں۔  وہ منافقانہ روش کو ختم کر دیتے ہیں  اسلامی احکامات کو سمجھنے کے بعد دو دہی صورتیں  باقی رہ جاتی ہیں  یا تو اسلامی احکام کی پیروی کریں  اگر مسلمان رہنا چاہتے ہیں  یا اسلام سے قطع تعلق کرلیں۔   مغربی تہذیب سے جو شرم ناک نتائج نکل رہے ہیں  قبول کرنے کیلئے تیار رہیں  جن کی طرف مغربی نظام معاشرت لامحالہ ان کو لے جانے والا ہے۔

            آج سے تقریباً 60 سال پہلے اتر پردیش کے گورنر صاحب دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے۔ قاری محمد طیبؒ صاحب اس وقت دارالعلوم کے مہتمم تھے۔ قاری صاحب نے کلکتہ میں  اپنے قیام کے دوران راقم سے بتایا کہ گورنر صاحب نے قاری صاحب سے سوال کیا کہ ’’قاری صاحب ! آج کے لڑکے لڑکیاں  کیوں  بے حیا ہو رہے ہیں ‘‘؟ قاری صاحب نے فرمایا:’’ میں  نے گورنر صاحب کو جواب میں  کہاکہ ’’گورنر صاحب! کیا بے حیا گودوں  سے با حیا اولاد کی تمنا کرتے ہیں ‘‘۔ گروپ ایڈیٹر صاحب نے لکھا ہے کہ ’’اسلام جہاں  بھی گیا وہاں  کی تہذیبی، ثقافتی اور روایتی اقدار کا بھی پابند رہا اور اسلام کے تشخص کا بھی پاسدار رہا جو جدید لباس میں  رہا لیکن اسلام کی روح اس کے اندر موجود رہی‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عورتوں  اور مردوں  کو جو ستر پوشی یا پردہ کے احکامات دیئے گئے ہیں  ان کی کوئی اہمیت نہیں۔  جیسا دیس ویسا بھیس۔نیم عریاں  لباسوں  کے اندر اسلام کی روح فنا ہوجاتی ہے۔ اسلامی شناخت کا رہنا تو دور کی بات ہے۔

             اسلام کے نزدیک مردوں  اور عورتوں  کیلئے ستر پوشی نہایت ضروری ہے۔ امریکہ اور یورپی ممالک میں  جو خواتین بگوشۂ اسلام ہورہی ہیں  وہ اپنے پرانے لباس کو خیر باد کہہ کر اسلامی لباس اپنا رہی ہیں۔  نقاب اور حجاب کی پابند ہورہی ہیں۔ یوسف پٹھان اور عرفان پٹھان کی بیویوں  کو غالباً گروپ ایڈیٹر صاحب نے نقاب میں  نہیں  دیکھا ہے۔ صرف سمیع کی بیگم صاحبہ کو ماڈرن لباس میں  دیکھا ہے۔ جو موصوف کی نظر کو خیرہ کرتی ہے۔ علامہ اقبالؒ نے ایسے لوگوں  کو بہت پہلے ہی آگاہ کیا تھا ؎

نظر خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی … یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں  کی ریزہ کاری ہے!

            تہذیب کے فرزندوں  سے علامہ اقبال نے خطاب کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا  ؎

تہذیب فرنگی اگر مرگ امومت … ہے حضرتِ انساں  کے کئے اس کا ثمر موت

جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن … کہتے ہیں  اسی علم کو ارباب نظر موت

بیگانہ رہے دیں  سے اگر مدرسۂ زن … ہے عشق و محبت کے لئے علم و ہنر موت!

            اسلام کی تہذیب و تمدن کی ترکیب کچھ اور ہی ہے اسے مغرب یا کسی اور تہذیب و تمدن پر قیاس کرنا سراسر نادانی اور جہالت ہے۔

تبصرے بند ہیں۔