تاریخِ غلافِ کعبہ

حامد محمود راجہ

٭… فتح مکہ کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا :یہ وہ دن ہے کہ اللہ تعالیٰ کعبہ کی عظمت قائم فرمائے گا اور اب ہم اس پر غلاف چڑھائیں گے۔

٭…سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ پہلے پرانا غلاف اتار کر زمین میں دفن کر دیا کرتے تھے لیکن بعد میں اسکے ٹکڑوں کو حجاج اور غربا میں تقسیم کر دیاکرتے۔

٭…یکم ذی الحجہ کو غلاف کعبہ متولی خاندان کے حوالے کردیا جاتا ہے جبکہ غلاف کی تبدیلی 9ذوالحجہ کو عمل میں آتی ہے اور غسل کعبہ کی تقریب آٹھ ذو الحجہ کو ادا کی جاتی ہے۔

H/L… غلاف کعبہ کی تیاری کے لیے نہایت عمدہ عموماً670 کلوگرام’السرسین‘ نامی ریشم کا دھاگہ، 120 کلو گرام سونا اور 100 کلو گرام خالص چاندی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ کشیدہ کاری، لکھائی اور سلائی کے لیے’جاکارڈ‘نامی ایک سسٹم استعمال کیا جاتا ہے۔غلاف کعبہ کی موٹائی 98 سینٹی میٹر ہوتی ہے۔غلاف کعبہ کی اونچائی 14 میٹر ہے۔ غلاف کعبہ کا کپڑا اٹلی سے منگایا جاتا ہے۔ ایک غلاف 8 ماہ میں مکمل ہوتا ہے۔ غلاف کعبہ کے کپڑے کی قیمت سالانہ 22 سے 25 ملین ریال تک ہوتی ہے۔ غلاف کعبہ کی تیاری کے لیے قائم کردہ کارخانے میں 210 افراد کام کرتے ہیں۔

H/L…شاہ فہد کے زمانے میں اقوام متحدہ کی مرکزی عمارت میں رکھنے کیلئے ملت اسلامیہ کی جانب سے غلاف کعبہ کا پردہ عطیہ کے طور پر پیش گیاجسے تزیئن نو کے بعد ایک خصوصی تقریب میں منظرعام پرلایا گیا۔ یاد رہے کہ اتارے جانیوالے غلاف کے ٹکرے بیرونی ممالک سے آئے ہوئے سربراہان مملکت اور دیگر معززین کو بطور تحفہ پیش کر دئیے جاتے ہیں۔

کعبہ کا تصور یا نام زبان پر آتے ہی ادب، احترام اور احساس کی ایسی کیفیت ابھرتی ہے کہ جس کا بیان الفاظ میں آسان نہیں۔ تجلیات، عقیدت، روحانیت اور کیف و سرور کے اثرات سے مزین یہ عمارت بیت اللہ کہلاتی ہے۔بیت کا مطلب اللہ کا گھر ہے۔ کعبہ، اللہ کا گھر اور مسلمانوں کا قبلہ ہے۔مکہ مکرمہ میں مسجد الحرام کے تقریباً عین وسط میں کعبۃ اللہ واقع ہے۔ لغت کے اعتبار ے کعبہ ہر بلند اور مربع عمارت کو کہتے ہیں۔ یہ نام کعبہ کے مربع شکل ہونے کی وجہ سے پڑ گیا ہے۔کعبہ مکرمہ کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ کعبہ کی چاروں دیواریں ایک سیاہ پردے یا غلاف سے ڈھکی رہتی ہے۔اسی سیاہ رنگت کی وجہ سے ممتاز مفتی نے اپنے سفر نامہ حج ’لبیک‘ میں کعبہ کو ’کالا کوٹھا ‘ کے نام سے موسوم کیا جس کی وجہ سے ان پر تنقید بھی ہوئی۔پہلے غلاف مختلف رنگوں کے ہوتے تھے۔ خلیفہ مامون الرشید کے دور میں سفید رنگ کا غلاف چڑھایا گیا۔ سلطان محمود غزنوی نے زرد رنگ کا غلاف چڑھایا۔ میں سرخ رنگ کا یمانی ڈیزائن کے مطابق بھی غلاف تیار کیا گیا۔ خلیفہ ناصر عباسی نے 575ھ تا 622ھ کی ابتدا میں سبز اور پھر سیاہ ریشم کا غلاف بنوا کر بھیجا۔ تب سے آج تک سیاہ غلاف ہی چڑھایا جا رہا ہے۔

یکم ذی الحجہ کو غلاف کعبہ کی’سدنہ‘ یعنی متولی خاندان کو حوالے کرنے کی رسم ادا کی جاتی ہے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی غلاف کعبہ نو ذوالحجہ کو تبدیل کیا جارہاہے جبکہ غسل کعبہ کی تقریبا آٹھ ذو الحجہ کو ادا کی جاتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں دس محرم کو نیا غلاف چڑھایا جاتا تھا بعدمیں یہ غلاف عید الفطر کو اور دوسرا دس محرم کو چڑھایا جانے لگا پھر حج کے موقع پر غلاف کعبہ چڑھانے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ عصر حاضر میں نیا غلاف چڑھانے سے پہلے خانہ کعبہ کو عرق گلاب سے معطر آب زم زم سے غسل دینے کی تقریب ہر سال باقاعدگی سے ادا کی جاتی ہے۔ غسل کے اوقات کا تعین حکومت وقت کرتی ہے۔ اس رسم میں سعودی عرب کے حکام، اسلامی ممالک کے وفود اور ممتاز زائرین شریک ہوتے ہیں۔ غسل کعبہ کے موقع پر روایتی اعتبار سے سب سے پہلے خادم حرمین شریفین گورنر مکہ کے ساتھ خانہ کعبہ میں داخل ہوتے ہیں۔ دو رکعت نماز ادا کرنے کے بعد وہ خانہ کعبہ کے فرش کو عرق گلاب سے معطر آب زم زم سے دھوتے ہیں۔ خانہ کعبہ کی دیواروں کو ایک خاص قسم کی جاروب (جھاڑو) سے دھویا جاتا ہے۔ یہ جھاڑو کجھور کے پتوں سے خصوصی انداز میں بنائی جاتی ہے۔ دھلائی کے عمل کے دوران گورنر مکہ ہر طرف عرق گلاب چھڑکتے رہتے ہیں۔ دھلائی والا پانی خانہ کعبہ کے دروازے کی دہلیزکے سوراخ سے باہر نکلتا رہتا ہے۔دھلائی کا عمل مکمل ہونے کے بعد خانہ کعبہ کی عمارت کے اندر قسم قسم کے بخورات (خوشبوؤں ) کی دھونی دی جاتی ہے۔

ٍکعبہ پر غلاف چڑھانے کی ابتدا کب ہوئی ؟ اس بارے میں کوئی مؤرخ  حتمی جواب فراہم نہیں کر سکتا  البتہ جو روایات علماء تک پہنچی ہیں ان کے مطابق سب سے پہلے کعبۃ اللہ پر غلاف حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے چڑھایا تھا۔ابن ہشام اور دیگر مورخین نے لکھا ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کعبہ کیساتھ ساتھ غلاف کا اہتمام بھی کیا تھا۔ لیکن حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کے بارے میں یہ روایات مستند نہیں ہیں۔ اس کے صدیوں بعد یہ ذکر ملتا ہے کہ عدنان نے کعبہ پر غلاف چڑھایا پھر عرصہ بعید تک تاریخ خاموش ہے۔اس کے بعد یمن کے’تبع الحمیری‘ نامی ایک بادشاہ نے غلاف کعبہ تیار کیا تھا۔ چونکہ تبع یمنی بادشاہوں کا لقب تھا اور اس دور میں ہر یمنی بادشاہ اپنے نام کے ساتھ یہ لقب شامل کرتا تھا۔تبع الحمیری نے نے مکہ مکرمہ کے دورے کے بعد واپسی پر ایک موٹے کپڑے کی مدد سے غلاف کعبہ تیار کیا۔ بعد ازاں اسی بادشاہ نے’المعافیریہ‘کپڑے سے غلاف تیار کیا۔ معافیریہ یمن کا ایک قصبہ تھا جہاں سوت سے کپڑے تیار کیے جاتے تھے اور اسی نام سے اس کپڑے کو ’المعافیر‘ یا ’المعافیریہ‘ کہا جاتا تھا۔ اس کے بعد ایک نرم اور رقیق دھاگے سے غلاف کعبہ تیار کیا گیا۔ غلاف کعبہ کے حوالے سے تاریخی روایات میں ایک   یمنی بادشاہ اسد کا نام بھی ذکر کیا گیا ہے جو زمانہ نبوت سے دو سو 200برس قبل گزرا ہے۔ اس نے سرخ رنگ کا دھاری دار یمنی کپڑا ’ الوسائل ‘ کا مکمل غلاف چڑھایا۔

 قریش کے انتظام سنبھالنے سے غلاف کعبہ کی مکمل تاریخ  محفوظ  ہے، قبیلہ قریش کی روایات زمانہ اسلام تک محفوظ ہیں۔ بنی مخزوم کے ایک سردار بنو ربیعہ نے قریش سے یہ بات طے کی کہ ایک سال بنی مخزوم اور ایک سال قریش غلاف چڑھائیں گے۔ زمانہ جاہلیت میں یہ بھی دستور تھا کہ عرب کے مختلف قبیلے اور ان کے سردار جب بھی زیارت کے لیے آتے تو اپنے ساتھ قسم قسم کے پردے لاتے۔ جتنے لٹکائے جا سکتے وہ لٹکا دئیے جاتے باقی کعبۃاللہ کے خزانے میں جمع کر دئیے جاتے۔ جب کوئی پردہ بوسیدہ ہو جاتا تو اس کی جگہ دوسرا پردہ لٹکا دیا جاتا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن کا ایک واقعہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دادی نے اپنے ایک صاحبزادے کے گم ہونے پر نذر مانی کہ اگر مل جائے تو کعبہ پر ریشمی غلاف چڑھائیں گی۔ جب وہ مل گئے تو انہوں نے نذر پوری کرتے ہوئے سفید رنگ کا ریشمی غلاف چڑھایا۔زمانہ نبوت سے قبل کی قریش کی تعمیر جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی بنفسِ نفیس شریک تھے۔ تعمیر مکمل ہونے کے بعد اہل مکہ نے بڑے اہتمام کے ساتھ کعبہ پر غلاف چڑھایا۔

 فتح مکہ کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا :یہ وہ دن ہے کہ اللہ تعالیٰ کعبہ کی عظمت قائم فرمائے گا اور اب ہم اس پر غلاف چڑھائیں گے۔ اس زمانے کا ایک یہ واقعہ بھی ملتا ہے کہ ایک عورت کعبہ میں خوشبو کی دھونی دے رہی تھی کہ ایک چنگاری اڑ کر ان غلافوں پر گری اور زمانہ جاہلیت کے تمام غلاف جل گئے۔ تو مسلمانوں نے کعبۃاللہ پر غلاف چڑھایا یہ دورِ اسلام کا پہلا غلاف ہے۔ ( فتح الباری بروایت سعید بن مسیب رحمہ اللہ )اسلامی تاریخ میں پہلی بار حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیاہ دھاری دار یمنی کپڑے کا تیار کردہ غلاف چڑھانے کا حکم دیا۔ دس ہجری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع فرمایا تو غلاف چڑھایا گیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں مصری کپڑے کا قباطی غلاف چڑھایا کرتے تھے۔سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ پہلے پرانا غلاف اتار کر زمین میں دفن کر دیا کرتے تھے لیکن بعد میں اسکے ٹکڑوں کو حجاج اور غربا میں تقسیم کر دیا۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے سال میں دو مرتبہ کعبہ پر غلاف چڑھانے کی رسم ڈالی۔خلافت راشدہ کے بعد سے اب تک خانہ کعبہ کا غلاف تواتر سے تبدیل کیا جا رہا ہے۔

زمانہ جاہلیت میں مختلف لوگ اپنی اپنی طرف سے یہ عمل کرتے تھے لیکن اسلامی دور میں غلاف چڑھانا حکومت کی ذمہ داری قرار پایا۔مسند عبدالرزاق کی روایت کے مطابق ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا، کیا ہم کعبہ پر غلاف چڑھائیں ؟ انہوں نے فرمایا : کہ اب تمہاری طرف سے اس خدمت کو حکمرانوں نے سنبھال لیا ہے۔ ایک اور روایت میں ہے :’’ کسوۃ البیت علی الامراء‘‘۔ ’’ بیت اللہ کا غلاف حکمرانوں کے ذمے ہے۔ ‘‘عباسی خلافت کے زوال تک غلاف کی تیاری مرکزی حکومت کے زیراہتمام ہوتی تھی۔ جب مرکزی حکومت کا خاتمہ ہو گیا تو مختلف علاقوں کے حکمران اپنی اپنی طرف سے غلاف بنوا کر بھیجتے رہے اور بسا اوقات ایک وقت میں کئی کئی غلاف چڑھائے جاتے۔اس سلسلہ میں ایک مرتبہ 466ھ میں ہندوستان سے غلاف بنوا کر بھیجا گیا، مصر کے فرماں روا الملک الصالح اسمٰعیل بن ناصر نے 750ھ میں غلاف کعبہ تیار کرانا اپنے ذمے لے لیا اور اس غرض سے تین گاؤں وقف کر دئیے۔ مصر پر ترکوں کے قبضے کے بعد سلطان سلیمان اعظم نے ملک الصالح کے وقف میں سات گاؤں کا اور اضافہ کر دیا۔ اس عظیم وقف کی آمدنی سے ہر سال کعبہ کا غلاف مصر سے بن کر آنے لگا۔ اس کے علاوہ خانہ کعبہ کے اندر کے پردے بھی وقتاً فوقتاً اسی وقف سے بنا کر بھیجے جاتے رہے۔ اس زمانہ میں اس وقف شدہ زمین کی کل آمدنی جو موجودہ زمانہ میں ایک لاکھ پچاس ہزار درہم مصری پونڈ تھے۔جب مصر کے وائسرائے محمد علی پاشا نے ترکی سلطنت سے بغاوت کر کے خودمختاری حاصل کر لی تو اس نے یہ وقف منسوخ کر دیا اور غلاف کعبہ صرف حکومت مصر کے خرچ پر بنوا کر بھیجنا شروع کر دیا۔بہرحال اس تاریخی تناظر سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ غلاف کعبہ کی خدمت زیادہ تر مصر والوں کے حصے میں آئی ہے کیونکہ مصری کپڑا  اپنی عمدگی کے لیے سارے جہاں میں معروف تھا۔

 عرب کی زمام حکومت آل سعود کے ہاتھ میں آئی تو 1397ھ میں ام الجود بندرگاہ پر اس مقصد کے لیے ایک خصوصی کارخانہ قائم کیاگیا۔ کارخانے میں تیار ہونیوالا پہلا غلاف ہندوستان کے مسلمان کاریگروں نے تیار کیا۔ غلاف کعبہ کی تیاری کے لیے نہایت عمدہ’السرسین‘ نامی ریشم کا دھاگہ استعمال کیا جاتا ہے۔ عموماً غلاف کے لیے 670 کلوگرام خاص ریشمی دھاگہ استعمال کیا جاتا ہے جبکہ رواں سال(1437ھ،2016) غلاف کعبہ کی تیاری میں 700کلو خالص ریشم استعمال کیا گیا ہے۔ ریشمی دھاگے کو منفی اثرات زائل کرنے کے لیے گرم پانی میں دھویا جاتا ہے تاکہ دھاگے کی تیاری میں استعمال ہونے والی کیمیائی اثرات ختم ہو سکیں۔ بعد ازاں بیرونی حصے کے دھاگے پر سیاہ اور اندرونی حصے پر سبز رنگ کیا جاتا ہے۔ چند برس قبل تک غلاف کعبہ کی سلائی کڑھائی،آیات قرآنی کی لکھائی سمیت تمام کام سوئی یا دستی آلات کی مدد سے طے کئے جاتے تھے۔ آل سعود کے ابتدائی دور میں بھی دستی آلات کی مدد سے غلاف تیار کیا جاتا رہا ہے لیکن اب اس کی جگہ جدید مشینیوں نے لے لی ہے۔اب غلاف کعبہ کے اندرونی اور بیرونی دونوں حصوں کی تیاری کے ساتھ ساتھ ان پر ہونے والی کشیدہ کاری، لکھائی اور سلائی کے لیے’جاکارڈ‘نامی ایک سسٹم استعمال کیا جاتا ہے۔

غلاف کعبہ کی موٹائی 98 سینٹی میٹر ہوتی ہے۔غلاف کعبہ کی اونچائی 14 میٹر ہے۔ غلاف کعبہ کا کپڑا اٹلی سے منگایا جاتا ہے۔ غلاف کی تیاری کے لیے نہ صرف مہنگا ترین ریشمی کپڑا استعمال ہوتا ہے بلکہ اس میں 120 کلو گرام سونا اور 100 کلو گرام خالص چاندی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک غلاف 8 ماہ میں مکمل ہوتا ہے۔ اس کا آغاز کپڑے کی سلائی سے ہوتا ہے اور اختتام خانہ کعبہ پر اسے لہرانے کا ہوتا ہے۔ غلاف کعبہ کے کپڑے کی قیمت سالانہ 22 سے 25 ملین ریال تک ہوتی ہے۔یہ بات قابل ذکر رہے کہ غلاف کعبہ کی تیاری کے لیے قائم کردہ کارخانے میں 210 افراد کام کرتے ہیں۔ ان میں ٹیلر بھی ہیں، پرنٹر بھی۔ غلاف کی تیاری کے نگران بھی اور کپڑے کو رنگنے والے بھی ہیں۔ ان مستقل  کام کرنے والوں  کے ساتھ ساتھ غلاف کعبہ کی تیاری کا طریقہ جاننے میں دلچسپی رکھنے والے طلباء کو بھی گریجوایشن میں فراغت سے قبل نو ماہ کا کورس بھی کرایا جاتا ہے جس میں انہیں غلاف کعبہ کی تیاری کے تمام مراحل سے آگاہ کیا جاتا ہے۔

غلاف کعبہ کی تیاری میں طباعت کا مرحلہ نہایت نازک ہوتا ہے کیونکہ اس میں دھاگوں کی مدد سے آیات قرآنی کپڑے پر منقش کرنا ہوتی ہیں۔ کشیدہ کاری کے لیے سوتی، ریشمی دھاگوں کے علاوہ آیات کی تزئین کے لیے سونے اور چاندی کے ریشے بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ غلاف کعبہ کے چاروں طرف زری کے کام کی پٹی بنانے اور اس پر کعبۃاللہ کے متعلق قرآن مجید کی آیات لکھوانے کا یہ سلسلہ سب سے پہلے 761ھ میں مصر کے سلطان حسن نے شروع کیا اس کے بعد سے آج تک یہ طریقہ جاری ہے۔ایک طرف آل عمران 96 اور97 لکھی جاتی ہیں جن کا ترجمہ ہے :

’’حقیقت یہ ہے کہ سب سے پہلا گھر جو لوگوں (کی عبادت) کے لیے بنایا گیا یقینی طور پر وہ ہے جو مکہ میں واقع ہے (اور) بنانے کے وقت ہی سے برکتوں والا اور دنیا جہان کے لوگوں کے لیے ہدایت کا سامان ہے۔اس میں روشن نشانیاں ہیں، مقام ابراہیم ہے، اور جو اس میں داخل ہوتا ہے امن پاجاتا ہے۔ اور لوگوں میں سے جو لوگ اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں ان پر اللہ کے لیے اس گھر کا حج کرنا فرض ہے، اور اگر کوئی انکار کرے تو اللہ دنیا جہان کے تمام لوگوں سے بے نیاز ہے۔‘‘

دوسری طرف المائدہ آیت نمبر97 لکھی جاتی ہے جس کا ترجمہ ہے:

’’اللہ نے کعبے کو جو بڑی حرمت والا گھر ہے لوگوں کے لیے قیام امن کا ذریعہ بنا دیا ہے، نیز حرمت والے مہینے، نذرانے کے جانوروں اور ان کے گلے میں پڑے ہوئے پٹوں کو بھی (امن کا ذریعہ بنایا ہے)۔ یہ سب اس لیے تاکہ تمہیں معلوم ہو کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ اسے خوب جانتا ہے، اور اللہ ہر بات سے پوری طرح باخبر ہے۔‘‘

تیسری طرف سورۃالبقرہ آیت نمبر 127 اور128 :

’’اور اس وقت کا تصور کرو جب ابراہیم بیت اللہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے، اور اسماعیل بھی (ان کے ساتھ شریک تھے، اور دونوں یہ کہتے جاتے تھے کہ) اے ہمارے پروردگار ! ہم سے (یہ خدمت) قبول فرما لے۔ بیشک تو اور صرف تو ہی، ہر ایک کی سننے والا، ہر ایک کو جاننے والا ہے۔اے ہمارے پروردگار ! ہم دونوں کو اپنا مکمل فرمانبردار بنا لے اور ہماری نسل سے بھی ایسی امت پیدا کر جو تیری پوری تابع دار ہو اور ہم کو ہماری عبادتوں کے طریقے سکھا دے اور ہماری توبہ قبول فرما لے۔ بیشک تو اور صرف تو ہی معاف کردینے کا خوگر (اور) بڑی رحمت کا مالک ہے۔‘‘

چوتھی جانب اس فرماں روا کا نام لکھا جاتا ہے جس کی طرف سے غلاف بنا کر بھیجا گیا۔ آج کل’مملکت سعودی عرب کی کاوش‘ کے عربی الفاظ لکھے جاتے ہیں۔

 1962ء میں غلاف کی تیاری کی سعادت پاکستان کے حصے میں بھی آئی۔شاہ فہد کے زمانے میں 18جنوری1983کو اقوام متحدہ کی مرکزی عمارت میں رکھنے کیلئے ملت اسلامیہ کی جانب سے غلاف کعبہ کا پردہ عطیہ کے طور پر پیش گیا۔ یہ پردہ نیو یارک میں اقوام متحدہ کی مرکزی عمارت کے استقبالیہ میں نمایاں طور پر آویزاں کیا گیا ہے۔ 1982 میں استعمال کیے جانے والے اس غلاف کعبہ کو سعودی حکومت نے بطور ہدیہ اقوام متحدہ کو پیش کیا تھاجسے تزیئن نو کے بعد ایک خصوصی تقریب میں منظرعام پرلایا گیا،غلاف کعبہ کو اقوام متحدہ کے مرکزی دفتر میں تزیئن نو کرنے کے بعد خصوصی تقریب کے دوران عوام کے سامنے پیش کیا۔اس تقریب میں سیکریٹری جنرل بان کی مون اور اقوام متحدہ میں سعودی عرب کے مستقل نمائندہ عبداللہ المعلم اور دیگر شخصیات نے شرکت کی۔یاد رہے کہ سن 1982 میں استعمال کیے جانے والے اس غلاف کعبہ کو سعودی حکومت نے بطور ہدیہ اقوام متحدہ کو پیش کیا تھا۔ اتارے جانیوالے غلاف کے ٹکرے بیرونی ممالک سے آئے ہوئے سربراہان مملکت اور دیگر معززین کو بطور تحفہ پیش کر دئیے جاتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔